اپنی زبان منتخب کریں

جمعرات، 27 جولائی، 2023

حرام کمائی کی مختلف صورتیں

 

خطبۂ


حرام کمائی کی مختلف صورتیں
   بِسّمِ اللَّہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم                                                 

إنَّ الْحَمْدَ لِلهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ، وَنَعُوذُ بِاللهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا، مَنْ يَهْدِهِ اللهُ فَلاَ مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلاَ هَادِىَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ﴾ (آل عمران:102)

﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا﴾ (النساء:1)

﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَقُولُوا قَوْلاً سَدِيدًا * يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا﴾ (الأحزاب: 70، 71)

أَمَّا بَعْدُ:

فَإِنَّ أَصْدَقَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ، وَأَحْسَنَ الْهَدْيِ هَدْيُ مُحَمَّدٍ، وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا، وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ، وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ

حرام کمائی کی مختلف صورتیں

1۔ چوری کرنا

کسی کے مال کی چوری کرنا حرام ہے۔اسی لئے اللہ تعالی نے چورکیلئے بہت سخت سزا مقرر فرمائی ہے۔چنانچہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿ وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوا أَیْْدِیَہُمَا جَزَائً بِمَا کَسَبَا نَکَالاً مِّنَ اللّٰہِ وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ ﴾

’’ اور چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت کے ہاتھ کاٹ دیا کرو۔یہ بدلہ ہے اس کا جو انہوں نے کیا۔اورعذاب ہے اللہ کی طرف سے۔اور اللہ تعالی سب پر غالب اور حکمت والا ہے۔‘‘[ المائدۃ:۳۸ ]

2۔ ڈاکہ زنی

بعض لوگ دن دہاڑے دیواریں پھلانگ کر گھروں میں داخل ہوجاتے ہیں۔اور اسلحہ کی نوک پر گھروالوں کو لوٹ لیتے ہیں۔اوربعض لوگ مسافروں اور راہگیروں کو لوٹ لیتے ہیں۔اسی کو ڈاکہ زنی کہتے ہیں۔اور جو ڈاکو اس طرح

لوٹ مار کرتے اور لوگوں کی جانوں اور ان کے مالوں کی حرمت کو پامال کرتے ہیں ان کی سزا یہ ہے کہ انھیں قتل کردیا جائے۔کیونکہ وہ لوگوں کے جان ومال کیلئے خطرہ بنتے ہیں توخود انہی کو قتل کرنا ضروری ہو جاتا ہے تاکہ ان کے شر سے لوگ محفوظ رہ سکیں۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿إِنَّمَا جَزَائُ الَّذِیْنَ یُحَارِبُونَ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ وَیَسْعَوْنَ فِیْ الْاَرْضِ فَسَادًا أَن یُقَتَّلُوْا أَوْ یُصَلَّبُوْا أَوْ تُقَطَّعَ أَیْْدِیْہِمْ وَأَرْجُلُہُم مِّنْ خِلافٍ أَوْ یُنفَوْا مِنَ الْاَرْضِ ذَلِکَ لَہُمْ خِزْیٌ فِیْ الدُّنْیَا وَلَہُمْ فِیْ الآخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ ﴾

’’جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے اور زمین میں فساد بپا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کی سزا یہی ہو سکتی ہے کہ انھیں اذیت دے کر قتل کیا جائے ، یا سولی پر لٹکایا جائے ، یا ان کے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ دئیے جائیں ، یا انھیں جلا وطن کردیا جائے۔ان کیلئے یہ ذلت دنیا میں ہے اور آخرت میں انھیں بہت بڑا عذاب ہو گا۔‘‘[ المائدۃ:۳۳]

3۔ جوا کھیلنا

بعض لوگ جوا کھیل کر پیسے کماتے ہیں۔مثلا کسی کلب وغیرہ میں بیٹھ کر تاش یا کوئی اور گیم کھیلتے ہیں اور اس پر جوا لگاتے ہیں۔یا راتوں رات کروڑ پتی بننے کی خواہش لئے کسی بڑی لاٹری میں حصہ لیتے ہیں اور زندگی بھر کی پونجی اس میں جھونک دیتے ہیں۔پھر لاٹری ان میں سے کسی ایک کے نام نکلتی ہے اور باقی سب لوگ منہ تکتے رہ جاتے ہیں۔تو اس طرح آمدنی کے جتنے ذرائع ہیں وہ سب حرام ہیں۔جوے کے متعلق اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ﴾

’’ اے ایمان والو ! بات یہی ہے کہ شراب اور جو ا اور وہ پتھر جن پر بتوں کے نام سے جانور ذبح کئے جاتے ہیں اور فال نکالنے کے تیر(یہ سب)نا پاک ہیں اور شیطان کے کام ہیں۔لہذا تم ان سے بچو تاکہ کامیابی حاصل کر سکو۔‘‘ [المائدۃ:۹۰ ]]

المیسر)سے مراد ہر وہ کام ہے جس میں مختلف لوگ ایک جیسی رقم لگا کر شریک ہوں۔لیکن بعد میں بعض کو ملے اور بعض کو نہ ملے۔یا بعض کو کم ملے اور بعض کو زیادہ۔

مثلا انعامی بانڈز ، سیونگ سرٹیفکیٹ ، ریفل ٹکٹ اور خریدی ہوئی اشیاء میں سے انعامی کوپن نکالنا وغیرہ۔اسی طرح

اس میں انشورنس کی مختلف صورتیں بھی شامل ہیں۔اس کے علاوہ کئی لوگ پیسوں کے عوض کچھ نمبر خرید لیتے ہیں ، پھر ان میں قرعہ اندازی ہوتی ہے اور بعض نمبروں کیلئے انعامات نکالے جاتے ہیں۔تو یہ بھی جوا ہے۔

4۔ سودی لین دین

سودی لین دین کے ذریعے کمانا بھی حرام ہے۔

اللہ تعالی نے ایمان والوں کو مخاطب کرکے سودی لین دین کو قطعی طور پر چھوڑ دینے کا حکم دیا اور فرمایا کہ اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو یہ اللہ اور اس کے رسول کے خلاف اعلانِ جنگ کے مترادف ہو گا۔

فرمایا:﴿یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْن ٭ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُئُ وْسُ اَمْوَالِکُمْ لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ﴾

’’ اے ایمان والو ! اللہ تعالی سے ڈرو اور اگر تم سچے مومن ہو توجو سود باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو۔پھر اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ تعالی اور اس کے رسول سے جنگ کرنے کیلئے تیار ہو جاؤ۔ہاں اگر توبہ کر لو تو تمھارا اصل مال تمھارا ہی ہے۔نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔‘‘[ البقرۃ:۲۷۸۔۲۷۹]

سامعین کرام ! اگر آپ میں سے کوئی شخص سودی لین دین کرنے میں ملوث ہے تووہ فورا اس سے سچی توبہ کرے اوراسے چھوڑ دے۔نہ آپ خودکسی شخص سے اور نہ ہی کسی بنک سے سود پر قرضہ لیں۔نہ اپنی ضروریات کیلئے اور نہ ہی تجارتی مقاصد کیلئے۔اور نہ ہی کسی کو سود پر قرضہ دیں۔اور نہ ہی کسی بنک میں فکس منافع پر رقم جمع کرائیں کیونکہ یہ بھی سود ہی کی ایک شکل ہے۔

جاہلیت کے دورمیں جب ایک مالدار شخص کسی غریب کو قرضہ دیتا تو سود کے ساتھ دیتا۔پھر جب وہ مقررہ مدت میں قرضہ واپس نہ کرتا تو قرض خواہ سود کی مقدار میں اضافہ کرتے ہوئے مدت بڑھا دیتا۔پھر کرتے کرتے سود اصل قرضہ سے زیادہ ہو جاتا۔یہ بد ترین ظلم تھا جسے اسلام نے قطعی طورپر حرام کردیا۔

اللہ تعالی نے فرمایا:﴿یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْکُلُوا الرِّبٰٓوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَۃً وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ﴾

’’ اے ایمان والو ! تم بڑھا چڑھا کر سود نہ کھاؤ اور اللہ تعالی سے ڈرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہو سکو۔‘‘ [ آل عمران:۱۳۰ ]

سود کتنا بڑا گناہ ہے ! اس کا اندازہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے کر سکتے ہیں:

(اَلرِّبَا سَبْعُوْنَ حَوْبًا ، أَیْسَرُہُمَا أَنْ یَّنْکِحَ الرَّجُلُ أُمَّہُ)

’’ سود میں ستر گناہ ہیں اور اس کا سب سے ہلکا گناہ ایسے ہے جیسے کوئی آدمی اپنی ماں سے نکاح کر لے۔ ‘‘[[ ابن ماجہ:۲۲۷۴۔ وصححہ الألبانی]

اور دوسری روایت میں ہے:(اَلرِّبَا اِثْنَانِ وَسَبْعُوْنَ بَابًا أَدْنَاہَا مِثْلُ إِتْیَانِ الرَّجُلِ أُمَّہُ…)

’’ سود کے بہتر دروازے ہیں اور اس کا سب سے ہلکا گناہ ایسے ہے جیسے کوئی شخص اپنی ماں سے زنا کرے۔‘‘[[ الطبرانی عن البراء رضی اللّٰه عنہ۔صحیح الجامع للألبانی:۳۵۳۷]

اور حضرت عبد اللہ بن حنظلۃ الراہب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(دِرْہَمُ رِبًا یَأْکُلُہُ الرَّجُلُ وَہُوَ یَعْلَمُ أَشَدُّ عِنْدَ اللّٰہِ مِنْ سِتَّۃٍ وَّثَلاَثِیْنَ زَنْیَۃً)

’’ جانتے ہوئے سود کا ایک درہم کھانا اللہ کے نزدیک چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ برا ہے۔‘‘ [سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ:۱۰۳۳]

اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ(لَعَنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم آکِلَ الرِّبَا ، وَمُوْکِلَہُ ، وَکَاتِبَہُ ، وَشَاہِدَیْہِ ، وَقَالَ:ہُمْ سَوَائٌ)

 

 

                               

یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت بھیجی سود کھانے والے پر ، سود کھلانے والے پر ، اس کے لکھنے والے پر ، اس کے گواہوں پر۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ سب گناہ میں برابر ہیں۔[[ مسلم:۱۵۹۸]

محترم سامعین !

اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہو کہ سود سے مال بڑھتا اور اس میں اضافہ ہوتاہے تو یہ اس کی غلط فہمی ہے۔کیونکہ اللہ رب العزت کا فرما ن ہے:﴿وَ مَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًالِّیَرْبُوَاْ فِیْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰہِ وَ مَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَکٰوۃٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْہَ اللّٰہِ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُضْعِفُوْن﴾

’’ اور تم لوگ جو سود دیتے ہو تاکہ لوگوں کے اموال میں اضافہ ہو جائے تو وہ اللہ کے نزدیک نہیں بڑھتا۔اور تم لوگ جو زکاۃ دیتے ہو اللہ کی رضا حاصل کرنے کیلئے تو ایسے ہی لوگ اسے کئی گنا بڑھانے والے ہیں۔‘‘ [الروم:۳۹]

بلکہ اللہ تعالی نے واضح طور پر فرمایا کہ وہ سودی معیشت کو برباد کردیتا ہے:﴿یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِ ﴾

’’ اللہ سود کو مٹاتا اور صدقوں کو بڑھاتا ہے۔‘‘[[ البقرۃ:۲۷۶ ]]

ان دونوں آیات سے ثابت ہوا کہ سود سے مال میں اضافہ نہیں ہوتابلکہ کمی واقع ہوتی ہے۔ہاں جو چیز مال میں بڑھوتری کا سبب بنتی ہے وہ ہے صدقہ وزکاۃ۔

اور جو لوگ سودی لین دین کرکے ہمیشہ اپنا روپیہ پیسہ بڑھانے کے چکر میں رہتے ہیں انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(مَا أَحَدٌ أَکْثَرَ مِنَ الرِّبَا إِلَّا کَانَ عَاقِبَۃُ أَمْرِہٖ إِلٰی قِلَّۃٍ)

’’ کوئی شخص چاہے کتنا سودلے لے اس کا انجام آخر کار قلت اور خسارہ ہی ہو گا۔‘‘[.ابن ماجہ:۲۲۷۹۔ وصححہ الألبانی]

اللہ تعالی نے سودی لین دین کرنے والے شخص کو سخت ترین وعید سنائی ہے۔اس کا فرمان ہے:

﴿ اَلَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا کَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْٓا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا وَ اَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا فَمَنْ جَآئَہٗ مَوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ فَانْتَہٰی فَلَہٗ مَا سَلَفَ وَ اَمْرُہٗٓ اِلَی اللّٰہِ وَ مَنْ عَادَ فَاُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ﴾

’’ جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ ایسے ہی کھڑے ہونگے جیسے ایک شخص کو شیطان نے چھو کر خبطی بنا دیاہو۔یہ اس لئے کہ وہ یہ کہا کرتے تھے کہ تجارت بھی تو سود ہی کی طرح ہے۔حالانکہ اللہ تعالی نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام کردیا ہے۔لہذا جس شخص کے پاس اس کے رب کی طرف سے نصیحت آ گئی اور وہ(سودی لین دین سے)باز آگیا تو ا س کیلئے ہے جو گذر گیا۔اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔اور جو شخص دوبارہ(سود کی طرف)لوٹا تو ایسے لوگ جہنمی ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔‘‘ [البقرۃ:275]

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے بیان فرمایا ہے کہ سود خوری کرنے والا شخص قیامت کے روز پاگل اور دیوانہ کھڑا کیا جائے گا۔اور اگر کوئی سود خور قرآن وحدیث کے ذریعے سود کی حرمت معلوم کرنے کے بعد بھی سودی لین دین کو جاری رکھے تو وہ جہنم میں داخل ہو گا۔  جاری !!!!!!!

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں