اَلحَمدُ لِلّٰہِ
نَحمَدُہ، وَنَستَعِینُہ، وَنَستَغفِرُہ، وَنَعُوذُبِاﷲِ مِن شُرُورِ
اَنفُسِنَاوَمِن سَیِّئَآتِ اَعمَالِنَا مَن یَھدِہِ اﷲُ فَلَا مُضِلَّ لَہ، وَمَن
یُضلِل فَلَا ھَادِیَ لَہ، وَاَشھَدُ اَن لَّا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وَحدَہ، لَا شَرِیکَ
لَہ، وَاَشھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبدُہ، وَرَسُولُہٗ ۔ أما بعد
: اِنَّ اَصدَقَ الحَدِیثِ
کِتَابُ اﷲِ وَاِنَّّ اَفضَلَ الھَدیِ ھَدیُ مُحَمَّدٍ وَّ شَرُّ الْامُورِ
مُحدَثَاتُھَا وَ کُلُّ مُحدَثَۃٍ بِدعَۃٌ وَ کُلُّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّارِ۔ ‘ فقد
قال اللہ تعالی فی کتابہ الکریم:
اخلاص کے ثمرات
محترم بھائیو اور دوستو !
آئیے اب اِس خطبہ کے آخر میں
اخلاص کے بعض ثمرات ذکر کرتے ہیں۔تاکہ ہمیں یہ پتہ چلے کہ اخلاص سے انسان کو کیا
فوائد وثمرات حاصل ہوتے ہیں۔
1۔دنیا وآخرت میں سربلندی
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ
عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(…إِنَّکَ لَنْ
تُخَلَّفَ فَتَعْمَلَ عَمَلًا تَبْتَغِیْ بِہٖ وَجْہَ اللّٰہِ، إِلَّا ازْدَدتَّ
بِہٖ دَرَجَۃً وَرِفْعَۃً )
’’ تمھیں
لمبی زندگی دی جائے گی، پھر تم جو بھی ایسا عمل کرو گے کہ اس کے ذریعے تم اللہ کی
رضا کے طلبگار ہوگے تو اس کے ساتھ تمھارا ایک درجہ بڑھ جائے گا اور مزید بلندی نصیب
ہوگی۔‘‘[1]
2۔خوف اور غم سے نجات
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿
بَلٰی مَنْ اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلّٰہِ وَ ھُوَ مُحْسِنٌ فَلَہٗٓ اَجْرُہٗ عِنْدَ
رَبِّہٖ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ﴾[2]
’’ سنو !
جو بھی اپنے آپ کو اللہ کے سامنے جھکا دے اور وہ ( اخلاص و اتباع ِسنت کے ساتھ )
اچھی طرح عمل کرنے والا بھی ہو تو اس کیلئے اس کے رب کے ہاں اجر ہے اور ایسے لوگوں
پر کوئی خوف ہو گا او رنہ وہ غمزدہ ہونگے۔‘‘
3۔پریشانیوں سے نجات
جن اعمال وعبادات میں اخلاص ہو،
اگر انھیں مشکل گھڑیوں میں وسیلہ بنایا جائے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی جائے تو
اللہ تعالیٰ مشکلات سے نجات دیتا ہے اور پریشانیوں سے محفوظ کرلیتا ہے۔
اس کی سب سے بڑی دلیل اصحاب
الغار ( تین غار والوں ) کا مشہور واقعہ ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان
فرمایا کہ تین افراد جب ایک غار میں پھنس گئے تو ہر ایک نے اللہ تعالیٰ کی بارگارہ
میں اپنا وہ عمل پیش کیا جو اس نے خالصتا اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے کیا تھا۔اور اس
کے ذریعے اس نے اللہ تعالیٰ سے اپنی پریشانی سے نجات پانے کی دعا کی۔چنانچہ ہر ایک
نے کہا :
[1] صحیح البخاری :3936،صحیح مسلم :1628 [2]
البقرۃ2:112
( اَللّٰہُمَّ فَإِنْ کُنْتُ فَعَلْتُ ذَلِکَ
ابْتِغَائَ وَجْہِکَ فَافْرُجْ عَنَّا مَا نَحْنُ فِیْہِ )
’’اے
اللہ ! اگر یہ عمل میں نے محض تیری رضا کیلئے کیا تھا تو ہم جس مشکل میں پھنسے
ہوئے ہیں ہمیں اس سے نجات دے۔‘‘
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انھیں
نجات دے دی۔[1]
4۔برائی اور بے حیائی سے
بچنے کی توفیق
مخلص بندے کو اللہ تعالیٰ دنیا میں
برائی اور بے حیائی کے کاموں سے بچا لیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ حضرت یوسف علیہ
السلام کے بارے میں فرماتا ہے : ﴿ وَ لَقَدْ ھَمَّتْ
بِہٖ وَ ھَمَّ بِھَا لَوْ لَآ اَنْ رَّاٰ بُرْھَانَ رَبِّہٖ کَذٰلِکَ لِنَصْرِفَ
عَنْہُ السُّوْٓئَ وَ الْفَحْشَآئَ اِنَّہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ ﴾[2]
’’
چنانچہ اس عورت نے یوسف کا قصد کیا اور وہ بھی اس کا قصد کر لیتے اگر اپنے رب کی
برہان نہ دیکھ لیتے۔اِس طرح ہم نے انھیں اس برائی اور بے حیائی سے بچا لیا کیونکہ
وہ ہمارے مخلص بندوں میں سے تھے۔‘‘
5۔شیطان کے شر سے حفاظت
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿قَالَ رَبِّ بِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاُزَیِّنَنَّ لَھُمْ فِی الْاَرْضِ وَ
لَاُغْوِیَنَّھُمْ اَجْمَعِیْنَ ٭ اِلَّا عِبَادَکَ مِنْھُمُ الْمُخْلَصِیْنَ ﴾
[3]
’’اس (شیطان)
نے کہا : اے میرے رب ! چونکہ تو نے مجھے ورغلایا ہے تو میں بھی دنیا میں لوگوں کو
( ان کے گناہ ) خوش نما کرکے دکھاؤں گا اور ان سب کو ورغلا کے چھوڑوں گا۔ہاں ان میں
سے تیرے چند مخلص بندے ہی (بچیں گے ) ‘‘
6۔خاتمہ اخلاص پرہو تو
انسان جنت میں داخل ہوجاتا ہے
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت
ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( مَنْ قَالَ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ
ابْتِغَائَ وَجْہِ اللّٰہِ، خُتِمَ لَہُ بِہَا، دَخَلَ الْجَنَّۃَ، وَمَنْ صَامَ یَوْمًا
اِبْتِغَائَ وَجْہِ اللّٰہِ، خُتِمَ لَہُ بِہَا، دَخَلَ الْجَنَّۃَ، وَمَنْ
تَصَدَّقَ بِصَدَقَۃٍ اِبْتِغَائَ وَجْہِ اللّٰہِ، خُتِمَ لَہُ بِہَا، دَخَلَ
الْجَنَّۃَ ) [4]
’’ جس
شخص نے اللہ کی رضا کی خاطر لا إلہ إلا اللّٰه کہا اور اسی پر اس کا خاتمہ ہو گیا،
تو وہ سیدھا جنت
[1] صحیح البخاری :2272، صحیحمسلم :2743 [2] یوسف12:24
[3] الحجر15:39 [4] مسند أحمد:350/38:23324۔وہو حدیث صحیح لغیرہ کما قال محقق
المسند،وصححہ الألبانی فی صحیح الترغیب والترہیب : 985
میں جائے گا۔اور جس شخص نے اللہ
کی رضا کی خاطر ایک دن کا روزہ رکھا اور اسی حالت میں اس کا خاتمہ ہو گیا تو وہ بھی
سیدھا جنت میں جائے گا۔اور جس شخص نے اللہ کی رضا کی خاطر صدقہ کیا اور اسی وقت اس
کا خاتمہ ہو گیا تو وہ بھی سیدھا جنت میں جائے گا۔‘‘
7۔اخلاص کے ذریعے دل پاک
ہوتا ہے
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد
گرامی ہے : (نَضَّرَ اللّٰہُ امْرَأً سَمِعَ
مَقَالَتِیْ فَبَلَّغَہَا،فَرُبَّ حَامِلِ فِقْہٍ غَیْرُ فَقِیْہٍ،وَرُبَّ حَامِلِ
فِقْہٍ إِلٰی مَنْ ہُوَ أَفْقَہُ مِنْہُ)
’’ اللہ
تعالیٰ اس شخص کو خوشی، بہجت وسرور اور آسودگی دے جس نے میری بات سنی ور اسے آگے
پہنچا دیا، کیونکہ کئی علم لینے والے ( فقیہ ) سمجھ دار نہیں ہوتے اور کئی علم لینے
والے اسے اپنے سے زیادہ سمجھ دار تک پہنچا دیتے ہیں۔‘‘
پھر ارشاد فرمایا :
( ثَلاَثٌ لَا یَغِلُّ عَلَیْہِنَّ قَلْبُ
مُؤْمِنٍ:إِخْلَاصُ الْعَمَلِ لِلّٰہِ،وَالنَّصِیْحَۃُ لِوُلَاۃِ الْمُسْلِمِیْنَ
وَلُزُوْمُ جَمَاعَتِہِمْ،فَإِنَّ دَعْوَتَہُمْ تُحِیْطُ مِنْ وَّرَائِہِمْ ) [1]
’’ اور تین
چیزیں ایسی ہیں کہ جن کی موجودگی میں مومن کے دل میں کینہ داخل نہیں ہوتا۔اللہ کیلئے
عمل خالص کرنا، مسلمانوں کے سربراہوں سے خیرخواہی کرنااور ان کی جماعت میں بہر حال
شامل رہنا۔کیونکہ ان کی دعوت ان سب کو محیط ہوتی ہے۔‘‘
(جیسے ایک دیوار ان کا احاطہ کرتی ہے اسی طرح ان کی دعوت’
جو کہ دعوتِ اسلام ہے ‘
بھی ان سب کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور انھیں فرقہ بندی سے محفوظ رکھتی ہے۔اس لئے ان
کی جماعت کے ساتھ مل کر رہنا اشد ضروری ہے۔)
8۔اللہ کے عذاب سے نجات
ارشاد باری ہے : ﴿
وَلَقَدْ ضَلَّ قَبْلَہُمْ اَکْثَرُ الْاَوَّلِیْنَ ٭ وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا فِیْہِمْ
مُنْذِرِیْنَ ٭ فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُنْذَرِیْنَ ٭ اِِلَّا
عِبَادَ اللّٰہِ الْمُخْلَصِیْنَ ﴾[2]
’’ ان سے
پہلے بھی بہت سے لوگ بہک چکے ہیں۔جن میں ہم نے ڈرانے والے رسول بھیجے تھے۔لہٰذا
آپ دیکھ لیں کہ جنھیں ڈرایا گیا تھا ان کا انجام کیا ہوا ! سوائے اللہ کے مخلص بندوں
کے۔‘‘
[1] سنن الترمذی : 2658 وصححہ الألبانی [2]
الصافات37:71۔74
9۔عرش باری تعالیٰ کا سایہ
جو انسان ریاکاری سے بچتے ہوئے
انتہائی خفیہ انداز سے صدقہ کرے اور اس کا مقصود صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا
کا حصول ہو تو وہ قیامت کے روز عرش الٰہی کے سائے تلے ہو گا۔
جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم کا ارشاد ہے:( سَبْعَۃٌ یُظِلُّہُمُ اللّٰہُ فِیْ
ظِلِّہٖ یَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّہُ … وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَۃٍ
فَأَخْفَاہَا حَتّٰی لَا تَعْلَمَ شِمَالُہُ مَا تُنْفِقُ یَمِیْنُہُ )
’’ سات
قسم کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے ( عرش کے ) سائے تلے جگہ دے گا جس دن اس کے سائے
کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہو گا……ان
میں سے ایک شخص وہ ہے جس نے اس طرح خفیہ طور پر صدقہ کیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو
بھی پتہ نہ چلا کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا۔‘‘[1]
10۔جہنم کے عذاب سے نجات
اور جنت میں داخلہ
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿ اِِنَّکُمْ لَذَآئِقُو الْعَذَابِ الْاَلِیْمِ ٭ وَمَا تُجْزَوْنَ اِِلَّا مَا
کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ٭ اِِلَّا عِبَادَ اللّٰہِ الْمُخْلَصِیْنَ ٭ اُوْلٰٓئِکَ
لَہُمْ رِزْقٌ مَّعْلُوْمٌ٭ فَوَاکِہُ وَہُمْ مُکْرَمُوْنَ ٭ فِیْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ
٭ عَلٰی سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیْنَ ٭ یُطَافُ عَلَیْہِمْ بِکَاْسٍ مِّنْ مَّعِیْنٍ ٭
بَیْضَآئَ لَذَّۃٍ لِّلشّٰرِبِیْنَ ٭ لاَ فِیْہَا غَوْلٌ وَلاَ ہُمْ عَنْہَا یُنْزَفُوْنَ
٭ وَعِنْدَہُمْ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ عِیْنٌ ٭ کَاَنَّہُنَّ بَیْضٌ مَّکْنُوْنٌ ﴾
[2]
’’ یقینا
تمھیں دردناک عذاب چکھنا ہے۔اور تمھیں تمھارے اعمال کا ہی بدلہ دیا جائے گا۔سوائے
اللہ کے مخلص بندوں کے۔انہی کیلئے ہمیشہ باقی رہنے والی روزی مقرر ہے، انواع
واقسام کے پھل۔اور وہ نعمتوں والی جنت میں معزز ومکرم ہوں گے۔آمنے سامنے تختوں پر
بیٹھے ہوں گے۔انھیں بہتی ہوئی شراب کا جام پیش کیا جائے گا۔وہ شراب سفید اور پینے
والوں کیلئے لذیذ ہوگی۔نہ اس سے سر چکرائے گا اور نہ ہی اس سے ان کی عقل ماری جائے
گی۔اور ان کے پاس نیچی نگاہ رکھنے والی بڑی آنکھوں والی حوریں ہونگی۔جو چھپائے
ہوئے انڈوں کی مانند نہایت خوبصورت ہونگی۔‘‘
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں
اخلاص اختیار کرنے اور اپنے فضل وکرم کے ساتھ اخلاص کے فوائد وثمرات کو حاصل کرنے
کی توفیق دے۔آمین
[1] صحیح البخاری :660، صحیح مسلم :1031 [2]
الصافات37:38۔49