اَلْحَمْدُ
لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِیْنُهٗ وَنَسْتَغْفِرُهٗ وَنُؤْمِنُ بِهٖ
وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ
سَیِّئاٰتِ اَعْمَالِنَا مَن یَّهْدِهِ اللهُ فَلاَ مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ
یُّضْلِلْهُ فَلاَ هَادِیَ لَهُ ۞وَاَشْهَدُ أَنْ لَآ اِلٰهَ اِلاَّ اللهُ
وَحْدَهٗ لَا شَرِیْکَ لَهٗ ۞ وَاَشْهَدُ اَنَّ سَیِّدَنَا وَمَوْلَانَا
مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَرَسُوْلُهٗ، اَرْسَلَهٗ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرَا
بَیْنَ یَدَیِ السَّاعَةِ ۞ مَنْ یُّطِعِ اللهَ وَرَسُوْلَهٗ فَقَدْ رَشَدْ،
وَمَنْ یَّعْصِهِمَا فَاِنَّهٗ لاَ یَضُرُّ اِلاَّ نَفْسَهٗ وَلاَ یَضُرُّ اللهَ
شَیْئاً
أما بعد فإن أصدق الحديث كتاب
الله وخير الهدي هدي محمد صلى الله عليه وسلم وشر الأمور محدثاتها وكل محدثه بدعه
وكل بدعه ضلاله وكل ضلاله في النار قال الله تعالى فى القرآن الكريم
اعوذ بالله من الشيطان الرجيم بسم الله الرحمن
الرحيم.
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿ وَ مَنْ یُّطِعِ
اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ یُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ
خٰلِدِیْنَ فِیْھَا وَ ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ٭ وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَ
رَسُوْلَہٗ وَ یَتَعَدَّ حُدُوْدَہٗ یُدْخِلْہُ نَارًا خَالِدًا فِیْھَا وَلَہٗ
عَذَابٌ مُّھِیْنٌ ﴾
’’ اور جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے گا اسے
اللہ تعالی ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ، ان میں وہ
ہمیشہ رہیں گے اور یہی در اصل بڑی کامیابی ہے۔اور جو اللہ اور کے رسول صلی اللہ
علیہ وسلم کی نافرمانی کرے گا اور اللہ کی مقرر کردہ حدوں سے آگے نکلے گا تو اسے
وہ جہنم میں داخل کرے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کیلئے رسوا کن عذاب ہو
گا۔‘ )[النساء:13،14]
آج کے خطبۂ جمعہ میں ہم
اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ
وسلم کی نافرمانیوں کے برے
اثرات اور گناہوں اور برائیوں کے خطرناک نتائج کے بارے میں گفتگو کریں گے۔(ان شاء
اللہ)جس سے ہمارا مقصود یہ ہے کہ جب ہمیں ان خطرناک نتائج اور برے اثرات کا علم ہو
گا تو ہم عصیان ونافرمانی سے بچنے کی کوشش کریں گے۔اللہ تعالی ہم سب کو اس کی
توفیق دے۔
عصیان ونافرمانی اور گناہوں
کے اثرات ونتائج دو قسم کے ہیں۔ایک تو وہ ہیں جو انفرادی طور پرخود نافرمانی کرنے
والے انسان پر ہی مر تب ہوتے ہیں۔اور دوسرے وہ ہیں جو اجتماعی طور پر کسی قوم یا
کسی ملک پر مرتب ہوتے ہیں۔
افراد
کیلئے گناہوں کے خطرناک نتائج:
1۔ دل کا
زنگ آلود ہونا اور تاریکی کا چھا جانا
گناہوں اور نافرمانیوں کی وجہ سے نافرمانی کرنے والے انسان کا دل زنگ
آلود ہو جاتا ہے ، حتی کہ گناہ کرتے کرتے اس کا دل مکمل طور پر کالا سیاہ پڑ جاتا
ہے۔
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے
:(إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا
أَذْنَبَ کَانَتْ نُکْتَۃً سَوْدَائَ فِیْ قَلْبِہٖ ، فَإِنْ تَابَ وَنَزَعَ
وَاسْتَغْفَرَ صُقِلَ قَلْبُہُ ، وَإِنْ زَادَ زَادَتْ حَتّٰی یَعْلُوَ قَلْبَہُ ، فَذَلِکَ الرَّیْنُ الَّذِیْ
ذَکَرَ اللّٰہُ
عَزَّ وَجَلَّ فِیْ الْقُرْآنِ:﴿کَلَّا بَلْ رَانَ عَلیٰ قُلُوْبِہِمْ
مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ﴾
’’مومن جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک
سیاہ نقطہ پڑ جاتا ہے۔پھر اگر وہ توبہ کرلیتا ہے اور اس گناہ کو چھوڑ کرمعافی مانگ
لیتا ہے تو اس کا دل دھودیا جاتا ہے۔اور اگر وہ گناہ پر گناہ کرتا چلا جاتا ہے تو
سیاہی بھی بڑھتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کے دل پر چھاجاتی ہے۔یہی وہ(رَین)’’
زنگ ‘‘ ہے جس
کا اﷲ تعالیٰ نے قرآن میں تذکرہ کیا ہے:﴿ کَلَّا بَلْ رَانَ
عَلیٰ قُلُوْبِہِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ﴾الترمذی:۳۳۳۴:حسن صحیح ، ابن ماجۃ:۴۲۴۴ وحسنہ الألبانی
اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانیوں اور گناہوں کی
وجہ سے دل پر تاریکی چھا جاتی ہے۔اور جب کوئی شخص بکثرت گناہوں کا ارتکاب کرتا ہو
اور اللہ سے معافی بھی نہ مانگتا ہو تو اس کے دل پرچھائی ہوئی تاریکی اور سیاہی
نہایت گہری ہو جاتی ہے اور بڑھتے بڑھتے اس کے چہرے پربھی نمایاں ہونے لگتی ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ
(إِنَّ لِلْحَسَنَۃِ ضِیَائً فِی الْوَجْہِ وَنُورًا فِی الْقَلْبِ ،
وَسِعَۃً فِی الرِّزْقِ ، وَقُوَّۃً فِی الْبَدَنِ، وَمَحَبَّۃً فِی قُلُوبِ
الْخَلْقِ ، وَإِنَّ لِلسَّیِّئَۃِ سَوَادًا فِی الْوَجْہِ ، وَظُلْمَۃً فِی
الْقَلْبِ ، وَوَہْنًا فِی الْبَدَنِ ، وَنَقْصًا فِی الرِّزْقِ ، وَبُغْضًا فِی
قُلُوبِ الْخَلْقِ)
’’ نیکی کی وجہ سے چہرے پر روشنی آ جاتی ہے ، دل منور ہو جاتا ہے ، رزق
فراوانی سے ملتا ہے ، جسمانی طاقت میں اضافہ ہوتا ہے اور لوگوں کے دلوں میں اس کی
محبت پیدا ہو جاتی ہے۔اور برائی کی وجہ سے چہرے پر سیاہی آ جاتی ہے ، دل پر
تاریکی چھا جاتی ہے ، جسم کمزور پڑ جاتا ہے ، رزق میں کمی آ جاتی ہے اور لوگوں کے
دلوں میں اس سے نفرت پیدا ہو جاتی ہے۔‘‘
2۔
گناہوں کی وجہ سے بندہ اللہ تعالی کے ہاں اپنی قدر گنوا بیٹھتا ہے
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:(إِیَّاکَ
وَالْمَعْصِیَۃَ فَإِنَّ بِالْمَعْصِیَۃِ حَلَّ سَخَطُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ)
’’ تم نافرمانی سے بچو ، کیونکہ نافرمانی کی وجہ سے اللہ تعالی کی
ناراضگی آجاتی ہے۔‘‘[مسند احمد ]
جب کسی بندے سے اللہ تعالی ناراض ہوتا ہے تو اس کا اللہ کے ہاں کوئی
مقام ومرتبہ نہیں رہتا بلکہ وہ اس کی نظروں میں گر جاتا ہے اور اس کی کوئی عزت
نہیں ہوتی۔اور جس کی اللہ تعالی کے ہاں کوئی عزت نہیں ہوتی اسے کسی اور کی طرف سے
عزت نہیں مل سکتی۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿ وَ مَنْ یُّھِنِ
اللّٰہُ فَمَالَہٗ مِنْ مُّکْرِمٍ﴾
اور جس شخص کو اللہ تعالی ذلیل کردے تو اسے کوئی عزت دینے والا
نہیں۔‘‘الحج22:۱۸
3۔ گناہوں کی وجہ سے بندہ شیطان
کا قیدی بن جاتا ہے
بندہ جب مسلسل گناہ کرتا چلا جاتا ہے اور وہ اپنے گناہوں سے توبہ
نہیں کرتا تو وہ شیطان کا قیدی بن جاتا ہے ، پھر شیطان ہر وقت اس کے ساتھ رہتا اور
اسے اللہ کے دین سے غافل رکھتا ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَمَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ
نُقَیِّضْ لَہٗ شَیْطٰنًا فَہُوَ لَہٗ قَرِیْنٌ﴾
’’ اور جو شخص رحمن کی یاد سے غافل ہو جائے ہم اس پر ایک شیطان کو مسلط
کردیتے ہیں جو اس کا ساتھی بن جاتا ہے۔‘‘الزخرف:36
] ’
رحمن کی یاد سے غافل ‘ رہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ تعالی کے دین
سے اعراض کر لے ، اس کے احکامات کی کوئی پروا نہ کرے اور من مانی زندگی بسر
کرے۔ایسے انسان پر شیطان مسلط کر دیا جاتاہے جو اسے اپنی مرضی کے مطابق استعمال
کرتا ہے۔
4۔
گناہ بندے کو اپنے آپ سے غافل کردیتے ہیں
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَلاَ تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوا
اللّٰہَ فَاَنْسٰہُمْ اَنْفُسَہُمْ اُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ﴾
’’ اور تم ان لوگوں کی طرح مت ہو جانا جنھوں نے اللہ تعالی کوبھلا دیا ،
پھر اللہ نے بھی انھیں اپنے آپ سے غافل کردیا ، ایسے ہی لوگ فاسق(نافرمان)ہوتے
ہیں۔‘‘[الحشر59:19]
یعنی جو شخص اللہ تعالی کے دین سے لا پروا ہو جاتا اور اس کے احکامات
کو بھلا دیتاہے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ خوداپنے آپ سے بھی غافل ہو جاتا
ہے۔اس کے بعد نہ اس کی آنکھیں کسی صحیح چیز کو دیکھ سکتی ہیں ، نہ اس کے کان کسی
برحق بات کو سن سکتے ہیں اور نہ ہی اس کی عقل راہِ راست کا ادراک کر سکتی ہے۔پھر
وہ چوپائے جانور کی طرح بلکہ اس سے بھی بد تر ہو جاتا ہے۔
5۔گناہوں کی وجہ سے انسان
پریشان حال اور حقیقی چین وسکون سے محروم ہوجاتاہے۔
اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿ وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ
ذِکْرِیْ فَإِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا وَّنَحْشُرُہٗ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ
اَعْمٰی٭ قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِیْ أَعْمٰی وَقَدْ کُنْتُ بَصِیْرًا٭ قَالَ
کَذَلِکَ أَتَتْکَ اٰیَاتُنَا فَنَسِیْتَہَا وَکَذَلِکَ الْیَوْمَ تُنْسٰی﴾
’’ اور جو شخص میرے ذکر سے روگردانی کرے گا وہ دنیا میں تنگ حال رہے گا
اور ہم اسے بروز قیامت اندھا کرکے اٹھائیں گے۔ وہ پوچھے گا:اے میرے رب ! تو نے
مجھے نابینا بنا کر کیوں اٹھایا حالانکہ میں توبینا تھا ؟
جاری
؟؟؟؟؟؟؟
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں