اپنی زبان منتخب کریں

فتنوں کے دور میں مسلمان کا کردار لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
فتنوں کے دور میں مسلمان کا کردار لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

بدھ، 30 نومبر، 2022

فتنوں کے دور میں مسلمان کا کردار


فتنوں کے دور میں مسلمان کا کردار
اَلحَمدُ لِلّٰہِ نَحمَدُہ، وَنَستَعِینُہ، وَنَستَغفِرُہ، وَنَعُوذُبِاﷲِ مِن شُرُورِ اَنفُسِنَاوَمِن سَیِّئَآتِ اَعمَالِنَا مَن یَھدِہِ اﷲُ فَلَا مُضِلَّ لَہ، وَمَن یُضلِل فَلَا ھَادِیَ لَہ، وَاَشھَدُ اَن لَّا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وَحدَہ، لَا شَرِیکَ لَہ، وَاَشھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبدُہ، وَرَسُولُہٗ ۔ أما بعد  

: اِنَّ اَصدَقَ الحَدِیثِ کِتَابُ اﷲِ وَاِنَّّ اَفضَلَ الھَدیِ ھَدیُ مُحَمَّدٍ وَّ شَرُّ الْامُورِ مُحدَثَاتُھَا وَ کُلُّ مُحدَثَۃٍ بِدعَۃٌ وَ کُلُّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّارِ۔ ‘ فقد قال اللہ تعالی فی کتابہ الکریم:

فتنوں کے دور میں مسلمان کا کردار

سوال یہ ہے کہ ان فتنوں میں ایک مسلمان کا کردار کیا ہونا چاہئے اوراسے ان سے بچنے کیلئے کیا کرنا چاہئے؟ اِس سلسلے میں ہم چند گزارشات قرآن وحدیث کی روشنی میں عرض کرتے ہیں :
1
۔فتنوں سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرنا
ہر مسلمان کو فتنوں سے بچنے کیلئے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرنی چاہئے۔کیونکہ اللہ تعالی کے سوا اور کوئی نہیں جو ان فتنوں سے بچا سکے۔
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
((
تَعَوَّذُوْا بِاللّٰہِ مِنَ الْفِتَنِ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ ))
’’
تم تمام فتنوں سے اللہ کی پناہ طلب کرو، ان میں سے جو ظاہر ہوں ان سے بھی اور جو باطن ہوں ان سے بھی۔‘‘
چنانچہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا : ( نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الْفِتَنِ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ )
’’ ہم تمام فتنوں سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں، ان میں سے جو ظاہر ہوں ان سے بھی اور جو باطن ہوں ان سے بھی۔

‘[ صحیح مسلم :2867 []
اور خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اللہ تعالی نے اِس بات کی تعلیم دی کہ
((یَامُحَمَّدُ!إِذَا صَلَّیْتَ فَقُلْ: اَللّٰہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ وَتَرْکَ الْمُنْکَرَاتِ، وَحُبَّ الْمَسَاکِیْنَ،وَإِذَا أَرَدتَّ بِعِبَادِکَ فِتْنَۃً فَاقْبِضْنِی إِلَیْکَ غَیْرَ مَفْتُون)) [جامع الترمذی :3233،3234۔وصححہ الألبانی []
’’اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! جب آپ نماز پڑھ لیں تو یہ دعا پڑھا کریں : اے اللہ ! میں تجھ سے نیکیاں کرنے اور برائیوں کو چھوڑنے اور مسکینوں سے محبت کا سوال کرتا ہوں۔اور جب تو اپنے بندوں کو فتنہ میں مبتلا کرنے کا ارادہ کرے تو مجھے اُس میں مبتلا کئے بغیر میری روح کوقبض کر لینا۔‘‘
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے فرمایا :
(( تَکُوْنُ فِتْنَۃٌ لَا یُنْجِیْ مِنْہَا إِلَّا دُعَائٌ کَدُعَائِ الْغَرِیْقِ )) [مصنف ابن ابی شیبۃ:7 /531]
’’ جب فتنہ واقع ہوتا ہے تو اس سے ایسی دعا نجات دلا سکتی ہے جیسی دعا پانی میں غرق ہونے والا کرتا ہے۔‘‘
2
۔عقیدۂ توحید پر ثابت قدم رہنا
فتنوں کے دور میں مسلمان کو عقیدۂ توحید پر ثابت قدمی اور مستقل مزاجی سے قائم رہنا چاہئے۔کیونکہ یہی
عقیدہ ہی مسلمان کو اِس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ اُس پر جو بھی آزمائش آتی ہے اور جو بھی فتنہ آتا ہے وہ اللہ تعالی کے حکم سے آتا ہے۔اور وہ اللہ تعالی کی قضاء وقدر کا حصہ ہے، جسے اس کو برداشت کرنا ہے اور اسے ہر حال میں راضی رہنا ہے اور ہر صورت میں اللہ ہی کی طرف رجوع کرنا ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿ مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ اِِلَّا بِاِِذْنِ اللّٰہِ وَمَنْ یُّؤمِنْ م بِاللّٰہِ یَہْدِ قَلْبَہُ وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ ﴾[ التغابن64 :11]
’’ جو مصیبت بھی آتی ہے وہ اللہ کے اذن سے ہی آتی ہے۔اور جو اللہ پر ایمان لائے تو اللہ اس کے دل کو ہدایت بخشتا ہے۔اور اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔‘‘
اِس آیت مبارکہ میں اگر ہم تھوڑا سا غور کریں تو اس میں سب سے پہلے اللہ تعالی نے اِس بات سے آگاہ کیا ہے کہ ہر آزمائش ومصیبت اللہ ہی کے حکم سے آتی ہے۔لہٰذا ایسی صورتحال میں اللہ ہی کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے کہ جس کے حکم سے آزمائش ومصیبت آتی ہے وہی اس سے بچانے اور اسے ٹالنے پر بھی قادر ہے۔اسی لئے اللہ تعالی نے اس کے بعد اسی بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ﴿ وَمَنْ یُّؤمِنْ م بِاللّٰہِ یَہْدِ قَلْبَہُ﴾ یعنی جس شخص کو اللہ تعالی پر یقین کامل ہوگا اس کے دل کی اللہ تعالی راہنمائی کردے گا، چنانچہ وہ جان لیتا ہے کہ اس پر آنے والی آزمائش ومصیبت اس سے چوک نہیں سکتی۔اور جو چیز اس سے چوک جانے والی ہے وہ اسے پہنچ نہیں سکتی۔یہی یقین راسخ اس کے دل کو مضبوط کرتا ہے اور وہ اللہ تعالی کی طرف سے آنے والی ہر آزمائش ومصیبت کو برداشت کرنے میں کامیاب ہوجاتاہے۔
3
۔کتاب اللہ اور سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مضبوطی سے تھامنا
کیونکہ جو شخص کتاب اللہ کی تلاوت کرتا ہے، اس کا مطالعہ کرتا ہے، اس میں تدبر اور غور وفکر کرتا ہے تو اللہ تعالی اسے ہدایت دیتا ہے، فتنوں میں اس کی راہنمائی کرتا ہے، اسے فتنوں کے اندھیروں سے نکال کر حق کی روشنی دکھاتا اور راہ ِ حق پر گامزن کرتا ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ قَدْ جَائَ کُم مِّنَ اللّٰہِ نُورٌ وَّکِتَابٌ مُّبِیْنٌ٭ یَہْدِیْ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہُ سُبُلَ
السَّلاَمِ وَیُخْرِجُہُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّورِ بِإِذْنِہِ وَیَہْدِیْہِمْ إِلَی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ﴾[ المائدۃ5 : 15۔

’’ تمھارے پاس اللہ کی طرف سے نور اور ( ایسی ) واضح کتاب آ چکی ہے جس کے ذریعے اللہ تعالی ان لوگوں کو سلامتی کی راہوں کی طرف ہدایت دیتا ہے جو اس کی رضا کی اتباع کرتے ہیں۔اور اپنے حکم سے اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاتا ہے۔اور صراط مستقیم کی طرف ان کی راہنمائی کرتا ہے۔‘‘
اور یہی معاملہ سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ہے، کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت میں ’ اختلاف کثیر ‘ واقع ہونے کی صورت میں اپنی سنت اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے طرز عمل پر سختی سے عمل کرنے کا حکم دیا ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
((عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الْمَہْدِیِّیْنَ الرَّاشِدِیْنَ، تَمَسَّکُوْا بِہَا وَعَضُّوْا عَلَیْہَا بِالنَّوَاجِذِ، وَإِیَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُوْرِ فَإِنَّ کُلَّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ، وَکُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ ))
’’ تم میری سنت کو لازم پکڑنا اور اسی طرح ہدایت یافتہ اور راہِ راست پر گامزن خلفاء کے طریقے پر ضرور عمل کرنا۔اس کو مضبوطی سے تھام لینا اور اسے قطعا نہ چھوڑنا۔اور تم دین میں نئے نئے کام ایجاد کرنے سے بچنا کیونکہ ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘ [سنن أبی داؤد :4607۔وصححہ الألبانی]
خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے طرز عمل کو اختیار کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ ان کے ادوار ِ خلافت میں بھی مختلف فتنوں نے سر اٹھایا، چنانچہ انھوں نے جس طرح ان کامقابلہ کیا اور جس طرح انھوں نے ان فتنوں کی آگ کو ٹھنڈا کیا اس سے یقینا آج کے فتنوں کا مقابلہ کرنے میں بھی بہت حد تک راہنمائی مل سکتی ہے۔
اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کیلئے جن دوچیزوں کو چھوڑا اور جن کو مضبوطی سے تھامنے پر اِس بات کی گارنٹی دی کہ یہ امت گمراہ نہیں ہوگی وہ کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں۔
رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر فرمایا تھا :
((فَاعْقِلُوْا أَیُّہَا النَّاسُ قَوْلِیْ، فَإِنِّیْ قَدْ بَلَّغْتُ،وَقَدْ تَرَکْتُ فِیْکُمْ مَّا لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدَہُ إِنْ تَمَسَّکْتُمْ بِہٖ : کِتَابَ اللّٰہِ وَسُنَّۃَ رَسُوْلِہٖ صلي اللّٰه عليه وسلم ))
’’ اے لوگو ! میری باتوں کو اچھی طرح سے سمجھ لو، میں نے یقینا اللہ کا دین آپ تک پہنچا دیا۔اور میں تم میں ایسی چیز چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ اگر تم نے اسے مضبوطی سے تھام لیا تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے اور وہ ہے : اللہ کی کتاب
اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت۔‘‘[[1] السنۃ للمروزی:68 من حدیث ابن عباس رضی اللّٰه عنہ]
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( تَرَکْتُ فِیْکُمْ شَیْئَیْنِ، لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدَہُمَا : کِتَابَ اللّٰہِ وَسُنَّتِیْ، وَلَنْ یَّتَفَرَّقَا حَتّٰی یَرِدَا عَلَیَّ الْحَوْضَ)) [صحیح الجامع :2937]
’’ میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں۔ان کے بعد ( یعنی اگر تم نے انھیں مضبوطی سے تھام لیا تو) کبھی گمراہ نہیں ہو گے۔ایک ہے کتاب اللہ ( قرآن مجید ) اور دوسری ہے میری سنت۔اور یہ دونوں کبھی جدا جدا نہیں ہو نگی یہاں تک کہ حوض پر میرے پاس آئیں گی۔‘‘
لہٰذا اِس دور کے مختلف فتنوں سے بچنے کیلئے سوائے اِس کے او ر کوئی چارہ نہیں کہ ہم کتاب اللہ اور سنت رسول ! کو مضبوطی سے تھام لیں اور انہی سے راہنمائی لیں اور انہی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائیں۔اور فرقہ وارانہ تعصب کو ترک کرکے اللہ کی رسی سے چمٹ جائیں۔
باری تعالی کا فرمان ہے : ﴿ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلاَ تَفَرَّقُوا وَاذْکُرُوا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْْکُمْ إِذْ کُنتُمْ أَعْدَائً فَأَلَّفَ بَیْْنَ قُلُوبِکُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِہِ إِخْوَانًا وَکُنتُمْ عَلَی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَکُم مِّنْہَا کَذَلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ آیَاتِہِ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُونَ ﴾ [ٓل عمران3 :103 []
’’تم سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقوں میں مت بٹو۔اور اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، پھر اس نے تمھارے دلوں میں الفت پیدا کردی اور تم اس کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے۔اور( یاد کرو جب ) تم جہنم کے گڑھے کے کنارے پر پہنچ چکے تھے تو اس نے تمھیں اس سے بچا لیا۔اسی طرح اللہ تعالی تمھارے لئے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔‘‘
اور جہاں تک مسلکی نزاعات واختلافات کا تعلق ہے تو تمام اہل علم پر فرض ہے کہ وہ انھیں ختم کرنے کیلئے صدق دل سے کتاب اللہ اور سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کریں اور ان کے سامنے اپنے آپ کو جھکا دیں اور پھر عوام الناس کی بھی اسی چیز کی طرف راہنمائی کریں۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿یَااَیُّھَاالَّذِیْنَ آمَنُوْا اَطِیْعُوْا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَاُوْلِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْیئٍ فَرُدُّوْہُ اِلیَ اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلًا ﴾[ النساء4: 59
’’
اے ایمان والو ! تم اللہ تعالی کا حکم مانو اور رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم مانو۔اور تم میں جو حکم والے ہیں ان کا بھی۔پھر اگر تمھارا کسی بات میں اختلاف ہوجائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹادو اگر تم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو۔یہی (تمھارے حق میں )بہتر ہے اور اس کا انجام بہت اچھاہے۔‘‘
4
۔دینی علم حاصل کرنا
فتنوں سے بچے کیلئے ضروری ہے کہ آپ دینی علم حاصل کریں، کیونکہ علم وہ نور ہے جو فتنوں کے تاریک راستوں کو روشن کرتا ہے۔جبکہ علم کے مقابلے میں جہالت وہ تاریکی ہے جو انسان کو تباہی کے گڑھے میں پھینک دیتی ہے۔والعیاذ باللہ
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْھُمْ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّھُوْا فِی الدِّیْنِ وَ لِیُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَیْھِمْ لَعَلَّھُمْ یَحْذَرُوْنَ ﴾[ التوبۃ9: 122]
’’ پھر ایسا کیوں نہ ہوا کہ ہر فرقہ میں سے کچھ لوگ دین میں سمجھ پیدا کرنے کیلئے نکلتے تاکہ جب وہ ان کی طرف واپس لوٹتے تو اپنے لوگوں کو ( برے انجام سے ) ڈراتے، اِس طرح شاید وہ ( برے کاموں سے ) بچے رہتے۔‘‘
آج کل جو نئے نئے فتنے سر اٹھا رہے ہیں اور جس طرح اسلامی تعلیمات کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے اور ہر آئے دن شکوک وشبہات پیدا کرکے نئی نسل کو دین سے بیزار کرنے کی مذموم کوششیں کی جارہی ہیں، تو ان سب چیزوں کا مقابلہ قرآن وحدیث پر مبنی شرعی علم کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے۔
٭ ’ شرعی علم ‘ ایک مضبوط ہتھیار ہے جو ان جدید فتنوں سے بچنے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے۔
٭ اور ’ شرعی علم ‘ بہت بڑی خیر ہے جو اللہ رب العزت اپنے فضل وکرم سے جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿یُّؤتِی الْحِکْمَۃَ مَنْ یَّشَآئُ وَ مَنْ یُّؤتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا﴾ [آل عمران3 :269]
’’ وہ جس کو چاہتا ہے حکمت ( علم وفہم ) عطا کرتا ہے۔اور جسے حکمت ( علم وفہم) دے دیا گیا تو گویا اسے بہت بڑی خیر وبھلائی مل گئی۔‘‘
لہٰذا تمام مسلمانوں کو ’شرعی علم ‘ کی طرف متوجہ ہونا چاہئے۔خود بھی شریعت کا بنیادی علم حاصل کریں اور اپنے تمام بچوں کو بھی اِس علم کے زیور سے آراستہ کریں۔اِس طرح وہ خود بھی جدید فتنوں سے بچیں گے اور نئی نسل بھی ان سے محفوظ رہے گی۔
یہاں ایک بات انتہائی اہمیت کی حامل ہے اور وہ یہ ہے کہ ’شرعی علم ‘ شرعی علماء سے ہی حاصل کرنا چاہئے جن کے پاس قرآن وحدیث کا علم ہے، نہ کہ ان لوگوں سے کہ جو کل تک سنگر ( گانا گاتے ) تھے اور آج ’سکالر ‘ بن کر ٹی وی کی سکرین پر ’ مفتی ‘ یا ’ مبلغ ‘ بنے بیٹھے ہیں۔اور نہ ہی اُن نام نہاد
مفتیان‘ سے کہ جو قرآن مجیدکی ایک آیت بھی صحیح طریقے سے نہیں پڑھ سکتے ہیں اور نہ ہی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انھیں کوئی علم ہے۔اور نہ ہی ایسے لوگوں سے کہ جو سنی سنائی باتیں کرتے ہیں اور سوشل میڈیا پر گردش کرتی ہوئی جھوٹی اور من گھڑت روایات بیان کرتے ہیں۔
ایسے ہی لوگوں کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا :
(( إِنَّ اللّٰہَ لَا یَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا یَنْتَزِعُہُ مِنَ الْعِبَادِ، وَلٰکِن یَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَائِ، حَتّٰی إِذَا لَمْ یُبْقِ عَالِمًا، اِتَّخَذَ النَّاسُ رُؤُسًا جُہَّالًا،فَسُئِلُوْا فَأَفْتَوْا بِغَیْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوْا وَأَضَلُّوْا)) صحیح البخاری : 100، صحیح مسلم :2673 []
’’ اللہ تعالی علم کو اِس طرح نہیں اٹھائے گا کہ اسے بندوں (کے دلوں) سے کھینچ لے، بلکہ وہ علماء کی ارواح کو قبض کرکے علم کو اٹھائے گا۔یہاں تک کہ جب کسی عالم کو باقی نہیں چھوڑے گا تو لوگ جاہلوں کو مفتی بنا لیں گے۔چنانچہ ان سے سوال کیا جائے گا تو وہ بغیر علم کے فتوی دیں گے، اِس طرح وہ خود بھی گمراہ ہونگے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔‘‘
بعض لوگ علمائے کرام کو حقیر سمجھتے ہیں اور ان کی طرف رجوع کرنا اپنی توہین تصور کرتے ہیں۔جبکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ((لَیْسَ مِنْ أُمَّتِیْ مَن لَّمْ یُجِلَّ کَبِیْرَنَا وَیَرْحَمْ صَغِیْرَنَا، وَیَعْرِفْ لِعَالِمِنَا حَقَّہُ)) [مسند أحمد :22807۔وحسنہ الألبانی فی صحیح الترغیب والترہیب :101]11:58 AM

’’ وہ شخص میری امت میں سے نہیں جو ہمارے بڑے ( بزرگوں ) کا احترام نہ کرے اور ہمارے چھوٹے (بچوں ) پر ترس نہ کھائے اور اور ہمارے عالم کے حق کو نہ پہچانے۔‘‘
اسی طرح ایک اور بات کی تنبیہ بھی انتہائی ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ آج کل بہت سارے لوگ ’ گُوگل ‘ کے ذریعے علم حاصل کرتے ہیں ! حالانکہ ’ گُوگل ‘ صحیح علم کی طرف بھی راہنمائی کرتاہے اور غلط کی طرف بھی۔حق کی طرف بھی اور باطل کی طرف بھی۔لہٰذا ’گُوگل ‘ کے ذریعے علم حاصل کرنے والوں سے گزارش ہے کہ وہ علم
کے حصول کیلئے ’گُوگل ‘ سے مدد ضرور لیں، لیکن علم صرف اُن ویب سائٹس سے لیں جن کا منہج بالکل واضح ہے اور ان میں قرآن وحدیث پر مبنی شرعی علم پایا جاتا ہے۔اور اُن ویب سائٹس سے اجتناب کریں جن کا منہج واضح نہیں ہے اور ان میں ہر رطب ویابس کو جمع کیا گیا ہے اور صحیح اور غلط میں فرق نہیں کیا گیا۔
5
۔مسلمانوں کی جماعت میں شامل رہنا اور تفرق سے اجتناب کرنا
کیونکہ ’ جماعت ‘ پر اللہ کا ہاتھ ہوتا ہے، جبکہ جماعت سے الگ ہونے والا شخص شیطان کا شکار ہوجاتا ہے۔جیسا کہ بھیڑیا اُس بکری کو شکار کرتا ہے جو ریوڑ سے الگ ہوجاتی ہے۔
حضرت حذیفۃ بن یمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ لوگ عام طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کے بارے میں سوال کرتے تھے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شر کے متعلق سوال کرتا تھا کیونکہ مجھے اس بات کا اندیشہ رہتا تھا کہ کہیں میں شر میں مبتلا نہ ہو جاؤں۔
چنانچہ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! ہم جاہلیت اور شر میں تھے کہ اللہ تعالی نے ہمیں اس خیر (اسلام ) سے مشرف کیا، تو کیا اس خیر کے بعد بھی کوئی شر آئے گا ؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں۔
میں نے پوچھا : کیا اس شر کے بعد بھی کوئی خیر آئے گی ؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں اور اس میں کدورت ہو گی۔
میں نے کہا : کدورت سے کیا مراد ہے ؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( قَوْمٌ یَسْتَنُّوْنَ بِغَیْرِ سُنَّتِیْ، وَیَہْدُوْنَ بِغَیْرِ ہَدْیِیْ، تَعْرِفُ مِنْہُمْ وَتُنْکِرُ ))
’’ایسے لوگ آئیں گے جو میرے طریقے کو چھوڑ کر دوسرے طریقے پر چلیں گے اور میری سیرت کو چھوڑ کر کسی اور کی سیرت سے راہنمائی لیں گے۔تمھیں اُن کی بعض باتیں اچھی لگیں گی اور بعض بری لگیں گی۔‘‘
میں نے پوچھا : کیا اس خیر کے بعد بھی کوئی شر آئے گا ؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( نَعَمْ،دُعَاۃٌ إِلٰی أَبْوَابِ جَہَنَّمَ،مَنْ أَجَابَہُمْ إِلَیْہَا قَذَفُوْہُ فِیْہَا ))
’’
ہاں کچھ داعی ایسے آئیں گے جو جہنم کے دروازوں کی طرف بلائیں گے، جو بھی ان کی دعوت کوقبول کرے گا وہ اس کو اس میں گرا دیں گے۔‘‘
میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! ان کی صفات بیان فرمائیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( ہُمْ مِنْ جِلْدَتِنَا وَیَتَکَلَّمُوْنَ بِأَلْسِنَتِنَا ))
’’وہ لوگ ہم میں سے ہی ہونگے اور ہماری ہی زبان میں بات کریں گے۔‘‘
میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! اگر وہ زمانہ مجھ پر آ گیا تو آپ مجھے کیا مشورہ دیتے ہیں ؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( تَلْزَمُ جَمَاعَۃَ الْمُسْلِمِیْنَ وَإِمَامَہُمْ ))
’’تم ہر حال میں مسلمانوں کی جماعت اور ان کے حکمران سے وابستہ رہنا۔‘‘
میں نے کہا: اگر مسلمانوں کی جماعت اور ان کا حکمران نہ ہو تو ؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((فَاعْتَزِلْ تِلْکَ الْفِرَقَ کُلَّہَا، وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ عَلٰی أَصْلِ شَجَرَۃٍ، حَتّٰی یُدْرِکَکَ الْمَوْتُ وَأَنْتَ عَلٰی ذٰلِکَ)) [صحیح البخاری :3606، صحیح مسلم :1847 واللفظ لہ]
’’ پھر تم ان تمام فرقوں کو چھوڑ دینا خواہ تمھیں درخت کی جڑیں کیوں نہ چبانا پڑیں، یہاں تک کہ تجھ پر اسی حالت میں موت آ جائے۔‘‘
اور جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
((ثَلَاثٌ لَا یَغِلُّ عَلَیْہِنَّ قَلْبُ مُؤْمِنٍ : إِخْلَاصُ الْعَمَلِ لِلّٰہِ،وَالنَّصِیْحَۃُ لِوُلَاۃِ الْمُسْلِمِیْنَ،وَلُزُوْمُ جَمَاعَتِہِمْ، فَإِنَّ دَعْوَتَہُمْ تُحِیْطُ مِنْ وَّرَائِہِم)) [سنن ابن ماجہ :3056 وصححہ الألبانی
’’ تین چیزیں ایسی ہیں کہ جن کی موجودگی میں مومن کے دل میں کینہ داخل نہیں ہوتا۔اللہ کیلئے عمل خالص کرنا، مسلمانوں کے سربراہوں سے خیرخواہی کرنااور ان کی جماعت میں بہر حال شامل رہنا۔کیونکہ ان کی دعوت ان سب کو محیط ہوتی ہے۔‘‘ (جیسے ایک دیوار ان کا احاطہ کرتی ہے اسی طرح ان کی دعوت’ جو کہ دعوتِ اسلام ہے ‘ بھی ان سب کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور انھیں فرقہ بندی سے محفوظ رکھتی ہے۔اس لئے ان کی جماعت کے ساتھ مل کر رہنا اشد ضروری ہے۔)

اور مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہونا کس قدر خطرناک ہے ! اِس کا اندازہ آپ اس حدیث سے کرسکتے ہیں جس کے راوی عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ہیں، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
((مَنْ رَأَی مِنْ أَمِیْرِہٖ شَیْئًا یَکْرَہُہُ فَلْیَصْبِرْ، فَإِنَّہُ مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَۃَ شِبْرًا، فَمَاتَ، فَمِیْتَۃُ     جَاہِلِیَّۃٍ)) صحیح مسلم:)
’’
جو شخص اپنے حکمران سے کوئی ایسی چیز دیکھے جسے وہ نا پسند کرتا ہو تو اسے صبر کرنا چاہئے، کیونکہ جو آدمی جماعت سے بالشت بھر الگ ہو اور اسی حالت میں اس کی موت آ جائے تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی  ۔

 


جمعرات، 24 نومبر، 2022

فتنوں کے دور میں مسلمان کا کردار

اَلحَمدُ لِلّٰہِ نَحمَدُہ، وَنَستَعِینُہ، وَنَستَغفِرُہ، وَنَعُوذُبِاﷲِ مِن شُرُورِ اَنفُسِنَاوَمِن سَیِّئَآتِ اَعمَالِنَا مَن یَھدِہِ اﷲُ فَلَا مُضِلَّ لَہ، وَمَن یُضلِل فَلَا ھَادِیَ لَہ، وَاَشھَدُ اَن لَّا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وَحدَہ، لَا شَرِیکَ لَہ، وَاَشھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبدُہ، وَرَسُولُہٗ ۔ أما بعد  

: اِنَّ اَصدَقَ الحَدِیثِ کِتَابُ اﷲِ وَاِنَّّ اَفضَلَ الھَدیِ ھَدیُ مُحَمَّدٍ وَّ شَرُّ الْامُورِ مُحدَثَاتُھَا وَ کُلُّ مُحدَثَۃٍ بِدعَۃٌ وَ کُلُّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّارِ۔ ‘ فقد قال اللہ تعالی فی کتابہ الکریم:

فتنوں کے دور میں مسلمان کا کردار

محترم حضرات ! دنیا کی زندگی میں خیر اور شر دونوں موجود ہیں۔اللہ رب العزت خیر کے ساتھ بھی انسان کو آزماتا ہے اور شر کے ساتھ بھی۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿ وَ نَبْلُوْکُمْ بِالشَّرِّ وَ الْخَیْرِ فِتْنَۃً وَ اِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ ﴾[ الأنبیاء :۳۵]

’’ اور ہم امتحان کے طور پر تمھیں شر اور خیر دونوں کے ساتھ آزماتے ہیں۔اور تم سب آخر کار ہماری طرف ہی لوٹائے جاؤ گے۔‘‘

لغت میں فتنہ کی تعریف :

ازھری رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ : کلام عرب میں فتنہ کے جمیع معنی : ابتلاء ، امتحان ،کے ہیں ، اور اس کا اصل یہ ہے جیسا کہ آپ کہیں فتنت الفضۃ والذھب ، یعنی میں نے سونے اورچاندی کوآگ میں پگلایا تا کہ ردی اوراچھے کی تمیزہوسکے ۔

یعنی کبھی ہم مصائب وآلام کے ذریعے تمھیں آزماتے ہیں اور کبھی خوشحالی کے ذریعے۔

اور کبھی مختلف بیماریوں کے ذریعے آزماتے ہیں اور کبھی صحت وتندرستی کے ذریعے۔

اور کبھی فقر وفاقہ کے ذریعے آزماتے ہیں اور کبھی زیادہ مال دے کرتمھیں آزمائش میں مبتلا کرتے ہیں۔

الغرض یہ ہے کہ کبھی اچھے حالات کے ذریعے آزماتے ہیں اور کبھی برے حالات کے ذریعے، تاکہ ہم یہ جان لیں کہ کون اللہ تعالی کا ہر حال میں شکر ادا کرتا ہے اور کون ناشکری کرتا ہے۔اور کون صبر کرتا ہے اور کون بے صبری کا مظاہرہ کرتا ہے۔

اِس آیت مبارکہ سے ثابت ہوا کہ اہل ِ ایمان کو دنیا میں فتنوں سے دوچارہونا ہی ہونا ہے۔اور انھیں مختلف آزمائشوں سے گزرنا ہی گزرنا ہے۔

اور فتنوں کی کئی انواع واقسام ہیں :

٭ بعض فتنے مال کی وجہ سے اور بعض اولاد کی وجہ سے ہوتے ہیں۔اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿ اِِنَّمَآ اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ وَاللّٰہُ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌ عَظِیْمٌ ﴾[ التغابن 64:15]

’’بلا شبہ تمھارے مال اور تمھاری اولاد فتنہ ہیں۔اور اللہ ہی ہے جس کے ہاں بڑا اجر ہے۔‘‘

مال اور اولاد اس طرح فتنہ ہیں کہ بسا اوقات انسان اپنے مال اور اپنی اولاد کی وجہ سے دین سے غافل ہوجاتا ہے۔

جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿سَیَقُوْلُ لَکَ الْمُخَلَّفُوْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ شَغَلَتْنَآ اَمْوَالُنَا وَاَہْلُوْنَا فَاسْتَغْفِرْ لَنَا یَقُوْلُوْنَ بِاَلْسِنَتِہِمْ مَّا لَیْسَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ ﴾[ الفتح48 :11]

’’ دیہاتیوں میں سے جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے وہ اب آپ سے کہیں گے کہ ہمیں ہمارے مالوں اور گھروالوں نے مشغول کر رکھا تھا، لہٰذا آپ ہمارے لئے بخشش مانگئے۔وہ اپنی زبانوں سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتی۔‘‘

ان لوگوں کو ان کے مالوں اور ان کی اولاد نے جہاد فی سبیل اللہ سے غافل کردیا تھا۔اِس طرح ان کے مال اور ان کے بچے ان کیلئے فتنہ بن گئے۔

٭ اسی طرح فتنوں میں سے ایک فتنہ شہوات کا فتنہ ہے، جن کی محبت انسانوں کے دلوں میں مزین کر دی گئی ہے۔چاہے عورتوں کی شہوت ہو، یا اولاد واحفاد کی شہوت ہو، یا مال ومنال کی شہوت ہو۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّھَوٰتِ مِنَ النِّسَآئِ وَالْبَنِیْنَ وَ الْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَۃِ مِنَ الذَّھَبِ وَ الْفِضَّۃِ وَ الْخَیْلِ الْمَسَوَّمَۃِ وَ الْاَنَعَامِ وَ الْحَرْثِ ﴾

’’ لوگوں کیلئے عورتوں، بیٹوں، سونا اور چاندی کے جمع کردہ خزانوں، عمدہ قسم کے گھوڑوں اور مویشیوں اور کھیتوں کی شہوات کی محبت مزین کردی گئی ہے۔‘‘

پھر ان ساری چیزوں کے بارے میں فرمایا :

﴿ذٰلِکَ مَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ اللّٰہُ عَنْدَہٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ ﴾[ آل عمران3 :14]

’’ یہ سب کچھ دنیوی زندگی کا سامان ہے۔اور بہتر ٹھکانا اللہ ہی کے پاس ہے۔‘‘

٭ اسی طرح فتنوں میں سے ایک فتنہ شبہات کا فتنہ ہے۔شبہات بعض نادانوں کی طرف سے پیدا کئے جاتے ہیں۔اور یہ وہ لوگ ہیں جن کی نیتوں میں فتور اور ان کے ارادوں میں فساد ہوتا ہے۔چنانچہ وہ حق وباطل کی آمیزش کرکے عمدا وقصدا حق بات کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے متعلق مختلف شکوک وشبہات پیدا کرتے ہیں۔ایسے لوگ چرب لسانی اور لفاظی سے کام لیتے ہوئے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے ماہر ہوتے ہیں اور اپنے موقف کو منوانے کیلئے بحث ومناظرہ اور جدال سے بھی باز نہیں آتے۔

٭ اسی طرح اِس دور کا ایک بہت بڑا فتنہ میڈیا کا ہے۔چاہے الیکٹرانک میڈیا ہو، یا پرنٹ میڈیا ہو، یا سوشل میڈیا ہو۔اِس میڈیا نے ایسا انقلاب برپا کردیا ہے کہ اب پوری دنیا آپ کے ہاتھ میں، آپ کی آنکھوں کے سامنے آگئی ہے۔آپ جو چاہیں، جب چاہیں اور جہاں چاہیں ہر چیز سن بھی سکتے ہیں اور دیکھ بھی سکتے ہیں۔چنانچہ اس میڈیا کے ذریعے عریانی، بے شرمی، بے غیرتی اور بے حیائی کا ایسا طوفان آگیا ہے کہ اللہ کی پناہ ! اب کسی بات کا پردہ نہیں رہا۔ہر چیز ہر شخص کیلئے، چاہے کوئی چھوٹا ہو یا بڑا، مرد ہو یا عورت، سب کے لیے اوپن ہے۔

صورتحال اب اس قسم کی ہے کہ کسی بات کا پردہ باقی نہیں رہا اور ہر چیز اور ہر بات ہر ایک کیلئے پورے طور پر اوپن ( open ) ہو چکی ہے، چاہے کوئی بڑا ہو یا چھوٹا ہو، مرد ہو یا عورت ہو۔

٭ اسی طرح فتنوں میں سے ایک بہت بڑا فتنہ بہت سے اسلامی ملکوں میں بد امنی کا فتنہ ہے کہ جہاں نہ عزتیں محفوظ ہیں، نہ جانیں محفوظ ہیں اور نہ ہی مال محفوظ ہیں۔

جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: (( َیَتَقَارَبُ الزَّمَانُ، وَیُقْبَضُ الْعِلْمُ، وَتَظْہَرُ الْفِتَنُ، وَیُلْقَی الشُّحُّ، وَیَکْثُرُ الْہَرْجُ……الْقَتْلُ)) [صحیح البخاری :الفتن :7061،صحیح مسلم : 157 واللفظ لہ]

’’ وقت متقارب ہو جائے گا، علم اٹھالیا جائے گا ( یعنی علم صرف نام کا رہ جائے گااور اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔بخاری کی روایت میں ہے : وَیَنْقُصُ الْعَمَلُ۔یعنی عمل کم ہوجائے گا۔) فتنوں کا ظہور ہو گا۔اور (لوگوں کے دلوں میں ) لالچ ڈال دیا جائے گا۔اور قتل عام ہو جائے گا۔‘‘

وقت کے تقارب سے مراد یہ ہے کہ لوگوں میں بگاڑ جلدی پھیلنے لگے گا۔مثلا جس بگاڑ اور خرابی کے پھیلنے میں پہلے ایک سال یا ایک ماہ لگتا تھا قیامت کے قریب وہ خرابی بہت کم مدت میں پھیل جائے گی۔جیساکہ آج کل کے میڈیا کے ذریعے ہو رہا ہے۔چنانچہ ایک ایک خبر، ایک ایک وڈیو کلپ، ایک ایک آڈیو کلپ، ایک ایک پکچر

…… ہر ہر چیز  پل بھر میں پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے۔اِس کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وقت تنگ ہو جائے گا اور اس کی برکت ختم ہو جائے گی۔

٭ اسی طرح فتنوں میں سے ایک بہت بڑا فتنہ مسلمانوں کی فرقہ واریت اور گروہ بندی کا فتنہ ہے، جس نے امت کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے اس کی بنیادوں کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے۔وہ امت جس کا رب ایک، جس کا نبی ایک، جس کا قبلہ ایک، جس کی شریعت ایک……آج وہ امت متعدد فرقوں میں بٹ چکی ہے۔اور ہر فرقہ ﴿کُلُّ حِزْبٍ م بِمَا لَدَیْہِمْ فَرِحُوْنَ﴾ کا مصداق بنا ہوا ہے۔یعنی ہرگروہ کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی میں مگن ہے۔اور عامۃ الناس حیران وپریشان ہیں کہ وہ کس گروہ میں شامل ہوں اور کس میں شامل نہ ہوں ! وہ نہیں جانتے کہ کس گروہ کا منہج صحیح اور کس کا غلط ہے ! کونسا گروہ حق پر ہے اور کونسا باطل پر !

٭ اسی طرح بعض فتنے ایسے ہیں جن کے بارے میں خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں ہی خبردار کردیا تھا کہ میری امت میں انتہائی سنگین اور خطرناک فتنے واقع ہونگے، جن میں لوگ اپنے ایمان پر ثابت قدم نہیں رہ سکیں گے۔مثلا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( بَادِرُوْا بِالْأَعْمَالِ فِتَنًا کَقِطَعِ اللَّیْلِ الْمُظْلِمِ، یُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَیُمْسِیْ کَافِرًا، أَوْیُمْسِیْ مُؤْمِنًا وَیُصْبِحُ کَافِرًا،یَبِیْعُ دِیْنَہُ بِعَرَضٍ مِّنَ الدُّنْیَا)) [صحیح البخاری : 7069]

’’ تم اُن فتنوں سے پہلے جلدی جلدی اعمال ِ صالحہ کر لو جو تاریک رات کے ٹکڑوں کی مانندہونگے۔اُن فتنوں کے دور میں ایک شخص صبح کے وقت مومن ہوگا تو شام کے وقت کافر۔اور شام کے وقت مومن ہوگا تو صبح کے وقت کافر۔وہ اپنے دین کو دنیا کے سامان کے بدلے بیچ ڈالے گا۔‘‘

اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو انتہائی گھبراہٹ کے عالم میں بیدار ہوئے اور آپ نے فرمایا :

(( سُبْحَانَ اللّٰہِ، مَاذَا أَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ الْخَزَائِنِ، وَمَاذَا أُنْزِلَ مِنَ الْفِتَنِ ! ))

’’ سبحان اللہ ! اللہ تعالی نے کتنے خزانے نازل کئے ہیں ! اور کتنے فتنے نازل کئے گئے ہیں ! ‘‘

اِس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنوں سے بچاؤ کیلئے فرمایا :

(( مَن یُّوْقِظُ صَوَاحِبَ الْحُجُرَاتِ۔یُرِیْدُ أَزْوَاجَہُ۔لِکَیْ یُصَلِّیْنَ، رُبَّ کَاسِیَۃٍ فِی الدُّنْیَا،عَارِیَۃٍ فِی الْآخِرَۃِ ))

’’ کون حُجروں والیوں ( یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں ) کو جگائے گا تاکہ وہ نماز پڑھ لیں، دنیا میں لباس پہننے والی کئی عورتیں آخرت میں برہنہ ہونگی ! ‘‘[صحیح البخاری : 7069]

اِس حدیث سے یہ بھی معلوم ہواکہ عبادت کے ذریعے انسان فتنوں کے شر سے اللہ تعالی کی پناہ میں آسکتا ہے۔

٭ خصوصا قیامت سے پہلے ایسے فتنے واقع ہونگے کہ جو گرمی کے موسم میں چلنے والے ہوا کے تیز جھکڑ کی طرح آئیں گے اور وقت کے ساتھ ساتھ پوری دنیا پر چھا جائیں گے۔اور اُن میں سے بعض فتنے ایسے ہوں گے جو سمندر کی موجوں کی طرح ٹھاٹھیں مارتے ہوئے آئیں گے اور ہر چیز کو بہا لے جائیں گے۔اُن فتنوں کے دور میں حق وباطل کا اختلاط اِس انداز سے ہوگا کہ کسی کو پتہ نہیں چلے گا کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے ! اُن میں دلوں کو بری طرح جھنجھوڑ ا جائے گا، وہ تاریک رات کے ٹکڑوں کی طرح آئیں گے جن میں کچھ دکھائی نہیں دیتا۔چنانچہ اِس طرح کے فتنوں میں ایک شخص صبح کے وقت مومن ہوگا تو شام تک کافر ہو جائے گا۔اور اگر شام کے وقت مومن ہوگا تو صبح تک کافر ہوجائے گا۔والعیاذ باللہ

اور قیامت سے پہلے آنے والے سنگین فتنے پے درپے آئیں گے، جو فتنہ بعد میں آئے گا وہ پہلے آنے والے فتنے سے کہیں زیادہ سنگین ہوگا۔

٭ یاد رہے کہ بعض فتنے ایسے ہوتے ہیں کہ جن میں اللہ تعالی اہل ایمان کی آزمائش کرنا چاہتا ہے کہ کیا یہ ایمان پر ثابت قدم رہتے ہیں یا ایمان کو چھوڑ کر کفر کی طرف پلٹ جاتے ہیں۔

اللہ تعالی فرماتا ہے : ﴿ اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَ ھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ ٭ وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ ﴾[ العنکبوت29 :2۔3]

’’ کیا لوگوں نے یہ گمان کر لیا ہے کہ اگر انھوں نے یہ کہہ دیا کہ ’ہم ایمان لائے ‘تو انھیں چھوڑ دیا جائے گا اور ان کی آزمائش نہ ہوگی ؟ حالانکہ ہم نے ان لوگوں کو بھی آزمایا تھا جو ان سے پہلے تھے۔اللہ ضرور یہ معلوم کرنا چاہتا ہے کہ ان میں سے سچے کون ہیں اور جھوٹے کون۔‘‘

اور اگر ہم اِس امت کے اولین لوگوں کے حالات کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ انھیں اِس طرح کی کڑی آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔حتی کہ خباب بن ارت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔اُس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے سائے میں ایک چادر پہ تکیہ لگائے بیٹھے تھے۔اُس

زمانے میں ہم مشرکوں کی طرف سے سخت ترین تکلیفیں اٹھا رہے تھے۔میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا :

آپ اللہ تعالی سے دعا کیوں نہیں کرتے ؟

یہ سنتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تکیہ چھوڑ کر سیدھے بیٹھے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ ( غصے سے ) سرخ ہوگیا۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( لَقَدْ کَانَ مَنْ قَبْلَکُمْ لَیُمْشَطُ بِمِشَاطِ الْحَدِیْدِ مَا دُوْنَ عِظَامِہٖ مِنْ لَحْمٍ أَوْ عَصَبٍ، مَا یَصْرِفُہُ ذَلِکَ عَنْ دِیْنِہٖ، وَیُوْضَعُ الْمِنْشَارُ عَلٰی مَفْرِقِ رَأْسِہٖ، فَیُشَقُّ بِاثْنَیْنِ، مَا یَصْرِفُہُ ذَلِکَ عَنْ دِیْنِہٖ، وَلَیُتِمَّنَّ اللّٰہُ ہَذَا الْأَمْرَ حَتّٰی یَسِیْرَ الرَّاکِبُ مِنْ صَنْعَائَ إِلٰی حَضْرَمَوْتَ مَا یَخَافُ إِلَّا اللّٰہَ )) [صحیح البخاری :3852]

’’ تم سے پہلے ایسے لوگ گزر چکے ہیں کہ ایک شخص کے گوشت اور پٹھوں میں ہڈیوں تک لوہے کی کنگھیاں چلائی جاتی تھیں۔مگر یہ آزمائش اسے اس کے دین سے نہیں پھیرتی تھی۔اور ایک شخص کے سر کی چوٹی پر آری رکھی جاتی تھی، پھر اسے دو ٹکڑوں میں چیر دیا جاتا تھا، مگر یہ آزمائش بھی اسے اس کے دین سے نہیں پھیرتی تھی۔اور اللہ تعالی یقینا اِس امر کو پورا کرکے رہے گا، یہاں تک کہ ایک سوار صنعاء سے حضرموت کی طرف اکیلا سفر کرے گا اور اسے اللہ کے سوا کسی کا خوف نہیں ہوگا۔‘‘

اِس سلسلے میں متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے واقعات مشہور ومعروف ہیں۔

عزیزان گرامی !

ہم نے اب تک متعدد فتنوں کا تذکرہ کیا ہے، ان میں سے بعض ایسے ہیں جو موجود دور میں پائے جاتے ہیں۔اور بعض ایسے ہیں جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کے مطابق قیامت سے پہلے آئیں گے۔

ہمیں بحیثیت مسلمان ان فتنوں کی سنگینی کا احساس کرنا چاہئے، کیونکہ جب کوئی فتنہ آتا ہے تو وہ نیک اور بد میں فرق نہیں کرتا، بلکہ سب لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔( إلا من رحم ربنا ) پھر قیامت کے دن سب کو ان کی نیتوں پر اٹھایا جائے گا۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿ وَ اتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَّۃً وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ﴾[ الأنفال8 :25]

’’ اور تم لوگ اس فتنے سے ڈرتے رہو جس کا اثر تم میں سے صرف ظالموں تک ہی محدود نہیں رہے گا ( بلکہ سب کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔)اور جان لو کہ اللہ کا عذاب بڑا سخت ہوتا ہے۔‘‘

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو فتنوں سے ڈرایا۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگاہ فرمایا کہ ایک وقت آئے گا جب ایک مسلمان اپنے دین کو فتنوں سے بچانے کی خاطر پہاڑوں کی چوٹیوں پر جا کر زندگی گزارنا پسند کرے گا۔

حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( یُوْشِکُ أَن یَّکُوْنَ خَیْرَ مَالِ الْمُسْلِمِ غَنَمٌ یَتْبَعُ بِہَا شَعَفَ الْجِبَالِ وَمَوَاقِعَ الْقَطْرِ، یَفِرُّ بِدِیْنِہٖ مِنَ الْفِتَنِ ))

 [صحیح البخاری : باب من الدین الفرار من الفتن:19]

’’ عنقریب مسلمان کا بہترین مال بکریوں کی صورت میں ہوگا، جنھیں لے کر وہ پہاڑوں کی چوٹیوں اور بارش کے نازل ہونے کی جگہوں پر چلا جائے گا، وہ فتنوں سے بچنے کی خاطر اپنے دین کے ساتھ راہِ فرار اختیار کرے گا۔‘‘

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( سَتَکُوْنُ فِتَنٌ، اَلْقَاعِدُ فِیْہَا خَیْرٌ مِنَ الْقَائِمِ، وَالْقَائِمُ فِیْہَا خَیْرٌ مِنَ الْمَاشِیْ، وَالْمَاشِیْ فِیْہَا خَیْرٌ مِنَ السَّاعِیْ، وَمَن یُّشْرِفْ لَہَا تَسْتَشْرِفْہُ، وَمَن وَّجَدَ مَلْجَأً أَوْ مَعَاذًا فَلْیَعُذْ بِہٖ)) [صحیح البخاری:3601، صحیح مسلم :2886]

’’ عنقریب فتنے ہوں گے۔جن میں بیٹھنے والا شخص کھڑے ہونے والے شخص سے بہتر ہوگا۔اور کھڑا ہوا شخص چلنے والے سے بہتر ہوگا۔اور چلنے والا شخص دوڑنے والے شخص سے بہتر ہوگا۔( یعنی جو شخص جتنا ان فتنوں سے دامن بچائے گا اتنا ہی اس کیلئے بہتر ہوگا۔) اور جو شخص ان کی طرف جھانکے گا اور ان میں ملوث ہوگا، اسے وہ فتنے پچھاڑ دیں گے۔اور جسے کوئی پناہ گاہ مل جائے تو وہ ضرور اس میں پناہ لے لے۔‘‘

لہٰذا ہم سب کو ان فتنوں سے بچنے کی فکر کرنی چاہئے اور ان سے اپنے دین کو محفوظ رکھنے کی خاطر تدابیر اختیار کرنی چاہئیں تاکہ ہمارا دین سلامت رہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : (( إِنَّ السَّعِیْدَ لَمَنْ جُنِّبَ الْفِتَنَ،إِنَّ السَّعِیْدَ لَمَنْ جُنِّبَ الْفِتَنَ، إِنَّ السَّعِیْدَ لَمَنْ جُنِّبَ الْفِتَنَ،وَلَمَنِ ابْتُلِیَ فَصَبَرَ فَوَاہًا)) [سنن أبی داؤد : 4263 وصححہ الألبانی

’’ خوش نصیب ہے وہ شخص جسے فتنوں سے بچا لیا جائے۔خوش نصیب ہے وہ شخص جسے فتنوں سے بچا لیا جائے۔خوش نصیب ہے وہ شخص جسے فتنوں سے بچا لیا جائے۔اور جس شخص کو فتنوں میں مبتلا کیا گیا اُس پر انتہائی افسوس ہے۔‘‘