اپنی زبان منتخب کریں

عبدالمومن سلفئ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
عبدالمومن سلفئ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعرات، 1 جون، 2023

موسمی حالات کا خراب ہونا وجوہات اور علاج

 

خطبہ جمعہ    :                                                      بِسّمِ اللَّہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم 

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِیْنُه وَنَسْتَغْفِرُه وَنُؤْمِنُ بِه وَنَتَوَكَّلُ عَلَیْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّئاٰتِ اَعْمَالِنَا مَن یَّهْدِهِ اللهُ فَلاَ مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ یُّضْلِلْهُ فَلاَ هَادِيَ لَهُونَشْهَدُ أَنْ لَآ اِلٰهَ اِلاَّ اللهُ وَحْدَهٗ  لَا شَرِيْكَ لَهٗ۞وَنَشْهَدُ اَنَّ سَیِّدَنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَرَسُوْلُه،أَمَّا بَعْدُ: فَأَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْم، بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِِْ،

{ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ} [آل عمران102]{

يَاأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا} [النساء: 1]

 {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (70) يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا (71)} [الأحزاب: 70،

1: موسمی حالات کا خراب ہونا ... قرآن و حدیث کی روشنی میں

برے اعمال اور ربّ کی نافرمانی :اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں فرمایاہے:

1  ﴿ظَهَرَ‌ الفَسادُ فِى البَرِّ‌ وَالبَحرِ‌ بِما كَسَبَت أَيدِى النّاسِ لِيُذيقَهُم بَعضَ الَّذى عَمِلوا لَعَلَّهُم يَر‌جِعونَ ٤١ ﴾.... سورة الروم

"خشکی اور تری میں لوگوں کے برے اعمال کی وجہ سے فساد پھیل گیا تاکہ اللہ تعالیٰ لوگوں کوبعض برے اعمال کی سزا انہیں دنیا میں چکھا دے، شاید کہ لوگ برے اعمال سے باز آجائیں۔"

2  ﴿وَما أَصـٰبَكُم مِن مُصيبَةٍ فَبِما كَسَبَت أَيديكُم وَيَعفوا عَن كَثيرٍ‌ ٣٠ ﴾.... سورة شورىٰ

"اور( لوگو) تم پر جو مصیبت آتی ہے تو تمہارے ہاتھوں نے جو کیا اس کی سزا میں اور بہت (سے قصور) معاف کردیتا ہے۔ "

ان دونوں آیات میں اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو یہ بات سمجھا دی ہے کہ دنیا میں خشک سالی، قحط، سیلاب، زلزلے ، طوفان ، اندرونی و بیرونی جھگڑے اور فسادات یا معاشی و اقتصادی اور اخلاقی بدحالی کی کوئی بھی شکل ہو، یہ سب انسان کے اپنے اعمال کا ہی نتیجہ ہے اور یہ ساری مصیبتیں اور آزمائشیں انسان پر اس لئے آتی ہیں کہ انسان ان سے عبرت حاصل کرے اور انہیں اپنی اصلاح کا ذریعہ بناتے ہوئے اپنے حالات میں تغیر پیدا کرے۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " لَيْسَتِ السَّنَةُ بِأَنْ لَا تُمْطَرُوا ، وَلَكِنْ السَّنَةُ أَنْ تُمْطَرُوا ، وَتُمْطَرُوا وَلَا تُنْبِتُ الْأَرْضُ شَيْئًا " .

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قحط یہ نہیں ہے کہ پانی نہ برسے، قحط یہ ہے کہ پانی برسے اور برسے اور زمین سے کچھ نہ اُگے۔“      مسلم  7291

آج اگر ہم اپنے حالات پر نظر ڈالیں اور اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا جائزہ لیں تو حقیقت یہ ہے کہ ایسی کوئی برائی نہیں جسے ہم نے من حیث القوم سینے سے نہ لگایا ہو۔ شرک و بدعات، توہمات اaور خرافات، بے حیائی ، فحاشی اور عریانی ، ذخیرہ اندوزی اور سود خوری، بددیانتی اور کرپشن ، لوٹ کھسوٹ اورقتل و غارت گری کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ہم گم ہیں۔ سود جسے قرآن نے اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ قرار دیا ہے، اسے عام آدمی سے لے کر حکومت تک کوئی بھی چھوڑنے کو آمادہ نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی ہمارے دعوے ہیں کہ ہمیں خوشحالی اور ترقی اسی راستے پر چلنے سے ہی ملے گی۔ چنانچہ صورتِ حال یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی میں جیسے جیسے ہمارے قدم بڑھ رہے ہیں، بدتر سے بدترین نتائج ہمارے سامنے آرہے ہیں۔ ہم بغیر سوچے سمجھے مغربی اَقوام کی طرزِ زندگی اپنانے کے چکر میں دھکے کھا رہے ہیں۔ ہر آنے والی نئی حکومت اپنی طرف سے نئے نئے معاشی و اقتصادی پروگرام لے کر آتی ہے لیکن حالات بہتر ہونے کی بجائے مزید خراب ہوتے جارہے ہیں۔ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی، والی صورتحال ہے۔

یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھنے اور کانوں سے سننے کے باوجود بھی ہم اللہ اور اس کے پیارے رسول محمد عربیﷺ کی نافرمانی اور بغاوت والی روش چھوڑنے پر تیار نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج وطن عزیز خشک سالی اور قحط کی لپیٹ میں ہے۔ زمینیں ویران اور بستیاں غیر آباد ہوچکی ہیں۔ بعض علاقوں میں انسان اور جانور پانی کے ایک ایک قطرے کو ترس رہے ہیں اور یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب مختلف نوعیت کا ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا ہے :

3  ﴿فَكُلًّا أَخَذنا بِذَنبِهِ ۖ فَمِنهُم مَن أَر‌سَلنا عَلَيهِ حاصِبًا وَمِنهُم مَن أَخَذَتهُ الصَّيحَةُ وَمِنهُم مَن خَسَفنا بِهِ الأَر‌ضَ وَمِنهُم مَن أَغرَ‌قنا ۚ وَما كانَ اللَّهُ لِيَظلِمَهُم وَلـٰكِن كانوا أَنفُسَهُم يَظلِمونَ ٤٠ ﴾...... سورة العنكبوت

"آخر کار ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ میں پکڑا پھر ان میں سے کسی پر ہم نے پتھراؤ کرنے والی ہوا بھیجی (قومِ عاد) اور کسی کو ایک زبردست دھماکے نے آلیا (قومِ ثمود) اور کسی کوہم نے زمین میں دھنسا دیا (قارون) اور کسی کو غرقِ آب کردیا (فرعون، ہامان اور قومِ نوح) ...اللہ تو ان پر ظلم کرنے والا نہ تھا مگر وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کرنے والے تھے۔"

 

اور دوسری جگہ فرمانِ الٰہی ہے:

1  ﴿إِنَّ اللَّهَ لا يَظلِمُ مِثقالَ ذَرَّ‌ةٍ......٤٠ ﴾..... سورة النساء "بے شک اللہ کسی پر ذرّہ بھر بھی ظلم نہیں کرتا"

جب کوئی قوم اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی پر اُتر آئے اور سرکشی و بغاوت شروع کردے تو وہ قوم صفحہٴ ہستی سے جلد ہی مٹ جایا کرتی ہے :

2  ﴿وَكَأَيِّن مِن قَر‌يَةٍ عَتَت عَن أَمرِ‌ رَ‌بِّها وَرُ‌سُلِهِ فَحاسَبنـٰها حِسابًا شَديدًا وَعَذَّبنـٰها عَذابًا نُكرً‌ا ٨ فَذاقَت وَبالَ أَمرِ‌ها وَكانَ عـٰقِبَةُ أَمرِ‌ها خُسرً‌ا ٩ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُم عَذابًا شَديدًا ۖ فَاتَّقُوا اللَّهَ يـٰأُولِى الأَلبـٰبِ......١٠ ﴾..... سورة الطلاق

"اور کتنی بستیاں ایسی گذر چکی ہیں جنہوں نے اپنے ربّ اور ا س کے رسولوں کی نافرمانی کی اور ہم نے سختی سے ان کاحساب لیا اور ان کو بڑے عذاب (بیماری قحط وغیرہ میں) پھنسا دیا، بالآخر انہوں نے اپنے برے اعمال کا وبال چکھ لیا اور ان کے برے کاموں کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ملیا میٹ ہوگئے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کیلئے سخت ترین عذاب تیار کررکھا ہے عقل والو! اللہ تعالیٰ سے ڈر جاؤ۔"

ناپ تول میں کمی بیشی اور زکوٰة ادا نہ کرنا :

جو قوم اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر غیروں کو پوجنے لگے اور ماپ تول میں کمی بیشی کرنا شروع کردے تو ایسی قوم بھی بہت جلد صفحہٴ ہستی سے مٹ جایا کرتی ہے۔ سورئہ ہود میں اللہ نے حضرت شعیب علیہ السلام اور ان کی قوم کا قصہ بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے کہ وہ اپنی قوم کو خدائے واحد کا پرستار بننے کی دعوت دیتے رہے اور ماپ تول میں کمی بیشی سے منع کرتے رہے لیکن ان کی قوم نے صاف کہہ دیا کہ اے شعیب ! ہم تیرے کہنے پر اپنے آباؤ اجداد کے دین کو نہیں چھوڑ سکتے اور ماپ تول میں کمی بیشی سے بھی باز نہیں آسکتے حضرت شعیب کے بار بار نصیحت کرنے اور سمجھانے کے باوجود جب قوم باز نہ آئی تو حضرت شعیب علیہ السلام نے فرمایا:

"میری قوم! تم اپنی جگہ جو کرتے ہو، کرتے رہو اور میں اپنا کام کرنے والاہوں، عنقریب تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ جھوٹا کون ہے اور رسوا کن عذاب کی لپیٹ میں کون آتا ہے؟!!ہود:۹۳

پھر قومِ شعیب پر عذابِالٰہی کا کوڑا برسا اور زوردار آواز نے ان کے کلیجے چیر دیئے اور وہ ایسے ختم کردیئے گئے جیسے وہ وہاں کبھی آباد ہی نہیں رہے تھے۔اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ ماپ تول میں کمی بیشی کوئی معمولی نہیں بلکہ سنگین جرم ہے اور اس جرم کی پاداش میں اللہ تعالیٰ پیداوار میں کمی کرکے قحط میں مبتلاکر دیتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ حضرت رسول اقدسﷺ نے فرمایا:

" جو لوگ ماپ تول میں کمی بیشی کریں گے: اللہ تعالیٰ ان کی پیداوار کم کردے گا اور ان پر قحط مسلط فرما دے گا۔" (ترغیب وترہیب)

آج اگر ہم اپنے معاشرے کاجائزہ لیں تو بے شمار تاجر ایسے ملیں گے جواس گھناؤنے جرم کو اپنی ذہنی ہوشیاری اور چالاکی سمجھتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے ایسی قوم کے لئے دنیا میں قحط اور آخرت میں عذابِ الیم کی وعید سنائی ہے

﴿وَيلٌ لِلمُطَفِّفينَ ١ الَّذينَ إِذَا اكتالوا عَلَى النّاسِ يَستَوفونَ ٢ وَإِذا كالوهُم أَو وَزَنوهُم يُخسِر‌ونَ ٣ ﴾..... سورة المطففين

"بڑی خرابی ہے ماپ تول میں کمی کرنے والوں کے لئے جب لوگوں سے ناپ لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں اور جب ناپ یا تول کر دیتے ہیں توکم دیتے ہیں"

جب معاشرے میں لوگ اپنے مال و دولت سے صدقہ و خیرات عشر اور زکوٰة دینے سے پہلو تہی کرنے لگیں تو اللہ تعالیٰ ان کی پیداوار ختم کرکے قحط میں مبتلا کردیتے ہیں۔سورئہ قلم میں اللہ تعالیٰ نے باغ والوں کا قصہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:

﴿إِنّا بَلَونـٰهُم كَما بَلَونا أَصحـٰبَ الجَنَّةِ إِذ أَقسَموا لَيَصرِ‌مُنَّها مُصبِحينَ ١٧ وَلا يَستَثنونَ ١٨ فَطافَ عَلَيها طائِفٌ مِن رَ‌بِّكَ وَهُم نائِمونَ ١٩ فَأَصبَحَت كَالصَّر‌يمِ ٢٠ ﴾... سورة ن

"ہم نے ان (مکہ کے کافروں) کو اس طرح آزمایا جیسے ایک باغ والوں کو آزمایا تھا جب وہ باغ والے قسم اُٹھا بیٹھے کہ صبح ہوتے ہی اس کا پھل توڑ لیں گے اور انہوں نے ( غریبوں، مسکینوں کی) استثناء نہ کی تو وہ سو ہی رہے تھے کہ تیرے مالک کی طرف سے ایک پھیرا لگانے والی (بلا) باغ پر پھیرا کر گئی۔ پھر سارا باغ ایسا ہوگیا جیسے کوئی سارا پھل کاٹ کر لے گیا ہو"

جب ان باغ والوں نے غریبوں، مسکینوں اور یتیموں کو ان کا حق (عشر و زکوٰة وغیرہ) دینے کی بجائے اپنے باغ کا سارا پھل خود ہی سمیٹنے کا پروگرام بنایا اور رات کی تاریکی میں جاکر پھل کاٹنے کے لئے آپس میں صلاح و مشورے کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے آسمان سے آگ بھیج کر ان کے سارے باغ کو تباہ و برباد کردیا۔

حضرت بریدہ سے مروی ہے کہ حضرت رسولِ اکرمﷺ نے فرمایا:

«ما نقض قوم العهد إلا کان القتل بينهم ولا ظهرت الفاحشة في قوم إلا سلط الله عليهم الموت ولا منع قوم الزکاة إلا حبس عنهم الفطر» (ترغیب و ترہیب)

"جو قوم وعدے کی پاسداری نہیں کرے گی، ان کے درمیان قتل و غارتگری شروع ہوجائے گی اور جس قوم میں زنا کاری عام ہوجائے گی، ان پر اللہ تعالیٰ موت مسلط فرما دے گا اور جو قوم زکوٰة روک لے گی، اللہ تعالیٰ ان سے بارانِ رحمت کو روک لے گا"

حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ رسولِ معظمﷺ نے فرمایا:

«لم ينقص قوم المکيال والميزان إلا أخذوا بالسنين وشدة الموٴنة وجور السلطان عليهم ولم يمنعوا زکاة أموالهم إلا منعوا القَطْرَ من السماء ولو لا البهائم لم يمطروا »(تلخیص الحبیر، ابن ماجہ: ۴۰۰۹)

"جو قوم ناپ تول میں کمی بیشی کرتی ہے، اس کو قحط سالی کی سخت مصیبتوں میں گرفتار کرلیا جاتاہے اور ظالم حکمران ان پر مسلط کردیئے جاتے ہیں اور جو لوگ اپنے مال سے زکوٰة روک لیتے ہیں، ان سے بارشیں روک لی جاتی ہیں۔ اگر جانور نہ ہوتے توبالکل بارش نہ ہوتی۔"

زکوة ادا نہ کرنا:امیر المومنین سیدنا ابوبکر صدیق نے زکوٰة نہ دینے والوں کے خلاف اعلانِ جہاد کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا کہ جو شخص نماز اور زکوٰة میں فرق کرے گا، میں اس کے خلاف جنگ کروں گا۔کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ اسلام کے نام پر حاصل کئے جانے والے ملک 'اسلامی جمہوریہ پاکستان' میں اسلام کے اس اہم رکن یعنی ادائیگی زکوٰة سے فرار ہونے کی قانونی گنجائش موجود ہے اور درہم و دینار کے پجاری اسلام کے منافی اس قانون کا سہارا لے کر زکوٰة نہ دے کر غضب ِالٰہی کو دعوت دیتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے زکوٰة نہ دینے والوں کے لئے دنیا میں قحط اور خشک سالی جیسی نہایت سنگین سزا تیار کر رکھی ہے اور آخرت میں عذاب جہنم کی شدید وعید سنائی ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے:

﴿وَالَّذينَ يَكنِزونَ الذَّهَبَ وَالفِضَّةَ وَلا يُنفِقونَها فى سَبيلِ اللَّهِ فَبَشِّر‌هُم بِعَذابٍ أَليمٍ ٣٤ يَومَ يُحمىٰ عَلَيها فى نارِ‌ جَهَنَّمَ فَتُكوىٰ بِها جِباهُهُم وَجُنوبُهُم وَظُهورُ‌هُم ۖ هـٰذا ما كَنَزتُم لِأَنفُسِكُم فَذوقوا ما كُنتُم تَكنِزونَ ٣٥ ﴾..... سورة التوبة

"اور جو لوگ سونے اور چاندی کا خزانہ رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، انہیں دردناک عذاب کی بشارت دے دو جس دن اس خزانے کو نارِ دوزخ میں گرم کیا جائے گا۔ پھر اس سے ا ن کی پیشانیاں،پہلو اورپیٹھیں داغی جائیں گی ( اور ان سے کہا جائے گا ) یہ ہے جسے تم نے اپنے لئے خزانہ بنا کررکھا تھا، اپنے خزانوں کا مزہ چکھو!"

صحیح مسلم ، کتاب الزکوٰة کے باب اثم مانع الزکوٰة میں حدیث ہے کہ

"جو شخص اپنے مال سے زکوٰة نہیں دیتا، قیامت والے دن اس کے مال کو آگ کی تختیاں بنا کر اس کے دونوں پہلو،پیشانی اور کمر کو داغا جائے گا۔ یہ دن پچاس ہزار سال کا ہوگا اور لوگوں کا فیصلہ ہونے تک اس کا یہی حال رہے، اس کے بعد اسے جنت یا جہنم میں لے جایا جائے گا ۔ "

اس لئے دنیا میں قحط اور خشک سالی اور دیگر عذابوں سے بچنے اور آخرت میں نارِ دوزخ سے محفوظ رہنے کے لئے اپنے مال و دولت سے زکوٰة عشر اور صدقہ و خیرات نکالنا ضروری ہے۔

اللہ کے دین سے روگردانی : جو قوم اللہ کے نازل کردہ دین سے روگردانی کو اپنا شیوہ بنا لے، اللہ ان کے مادّی وسائل کی کثرت و فراوانی کے باوجود ان کی گذران تنگ کردیتے ہیں۔فرمانِ الٰہی ہے :

﴿وَمَن أَعرَ‌ضَ عَن ذِكر‌ى فَإِنَّ لَهُ مَعيشَةً ضَنكًا......١٢٤ ﴾..... سورة طه

"جس نے میری کتاب (قرآن) سے منہ موڑ لیا (دنیا میں) اسکی معیشت تنگ کردی جائے گی"

آج اگر ہم اپنا اپنا جائزہ لیں تو یہ حقیقت ہرایک پر واضح ہوجاتی ہے کہ ہم نے من حیث القوم زندگی کے تمام شعبوں میں اللہ تعالیٰ کے دین سے بغاوت کی روش اختیار کر رکھی ہے۔ تہذیب و تمدن، معاشرت ومعیشت، سیاست و عبادت، الغرض زندگی کے تمام شعبوں میں ہم پر یہود و نصاریٰ اور ہندوانہ تہذیب کے اثرات کی چھاپ نظر آتی ہے۔ جبکہ اللہ کے نازل کردہ دین پر عمل پیرا ہونے سے اللہ تعالیٰ زمین و آسمان سے رزق کے دروازے کھول دیتے ہیں۔ارشاد خداوندی ہے:

﴿وَلَو أَنَّهُم أَقامُوا التَّور‌ىٰةَ وَالإِنجيلَ وَما أُنزِلَ إِلَيهِم مِن رَ‌بِّهِم لَأَكَلوا مِن فَوقِهِم وَمِن تَحتِ أَر‌جُلِهِم......٦٦ ﴾..... سورة المائدة

"اور اگر یہ لوگ تورات وانجیل اور جو کچھ ان کی جانب اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل فرمایا گیا ہے، ان کے پورے پابند رہتے تو یہ لوگ اپنے اوپر سے اور نیچے سے روزیاں پاتے اور کھاتے"

تفسیر احسن البیان میں ہے کہ اوپر کا ذکر یا تو بطورِ مبالغہ ہے یعنی کثرت سے اور انواع و اقسام کے رزق اللہ تعالیٰ مہیا فرماتا یا اوپر سے مراد آسمان ہے یعنی حسب ِضرورت خوب بارشیں برساتا اور نیچے سے مراد زمین ہے یعنی زمین اس بارش کواپنے اندر جذب کرلیتی اور خوب پیداوار دیتی نتیجةً شادابی اور خوشحالی کا دور دورہ ہوتا۔

انبیاء کرام کی تکذیب: جو قوم انبیاء کرام علیہم الصلوٰة والسلام کی پاکیزہ تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی بجائے ان کی تکذیب کرنا شروع کردے تو ایسی قوم پر بھی اللہ تعالیٰ قحط مسلط فرما دیتے ہیں۔ تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ جب قومِ عاد نے حضرت ہود علیہ السلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی بجائے ان کی تکذیب کردی تو اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر قحط مسلط کردیا اور ان پر طوفان کا عذاب بھیج کر انہیں نیست و نابود کردیا :

﴿فَلَمّا رَ‌أَوهُ عارِ‌ضًا مُستَقبِلَ أَودِيَتِهِم قالوا هـٰذا عارِ‌ضٌ مُمطِرُ‌نا ۚ بَل هُوَ مَا استَعجَلتُم بِهِ ۖ ر‌يحٌ فيها عَذابٌ أَليمٌ ٢٤ تُدَمِّرُ‌ كُلَّ شَىءٍ بِأَمرِ‌ رَ‌بِّها فَأَصبَحوا لا يُر‌ىٰ إِلّا مَسـٰكِنُهُم ۚ كَذ‌ٰلِكَ نَجزِى القَومَ المُجرِ‌مينَ ٢٥ ﴾..... سورة الاحقاف

"جب وہ دور سے بادل آتا دیکھتے تو کہتے کہ یہ بادل ہم پر بارش برسانے والا ہے۔ دراصل یہ بادل وہی چیز ہے جس کی تم جلدی کر رہے تھے۔ اس میں ایسی ہوا ہے جس میں بڑا دردناک عذاب ہے جواپنے رب کے حکم سے ہر چیز کو ہلاک کر رہی ہے اور وہ ایسے ختم کردیئے گئے کہ ان کے مکانات کے علاوہ کوئی شے دکھائی نہیں دیتی تھی، مجرموں کی قوم کو ہم ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں۔"

زنا کاری اور فحاشی کاعام ہوجانا:جس معاشرے میں بے حیائی، فحاشی اور عریانی بدکاری اور زنا کاری عام ہوجائے وہ معاشرہ بھی عذابِ الٰہی کا نشانہ بن جاتا ہے۔ قرآنِ حکیم نے سورہٴ یوسف میں اہل مصر کی اخلاقی بدحالی کانقشہ پیش کرتے ہوئے بیان فرمایا ہے کہ مصر کے عوام تو عوام رہے وہاں کے حکمرانوں کی بیگمات بھی زنا کاری کی دلدل میں بری طرح مبتلا تھیں اور بدکاری کی اس حد تک رسیا تھیں کہ اپنے ناپاک منصوبے میں ناکامی کی صورت میں حضرت یوسف علیہ السلام کوبے گناہ پابند ِسلاسل کرا دیا تھا۔ چنانچہ قرآن حکیم نے شہادت دی کہ اس زناکاری اور فحاشی کی دلدل میں پھنسے ہوئے معاشرے پر اللہ تعالیٰ نے سات سال تک قحط مسلط کئے رکھا، حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا :

«إذا ظهر في قوم الزنا والربا فقد أحلوا بأ نفسهم عتاب الله» (ترغیب وترہیب)

"جس قوم میں زناکاری اور سود خوری عام ہوجائے وہ اپنے لئے اللہ کے عذاب کو حلال کرلیتی ہے"

آج کس قدر افسوسناک بات ہے کہ 'لا إله إلا الله' کی بنیاد پر معرضِ وجود میں آنے والے وطن عزیز پاکستان میں اس گھناؤنے جرم کے لئے پرمٹ جاری کئے جاتے ہیں اور اخبارات کے کئی صفحات حیا سوز تصاویر اور بدکاروں ، اداکاروں کے انٹرویوز سے سیاہ ہوتے ہیں اور رہی سہی کسر الیکٹرانک میڈیا نے نکال دی ہے اور اس دفعہ تو جشن بہاراں کے نام پراور پھر بسنت کے موقع پر سرکاری سرپرستی میں جس طرح بے حیائی اور فحاشی کو فروغ دیا گیا ہے، وہ نہایت ہی باعث شرم اور قابل مذمت ہے!!

اور اس سے بڑھ کردکھ کی بات یہ ہے کہ اہل علم ودانشور حضرات کوقومی ہیرو قرار دینے کی بجائے اداکاروں اور بدکاروں کوبڑے خوشنما اور پرکشش نام اور ایوارڈ دے کر ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ ایک اسلامی ملک میں جب علم وہنر اور تعلیم وتہذیب کی یوں بے حرمتی اور بے توقیری کی جائے اور گویوں اور بھانڈوں کو ثقافتی سفیر ،محبت کے راہی اور دیگر خوشنما نام دے کر ان کی حوصلہ افزائی کی جائے تو پھر ایسے ملک میں فتنے فساد، معاشی بدحالی، اندرونی اور بیرونی جھگڑے، خشک سالی اور قحط ہو نے میں چنداں حیرانگی نہیں۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

جاری  ۔۔۔۔۔۔

اللّٰهمَّ صلِّ على محمَّد وعلى آل محمَّد، كما صليتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم؛ إنَّك حميدٌ مجيد۔
اللّٰهمَّ بارِك على محمَّد وعلى آل محمَّد، كما باركتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم؛ إنَّك حميدٌ مجيد۔

جمعرات، 8 دسمبر، 2022

فتنوں کے دور میں مسلمان کا کردار 3


اَلحَمدُ لِلّٰہِ نَحمَدُہ، وَنَستَعِینُہ، وَنَستَغفِرُہ، وَنَعُوذُبِاﷲِ مِن شُرُورِ اَنفُسِنَاوَمِن سَیِّئَآتِ اَعمَالِنَا مَن یَھدِہِ اﷲُ فَلَا مُضِلَّ لَہ، وَمَن یُضلِل فَلَا ھَادِیَ لَہ، وَاَشھَدُ اَن لَّا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وَحدَہ، لَا شَرِیکَ لَہ، وَاَشھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبدُہ، وَرَسُولُہٗ ۔ أما بعد  

: اِنَّ اَصدَقَ الحَدِیثِ کِتَابُ اﷲِ وَاِنَّّ اَفضَلَ الھَدیِ ھَدیُ مُحَمَّدٍ وَّ شَرُّ الْامُورِ مُحدَثَاتُھَا وَ کُلُّ مُحدَثَۃٍ بِدعَۃٌ وَ کُلُّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّارِ۔ ‘ فقد قال اللہ تعالی فی کتابہ الکریم:

فتنوں کے دور میں مسلمان کا کردار

`8۔کثرت سے توبہ واستغفار کرنا
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ وَ مَا کَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَھُمْ وَ ھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ ﴾ [الأنفال8 : 33]
’’
اور اللہ ایسے لوگوں کو عذاب دینے والا نہیں جو استغفار کر رہے ہوں۔‘‘
اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿فَلَوْ لَآ اِذْ جَآئَ ھُمْ بَاْسُنَا تَضَرَّعُوْا وَ لٰکِنْ قَسَتْ قُلُوْبُھُمْ وَ زَیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطٰنُ مَاکَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ﴾[ الأنعام6 :43]
’’
پھر جب ان پر ہمارا عذاب آیا تو وہ کیوں نہ گڑگڑائے ؟ ( یعنی کیوں نہ اللہ تعالی کی طرف رجوع کیا اور کیوں نہ معافی مانگی ؟ ) مگر ان کے دل تو اور سخت ہوگئے اور شیطان نے انھیں ان کے اعمال خوبصورت بنا کر دکھلا دئیے۔‘‘
لہٰذا فتنوں کے دور میں مسلمانوں کو صدق دل سے اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنا چاہئے اور اپنے تمام گناہوں پر اس کے سامنے ندامت وشرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے اس سے معافی مانگنی چاہئے۔یوں اللہ تعالی انھیں اپنے فضل وکرم کے ساتھ فتنوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔
9۔فارغ اوقات کو نفع بخش امور میں مشغول کرنا
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( اِغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ )) ’’ پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھو۔‘‘
1
۔(( شَبَابَکَ قَبْلَ ہَرَمِکَ )) ’’ اپنی جوانی کو اپنے بڑھاپے سے پہلے۔‘‘
2
۔(( وَصِحَّتَکَ قَبْلَ سَقَمِکَ)) ’’ اپنی صحت کو اپنی بیماری سے پہلے۔‘‘
3
۔((وَغِنَاکَ قَبْلَ فَقْرِکَ )) ’’ اپنی تونگری کو اپنی غربت سے پہلے۔‘‘
4
۔(( وَفَرَاغَکَ قَبْلَ شُغْلِکَ )) ’’ اپنی فراغت کو اپنی مشغولیت سے پہلے۔‘‘
5
۔(( وَحَیَاتَکَ قَبْلَ مَوْتِکَ )) ’’ اپنی زندگی کو اپنی موت سے پہلے۔‘‘[ٔخرجہ الحاکم وصححہ الألبانی فی صحیح الترغیب والترہیب :3355]
اس حدیث میں مذکورہ پانچوں چیزیں( یعنی بڑھاپا، بیماری، غربت، مشغولیت اور موت ) انسان کیلئے فتنہ بن سکتی ہیں۔اسی لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پہلے جوانی، تندرستی، تونگری، فراغت اور زندگی کو غنیمت سمجھ   کر ان سے بھرپور فائدہ اٹھانے کا حکم دیا۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری حدیث میں ارشاد فرمایا :
(( بَادِرُوْا بِالْأَعْمَالِ خِصَالًا سِتًّا : إِمْرَۃَ السُّفَہَائِ،وَکَثْرَۃَ الشُّرَطِ،وَقَطِیْعَۃَ الرَّحِمِ، وَبَیْعَ الْحُکْمِ، وَاسْتِخْفَافًا بِالدَّمِ، وَنَشْأً یَتَّخِذُوْنَ الْقُرْآنَ مَزَامِیْرَ،یُقَدِّمُوْنَ الرَّجُلَ لَیْسَ بِأَفْقَہِہِمْ وَلَا أَعْلَمِہِمْ،مَا یُقَدِّمُوْنَہُ إِلَّا لِیُغَنِّیَہُمْ)) [السلسلۃ الصحیحۃ :979]
’’
تم چھ چیزوں کے آنے سے پہلے جلدی جلدی عمل کرلو : احمق لوگوں کی حکمرانی، پولیس کی کثرت، قطع رحمی، فیصلے کو ( رشوت کے بدلے میں ) بیچنا، خون ( بہانے ) کو ہلکا سمجھنا اور ایسے نوخیز بچوں کا آنا جو قرآن مجید کو راگ گانا بنا لیں گے، لوگ ان میں سے ایک کو اس لئے امام نہیں بنائیں گے کہ وہ سب سے زیادہ سمجھ دار اور سب سے بڑا عالم ہوگا، بلکہ اس لئے کہ وہ ان کے سامنے قرآن کو گا کر پڑھے۔‘‘
اِس حدیث میں بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض فتنوں کے واقع ہونے سے پہلے جلدی جلدی عمل کرنے کا حکم دیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ فارغ اوقات کو نفع بخش امور میں مشغول کرنے سے انسان فتنوں کے شر سے بچ سکتا ہے۔
10۔صبر کرنا
یعنی مختلف آزمائشوں اور فتنوں کو برداشت کرنا اور ثابت قدمی اور استقامت کا مظاہرہ کرنا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
((
وَاعْلَمْ أَنَّ النَّصْرَ مَعَ الصَّبْرِ، وَأَنَّ الْفَرَجَ مَعَ الْکَرْبِ،وَأَنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا ))
’’
اور یقین کر لو کہ مدد صبر کے ساتھ آتی ہے اور ہر پریشانی کے بعد خوشحالی یقینی ہے۔اور ہر تنگی آسانی اور آسودگی کو لاتی ہے۔‘‘[ مسند أحمد :2804۔وصححہ الأرناؤط۔الترمذی : 2516۔وصححہ الألبانی]
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( إِنَّ مِن وَّرَائِکُمْ أَیَّامَ الصَّبْرِ، لِلْمُتَمَسِّکِ فِیْہِنَّ بِمَا أَنْتُمْ عَلَیْہِ أَجْرُ خَمْسِیْنَ مِنْکُمْ ))
’’
تمھارے بعد صبر کے ایام آنے والے ہیں۔ان میں جو شخص اُس دین کو مضبوطی سے تھامے رکھے گا جس پر تم قائم ہو، تو اسے تم میں سے پچاس افراد کا اجر ملے گا۔‘‘[ السلسلۃ الصحیحۃ : 494]
عزیزان گرامی ! ہم نے فتنوں کے شر سے بچنے کیلئے اب تک دس اسباب ذکر کئے ہیں۔اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں ان تمام اسباب کو اختیار کرنے کی توفیق دے۔اور ہمیں ہر قسم کے فتنوں اور ان کے شر سے محفوظ رکھے۔آمین
محترم حضرات ! فتنوں کے دور میں اختیار کی جانے والی احتیاطی تدابیر میں سے ایک یہ ہے کہ
11۔منافقوں کی سازشوں سے خبردار رہا جائے
کیونکہ یہ لوگ مسلمانوں کے اندر موجود ہوتے ہیں اور اسلام کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں کے خلاف مختلف قسم کی سازشوں میں ملوث ہوتے ہیں۔ان کا مقصد اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانا، مسلمانوں کی قوت کا شیرازہ بکھیرنا اور ان میں پھوٹ ڈالنا ہوتا ہے۔یہ لوگ ہر آئے دن کوئی نہ کوئی نیا فتنہ کھڑا کردیتے ہیں اور مسلم ممالک میں انتشار، لا قانونیت اور فساد پھیلانے کی مذموم کوشش کرتے ہیں۔
اللہ تعالی مدینہ منورہ کے منافقوں کی سازشوں سے آگاہ کرتے ہوئے فرماتا ہے :
﴿ لَوْ خَرَجُوْا فِیْکُمْ مَّا زَادُوْکُمْ اِلَّا خَبَالًا وَّ لَاْاَوْضَعُوْا خِلٰلَکُمْ یَبْغُوْنَکُمُ الْفِتْنَۃَ وَ فِیْکُمْ سَمّٰعُوْنَ لَھُمْ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ م بِالظّٰلِمِیْنَ ٭ لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَۃَ مِنْ قَبْلُ وَ قَلَّبُوْا لَکَ الْاُمُوْرَ حَتّٰی جَآئَ الْحَقُّ وَ ظَھَرَ اَمْرُ اللّٰہِ وَ ھُمْ کٰرِھُوْنَ ﴾ [التوبۃ9 : 47۔48
’’
اگر وہ ( منافق ) تمھارے ساتھ نکلتے تو تمھارے لئے شر وفساد میں اضافہ ہی کرتے اور فتنہ پھیلانے کے ارادے سے تمھاری صفوں میں جھوٹی باتوں کے گھوڑے دوڑاتے۔اور اب بھی تمھارے درمیان ان کے جاسوس موجود ہیں۔اور اللہ تعالی ظالموں کو خوب جانتا ہے۔انھوں نے پہلے بھی ( غزوۂ احد اور غزوۂ خندق میں ) فتنہ پیدا کرنا چاہا اور معاملات کو آپ کیلئے الٹ پلٹ کر رہے تھے، یہاں تک کہ حق سامنے آگیا اور اللہ کا حکم غالب ہوااگرچہ وہ نہیں چاہتے تھے۔‘‘
یہی روش ہر دور کے منافق اختیار کرتے رہے ہیں اور کر بھی رہے ہیں، جس سے مسلمانوں کو متنبہ رہنا چاہئے۔
12۔جلد بازی سے اجتناب
فتنوں کے شر سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ جب کبھی کوئی فتنہ اور آزمائش آئے تو مسلمان جلد بازی نہ کریں، بلکہ تحمل، برد باری اور ٹھہراؤ سے کام لیں۔اسباب وعوامل اور نتائج پر سوچ وبچار کریں، صائب الرائے لوگوں سے  مشاورت کریں۔اور اگر ملکی وقومی سطح پر کوئی آزمائش آئے تو ارباب اقتدار کو موزوں اقدامات اٹھانے دیں اور ان کے سامنے کسی قسم کی رکاوٹ کھڑی کرنے کی بجائے ان کے دست وبازو بنیں۔افواہوں پر یقین نہ کریں، بلکہ ہر خبر کی تصدیق کریں۔افواہیں پھیلانا اور جھوٹی خبریں عام کرنا منافقوں کی روش ہے، نہ کہ سچے مومنوں کی۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿وَ اِذَاجَآئَ ھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِہٖ وَ لَوْ رَدُّوْہُ اِلَی الرَّسُوْلِ وَ اِلٰٓی اُوْلِی الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْبِطُوْنَہٗ مِنْھُمْ ﴾[ النساء4 :83]
’’
اور جب انھیں امن وخوف کی کوئی خبر ملتی ہے تو اسے پھیلانا شروع کردیتے ہیں، حالانکہ اگر وہ اسے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ارباب اقتدار کے سپرد کر دیتے تو ان میں سے تحقیق کی صلاحیت رکھنے والے اُس کی تہہ تک پہنچ جاتے۔‘‘
اِس آیت مبارکہ میں اللہ تعالی نے منافقین ِ مدینہ منورہ کی روش کے بارے میں آگاہ فرمایا ہے کہ وہ جنگ سے متعلق آنے والی ہر خبر کو بغیر تحقیق کے نشر کردیتے ہیں۔جس سے مسلمانوں کی صفوں میں تشویش کی لہر دوڑ جاتی ہے۔اور بعض کمزور ایمان والے مسلمان فتنے میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔اِس کے بعد اللہ تعالی نے فرمایا کہ اگر یہ لوگ اِس طرح کے معاملات کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب بصیرت صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم پر چھوڑ دیتے تو وہ یقینا ان کی تہہ تک پہنچ کر ان کا مناسب حل نکالتے۔
لہٰذا ہر دور میں مسلمانوں کو اِس قسم کے منافقوں اور ان کی سازشوں سے متنبہ رہنا چاہئے، یوں وہ اپنے آپ کو اور اپنے اسلامی معاشروں کو فتنوں کے شر سے بچا سکتے ہیں۔واللّٰه المستعان
باقی جہاں تک سوشل میڈیا پر گردش کرتی جھوٹی خبروں اور افواہوں کا تعلق ہے تو ان پر ہرگز یقین نہیں کرنا چاہئے اور نہ ہی انھیں ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کرنا چاہئے، بلکہ ان کے بارے میں معتمد اور باوثوق ذرائع سے تصدیق کرنا ضروری ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ ٰٓیاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِِنْ جَآئَ کُمْ فَاسِقٌ م بِنَبَاٍِ فَتَبَیَّنُوْٓا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًا بِجَہَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ ﴾ [الحجرات49 :6]
’’
اے ایمان والو ! اگر کوئی فاسق تمھارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی قوم کو نادانی میں نقصان پہنچا دو۔پھر اپنے کئے پر تمھیں ندامت اٹھانی پڑے۔‘‘
آخر میں ہم ایک بار پھر دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی ہم سب کی حفاظت فرمائے اور ہمیں تمام فتنوں کے شر سے بچائے رکھے۔آمین