اپنی زبان منتخب کریں

خود کشی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
خود کشی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعرات، 22 دسمبر، 2022

خود کشی


الحمد للہ رب العالمین والصلاةوالسلام علی أشرف النبیاء والمرسلین وعلی آلہ وصحبہ أجمعین وبعد

إن الحمد ﷲ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونعوذ باللہ من شرور أنفسنا ومن سیئات أعمالنا۔من یھدہ اللہ فلا مضل لہ ومن یضللہ فلا ھادی لہ۔ وأشھد ان لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ وأشھد أن محمدا عبدہ ورسولہ

أما بعد‘ فقد قال اللہ تعالی فی کتابہ الکریم  : 
یٰۤاَیُّهَا  الَّذِیْنَ  اٰمَنُوا  اتَّقُوا  اللّٰهَ  حَقَّ  تُقٰتِهٖ  وَ  لَا  تَمُوْتُنَّ  اِلَّا  وَ  اَنْتُمْ  مُّسْلِمُوْنَ
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ، واحِدَةٍ، وخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا ونِسَاءً واتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ والْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا * يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا

محترم حضرات !اس دنیا میں آزمائش ہر انسان پر آتی ہے ، مسلمان پر بھی آتی ہے اور کافر پر بھی۔اللہ کے فرمانبردار بندوں پر بھی اور نا فرمان بندوں پر بھی۔مردوں پر بھی اور عورتوں پر بھی۔بڑوں پر بھی اور چھوٹوں پر بھی۔اور آزمائش مختلف طریقوں سے آتی ہے۔ بعض آزمائشوں کا تعلق انسان کے جسم سے ہوتا ہے ، اللہ نہ کرے کوئی ایسی بیماری آ جاتی ہے کہ زندگی بھر اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی جس کی وجہ سے وہ بہت پریشان رہتا ہے۔بعض آزمائشوں کا تعلق انسان کے اہل خانہ سے ہوتا ہے ، بیوی بد اخلاق ، بد زبان ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ بہت پریشان رہتا ہے۔اور بعض اوقات اس کی پریشانی کی وجہ اس کی اولاد ہوتی ہے۔اولاد اپنے والدین کی نا فرمان ہوتی ہے یا اللہ تعالی کی نافرمان ہوتی ہے ، بے نماز ہوتی ہے ، یا بڑے بڑے گناہوں میں مبتلا ہوتی ہے۔جس کی بناء پر اس کے والدین نہایت پریشان رہتے ہیں۔اور بعض آزمائشوں کا تعلق مالی حالات سے ہوتا ہے۔روزگار یا ذریعۂ تنخواہ ایسا نہیں ہوتا کہ جس کے ساتھ گھریلو اخراجات پورے ہو سکیں۔وہ ہر وقت پریشان وسرگرداں رہتا ہے ، خرچے ہیں کہ جان نہیں چھوڑتے ، جتنا کماتا ہے اس سے پوری نہیں پڑتی۔اسی طرح خاندانی معاملات بھی پریشان کئے رکھتے ہیں… الغرض یہ کہ کسی نہ کسی طرح سے ، کوئی نہ کوئی آزمائش آئی ہی رہتی ہے۔

لیکن کامیاب ہے وہ انسان جو ان پریشانیوں اور آزمائشوں کو برداشت کر جاتا ہے اور مکمل طور پر صبر وتحمل کا مظاہرہ کرتا ہے اور اللہ تعالی کی تقدیر پر راضی ہو جاتا ہے۔اللہ تعالی قرآن مجید میں مختلف آزمائشوں کا ذکر کرنے کے بعد ارشاد فرماتا ہے:﴿ وَبَشِّرِ الصَّابِرِیْنَ ٭ الَّذِیْنَ إِذَا أَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْا إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ٭ أُولٰئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوَاتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَرَحْمَۃٌ وَّأُولٰئِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُوْنَ’’اور آپ(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !)صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجئے جنھیں جب کوئی مصیبت لاحق ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں:ہم یقینا اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ایسے ہی لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی نوازشیں اور رحمت ہوتی ہے۔ اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔‘‘

[1]جو شخص آزمائشوں وپریشانیوں میں گھرا رہتا ہو اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ کی تقدیر پر بھی راضی رہتا ہو ، آزمائشوں کی وجہ سے وہ اللہ تعالی کی نافرمانی کرنے پر آمادہ نہ ہو بلکہ ہمیشہ اللہ کا شکر ادا کرتا رہے ، صبر وتحمل کا مظاہرہ کرتا رہے ، اپنی زبان پر کبھی حرف شکایت نہ لائے… تو ایسا شخص یقینی طور پر کامیاب ہے اور اسی کیلئے خوشخبری ہے کہ دنیا میں ٹھیک ہے تم نے مصیبتیں جھیلیں ، پریشانیاں برداشت کیں ، اللہ کی تقدیر پر راضی رہا ، خاتمہ ایمان پر ہو گیا تو اب مرنے کے بعد جو راحتیں تمھیں ملیں گی ، جو سکون نصیب ہو گا ، جو اللہ کی رحمتیں ہونگی ان کا اندازہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔مگر بعض لوگ پریشانیوں ، مصیبتوں اور آزمائشوں میں زندگی سے مایوس ہو جاتے ہیں اور آخر کار اپنے لئے ایک مشکل فیصلہ کر لیتے ہیں۔وہ یہ سوچتے ہیں کہ اب دنیا میں ان کے زندہ رہنے کا کوئی فائدہ نہیں ، اس لئے وہ اپنے آپ کو مار ڈالتے ہیں اور خود اپنے ہی ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کردیتے ہیں ! یہ فیصلہ ان کیلئے تباہی وبربادی کا سبب بن جاتا ہے۔دنیا میں تو وہ اپنی زندگی کا خاتمہ کرہی لیتے ہیں لیکن آخرت میں اللہ تعالی نے ان کیلئے جو عذاب تیار کیا ہے اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔یہ ان آزمائشوں اور مصیبتوں کا خوفناک پہلو ہے جس کو ’’ خود کشی ‘ کہتے ہیں۔خود کشی کرنا بہت بڑا گناہ ہےاللہ تعالی نے خود کشی کو حرام قراردیا ہے۔اس کا فرمان ہے:﴿ وَ لَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْمًا ٭ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ عُدْوَانًا وَّ ظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِیْہِ نَارًا وَکَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرًا ﴾’’اور تم اپنے آپ کوقتل نہ کرو ، بلا شبہ اللہ تعالی تم پر بہت مہربان ہے۔اور جو شخص از راہ ظلم وزیادتی ایسا کرےگا تو اسے ہم جہنم میں جھونک دیں گے اور یہ کام اللہ تعالی کیلئے بہت آسان ہے۔
یعنی یہ اللہ تعالی کیلئے مشکل نہیں کہ جو شخص اس کی طرف سے آئی ہوئی آزمائشوں کو برداشت نہ کرے ، مصیبتوں پر صبر نہ کرے اور پھر اپنی زندگی سے مایوس ہو کر اپنے آپ کو مار ڈالے تو وہ اسے جہنم میں ڈال دے۔یہ اس کیلئے نہایت آسان کام ہے۔جو آدمی اس طرح کا قدم اٹھاتا ہے وہ گویا اللہ کی رحمت سے مایوس ہو چکا ہوتا ہے اور اس کی رحمت سے مایوس کون ہوتا ہے ؟ اللہ تعالی فرماتا ہے:

﴿اِنَّہٗ لَا یَایْئَسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْکٰفِرُوْنَ ﴾
’’ اللہ کی رحمت سے مایوس تو کافر ہی ہوتے ہیں۔‘‘
دوسری آیت میں فرمایا:﴿وَ مَنْ یَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَۃِ رَبِّہٖٓ اِلَّا الضَّآلُّوْنَ ﴾
’’ اور اپنے رب کی رحمت سے تو صرف گمراہ لوگ ہی مایوس ہوتے ہیں۔‘‘[3]
ان دونوں آیتوں سے معلوم ہوا کہ رحمتِ باری تعالی سے مایوس وہی ہو سکتا ہے جو کافر اور گمراہ ہو۔مسلمان کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ اس کی رحمت سے مایوس ہو۔لہذا جو شخص مایو س ہو کر اپنے ہی ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کردے تو اسی کے متعلق اللہ تعالی نے فرمایا کہ وہ اسے جہنم میں جھونک دے گا۔والعیاذ باللہ
اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اصول مقرر کردیا ہے کہ
(لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ)’’ نہ اپنے آپ کو نقصان پہنچاؤ اور نہ کسی اور کو۔‘‘[4]
لہذا ایسے جتنے بھی کام ہیں کہ جن سے انسان کو نقصان پہنچ سکتا ہویا جو اس کی بربادی کا سبب بن سکتے ہوں وہ سب حرام ہیں۔
شریعت اسلامیہ میں خود کشی کرنا کتنا بڑا جرم ہے اس کا اندازہ آپ اس حدیث سے کر سکتے ہیں:
حضرت جندب بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’ تم سے پہلی امت میں ایک شخص تھا جسے ایک زخم لگا تو وہ اسے برداشت نہ کر سکا ، چنانچہ اس نے چھری اٹھائی اور اپنا ہاتھ کاٹ ڈالا۔اس سے اس کا خون بہنے لگا حتی کہ وہ مر گیا۔

اللہ تعالی نے اس کے بارے میں فرمایا:
(بَادَرَنِی عَبْدِی بِنَفْسِہِ ، حَرَّمْتُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ)
’’ میرے بندے نے اپنی جان کے بارے میں جلد بازی کی(تکلیف کو برداشت نہ کیا اور خود ہی اپنے آپ کو مار ڈالا)اس پر میں نے جنت کو حرام کردیا ہے۔‘‘ [5]
ایک اور حدیث میں خود کشی کو اتنا بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے کہ ایک شخص اللہ کی راہ میں جہاد کر ر ہا تھا ، کافروں کے خلاف سینہ تان کر لڑ رہا تھا ، دشمنوں کی گردنیں تہہ تیغ کر رہا تھا ، اسی دوران زخموں کی تاب نہ لا کر اس نے اپنے آپ کو مار ڈالا تو اس کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ جہنم میں چلا گیا ہے !
حضرت سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین کا(کسی جنگ میں)آمنا سامنا ہوا اور دونوں فوجوں میں شدید لڑائی ہوئی۔پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قیامگاہ کی طرف لوٹ آئے اور دوسرے لوگ اپنے ٹھکانوں کی طرف چلے گئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم میں ایک شخص ایسا تھا کہ اس کے سامنے مشرکین میں سے جو بھی آتا وہ اس پر حملہ آور ہوتا اور اپنی تلوار سے اس کا کام تمام کردیتا۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کی بہادری دیکھی تو اس کے متعلق کہا:جس طرح آج اس شخص نے شجاعت وبہادری کے کارنامے دکھائے ہیں اس طرح ہم میں سے کسی نے بھی نہیں دکھائے !
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(أَمَا إِنَّہُ مِنْ أَہْلِ النَّارِ)’’ خبردار ! وہ جہنمی ہے۔‘‘
تو لوگوں میں سے ایک شخص کہنے لگا:آج میں اس کے ساتھ ہی رہونگا(تاکہ دیکھ سکوں کہ یہ جہنمی کیوں ہے)یہ کہہ کر وہ اس کے ساتھ نکل گیا۔وہ جہاں رکتا یہ بھی رک جاتا۔اور وہ جہاں تیزچلتا یہ بھی تیزچلنے لگتا۔آخر کار وہ شخص شدید زخمی ہو گیا۔چنانچہ وہ صبر نہ کر سکا اور اس نے اپنی موت کیلئے جلد بازی کرتے ہوئے تلوار کا قبضہ زمین پر ٹکایا اور تلوار کی نوک اپنے دونوں پستانوں کے درمیان رکھ کر اپنے بدن کا پورا بوجھ اس پر ڈال دیا اور یوں اس نے اپنے آپ کو ہلاک کردیا۔ اس کا یہ انجام دیکھتے ہی تعاقب کرنے والا صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا:(أَشْہَدُ أَنَّکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ)میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ یقینا اللہ کے رسول ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:بات کیا ہے ؟ اس نے کہا:آپ نے جب یہ فرمایا تھا کہ فلاں آدمی جہنمی ہے تو لوگوں پر یہ بات بڑی گراں گذری تھی۔اس پر میں نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ آج میں اس کا تعاقب کرونگا اور تمھیں بتاؤنگا کہ اس کا انجام کیا ہوتا ہے۔چنانچہ میں اس کے پیچھے نکل گیا یہاں تک کہ جب وہ شدید زخمی ہوا تو اس نے موت کیلئے جلد بازی کی۔تلوار کا قبضہ زمین پر ٹکایا اور اس کی نوک اپنے سینے پر رکھ کر اپنے جسم کا پورا وزن اس پر ڈال دیا۔اور یوں وہ خود کشی کرکے ہلاک ہو گیا۔تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(إِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ عَمَلَ أَہْلِ الْجَنَّۃِ فِیْمَا یَبْدُوْ لِلنَّاسِ وَہُوَ مِنْ أَہْلِ النَّارِ ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ عَمَلَ أَہْلِ النَّارِ فِیْمَا یَبْدُوْ لِلنَّاسِ وَہُوَ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ)
’’ بے شک ایک آدمی بظاہر اہلِ جنت والا عمل کرتا ہے حالانکہ وہ اہلِ جہنم میں سے ہوتا ہے۔اور ایک آدمی
بظاہر اہلِ جہنم والا عمل کرتا ہے اور درحقیقت وہ اہلِ جنت میں سے ہوتا ہے۔‘‘[ البخاری:۲۸۹۸ ، مسلم:۱۱۲]
یہ شخص جو اللہ کی راہ میں لڑ رہا تھا ، بہادری اور شجاعت کے کارنامے دکھا رہا تھا ، کافروں کی گردنیں کاٹ رہا تھا، اس کا خاتمہ جہنم والے عمل پر ہوا ، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جہنمی قرار دیا۔
جو لوگ دنیاوی مصیبتوں اور آزمائشوں سے تنگ آجاتے ہیں ان کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ بس اپنے آپ کو مار دو، ہر قسم کی پریشانیوں سے نجات مل جائے گی ! یہ سوچ نہایت خطرناک ہے ، کیوں ؟ اس لئے کہ انھیں یہ نہیں معلوم کہ یہ قدم اٹھانے کے بعد وہ کتنی بڑی مصیبت میں گرفتار ہو جائیں گے ؟ اللہ تعالی انھیں کتنے بڑے عذاب میں مبتلا کردے گا ؟ قبر میں کیا ہو گا اور قیامت کے روز ان سے کیا سلوک کیا جائے گا ؟
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اورحدیث ملاحظہ کیجئے:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
(مَنْ تَرَدَّی مِنْ جَبَلٍ فَقَتَلَ نَفْسَہُ فَہُوَ فِی نَارِ جَہَنَّمَ یَتَرَدَّی فِیہِ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِیْہَا أَبَدًا)

’’ جو شخص کسی پہاڑ سے خود گر کر اپنے آپ کو مار ڈالے توہ جہنم کی آگ میں ہے اور برابر اپنے آپ کو اس میں نیچے کو گرا رہا ہے۔وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔‘‘
(وَمَنْ تَحَسَّی سُمًّا فَقَتَلَ نَفْسَہُ فَسُمُّہُ فِی یَدِہٖ یَتَحَسَّاہُ فِی نَارِ جَہَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِیْہَا أَبَدًا)

’’اور جو آدمی زہر پی کر اپنے آپ کو مار ڈالے(جیسا کہ آج کل ایسے واقعات بہت زیادہ رونما ہو رہے ہیں)تو وہ اپنی زہر اپنے ہاتھ میں لئے جہنم میں چلا جاتا ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس میں رہے گا۔‘‘
(وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَہُ بِحَدِیْدَۃٍ فَحَدِیْدَتُہُ فِی یَدِہٖ یَجَأُ بِہَا فِی بَطْنِہٖ فِی نَارِ جَہَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِیْہَا أَبَدًا)

’’ اور جو بندہ اپنے آپ کو لوہے کی کسی چیز کے ساتھ مار ڈالے تو وہ جہنم کی آگ میں اسی چیز کو ہاتھ میں لئے اسے اپنے پیٹ میں چبھوتا رہے گا اور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس میں رہے گا۔‘‘[ البخاری:۵۷۷۸ ]
]
وہ شخص جو خود کشی کرنا چاہتا ہو اسے اس سے پہلے ہزار بار سوچنا چاہئے کہ کیا وہ اس طرح کا اقدام کرکے واقعتا مشکلات سے نجات پا جائے گا ؟ یا دنیاوی مشکلات سے کہیں بڑے عذاب میں مبتلا ہو جائے گا ؟
اور جو لوگ اپنا گلا گھونٹ کر مر جاتے ہیں یا خود کو گولی ما رکر خود کشی کرلیتے ہیں ان کا یہ جرم کس قدر سنگین ہے! اس کا اندازہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے کیا جا سکتا ہے:
(اَلَّذِیْ یَخْنِقُ نَفْسَہُ یَخْنِقُہَا فِی النَّارِ ، وَالَّذِیْ یَطْعَنُہَا یَطْعَنُہَا فِی النَّارِ)

’’ جو شخص اپنا گلا گھونٹتا ہے وہ جہنم کی آگ میں بھی اسے گھونٹے گا۔ اور جو آدمی اپنے آپ کو(کسی چیز کے ساتھ)نشانہ بناتا ہے وہ جہنم کی آگ میں بھی اسے(اسی چیز کے ساتھ)نشانہ بنائے گا۔‘‘
وہ جہنم میں اپنا گلا باربار گھونٹے گا ، اپنے آپ کو اسی اسلحے یا آلے کے ساتھ بار بار نشانہ بنائے گا جس کے ساتھ اس نے دنیا میں اپنے آپ کو نشانہ بنا کر مار ڈالا تھا ، لیکن وہاں موت نہیں آئے گی۔دنیا میں تو اس نے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا تھا لیکن جہنم میں وہ اس طرح نہیں کر سکے گا۔موت اسے چاروں طرف سے گھیرے گی ضرور ، لیکن آئے گی نہیں !
ایک اور حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
(مَنْ قَتَلَ نَفْسَہُ بَشَیْیٍٔ فِی الدُّنْیَا عُذِّبَ بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ)
’’ جو آدمی دنیا میں اپنے آپ کو کسی چیز کے ساتھ مار دے تو اسے قیامت کے روز اسی چیز کے ساتھ عذاب دیا جائے گا۔
عزیزان گرامی ! ان تمام احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ خود کشی چاہے کسی بھی طرح سے کی جائے حرام ہے۔ اور اپنے آپ کو مارنا بہت بڑا گناہ ہے۔اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث مبارکہ میں اس کی حرمت کو بالکل واضح فرما دیا ہے۔لہذا کسی بھی انسان کو اس طرح کے اقدام کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہئے چہ جائیکہ وہ عملی طور پر اس کیلئے منصوبہ بندی کرے اور مناسب موقعہ کی تلاش میں رہے !ہے: