بِسّمِ اللَّہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم
إنَّ الْحَمْدَ لِلهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ
وَنَسْتَغْفِرُهُ، وَنَعُوذُ بِاللهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا،
مَنْ يَهْدِهِ اللهُ فَلاَ مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلاَ هَادِىَ لَهُ،
وَأَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، وَأَشْهَدُ
أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
● ﴿يَا
أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا
وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ﴾ (آل عمران:102)
● ﴿يَا
أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ
وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً
وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ
عَلَيْكُمْ رَقِيبًا﴾ (النساء:1)
● ﴿يَاأَيُّهَا
الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَقُولُوا قَوْلاً سَدِيدًا * يُصْلِحْ لَكُمْ
أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ
فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا﴾ (الأحزاب: 70، 71)
أَمَّا بَعْدُ:
فَإِنَّ أَصْدَقَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ،
وَأَحْسَنَ الْهَدْيِ هَدْيُ مُحَمَّدٍ، وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا،
وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ، وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي
النَّارِ
ہمیں دینی تعلیم کے حصول کا
حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے،قرآن
کریم کے تقریباً 78 ہزار الفاظ میں سب سے پہلا لفظ جو اللہ عزوجل نے رسول
کریم ﷺ کے قلب اطہر پہ نازل فرمایا وہ ’’ إقرأ ‘‘ہے یعنی پڑھیئے اور قرآن پاک کی 6ہزارسے زائد آیتوں
میں سب سے پہلے جو 5 آیتیں نازل فرمائی گئیں، ان سے بھی قلم کی اہمیت اور علم ِدین
کی عظمت وفضیلت ظاہر ہوتی ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کی امت کے نام اپنے پہلے
ہی پیغام میں علم ِدین کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ، خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ،
اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ، الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ، عَلَّمَ الْإِنسَانَ
مَا لَمْ يَعْلَمْ
خیرُكم مَن
تعلَّم القرآنَ وعلَّمَهُ
(صحيح البخاري:5027)
’’تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے ‘‘۔
علم
انبیاء کی میراث
علم انبیاء کی میراث
ہے اور علماء انبیاء کے وارث ہیں۔رسول کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
وإنَّ العلماءَ ورثةُ الأنبياءِ ، وإنَّ الأنبياءَ
لم يُورِّثُوا دينارًا ولا درهمًا ، ورَّثُوا العِلمَ فمن أخذَه أخذ بحظٍّ وافرٍ
(صحيح أبي داود: 3641، والترمذي :2682)
بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء
نے کسی کو دینار و درہم کا وارث نہیں بنایا بلکہ انہوں نے علم کا وارث بنایا ہے۔
اس لئے جس نے اس علم کو حاصل کر لیا، اس نے (علم نبوی اور وراثت نبوی سے) پورا
پورا حصہ لیا۔
إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ
الْعُلَمَاءُ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ غَفُورٌ
( سورہ فاطر : 28 )
بے شک اللہ سے اس کے بندوں میں سے علماء ہی
ڈرتے ہیں، بے شک اللہ بڑا زبردست، بڑا مغفرت کرنے والا ہے۔
والذي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بيَدِهِ، لو
تَعْلَمُونَ ما أعْلَمُ، لَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا ولَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا.
(صحيح البخاري |: 6637)
اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے
اگر تم بھی آخرت کی وہ مشکلات جانتے جو میں جانتا ہوں تو تم زیادہ روتے اور کم
ہنستے۔“
من تعلَّم علمًا مما يبتغى به وجهَ اللهِ
تعالى ، لا يتعلَّمُه إلا ليُصيبَ به عرضًا من الدنيا لم يجِدْ عَرْفَ الجنةِ يومَ
القيامةِ
(اخرجه ابوداؤد ؛ 3664 ، وحسنه الالبانی)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس شخص نے علم دین کو جس سے خالص اللہ تعالیٰ کی رضا مندی
مقصود ہوتی ہے محض کسی دنیاوی فائدہ کے لیے سیکھا تو وہ قیامت کے دن جنت کی خوشبو
تک نہیں پائے گا
علمائے کرام کی فضیلت،
قرآ ن وحدیث کی روشنی میں
قرآن وحدیث میں علماء کرام کی بڑی فضیلت اور
شان بیان ہوئی ہے ۔رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إنَّ فضلَ العالمِ على العابدِ كفضلِ القمرِ
ليلةَ البدرِ على سائرِ الكواكبِ
(صحيح أبي داود:3641)
بلاشبہ عالم کی عابد پر فضیلت ایسے ہی ہے جیسے
کہ چودھویں کے چاند کی سب ستاروں پر ہوتی ہے ۔
ایک اور مقام پر حضرت امامہ باہلی رضی اللہ
عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
ذُكِرَ لرَسولِ اللهِ صلَّى اللهُ علَيه
وسلَّم رجُلانِ؛ أحدهما عابدٌ، والآخَرُ عالِمٌ، فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ
علَيه وسلَّم: فضلُ العالمِ على العابدِ كفضلي على أدناكم
(صحيح الترمذي: 2685)
رسول اللہ ﷺکے سامنے دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا،
ان میں سے ایک عابد تھا اور دوسرا عالم، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”عالم کی فضیلت
عابد پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تم میں سے ایک عام آدمی پر ہے“
دینی
علم سے غفلت کے نقصانات
موجودہ دور میں مسلمانوں کے درمیان رفتہ
رفتہ اسلامی تعلیم سے دوری اور بیزاری بڑھتی جارہی ہے ، اور ساری توجہ محض دنیوی
تعلیم کی طرف کی جا رہی ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے اُن افراد کی مذمت کی ہے جو آخرت
کے علم سے غفلت برتتے ہیں اور صرف دنیا کے ظاہری علوم سے واقف رہتے ہیں ، جیساکہ
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ
الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ
(سورۃ الروم : 7 )
وہ لوگ دنیاوی زندگی کے ظاہری امورکا علم
رکھتے ہیں جبکہ آخرت کے علم سے بالکل ہی بے خبر ہیں
2=اللہ کی محبت سے محرومی
إنَّ اللهَ تعالى يُبغِضُ كلَّ عالِمٍ
بالدنْيا ، جاهِلٍ بالآخِرَةِ
(صحيح الجامع : 1879)
بےشک اللہ تعالیٰ ہر اس آدمی کو ناپسند کرتا
ہے جو دنیا کا علم اپنے پاس تو رکھتا ہے لیکن آخرت کے علم کے بارے میں جاہل ہے ۔
معاشرہ
کی موجودہ صورتِ حال
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے نبی
کریم ﷺ کا یہ فرمان مروی ہے کہ:
إنَّ اللَّهَ لا يَقْبِضُ العِلْمَ
انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ العِبَادِ، ولَكِنْ يَقْبِضُ العِلْمَ بقَبْضِ
العُلَمَاءِ، حتَّى إذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُؤُوسًا
جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فأفْتَوْا بغيرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وأَضَلُّوا.
(صحيح البخاري: 100،
ومسلم:2673)
’’ اللہ علم کو بندوں کے سینوں
سے نہیں نکالے گا بلکہ وہ علماء کی روحیں قبض کر کے علم کو اٹھا لے گا ، حتیٰ کہ
جب وہ کسی عالم کو باقی نہیں رکھے گا تو لوگ جہلا کو رئیس بنا لیں گے ، جب ان سے
مسئلہ دریافت کیا جائے گا تو وہ علم کے بغیر فتویٰ دیں گے ، وہ خود گمراہ ہوں گے
اور دوسروں کو گمراہ کریں گے ۔ جاری
!!!!!!!!!!
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں