اپنی زبان منتخب کریں

جمعرات، 24 نومبر، 2022

فتنوں کے دور میں مسلمان کا کردار

اَلحَمدُ لِلّٰہِ نَحمَدُہ، وَنَستَعِینُہ، وَنَستَغفِرُہ، وَنَعُوذُبِاﷲِ مِن شُرُورِ اَنفُسِنَاوَمِن سَیِّئَآتِ اَعمَالِنَا مَن یَھدِہِ اﷲُ فَلَا مُضِلَّ لَہ، وَمَن یُضلِل فَلَا ھَادِیَ لَہ، وَاَشھَدُ اَن لَّا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وَحدَہ، لَا شَرِیکَ لَہ، وَاَشھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبدُہ، وَرَسُولُہٗ ۔ أما بعد  

: اِنَّ اَصدَقَ الحَدِیثِ کِتَابُ اﷲِ وَاِنَّّ اَفضَلَ الھَدیِ ھَدیُ مُحَمَّدٍ وَّ شَرُّ الْامُورِ مُحدَثَاتُھَا وَ کُلُّ مُحدَثَۃٍ بِدعَۃٌ وَ کُلُّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّارِ۔ ‘ فقد قال اللہ تعالی فی کتابہ الکریم:

فتنوں کے دور میں مسلمان کا کردار

محترم حضرات ! دنیا کی زندگی میں خیر اور شر دونوں موجود ہیں۔اللہ رب العزت خیر کے ساتھ بھی انسان کو آزماتا ہے اور شر کے ساتھ بھی۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿ وَ نَبْلُوْکُمْ بِالشَّرِّ وَ الْخَیْرِ فِتْنَۃً وَ اِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ ﴾[ الأنبیاء :۳۵]

’’ اور ہم امتحان کے طور پر تمھیں شر اور خیر دونوں کے ساتھ آزماتے ہیں۔اور تم سب آخر کار ہماری طرف ہی لوٹائے جاؤ گے۔‘‘

لغت میں فتنہ کی تعریف :

ازھری رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ : کلام عرب میں فتنہ کے جمیع معنی : ابتلاء ، امتحان ،کے ہیں ، اور اس کا اصل یہ ہے جیسا کہ آپ کہیں فتنت الفضۃ والذھب ، یعنی میں نے سونے اورچاندی کوآگ میں پگلایا تا کہ ردی اوراچھے کی تمیزہوسکے ۔

یعنی کبھی ہم مصائب وآلام کے ذریعے تمھیں آزماتے ہیں اور کبھی خوشحالی کے ذریعے۔

اور کبھی مختلف بیماریوں کے ذریعے آزماتے ہیں اور کبھی صحت وتندرستی کے ذریعے۔

اور کبھی فقر وفاقہ کے ذریعے آزماتے ہیں اور کبھی زیادہ مال دے کرتمھیں آزمائش میں مبتلا کرتے ہیں۔

الغرض یہ ہے کہ کبھی اچھے حالات کے ذریعے آزماتے ہیں اور کبھی برے حالات کے ذریعے، تاکہ ہم یہ جان لیں کہ کون اللہ تعالی کا ہر حال میں شکر ادا کرتا ہے اور کون ناشکری کرتا ہے۔اور کون صبر کرتا ہے اور کون بے صبری کا مظاہرہ کرتا ہے۔

اِس آیت مبارکہ سے ثابت ہوا کہ اہل ِ ایمان کو دنیا میں فتنوں سے دوچارہونا ہی ہونا ہے۔اور انھیں مختلف آزمائشوں سے گزرنا ہی گزرنا ہے۔

اور فتنوں کی کئی انواع واقسام ہیں :

٭ بعض فتنے مال کی وجہ سے اور بعض اولاد کی وجہ سے ہوتے ہیں۔اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿ اِِنَّمَآ اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ وَاللّٰہُ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌ عَظِیْمٌ ﴾[ التغابن 64:15]

’’بلا شبہ تمھارے مال اور تمھاری اولاد فتنہ ہیں۔اور اللہ ہی ہے جس کے ہاں بڑا اجر ہے۔‘‘

مال اور اولاد اس طرح فتنہ ہیں کہ بسا اوقات انسان اپنے مال اور اپنی اولاد کی وجہ سے دین سے غافل ہوجاتا ہے۔

جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿سَیَقُوْلُ لَکَ الْمُخَلَّفُوْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ شَغَلَتْنَآ اَمْوَالُنَا وَاَہْلُوْنَا فَاسْتَغْفِرْ لَنَا یَقُوْلُوْنَ بِاَلْسِنَتِہِمْ مَّا لَیْسَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ ﴾[ الفتح48 :11]

’’ دیہاتیوں میں سے جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے وہ اب آپ سے کہیں گے کہ ہمیں ہمارے مالوں اور گھروالوں نے مشغول کر رکھا تھا، لہٰذا آپ ہمارے لئے بخشش مانگئے۔وہ اپنی زبانوں سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتی۔‘‘

ان لوگوں کو ان کے مالوں اور ان کی اولاد نے جہاد فی سبیل اللہ سے غافل کردیا تھا۔اِس طرح ان کے مال اور ان کے بچے ان کیلئے فتنہ بن گئے۔

٭ اسی طرح فتنوں میں سے ایک فتنہ شہوات کا فتنہ ہے، جن کی محبت انسانوں کے دلوں میں مزین کر دی گئی ہے۔چاہے عورتوں کی شہوت ہو، یا اولاد واحفاد کی شہوت ہو، یا مال ومنال کی شہوت ہو۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّھَوٰتِ مِنَ النِّسَآئِ وَالْبَنِیْنَ وَ الْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَۃِ مِنَ الذَّھَبِ وَ الْفِضَّۃِ وَ الْخَیْلِ الْمَسَوَّمَۃِ وَ الْاَنَعَامِ وَ الْحَرْثِ ﴾

’’ لوگوں کیلئے عورتوں، بیٹوں، سونا اور چاندی کے جمع کردہ خزانوں، عمدہ قسم کے گھوڑوں اور مویشیوں اور کھیتوں کی شہوات کی محبت مزین کردی گئی ہے۔‘‘

پھر ان ساری چیزوں کے بارے میں فرمایا :

﴿ذٰلِکَ مَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ اللّٰہُ عَنْدَہٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ ﴾[ آل عمران3 :14]

’’ یہ سب کچھ دنیوی زندگی کا سامان ہے۔اور بہتر ٹھکانا اللہ ہی کے پاس ہے۔‘‘

٭ اسی طرح فتنوں میں سے ایک فتنہ شبہات کا فتنہ ہے۔شبہات بعض نادانوں کی طرف سے پیدا کئے جاتے ہیں۔اور یہ وہ لوگ ہیں جن کی نیتوں میں فتور اور ان کے ارادوں میں فساد ہوتا ہے۔چنانچہ وہ حق وباطل کی آمیزش کرکے عمدا وقصدا حق بات کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے متعلق مختلف شکوک وشبہات پیدا کرتے ہیں۔ایسے لوگ چرب لسانی اور لفاظی سے کام لیتے ہوئے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے ماہر ہوتے ہیں اور اپنے موقف کو منوانے کیلئے بحث ومناظرہ اور جدال سے بھی باز نہیں آتے۔

٭ اسی طرح اِس دور کا ایک بہت بڑا فتنہ میڈیا کا ہے۔چاہے الیکٹرانک میڈیا ہو، یا پرنٹ میڈیا ہو، یا سوشل میڈیا ہو۔اِس میڈیا نے ایسا انقلاب برپا کردیا ہے کہ اب پوری دنیا آپ کے ہاتھ میں، آپ کی آنکھوں کے سامنے آگئی ہے۔آپ جو چاہیں، جب چاہیں اور جہاں چاہیں ہر چیز سن بھی سکتے ہیں اور دیکھ بھی سکتے ہیں۔چنانچہ اس میڈیا کے ذریعے عریانی، بے شرمی، بے غیرتی اور بے حیائی کا ایسا طوفان آگیا ہے کہ اللہ کی پناہ ! اب کسی بات کا پردہ نہیں رہا۔ہر چیز ہر شخص کیلئے، چاہے کوئی چھوٹا ہو یا بڑا، مرد ہو یا عورت، سب کے لیے اوپن ہے۔

صورتحال اب اس قسم کی ہے کہ کسی بات کا پردہ باقی نہیں رہا اور ہر چیز اور ہر بات ہر ایک کیلئے پورے طور پر اوپن ( open ) ہو چکی ہے، چاہے کوئی بڑا ہو یا چھوٹا ہو، مرد ہو یا عورت ہو۔

٭ اسی طرح فتنوں میں سے ایک بہت بڑا فتنہ بہت سے اسلامی ملکوں میں بد امنی کا فتنہ ہے کہ جہاں نہ عزتیں محفوظ ہیں، نہ جانیں محفوظ ہیں اور نہ ہی مال محفوظ ہیں۔

جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: (( َیَتَقَارَبُ الزَّمَانُ، وَیُقْبَضُ الْعِلْمُ، وَتَظْہَرُ الْفِتَنُ، وَیُلْقَی الشُّحُّ، وَیَکْثُرُ الْہَرْجُ……الْقَتْلُ)) [صحیح البخاری :الفتن :7061،صحیح مسلم : 157 واللفظ لہ]

’’ وقت متقارب ہو جائے گا، علم اٹھالیا جائے گا ( یعنی علم صرف نام کا رہ جائے گااور اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔بخاری کی روایت میں ہے : وَیَنْقُصُ الْعَمَلُ۔یعنی عمل کم ہوجائے گا۔) فتنوں کا ظہور ہو گا۔اور (لوگوں کے دلوں میں ) لالچ ڈال دیا جائے گا۔اور قتل عام ہو جائے گا۔‘‘

وقت کے تقارب سے مراد یہ ہے کہ لوگوں میں بگاڑ جلدی پھیلنے لگے گا۔مثلا جس بگاڑ اور خرابی کے پھیلنے میں پہلے ایک سال یا ایک ماہ لگتا تھا قیامت کے قریب وہ خرابی بہت کم مدت میں پھیل جائے گی۔جیساکہ آج کل کے میڈیا کے ذریعے ہو رہا ہے۔چنانچہ ایک ایک خبر، ایک ایک وڈیو کلپ، ایک ایک آڈیو کلپ، ایک ایک پکچر

…… ہر ہر چیز  پل بھر میں پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے۔اِس کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وقت تنگ ہو جائے گا اور اس کی برکت ختم ہو جائے گی۔

٭ اسی طرح فتنوں میں سے ایک بہت بڑا فتنہ مسلمانوں کی فرقہ واریت اور گروہ بندی کا فتنہ ہے، جس نے امت کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے اس کی بنیادوں کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے۔وہ امت جس کا رب ایک، جس کا نبی ایک، جس کا قبلہ ایک، جس کی شریعت ایک……آج وہ امت متعدد فرقوں میں بٹ چکی ہے۔اور ہر فرقہ ﴿کُلُّ حِزْبٍ م بِمَا لَدَیْہِمْ فَرِحُوْنَ﴾ کا مصداق بنا ہوا ہے۔یعنی ہرگروہ کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی میں مگن ہے۔اور عامۃ الناس حیران وپریشان ہیں کہ وہ کس گروہ میں شامل ہوں اور کس میں شامل نہ ہوں ! وہ نہیں جانتے کہ کس گروہ کا منہج صحیح اور کس کا غلط ہے ! کونسا گروہ حق پر ہے اور کونسا باطل پر !

٭ اسی طرح بعض فتنے ایسے ہیں جن کے بارے میں خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں ہی خبردار کردیا تھا کہ میری امت میں انتہائی سنگین اور خطرناک فتنے واقع ہونگے، جن میں لوگ اپنے ایمان پر ثابت قدم نہیں رہ سکیں گے۔مثلا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( بَادِرُوْا بِالْأَعْمَالِ فِتَنًا کَقِطَعِ اللَّیْلِ الْمُظْلِمِ، یُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَیُمْسِیْ کَافِرًا، أَوْیُمْسِیْ مُؤْمِنًا وَیُصْبِحُ کَافِرًا،یَبِیْعُ دِیْنَہُ بِعَرَضٍ مِّنَ الدُّنْیَا)) [صحیح البخاری : 7069]

’’ تم اُن فتنوں سے پہلے جلدی جلدی اعمال ِ صالحہ کر لو جو تاریک رات کے ٹکڑوں کی مانندہونگے۔اُن فتنوں کے دور میں ایک شخص صبح کے وقت مومن ہوگا تو شام کے وقت کافر۔اور شام کے وقت مومن ہوگا تو صبح کے وقت کافر۔وہ اپنے دین کو دنیا کے سامان کے بدلے بیچ ڈالے گا۔‘‘

اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو انتہائی گھبراہٹ کے عالم میں بیدار ہوئے اور آپ نے فرمایا :

(( سُبْحَانَ اللّٰہِ، مَاذَا أَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ الْخَزَائِنِ، وَمَاذَا أُنْزِلَ مِنَ الْفِتَنِ ! ))

’’ سبحان اللہ ! اللہ تعالی نے کتنے خزانے نازل کئے ہیں ! اور کتنے فتنے نازل کئے گئے ہیں ! ‘‘

اِس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنوں سے بچاؤ کیلئے فرمایا :

(( مَن یُّوْقِظُ صَوَاحِبَ الْحُجُرَاتِ۔یُرِیْدُ أَزْوَاجَہُ۔لِکَیْ یُصَلِّیْنَ، رُبَّ کَاسِیَۃٍ فِی الدُّنْیَا،عَارِیَۃٍ فِی الْآخِرَۃِ ))

’’ کون حُجروں والیوں ( یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں ) کو جگائے گا تاکہ وہ نماز پڑھ لیں، دنیا میں لباس پہننے والی کئی عورتیں آخرت میں برہنہ ہونگی ! ‘‘[صحیح البخاری : 7069]

اِس حدیث سے یہ بھی معلوم ہواکہ عبادت کے ذریعے انسان فتنوں کے شر سے اللہ تعالی کی پناہ میں آسکتا ہے۔

٭ خصوصا قیامت سے پہلے ایسے فتنے واقع ہونگے کہ جو گرمی کے موسم میں چلنے والے ہوا کے تیز جھکڑ کی طرح آئیں گے اور وقت کے ساتھ ساتھ پوری دنیا پر چھا جائیں گے۔اور اُن میں سے بعض فتنے ایسے ہوں گے جو سمندر کی موجوں کی طرح ٹھاٹھیں مارتے ہوئے آئیں گے اور ہر چیز کو بہا لے جائیں گے۔اُن فتنوں کے دور میں حق وباطل کا اختلاط اِس انداز سے ہوگا کہ کسی کو پتہ نہیں چلے گا کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے ! اُن میں دلوں کو بری طرح جھنجھوڑ ا جائے گا، وہ تاریک رات کے ٹکڑوں کی طرح آئیں گے جن میں کچھ دکھائی نہیں دیتا۔چنانچہ اِس طرح کے فتنوں میں ایک شخص صبح کے وقت مومن ہوگا تو شام تک کافر ہو جائے گا۔اور اگر شام کے وقت مومن ہوگا تو صبح تک کافر ہوجائے گا۔والعیاذ باللہ

اور قیامت سے پہلے آنے والے سنگین فتنے پے درپے آئیں گے، جو فتنہ بعد میں آئے گا وہ پہلے آنے والے فتنے سے کہیں زیادہ سنگین ہوگا۔

٭ یاد رہے کہ بعض فتنے ایسے ہوتے ہیں کہ جن میں اللہ تعالی اہل ایمان کی آزمائش کرنا چاہتا ہے کہ کیا یہ ایمان پر ثابت قدم رہتے ہیں یا ایمان کو چھوڑ کر کفر کی طرف پلٹ جاتے ہیں۔

اللہ تعالی فرماتا ہے : ﴿ اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَ ھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ ٭ وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ ﴾[ العنکبوت29 :2۔3]

’’ کیا لوگوں نے یہ گمان کر لیا ہے کہ اگر انھوں نے یہ کہہ دیا کہ ’ہم ایمان لائے ‘تو انھیں چھوڑ دیا جائے گا اور ان کی آزمائش نہ ہوگی ؟ حالانکہ ہم نے ان لوگوں کو بھی آزمایا تھا جو ان سے پہلے تھے۔اللہ ضرور یہ معلوم کرنا چاہتا ہے کہ ان میں سے سچے کون ہیں اور جھوٹے کون۔‘‘

اور اگر ہم اِس امت کے اولین لوگوں کے حالات کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ انھیں اِس طرح کی کڑی آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔حتی کہ خباب بن ارت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔اُس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے سائے میں ایک چادر پہ تکیہ لگائے بیٹھے تھے۔اُس

زمانے میں ہم مشرکوں کی طرف سے سخت ترین تکلیفیں اٹھا رہے تھے۔میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا :

آپ اللہ تعالی سے دعا کیوں نہیں کرتے ؟

یہ سنتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تکیہ چھوڑ کر سیدھے بیٹھے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ ( غصے سے ) سرخ ہوگیا۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( لَقَدْ کَانَ مَنْ قَبْلَکُمْ لَیُمْشَطُ بِمِشَاطِ الْحَدِیْدِ مَا دُوْنَ عِظَامِہٖ مِنْ لَحْمٍ أَوْ عَصَبٍ، مَا یَصْرِفُہُ ذَلِکَ عَنْ دِیْنِہٖ، وَیُوْضَعُ الْمِنْشَارُ عَلٰی مَفْرِقِ رَأْسِہٖ، فَیُشَقُّ بِاثْنَیْنِ، مَا یَصْرِفُہُ ذَلِکَ عَنْ دِیْنِہٖ، وَلَیُتِمَّنَّ اللّٰہُ ہَذَا الْأَمْرَ حَتّٰی یَسِیْرَ الرَّاکِبُ مِنْ صَنْعَائَ إِلٰی حَضْرَمَوْتَ مَا یَخَافُ إِلَّا اللّٰہَ )) [صحیح البخاری :3852]

’’ تم سے پہلے ایسے لوگ گزر چکے ہیں کہ ایک شخص کے گوشت اور پٹھوں میں ہڈیوں تک لوہے کی کنگھیاں چلائی جاتی تھیں۔مگر یہ آزمائش اسے اس کے دین سے نہیں پھیرتی تھی۔اور ایک شخص کے سر کی چوٹی پر آری رکھی جاتی تھی، پھر اسے دو ٹکڑوں میں چیر دیا جاتا تھا، مگر یہ آزمائش بھی اسے اس کے دین سے نہیں پھیرتی تھی۔اور اللہ تعالی یقینا اِس امر کو پورا کرکے رہے گا، یہاں تک کہ ایک سوار صنعاء سے حضرموت کی طرف اکیلا سفر کرے گا اور اسے اللہ کے سوا کسی کا خوف نہیں ہوگا۔‘‘

اِس سلسلے میں متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے واقعات مشہور ومعروف ہیں۔

عزیزان گرامی !

ہم نے اب تک متعدد فتنوں کا تذکرہ کیا ہے، ان میں سے بعض ایسے ہیں جو موجود دور میں پائے جاتے ہیں۔اور بعض ایسے ہیں جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کے مطابق قیامت سے پہلے آئیں گے۔

ہمیں بحیثیت مسلمان ان فتنوں کی سنگینی کا احساس کرنا چاہئے، کیونکہ جب کوئی فتنہ آتا ہے تو وہ نیک اور بد میں فرق نہیں کرتا، بلکہ سب لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔( إلا من رحم ربنا ) پھر قیامت کے دن سب کو ان کی نیتوں پر اٹھایا جائے گا۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿ وَ اتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَّۃً وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ﴾[ الأنفال8 :25]

’’ اور تم لوگ اس فتنے سے ڈرتے رہو جس کا اثر تم میں سے صرف ظالموں تک ہی محدود نہیں رہے گا ( بلکہ سب کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔)اور جان لو کہ اللہ کا عذاب بڑا سخت ہوتا ہے۔‘‘

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو فتنوں سے ڈرایا۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگاہ فرمایا کہ ایک وقت آئے گا جب ایک مسلمان اپنے دین کو فتنوں سے بچانے کی خاطر پہاڑوں کی چوٹیوں پر جا کر زندگی گزارنا پسند کرے گا۔

حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( یُوْشِکُ أَن یَّکُوْنَ خَیْرَ مَالِ الْمُسْلِمِ غَنَمٌ یَتْبَعُ بِہَا شَعَفَ الْجِبَالِ وَمَوَاقِعَ الْقَطْرِ، یَفِرُّ بِدِیْنِہٖ مِنَ الْفِتَنِ ))

 [صحیح البخاری : باب من الدین الفرار من الفتن:19]

’’ عنقریب مسلمان کا بہترین مال بکریوں کی صورت میں ہوگا، جنھیں لے کر وہ پہاڑوں کی چوٹیوں اور بارش کے نازل ہونے کی جگہوں پر چلا جائے گا، وہ فتنوں سے بچنے کی خاطر اپنے دین کے ساتھ راہِ فرار اختیار کرے گا۔‘‘

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( سَتَکُوْنُ فِتَنٌ، اَلْقَاعِدُ فِیْہَا خَیْرٌ مِنَ الْقَائِمِ، وَالْقَائِمُ فِیْہَا خَیْرٌ مِنَ الْمَاشِیْ، وَالْمَاشِیْ فِیْہَا خَیْرٌ مِنَ السَّاعِیْ، وَمَن یُّشْرِفْ لَہَا تَسْتَشْرِفْہُ، وَمَن وَّجَدَ مَلْجَأً أَوْ مَعَاذًا فَلْیَعُذْ بِہٖ)) [صحیح البخاری:3601، صحیح مسلم :2886]

’’ عنقریب فتنے ہوں گے۔جن میں بیٹھنے والا شخص کھڑے ہونے والے شخص سے بہتر ہوگا۔اور کھڑا ہوا شخص چلنے والے سے بہتر ہوگا۔اور چلنے والا شخص دوڑنے والے شخص سے بہتر ہوگا۔( یعنی جو شخص جتنا ان فتنوں سے دامن بچائے گا اتنا ہی اس کیلئے بہتر ہوگا۔) اور جو شخص ان کی طرف جھانکے گا اور ان میں ملوث ہوگا، اسے وہ فتنے پچھاڑ دیں گے۔اور جسے کوئی پناہ گاہ مل جائے تو وہ ضرور اس میں پناہ لے لے۔‘‘

لہٰذا ہم سب کو ان فتنوں سے بچنے کی فکر کرنی چاہئے اور ان سے اپنے دین کو محفوظ رکھنے کی خاطر تدابیر اختیار کرنی چاہئیں تاکہ ہمارا دین سلامت رہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : (( إِنَّ السَّعِیْدَ لَمَنْ جُنِّبَ الْفِتَنَ،إِنَّ السَّعِیْدَ لَمَنْ جُنِّبَ الْفِتَنَ، إِنَّ السَّعِیْدَ لَمَنْ جُنِّبَ الْفِتَنَ،وَلَمَنِ ابْتُلِیَ فَصَبَرَ فَوَاہًا)) [سنن أبی داؤد : 4263 وصححہ الألبانی

’’ خوش نصیب ہے وہ شخص جسے فتنوں سے بچا لیا جائے۔خوش نصیب ہے وہ شخص جسے فتنوں سے بچا لیا جائے۔خوش نصیب ہے وہ شخص جسے فتنوں سے بچا لیا جائے۔اور جس شخص کو فتنوں میں مبتلا کیا گیا اُس پر انتہائی افسوس ہے۔‘‘

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں