ایک دوسرے سے اچھی گفتگو کرنا
ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان سے اچھی گفتگو کرنی چاہئے اور آپس میں ایسی گفتگو سے پرہیز کرنا چاہئے جس سے مسلمان بھائی کے جذبات مجروح ہوں یا اس کے دل کو ٹھیس پہنچے ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا﴾[2البقرۃ2 :83 ]
’’ لوگوں سے اچھی باتیں کہا کرو ۔‘‘
نیز فرمایا : ﴿وَقُل لِّعِبَادِیْ یَقُولُوا الَّتِیْ ہِیَ أَحْسَنُ إِنَّ الشَّیْْطَانَ یَنزَغُ بَیْْنَہُمْ إِنَّ الشَّیْطَانَ کَانَ لِلإِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِیْنًا ﴾ [3الاسراء17 :53 ]
’’اور میرے بندوں سے کہہ دو کہ (لوگوں سے) ایسی باتیں کہا کریں جو بہت پسندیدہ ہوں کیونکہ شیطان (بری باتو ں سے) اُن میں فساد ڈلوا دیتا ہے ۔کچھ شک نہیں کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے ۔ ‘‘
یاد رہے کہ مسلمان سے اچھی اور پاکیزہ گفتگو کرنا بھی صدقہ ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
(( اَلْکَلِمَۃُ الطَّیِّبَۃُ صَدَقَۃٌ )) ’’ پاکیزہ کلمہ صدقہ ہے ‘‘[4صحیح البخاری :2989، صحیح مسلم : 1009]
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :(( ثَلَاثٌ یُصَفِّیْنَ لَکَ وُدَّ أَخِیْکَ : تُسَلِّمُ عَلَیْہِ إِذَا لَقِیْتَہُ،وَتُوَسِّعُ لَہُ فِی الْمَجْلِسِ،وَتَدْعُوہُ بِأَحَبِّ أَسْمَائِہِ إِلَیْہِ )) [5مستدرک حاکم :5870 وہو فی ضعیف الجامع للألبانی :2572]
’’تین چیزوں سے تمھیں اپنے بھائی کی خالص محبت نصیب ہو گی ۔ ایک یہ ہے کہ تم اسے جب بھی ملو تو اس کو سلام کہو ۔ دوسری یہ ہے کہ وہ آئے تو اسے مجلس میں بیٹھنے کی جگہ دواورتیسری یہ ہے کہ تم اسے اس نام سے پکارو جو اسے سب سے زیادہ محبوب ہو ۔‘‘
5۔ مسلمانوں کیلئے رحمدلی ، نرمی اور تواضع
مسلمانوں کو ایک دوسرے کیلئے رحمدل ہونا چاہئے جیسا کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا اللہ تعالیٰ نے یہ وصف بیان فرمایا ہے کہ وہ ﴿ رُحَمَائُ بَیْنَہُمْ ﴾ ’’ آپس میں رحم دل ہیں ۔‘‘
اسی طرح انھیں آپس میں ایک دوسرے سے نرمی کا برتاؤ کرنا چاہئے سختی کا نہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی ایک صفت یہ بیان فرمائی ہے کہ
﴿أَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ أَعِزَّۃٍ عَلَی الْکَافِرِیْنَ ﴾ ’’ وہ اہل ایمان کیلئے نرم اور کافروں پر سخت ہونگے۔ ‘‘
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو فرمایا تھا :
(( یَا عَائِشَۃُ،إِنَّ اللّٰہَ رَفِیْقٌ یُحِبُّ الرِّفْقَ،وَیُعْطِیْ عَلَی الرِّفْقِ مَا لَا یُعْطِیْ عَلَی الْعُنْفِ، وَمَا لَا یُعْطِیْ عَلٰی مَا سِوَاہُ [1صحیح مسلم :2593])) ’’ اے عائشہ ! بے شک اللہ تعالیٰ نرم ہے اور نرمی کو پسند فرماتا ہے اور نرمی پر وہ چیز عطا کرتا ہے جو سختی وغیرہ پر عطا نہیں کرتا ۔‘‘
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( مَنْ کَانَ ہَیِّنًا لَیِّنًا قَرِیْبًا حَرَّمَہُ اللّٰہُ عَلَی النَّارِ )) [2صحیح الترغیب والترہیب للألبانی :1745]
’’ جو آدمی آسان ،نرم دل اور (مسلمانوں سے ) قریب ہو اس پر اللہ تعالیٰ نے جہنم کو حرام کردیا ہے ۔‘‘
خاص طور پر خرید وفروخت اور لین دین کے معاملات میں مسلمانوں کو آپس میں نرم رویہ اختیار کرنا چاہئے اور ایک دوسرے کیلئے آسانی پیدا کرنی چاہئے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کیلئے دعا کرتے ہوئے فرمایا :
(( رَحِمَ اللّٰہُ رَجُلًا سَمْحًا إِذَا بَاعَ ،وَإِذَا اشْتَرَی،وَإِذَا اقْتَضَی [3صحیح البخاری :2076]))
’’ اللہ تعالیٰ اس بندے پر رحم فرمائے جو خرید وفروخت کے وقت آسان ہو اور ( اپنے قرض کا ) تقاضا کرتے وقت درگذر کرنے والا ہو ۔ ‘‘
ترمذی کی روایت میں (( غَفَرَ اللّٰہُ لِرَجُلٍ کَانَ قَبْلَکُمْ ۔۔۔)) کے الفاظ ہیں جن کا معنی یہ ہے کہ ’’ تم سے پہلے اللہ تعالیٰ نے ایک شخص کی محض اس لئے مغفرت کردی کہ وہ لین دین میں اور (اپنے حقوق کا) مطالبہ کرتے ہوئے نہایت سہل ( آسان ) تھا ۔‘‘ جبکہ نسائی کی روایت میں الفاظ یہ ہیں کہ ’’ اللہ تعالیٰ نے اسے جنت
میں داخل کردیا ۔‘‘ [صحیح الترغیب والترہیب : 1742۔1743 ]
اسی طرح مسلمانوں کو آپس میں عاجزی اور تواضع سے پیش آنا چاہئے ۔ فخر ، بڑائی اور تکبر کے ساتھ نہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ
﴿ وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ﴾[الشعراء26 :215]
’’مومنوں میں سے جو بھی آپ کا پیروکار ہو اس سے عاجزی سے پیش آئیں ۔‘‘
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :(( إِنَّ اللّٰہَ أَوْحٰی إِلَیَّ أَنْ تَوَاضَعُوْا حَتّٰی لَا یَفْخَرَ أَحَدٌ عَلٰی أَحَدٍ ، وَلَا یَبْغِ أَحَدٌ عَلٰی أَحَدٍ )) [سنن أبی داؤد:4895 ۔ وصححہ الألبانی]
’’ بے شک اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی کی ہے کہ تم تواضع اختیار کرو یہاں تک کہ کوئی شخص کسی پرنہ فخر کرے اور نہ ہی کسی پر ظلم کرے ۔‘‘
تواضع اختیار کرنے سے اللہ تعالیٰ بندے کی عزت ورفعت میں اضافہ فرماتا ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :(( مَا نَقَصَتْ صَدَقَۃٌ مِنْ مَّالٍ،وَمَا زَادَ اللّٰہُ عَبْدًا بِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا،وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلّٰہِ إِلَّا رَفَعَہُ اللّٰہُ [ صحیح مسلم : 2588]))
’’ صدقہ سے مال میں کمی نہیں آتی ، درگذر کرنے سے اللہ تعالیٰ بندے کی عزت میں یقینی اضافہ کرتا ہے اور تواضع اختیار کرنے سے اللہ تعالیٰ اسے ضرور بلندی عطا کرتا ہے ۔
جاری 2
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں