اپنی زبان منتخب کریں

جمعرات، 25 نومبر، 2021

ملک وقوم کیلئے اجتماعی طور پر گناہوں کے خطرناک اثرات ونتائج

 

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِیْنُهٗ وَنَسْتَغْفِرُهٗ وَنُؤْمِنُ بِهٖ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّئاٰتِ اَعْمَالِنَا مَن یَّهْدِهِ اللهُ فَلاَ مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ یُّضْلِلْهُ فَلاَ هَادِیَ لَهُ ۞وَاَشْهَدُ أَنْ لَآ اِلٰهَ اِلاَّ اللهُ وَحْدَهٗ  لَا شَرِیْکَ لَهٗ ۞ وَاَشْهَدُ اَنَّ سَیِّدَنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَرَسُوْلُهٗ، اَرْسَلَهٗ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرَا بَیْنَ یَدَیِ السَّاعَةِ ۞ مَنْ یُّطِعِ اللهَ وَرَسُوْلَهٗ فَقَدْ رَشَدْ، وَمَنْ یَّعْصِهِمَا فَاِنَّهٗ لاَ یَضُرُّ اِلاَّ نَفْسَهٗ وَلاَ یَضُرُّ اللهَ شَیْئاً  

أما بعد    فإن أصدق الحديث كتاب الله وخير الهدي هدي محمد صلى الله عليه وسلم وشر الأمور محدثاتها وكل محدثه بدعه وكل بدعه ضلاله وكل ضلاله في النار قال الله تعالى فى القرآن الكريم

 اعوذ بالله من الشيطان الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم

﴿ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَھُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ﴾

وقال رسول اللہ  : سَیَکُوْنُ فِیْ آخِرِ الزَّمَانِ خَسْفٌ وَقَذْفٌ وَمَسْخٌ ، قِیْلَ:وَمَتٰی ذَلِکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ؟ قَالَ:إِذَا ظَہَرَتِ الْمَعَازِفُ وَالْقَیْنَاتُ وَاسْتُحِلَّتِ الْخَمْرُ

ملک وقوم کیلئے اجتماعی طور پر گناہوں کے خطرناک اثرات ونتائج

اجتماعی طور پر کسی قوم یا کسی ملک کو گناہوں اور برائیوں کے جن خطرناک اور بھیانک نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، وہ کچھ یوں ہیں

1۔ بر وبحر میں فساد اور ہلاکت وبربادی

ہمارے یہاں فساد اس قدر پھیلا ہوا ہے کہ الامان والحفیظ ! نہ مال ودولت محفوظ ہے اور نہ ہی عزت وآبرو کو تحفظ حاصل ہے ، قتل وغارت عام ہے اور خونِ مسلم پانی کی طرح بہہ رہا ہے۔کہیں ’ دہشت گردی کے خلاف جنگ ‘ کے نام پر بے گناہ لوگوں کو مارا جا رہا ہے تو کہیں اس کے رد عمل میں خود کش دھماکے کرکے ہمارے بھائیوں کو ناکردہ گناہوں کی سزا

دی جار ہی ہے۔لوٹ مار اور ڈاکہ زنی کے واقعات بھی ہر روز رونما ہوتے رہتے ہیں۔معصوم بچوں اور بچیوں کو اغوا کرکے منہ مانگے پیسے وصول کئے جاتے ہیں۔کبھی کبھار اغوا شدہ بچے اور افراد رہا ہو جاتے ہیں اور اکثر وبیشتر انھیں جان سے مار دیا جاتا ہے۔چادر اور چاردیواری کی حرمت کو پامال کیا جاتا ہے ، بنت ِ حواء کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور کئی مرتبہ زیادتی کے بعد اسے نہایت بے دردی کے ساتھ قتل بھی کردیا جاتا ہے۔اور چونکہ ہمارے یہاں چوروں ، ڈاکوؤں اورظالموں کو ان کے کرتوتوں کا مزا چکھانے کیلئے ان پر شرعی سزائیں نافذ نہیں کی جاتیں اور نہ ہی ایسے جرائم پیشہ لوگوں کو کٹہرے میں لانے کا کوئی مؤثر نظام موجود ہے اس لئے اکثر لوگ جو ان جرائم کا شکار ہوتے ہیں وہ صبر کرکے اس ظلم وزیادتی کو برداشت کرنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔اور اگر کوئی مظلوم غلطی سے کسی ظالم کے خلاف کیس کر ہی دے تو اسے عدالتوں اور تھانوں میں سالہا سال تک چکر لگا لگا کر سوائے ذلت ورسوائی کے اور کچھ نہیں ملتا۔ ملک میں فساد اس حد تک زیادہ ہو گیا ہے کہ اکثر قومی اداروں اور مختلف محکموں میں رشوت کے بغیر کوئی کام ہی نہیں ہوتا۔مہنگائی اور بے روز گاری کی وجہ سے لوگ خود کشی کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔دوسری طرف بیورو کریسی اور حکمران طبقہ کے لوگ غریب عوام کا خون چوس کرعیاشیوں اوربیرون ملک اپنے اثاثوں کو بڑھانے میں مصروف کار نظر آتے ہیں۔لگتا ہے کہ کسی کو ذرا برابر بھی احساس نہیں کہ وہ غریب عوام کی فلاح وبہبود کیلئے عملی طور پر کچھ کرے۔بے چاری عوام پس رہی ہے اور ارباب اقتدار مست ہیں۔ اور اب تو ملکی سلامتی کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں۔اللہ جانے یہ فساد ہمیں اور کیا کیا رنگ دکھلائے گا ! سوال یہ ہے کہ آخر یہ سارا فساد اور ملکی وقومی تباہی کیوں ہو رہی ہے ؟ یقینا یہ سب ہمارے گناہوں اور کرتوتوں کی وجہ سے ہی ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے

﴿ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَھُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ﴾

’’بر وبحر میں لوگوں کی بد اعمالیوں کی وجہ سے فساد پھیل گیا ہے۔اس لئے کہ انھیں ان کے بعض کرتوتوں کا پھل اللہ تعالی چکھا دے ، شاید کہ وہ باز آ جائیں۔‘‘[ الروم:4

اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے

﴿ أَلَمْ یَرَوْا کَمْ أَھْلَکْنَا مِنْ قَبْلِہِمْ مِّنْ قَرْنٍ مَّکَّنّٰہُمْ فِی الْأَرْضِ مَا لَمْ نُمَکِّنْ لَّکُمْ وَأَرْسَلْنَا السَّمَآئَ عَلَیْہِمْ مِدْرَارًا وَّجَعَلْنَا الْأَنْھَارَ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھِمْ فَأَھْلَکْنٰھُمْ بِذُنُوْبِھِمْ وَأَنْشَأْنَا مِنْ بَعْدِھِمْ قَرْنًا آخَرِیْنَ ﴾

’’ کیا انھوں نے نہیں دیکھا کہ ہم ان سے پہلے کتنی جماعتوں کو ہلاک کرچکے ہیں ، وہ جن کو ہم نے دنیا میں ایسی قوت دی تھی کہ تم کو وہ قوت نہیں دی۔اور ہم نے ان پر خوب بارشیں برسائیں اور ہم نے ان کے نیچے سے نہریں جاری کیں۔ پھر ہم نے انہیں ان کے گناہوں کے سبب ہلاک کرڈالا اور ان کے بعد دوسری جماعتوں کو پیدا کردیا۔ ‘‘[الأنعام:۶

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے سابقہ اقوام کی ہلاکت وبربادی کا تذکرہ کیا ہے جنھیں ان کے گناہوں کی وجہ سے ہی ہلاک وبرباد کیا گیا۔اسی طرح اللہ تعالی فرماتے ہیں

﴿ فَکُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْبِہِ فَمِنْھُمْ مَّنْ اَرْسَلْنَا عَلَیْہِ حَاصِبًا وَ مِنْھُمْ مَّنْ اَخَذَتْہُ الصَّیْحَۃُ وَ مِنْھُمْ مَّنْ خَسَفْنَا بِہِ الْاَرْضَ وَ مِنْھُمْ مَّنْ اَغْرَقْنَا وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیَظْلِمَھُمْ وَ لٰکِنْ کَانُوْٓا اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَ﴾

’’ ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ کے جرم میں دھر لیا۔پھر ان میں سے کچھ پر ہم نے پتھراؤ کیا اور کچھ ایسے جنھیں زبردست چیخ نے آلیا اور کچھ ایسے جنھیں ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور کچھ ایسے ہیں جنھیں ہم نے غرق کردیا۔اللہ ان پر ظلم کرنے والا نہیں تھا لیکن یہ لوگ خود ہی اپنے آپ پر ظلم کر رہے تھے۔]العنکبوت:40

2۔ زلزلے وغیرہ

گناہوں اور برائیوں کی ایک بڑی نحوست یہ بھی ہے کہ ان کی وجہ سے انتہائی خطرناک زلزلے آتے ہیں۔بڑی بڑی عمارتیں زمیں بوس ہو جاتی ہیں ، بلکہ بعض اوقات پورے پورے شہر صفحۂ ہستی سے مٹ جاتے ہیں اور بستیوں کی بستیاں تباہ ہو جاتی ہیں۔ہزاروں اور بسا اوقات لاکھوں لوگ چند لمحات میں ہی لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔اور بعض اوقات اللہ تعالی سمندر کی گہرائی کو حکم دیتا ہے ، زمین حرکت میں آتی ہے اور اس کے نتیجے میں سمندری موجیں خوفناک طوفان(سونامی)کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔پھر ہر چیز خس وخاشاک کی طرح بہہ جاتی ہے اور تباہی وبربادی کے ایسے ایسے خوفناک مناظر سامنے آتے ہیں کہ رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور کلیجے منہ کو آتے ہیں… نسأل اللّٰه العفو والعافیۃ

اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿ اَفَاَمِنَ الَّذِیْنَ مَکَرُوا السَّیِّاٰتِ اَنْ یَّخْسِفَ اللّٰہُ بِھِمُ الْاَرْضَ اَوْ یَاْتِیَھُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْعُرُوْنَ ٭ اَوْ یَاْخُذَھُمْ فِیْ تَقَلُّبِھِمْ فَمَا ھُمْ بِمُعْجِزِیْنَ ٭ اَوْ یَاْخُذَھُمْ عَلٰی تَخَوُّفٍ فَاِنَّ رَبَّکُمْ لَرَؤفٌ رَّحِیْمٌ ﴾

’’برائیوں کا داؤ پیچ کرنے والے کیا اس بات سے بے خوف ہو گئے ہیں کہ اللہ تعالی انھیں زمین میں دھنسا دے یا ان پر ایسی جگہ سے عذاب آ جائے جہاں کا انھیں وہم وگمان بھی نہ ہو ؟ یا انھیں چلتے پھرتے پکڑ لے ؟ یہ کسی صورت میں اللہ تعالی کو عاجز نہیں کر سکتے۔یا انھیں ڈرا دھمکا کر پکڑ لے ؟ یقینا تمھارا رب نہایت مشفق اور بڑا ہی رحم کرنے والا ہے۔‘[ النحل:۴۵۔ ۴۷

اور حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

 سَیَکُوْنُ فِیْ آخِرِ الزَّمَانِ خَسْفٌ وَقَذْفٌ وَمَسْخٌ ، قِیْلَ:وَمَتٰی ذَلِکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ؟ قَالَ:إِذَا ظَہَرَتِ الْمَعَازِفُ وَالْقَیْنَاتُ وَاسْتُحِلَّتِ الْخَمْرُ

’’ آخری زمانے میں لوگوں کو زمین میں دھنسایا جائے گا ، ان پر پتھروں کی بارش کی جائے گی اور ان کی شکلیں مسخ کی جائیں گی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ ایسا کب ہو گا ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب آلاتِ موسیقی پھیل جائیں گے ، گانے والیاں عام ہو جائیں گی اور شراب کو حلال سمجھ لیا جائے گا۔‘‘[ صحیح الجامع للألبانی:۳۶۶۵

اسی طرح دوسری میں حدیث میں ارشاد فرمایا:

(لَیَشْرَبَنَّ نَاسٌ مِّنْ أُمَّتِی الْخَمْرَ یُسَمُّونَہَا بِغَیْرِ اسْمِہَا ، یُعْزَفُ عَلٰی رُؤُوْسِہِمْ بِالْمَعَازِفِ وَالْمُغَنِّیَاتِ ، یَخْسِفُ اللّٰہُ بِہِمُ الْأرْضَ ، وَیَجْعَلُ مِنْہُمُ الْقِرَدَۃَ وَالْخَنَازِیْرَ

’’ میری امت کے کئی لوگ یقینا شراب نوشی کریں گے ، مگر اس کا نام تبدیل کرکے ، ان کے سروں کے پاس آلاتِ موسیقی بجائے جائیں گے اور گانے والی عورتیں گائیں گی ، ایسے ہی لوگوں کو اللہ تعالی زمین میں دھنسا دے گا اور انہی میں سے بندر اور سور بنائے گا]ابن ماجہ:۴۰۲۰۔صححہ الألبانی ]

◦3۔ بد امنی

گناہوں اور برائیوں کی وجہ سے اللہ تعالی قوموں اور ملکوں کے امن کو بد امنی میں تبدیل کردیتا ہے جس کے نتیجے میں نہ ان کی جانیں محفوظ ہوتی ہیں ، نہ مال ودولت محفوظ ہوتا ہے اور نہ ہی عزت وآبرو محفوظ ہوتی ہے۔اور ہر وقت ان پر خوف وہراس اور رعب ودبدبہ مسلط رہتا ہے اور وہ چین وسکون سے محروم ہو جاتے ہیں۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے﴿وَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا قَرْیَۃً کَانَتْ اٰمِنَۃً مُّطْمَئِنَّۃً یَّاْتِیْھَا رِزْقُھَا رَغَدًا مِّنْ کُلِّ مَکَانٍ فَکَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰہِ فَاَذَاقَھَا اللّٰہُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَ الْخَوْفِ بِمَا کَانُوْا یَصْنَُوْنَ﴾

’’ اللہ تعالیٰ ایک بستی کی مثال بیان کرتا ہے جس میں امن اور چین تھا اور ہر طرف سے اس کا رزق فراوانی کے ساتھ اس کے پاس پہنچ رہا تھا۔پھر اس نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی ، تو اللہ تعالیٰ نے اس(بستی والوں کے)کرتوتوں کے نتیجے میں ان پر بھوک اور خوف(کا عذاب)مسلط کردیا۔‘‘[ النحل:۱۱۲]

4۔ مہلک بیماریاں، تنگ حالی اور مہنگائی ، بیرونی دشمن کا تسلط ، حکمرانوں کا رعایا پر ظلم اور خانہ جنگی وغیرہ یہ خطرناک نتائج رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک ارشاد گرامی میں بیان فرمائے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے 

لَمْ تَظْہَرِ الْفَاحِشَۃُ فِی قَوْمٍ قَطُّ حَتّٰی یُعْلِنُوا بِہَا إِلَّا فَشَا فِیْہِمُ الطَّاعُونُ وَالْأوْجَاعُ الَّتِی لَمْ تَکُنْ مَضَتْ فِی أَسْلَافِہِمُ الَّذِیْنَ مَضَوْا)

’’ کسی قوم میں بے حیائی اس قدر پھیل جائے کہ وہ کھلم کھلا اس کا ارتکاب شروع کردیں تو ان میں طاعون کی بیماری پھیل جاتی ہے اور دیگر وہ امراض بھی جو ان سے پہلے لوگوں میں نہیں پائی جاتی تھیں۔‘‘

وَلَمْ یَنْقُصُوا الْمِکْیَالَ وَالْمِیْزَانَ إِلَّا أُخِذُوْا بِالسِّنِیْنَ وَشِدَّۃِ الْمَؤنَۃِ وَجَوْرِ السُّلْطَانِ عَلَیْہِمْ

’’ اور جب لوگ ماپ تول میں کمی کرنے لگتے ہیں تو انھیں قحط سالی ، مہنگائی اور حکمران کے ظلم کی صورت میں سزا دی جاتی ہے۔

وَلَمْ یَمْنَعُوا زَکَاۃَ أَمْوَالِہِمْ إِلَّا مُنِعُوا الْقَطْرَ مِنَ السَّمَائِ ، وَلَوْ لَا الْبَہَائِمُ لَمْ یُمْطَرُوْا

’’اورجب لوگ اپنے مالوں کی زکاۃ روک لیں تو آسمان سے بارش کا برسنا بند ہو جاتا ہے۔اور اگر جانور نہ ہوتے تو ان پر بالکل بارش نہ برستی۔‘‘

وَلَمْ یَنْقُضُوا عَہْدَ اللّٰہِ وَعَہْدَ رَسُولِہِ إِلَّا سَلَّطَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ عَدُوًّا مِّنْ غَیْرِہِمْ ، فَأَخَذُوا بَعْضَ مَا فِی أَیْدِیْہِمْ

’’ اور جب وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد کا پاس نہ کریں تو اللہ تعالی ان پر بیرونی دشمن کو مسلط کر دیتا ہے جو ان کی ثروت کا ایک حصہ ان سے چھین لیتا ہے۔‘‘

(وَمَا لَمْ تَحْکُمْ أَئِمَّتُہُمْ بِکِتَابِ اللّٰہِ وَیَتَخَیَّرُوا مِمَّا أَنْزَلَ اللّٰہُ إِلَّا جَعَلَ اللّٰہُ بَأْسَہُمْ بَیْنَہُمْ

’’ اور جب ان کے حکمران کتاب اللہ کی روشنی میں فیصلے کرنا چھوڑ دیں اور اس کے دین پر عملدرآمد نہ کریں تو اللہ تعالی ان کو آپس میں لڑا دیتا ہے۔ ابن ماجہ:۴۰۱۹۔وحسنہ الألبانی

اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے:

(مَا ظَہَرَ الْغَلُولُ فِی قَوْمٍ إِلَّا أَلْقَی اللّٰہُ فِی قُلُوبِہِمُ الرُّعْبَ ، وَلَا فَشَا الزِّنَا فِی قَوْمٍ إِلَّا کَثُرَ فِیْہِمُ الْمَوْتُ ،وَلَا نَقَصَ قَوْمٌ الْمِکْیَالَ وَالْمِیْزَانَ إِلَّا قَطَعَ عَنْہُمُ الرِّزْقَ ، وَلَا حَکَمَ قَوْمٌ بِغَیْرِ حَقٍّ إِلَّا فَشَا فِیْہِمُ الدَّمُ ، وَلَا خَتَرَ قَوْمٌ بِالْعَہْدِ إِلَّا سَلَّطَ عَلَیْہِمْ عَدُوَّہُمْ)

’’ کسی قوم میں خیانت عام ہو جائے تو اللہ تعالی ان کے دلوں میں رعب ودبدبہ ڈال دیتا ہے۔اور جب کسی قوم میں بدکاری پھیل جائے تو اس میں موت بکثرت واقع ہوتی ہے۔اور جب وہ ماپ تول میں کمی کرنے لگیں تو ان سے رزق کو کاٹ دیا جاتا ہے۔اور جب کسی قوم میں فیصلے حق پر مبنی نہ کئے جائیں تو اس میں خون(قتل)عام ہو جاتا ہے۔اور جب ایک قوم عہد کو پامال کرتی ہے تو اس پر ان کا دشمن مسلط کر دیا جاتا ہے۔[ مؤطا مالک:۹۸۷]





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں