اِنَّ اَصدَقَ الحَدِیثِ کِتَابُ اﷲِ وَاِنَّّ اَفضَلَ الھَدیِ ھَدیُ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم وَّ شَرُّ الْامُورِ مُحدَثَاتُھَا وَ کُلُّ مُحدَثَۃٍ بِدعَۃٌ وَ کُلُّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّارِ۔
قال تعالی ۔ (مَنْ أَتَى يَوْمَ لَا يَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ(88)
إِلَّا اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ {سورة الشعراء (89
عن أبي هريرة عبدالرحمن بن صخر - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((إن الله لا ينظر إلى أجسادكم ولا إلى صوركم ولكن ينظر إلى قلوبكم))؛ (رواه مسلم).
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اللہ تمھارے جسموں اور تمھاری شکلوں کی طرف نہیں دیکھتا، بلکہ وہ تو تمھارے دلوں اور اعمال کی طرف دیکھتا ہے"۔
عزیز القدر بھائیو اور بہنو ! دل کیلئے عربی زبان میں(قلب)کا لفظ بولا جاتا ہے ، جس کے بارے میں شاعر کہتا ہے:
مَا سُمِّی الْقَلْبُ إِلَّا مِنْ تَقَلُّبِہِ فَاحْذَرْ عَلَی الْقَلْبِ مِنْ قَلْبٍ وَّتَحْوِیْلِ
’’ قلب کو ’قلب ‘اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہے۔لہذا تم قلب کی فکر کیا کرو کہ کہیں اس میں کوئی تبدیل واقع نہ ہو جائے۔‘‘
اور اس کی تصدیق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس فرمان سے بھی ہوتی ہے کہ
(مَثَلُ الْقَلْبِ کَرِیْشَۃٍ بِأَرْضِ فَلَاۃٍ ، تُقَلِّبُہَا الرِّیَاحُ ظَہْرًا لِبَطْنٍ)
’’ قلب کی مثال اُس پر کی سی ہے جو چٹیل زمین پر پڑا ہو اور ہوائیں اسے ایسا الٹ پلٹ کریں کہ کبھی وہ پیٹھ کے بل ہوتا تو کبھی پیٹ کے بل ہوتا ہے۔‘‘[[ صححہ الألبانی فی المشکاۃ:۱۰۳]
یہی وجہ ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم دلوں کی کیفیت کے ایک جیسا نہ رہنے پر بہت فکر مند رہتے تھے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے کہا:یا رسول اللہ ! ہمیں کیا ہو گیا ہے کہ ہم جب تک آپ کے پاس رہتے ہیں تو ہمارے دل نرم ہوتے ہیں ، دنیا سے بے رغبت ہو جاتے ہیں اور آخرت کو یاد کرنے والوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔لیکن جب آپ کے پاس سے اٹھ کر جاتے ہیں اور اپنے اہل وعیال سے مانوس ہوتے ہیں تو ہمیں اپنی حالت عجیب سے محسوس ہوتی ہے ! تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(لَوْ أَنَّکُمْ تَکُونُونَ إِذَا خَرَجْتُمْ مِّنْ عِنْدِی کُنْتُمْ عَلٰی حَالِکُمْ ذَلِکَ ، لَزَارَتْکُمُ الْمَلَائِکَۃُ فِی بُیُوتِکُمْ ، وَلَوْ لَمْ تُذْنِبُوا لَجَائَ اللّٰہُ بِخَلْقٍ جَدِیْدٍ کَیْ یُذْنِبُوا ، فَیَغْفِرَ لَہُمْ)
’’میرے پاس سے نکلتے وقت جو تمھاری حالت ہوتی ہے اگر تم ہر وقت اسی میں رہو تو فرشتے تمھارے گھروں میں آکر تمھاری زیارت کرتے۔اور اگر تم گناہ نہ کرتے تو اللہ تعالی ایک نئی مخلوق کو لے آتا جو گناہ کرتی ، پھر وہ انھیں معاف کرتا۔‘‘ الترمذی:۲۵۲۶۔وصححہ الألبانی ]
دل کی اِس بدلتی کیفیت کی وجہ سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی ثابت قدمی کیلئے اکثر وبیشتر دعا کیا کرتے تھے۔
جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکر م صلی اللہ علیہ وسلم اکثر یہ دعا فرماتے تھے:(یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ)’’اے دلوں کو پھیرنے والے ! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھنا۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا:اے اللہ کے نبی! ہم آپ پر اور آپ کے دین پرایمان لا چکے ہیں ، تو کیا آپ کو کوئی خدشہ ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا:ہاں۔اور اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:
(إِنَّ القُلُوْبَ بَیْنَ أُصْبُعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمٰنِ ، یَقْلِبُہَا کَیْفَ یَشَائُ)
’’بندوں کے دل اللہ تعالی کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہیں، وہ انھیں جیسے چاہے پھیر دے[ترمزی 214]
ان تمام دلائل سے یہ ثابت ہوا کہ دل کی کیفیت تبدیل ہوتی رہتی ہے اور ہر وقت ایک جیسی نہیں رہتی۔یہ دل کبھی خیر کی طرف راغب ہوتا ہے تو کبھی شر کی طرف مائل ہوتا ہے۔اس میں کبھی اخلاص ہوتا ہے تو کبھی تعریف سننے کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے۔اس میں کبھی اللہ تعالی پر ہی بھروسہ ہوتا ہے تو کبھی اسباب ووسائل یا بعض افراد پر بھروسہ ہوتا ہے۔لہٰذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ مسنون دعا بھی کثرت سے پڑھنی چاہئے۔اس کے علاوہ وہ دعا بھی بار بار پڑھتے رہنا چاہئے جس کی تعلیم اللہ تعالی نے یوں دی ہے:
﴿ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا وَ ھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابُ﴾
’’ اے ہمارے رب ! ہمیں ہدایت دینے کے بعد تو ہمارے دلوں کو کج رو نہ بنا۔اور ہمیں اپنے ہاں سے رحمت عطا فرما۔بے شک تو ہی سب کچھ عطا کرنے والا ہے۔آل عمران 8]
وآخر دعوانا أن الحمد للّٰه رب العالمین
أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَا أَوْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا ۖ فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَٰكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ) (46)
سورة الشعراء: (يَوْمَ لَا يَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ(88) إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ(89))
فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ)-سورة البقرة-.
الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ اللَّهِ ۗ أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ)-سورة الرعد
فَوَيْلٌ لِّلْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُم مِّن ذِكْرِ اللَّهِ)-سورة الزمر-،: (وَنَطْبَعُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ)-سورة الأعراف-.
اَلحَمدُ لِلّٰہِ نَحمَدُہ، وَنَستَعِینُہ،
وَنَستَغفِرُہ، وَنَعُوذُ بِاﷲِ مِن شُرُورِ اَنفُسِنَاوَمِن سَیِّئَآتِ
اَعمَالِنَا مَن یَھدِہِ اﷲُ فَلَا مُضِلَّ لَہ، وَمَن یُضلِل فَلَا ھَادِیَ لَہ،
وَاَشھَدُ اَن لَّا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وَحدَہ، لَا شَرِیکَ لَہ، وَاَشھَدُ اَنَّ
مُحَمَّدًا عَبدُہ، وَرَسُولُہٗ
اِنَّ اَصدَقَ الحَدِیثِ کِتَابُ اﷲِ وَاِنَّّ
اَفضَلَ الھَدیِ ھَدیُ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم وَّ شَرُّ الْامُورِ مُحدَثَاتُھَا وَ کُلُّ
مُحدَثَۃٍ بِدعَۃٌ وَ کُلُّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّارِ۔
قال تعالی ۔ (مَنْ أَتَى يَوْمَ لَا يَنفَعُ مَالٌ وَلَا
بَنُونَ(88) إِلَّا اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ
{سورة الشعراء (89
عن أبي هريرة عبدالرحمن بن صخر - رضي الله عنه -
قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((إن الله لا ينظر إلى أجسادكم ولا إلى
صوركم ولكن ينظر إلى قلوبكم))؛ (رواه مسلم).
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ
نے فرمایا: "اللہ تمھارے جسموں اور تمھاری شکلوں کی طرف نہیں دیکھتا، بلکہ وہ
تو تمھارے دلوں اور اعمال کی طرف دیکھتا ہے"۔
عزیز القدر بھائیو اور بہنو ! دل کیلئے عربی زبان
میں(قلب)کا لفظ بولا جاتا ہے ، جس کے بارے میں شاعر کہتا ہے:
مَا سُمِّی الْقَلْبُ إِلَّا مِنْ تَقَلُّبِہِ
فَاحْذَرْ عَلَی الْقَلْبِ مِنْ قَلْبٍ وَّتَحْوِیْلِ
’’ قلب کو ’قلب ‘اس لئے کہا جاتا
ہے کہ اس میں تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہے۔لہذا تم قلب کی فکر کیا کرو کہ کہیں اس میں
کوئی تبدیل واقع نہ ہو جائے۔‘‘
اور اس کی تصدیق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے
اِس فرمان سے بھی ہوتی ہے کہ
(مَثَلُ الْقَلْبِ کَرِیْشَۃٍ بِأَرْضِ فَلَاۃٍ ، تُقَلِّبُہَا
الرِّیَاحُ ظَہْرًا لِبَطْنٍ)
’’ قلب کی مثال اُس پر کی سی ہے
جو چٹیل زمین پر پڑا ہو اور ہوائیں اسے ایسا الٹ پلٹ کریں کہ کبھی وہ پیٹھ کے بل
ہوتا تو کبھی پیٹ کے بل ہوتا ہے۔‘‘[[ صححہ الألبانی فی
المشکاۃ:۱۰۳]
یہی وجہ ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم دلوں کی
کیفیت کے ایک جیسا نہ رہنے پر بہت فکر مند رہتے تھے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے
کہا:یا رسول اللہ ! ہمیں کیا ہو گیا ہے کہ ہم جب تک آپ کے پاس رہتے ہیں تو ہمارے
دل نرم ہوتے ہیں ، دنیا سے بے رغبت ہو جاتے ہیں اور آخرت کو یاد کرنے والوں میں
شامل ہو جاتے ہیں۔لیکن جب آپ کے پاس سے اٹھ کر جاتے ہیں اور اپنے اہل وعیال سے
مانوس ہوتے ہیں تو ہمیں اپنی حالت عجیب سے محسوس ہوتی ہے ! تو رسول اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(لَوْ أَنَّکُمْ تَکُونُونَ إِذَا خَرَجْتُمْ مِّنْ عِنْدِی کُنْتُمْ
عَلٰی حَالِکُمْ ذَلِکَ ، لَزَارَتْکُمُ الْمَلَائِکَۃُ فِی بُیُوتِکُمْ ، وَلَوْ
لَمْ تُذْنِبُوا لَجَائَ اللّٰہُ بِخَلْقٍ جَدِیْدٍ کَیْ یُذْنِبُوا ، فَیَغْفِرَ
لَہُمْ)
’’میرے پاس سے نکلتے وقت جو
تمھاری حالت ہوتی ہے اگر تم ہر وقت اسی میں رہو تو فرشتے تمھارے گھروں میں آکر
تمھاری زیارت کرتے۔اور اگر تم گناہ نہ کرتے تو اللہ تعالی ایک نئی مخلوق کو لے
آتا جو گناہ کرتی ، پھر وہ انھیں معاف کرتا۔‘‘ الترمذی:۲۵۲۶۔وصححہ الألبانی ]
دل کی اِس بدلتی کیفیت کی وجہ سے رسول اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم اس کی ثابت قدمی کیلئے اکثر وبیشتر دعا کیا کرتے تھے۔
جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
رسول اکر م صلی اللہ علیہ وسلم اکثر یہ دعا فرماتے تھے:(یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ
ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ)’’اے دلوں کو پھیرنے والے ! میرے دل کو اپنے دین
پر ثابت رکھنا۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا:اے اللہ کے نبی!
ہم آپ پر اور آپ کے دین پرایمان لا چکے ہیں ، تو کیا آپ کو کوئی خدشہ ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا:ہاں۔اور اس کی
وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:
(إِنَّ القُلُوْبَ بَیْنَ أُصْبُعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمٰنِ ،
یَقْلِبُہَا کَیْفَ یَشَائُ)
’’بندوں کے دل اللہ تعالی کی انگلیوں
میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہیں، وہ انھیں جیسے چاہے پھیر دے[ترمزی
214]
ان تمام دلائل سے یہ ثابت ہوا کہ دل کی کیفیت تبدیل
ہوتی رہتی ہے اور ہر وقت ایک جیسی نہیں رہتی۔یہ دل کبھی خیر کی طرف راغب ہوتا ہے
تو کبھی شر کی طرف مائل ہوتا ہے۔اس میں کبھی اخلاص ہوتا ہے تو کبھی تعریف سننے کی
خواہش پیدا ہو جاتی ہے۔اس میں کبھی اللہ تعالی پر ہی بھروسہ ہوتا ہے تو کبھی اسباب
ووسائل یا بعض افراد پر بھروسہ ہوتا ہے۔لہٰذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ مسنون
دعا بھی کثرت سے پڑھنی چاہئے۔اس کے علاوہ وہ دعا بھی بار بار پڑھتے رہنا چاہئے جس
کی تعلیم اللہ تعالی نے یوں دی ہے:
﴿ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ
ھَدَیْتَنَا وَ ھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابُ﴾
’’ اے ہمارے رب ! ہمیں ہدایت دینے
کے بعد تو ہمارے دلوں کو کج رو نہ بنا۔اور ہمیں اپنے ہاں سے رحمت عطا فرما۔بے شک
تو ہی سب کچھ عطا کرنے والا ہے۔آل عمران 8]
وآخر دعوانا أن الحمد للّٰه رب العالمین
أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ
قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَا أَوْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا ۖ فَإِنَّهَا لَا
تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَٰكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي
الصُّدُورِ) (46)
سورة الشعراء: (يَوْمَ لَا يَنفَعُ مَالٌ وَلَا
بَنُونَ(88) إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ(89))
فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ)-سورة البقرة-.
الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُم
بِذِكْرِ اللَّهِ ۗ أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ)-سورة الرعد
فَوَيْلٌ لِّلْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُم مِّن ذِكْرِ
اللَّهِ)-سورة الزمر-،: (وَنَطْبَعُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا
يَسْمَعُونَ)-سورة الأعراف-.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں