إنَّ الْحَمْدَ لِلهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ
وَنَسْتَغْفِرُهُ، وَنَعُوذُ بِاللهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ
أَعْمَالِنَا، مَنْ يَهْدِهِ اللهُ فَلاَ مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلاَ
هَادِىَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ
لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
● ﴿يَا
أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا
وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ﴾ (آل عمران:102)
● ﴿يَا
أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ
وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً
وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ
عَلَيْكُمْ رَقِيبًا﴾ (النساء:1)
● ﴿يَاأَيُّهَا
الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَقُولُوا قَوْلاً سَدِيدًا * يُصْلِحْ لَكُمْ
أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ
فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا﴾ (الأحزاب: 70، 71)
أَمَّا بَعْدُ:
فَإِنَّ أَصْدَقَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ،
وَأَحْسَنَ الْهَدْيِ هَدْيُ مُحَمَّدٍ، وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا،
وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ، وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي
النَّارِ
حرام کمائی کی مختلف صورتیں
5۔ جھوٹی قسم اٹھا کر کسی کے مال پر قبضہ
کرنا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:(مَنْ
حَلَفَ عَلیٰ یَمِیْنٍ فَاجِرَۃٍ لِیَقْتَطِعَ بِہَا مَالَ امْرِیئٍ مُسْلِمٍ لَقِیَ
اللّٰہَ وَہُوَ عَلَیْہِ غَضْبَان)
’’ جو آدمی جھوٹی قسم اٹھائے تاکہ اس کے ذریعے
کسی مسلمان کے مال پر قبضہ کر لے تو وہ اللہ تعالی کو اس حال میں ملے گا کہ وہ اس
پر ناراض ہو گا۔‘‘ [متفق علیہ]
6۔ ماپ تول میں کمی کرنا
بعض لوگ ماپ تول میں کمی کرکے پیسہ کماتے ہیں اور یہ
حرام ہے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ ٭ الَّذِیْنَ
اِِذَا اکْتَالُوْا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ ٭ وَاِِذَا کَالُوْہُمْ اَوْ
وَّزَنُوْہُمْ یُخْسِرُوْنَ ﴾
’’ ہلاکت وبربادی ہے ماپ تول میں کمی کرنے
والوں کیلئے۔جو جب لوگوں سے ناپ کر لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں اور جب انھیں
ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں۔‘‘[ المطففین:۱۔۳]]
یعنی دوہرا معیار اپنا رکھا ہے کہ جب لیتے ہیں تو
پورا پورا لیتے ہیں اور جب کوئی چیزدیتے ہیں تو ماپ تول میں ڈنڈی مارتے ہیں۔ایسے
لوگوں کیلئے تباہی وبربادی ہے ! والعیاذ باللہ
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(وَلَمْ یَنْقُصُوا الْمِکْیَالَ وَالْمِیْزَانَ
إِلَّا أُخِذُوْا بِالسِّنِیْنَ وَشِدَّۃِ الْمَؤنَۃِ وَجَوْرِ السُّلْطَانِ عَلَیْہِمْ)
’’ جوقوم ماپ تول میں کمی کرتی ہے اسے قحط
سالی ، مہنگائی اور بادشاہ کے ظلم میں جکڑ لیا جاتا ہے۔‘‘[ ابن ماجۃ:۴۰۱۹۔وصححہ الألبانی]
7۔ کاروبار میں دھوکہ کرنا
بعض لوگ اپنے کاروبار میں دھوکہ ، فراڈ اور ملاوٹ وغیرہ
کرکے پیسہ کماتے ہیں اور یہ حرام ہے۔
ایک مرتبہ رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گذرغلہ
کے ایک ڈھیر سے ہوا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے اندر ہاتھ ڈالا توآپ کی انگلیوں
کو نمی سی محسوس ہوئی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ! غلہ بیچنے والے ! یہ کیا
ہے ؟ اس نے کہا:اللہ کے رسول ! اسے بارش نے تر کردیا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا:
(أَفَلَا جَعَلْتَہُ فَوْقَ
الطَّعَامِ کَیْ یَرَاہُ النَّاسُ ! مَنْ غَشَّ فَلَیْسَ مِنِّی)
’’ اسے تم نے اوپر کیوں نہ رکھا تاکہ لوگ اسے
دیکھ لیتے ! جو شخص دھوکہ کرے اس کامجھ سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘[ مسلم:۱۰۲]]
اس سے معلوم ہوا کہ کاروبار میں دھوکہ ، فراڈ اور
ملاوٹ کرنا حرام ہے۔
8۔ رشوت لینا
بعض لوگ کسی کا کوئی کام کرکے یا کروا کے اس کے بدلے
میں رشوت لیتے ہیں۔اور اب تونوبت یہاں تک جا پہنچی ہے کہ اس میں بالکل ہی شرم
محسوس نہیں کی جاتی۔بلکہ پوری بے شرمی کے ساتھ اس کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔پہلے’مک
مکا ‘ ہوتا ہے اور پھر اس کام کیلئے کوئی پیش رفت ہوتی ہے۔رشوت ایک ایسا ناسور بن
چکاہے کہ چھوٹے سے چھوٹا کام بھی بغیر رشوت کے نہیں ہوتا۔اس لعنت کی وجہ سے حق
والوں کو ان کے حقوق سے محروم کر دیا جاتا ہے اور جو اس کے مستحق نہیں ہوتے انھیں
نواز دیا جاتا ہے۔
جبکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:(لَعَنَ
اللّٰہُ الرَّاشِیَ وَالْمُرْتَشِیَ وَالرَّائِشَ بَیْنَہُمَا)
’’ اللہ تعالی کی لعنت ہوتی ہے رشوت دینے
والے پر ،لینے والے پر اور اس پر بھی جو ان دونوں کے درمیان معاملہ طے کرواتا
ہے۔‘‘[ أبو داؤد:۳۵۸۰ وأحمد:۲۲۴۵۲واللفظ لہ]
ہاں اگر کسی صاحبِ حق کو اس کا حق رشوت دئیے بغیر نہ
مل رہا ہو تو اپنا حق لینے یا اپنے اوپر ظلم ہونے سے بچنے کیلئے وہ رشوت دے سکتا
ہے۔اس صورت میں دینے والے کو گناہ نہیں ہو گا بلکہ لینے والے اور معاملہ طے کرانے
والے کو ہی ہو گا۔[ عون المعبود ج ۹ ص ۳۵۹]
9۔ حرام اشیاء کا کاروبار کرنا
اشیائے محرمہ کا کاروبار کرنا حرام ہے۔اور جو شخص شریعت
میں حرام کردہ چیزوں کے ساتھ تجارت اور کاروبار کرتا ہو اس کی اس کاروبار کے ذریعے
ہونے والے آمدنی بھی حرام ہی ہوگی۔
مثلا سگریٹ ، تمباکو ، شراب اور تمام نشہ آور اشیاء
کا کاروبار حرام ہے۔اسی طرح موسیقی اور گانوں پر مشتمل کیسٹوں یا سی ڈیز کا
کاروبار۔اسی طرح فلمی کیسٹوں اور سی ڈیز کا لین دین کرنا۔اسی طرح حرام جانوروں کی
خرید وفروخت بھی حرام ہے اور ان کے ذریعے ہونے والی آمدنی بھی۔اس کے علاوہ کسی
ناجائز کام کے ذریعے کمانا بھی نا جائز ہے۔مثلا بدکاری ، کہانت اور داڑھی مونڈ
کرکمائی کرنا درست نہیں ہے۔
«أن رسول الله
صلى الله عليه وسلم نهى عن ثمن الكلب، ومَهْرِ البغي، وحُلْوَانِ الكَاهِنِ»
حضرت ابو مسعود الأنصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں
کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت ، زانیہ کی آمدنی اور نجومی کی
کمائی سے منع فرمایا۔[ [ البخاری:۲۲۳۷، مسلم:۱۵۶۷]]
ان رسول الله صلى الله عليه وسلم: " نهى
عن: ثمن الكلب، ومهر البغي، وحلوان الكاهن ".
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ کیا کتے اور
بِلّے کی قیمت وصول کرنا جائز ہے ؟ تو انھوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔[ مسلم:۱۵۶۷] [4] [ مسلم:۱۵۶۹]]
ہاں البتہ شکاری کتا اس سے مستثنی ہے۔[ ترمذی:۱۲۸۱۔ قال الألبانی:حسن ]]
10۔یتیموں کا مال کھانا
بعض لوگ یتیموں کے سرپرست
ہوتے ہیں۔اور یتیموں کو جو مال ان کے والد کی وراثت سے ملتا ہے ، یا حکومت ِ وقت یا
کسی فلاحی تنظیم کی طرف سے ان کا ماہانہ وظیفہ مقرر کیا جاتا ہے یا کوئی مالدار
آدمی ان کے اخراجات کیلئے پیسے دیتا ہے تو ان کے سرپرست ان کا مال نا جائز طور پر
خود ہڑپ کر لیتے ہیں۔یہ بہت بڑا ظلم ہے اور اپنے پیٹ
میں جہنم کی آگ بھرنے کے
مترادف ہے۔والعیاذ باللہ
اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰی ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْکُلُوْنَ
فِیْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا وَ سَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا ﴾
’’وہ لوگ جو
ظلم کرتے ہوئے یتیموں کا مال ہڑپ کر جاتے ہیں وہ در حقیقت اپنے پیٹوں میں آگ بھر
تے ہیں اور وہ عنقریب جہنم کی آگ میں داخل ہونگے۔‘‘[ النساء:10]
اورنبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم نے اِس فعل کو ان سات گناہوں میں شمار کیا ہے جو انسان کیلئے نہایت ہی مہلک ہیں۔
11۔ خیانت
کرنا
بعض لوگ اُس مال میں خیانت
کرکے پیسہ کماتے ہیں جو ان کے پاس بطور امانت رکھا ہوتا ہے۔اور یہ بہت بڑا گناہ
ہے۔اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں:
﴿ وَ مَنْ یَّغْلُلْ یَاْتِ
بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَ
ھُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ﴾
’’ اور جوشخص
خیانت کرتا ہے وہ قیامت کے روز خیانت کردہ چیز سمیت حاضر ہو گا۔پھر ہر شخص کو اس کی
کمائی کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔‘‘[ العمران3:16]
اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم کا ارشاد ہے:(أَیُّمَا رَجُلٍ
اِسْتَعْمَلْنَاہُ عَلٰی عَمَلٍ فَکَتَمَنَا مِخْیَطًا فَمَا فَوْقَہُ کَانَ
غَلُوْلًا یَأْتِی بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ)
’’ جس آدمی
کو ہم کوئی ذمہ داری سونپیں ، پھر وہ ہم سے ایک سوئی یا اس سے بڑی چیز کو چھپا لے
تو یہ خیانت ہوگی اور وہ اس چیز سمیت قیامت کے روز حاضر ہو گا۔‘‘[ مسلم:187]]
ویسے بھی خیانت کرنا منافق کی
نشانی ہے۔یہ ایک سچے مومن کو زیب نہیں دیتا کہ وہ امانت میں خیانت کرے۔
یاد رہے کہ خیانت صرف مال میں
ہی نہیں بلکہ اس میں کچھ اور چیزیں بھی شامل ہیں۔مثلا زوجین کا ایک دوسرے کے رازوں
کو ظاہر کرنا۔یا کسی بھی شخص کے رازوں سے پردہ اٹھانا۔اپنے آفس یا کمپنی کی اشیاء
کو بغیر اجازت کے ذاتی مقاصد کیلئے استعمال کرنا۔اپنے منصب سے نا جائز فائدہ
اٹھانا۔یہ سب خیانت ہی کی صورتیں ہیں جن سے بچنا ضروری ہے
جاری !!!!!!!
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں