الحمد
للّٰہ حمد الشاکرین، والصلاۃ والسلام علی المبعوث رحمۃ للعالمین، نبینا محمد إمام
الدعاۃ والمجاہدین ، وعلی آلہ الطیبین وأصحابہ الذین بذلوا أنفسھم ونفیسہم فی نصرۃ
الدین ، ومن سلک مسلکہم ودعا إلی سبیل المؤمنین وتبعہم بإحسان إلی یوم الدین و بعد
اِنَّ اَصدَقَ الحَدِیثِ کِتَابُ اﷲِ وَاِنَّّ
اَفضَلَ الھَدیِ ھَدیُ مُحَمَّدٍ صلی
اللہ علیہ وسلم وَّ شَرُّ الْامُورِ مُحدَثَاتُھَا وَ کُلُّ
مُحدَثَۃٍ بِدعَۃٌ وَ کُلُّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّارِ۔ ۔کُنتُمْ خَیْرَ
أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ
الْمُنکَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّٰہِ [عمران
:110
و قال
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فَوَ اللّٰہِ لَأَنْ یَہْدِیَ
اللّٰہُ بِکَ رَجُلاً وَاحِدًا خَیْرٌ لَّکَ مِنْ حُمُرِ النَّعَمِ.
محترم حضرات ! جیسے جیسے ہم عہدِ نبوت سے دور ہوتے جا رہے ہیں ویسے
ویسے دین کی اجنبیت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور لوگ دین اسلام سے دور ہوتے چلے
جا رہے ہیں۔اس کا اہم سبب یہ ہے کہ لوگ دینی علم کی طرف متوجہ نہیں ہو رہے ، ان کی
پوری توجہ دنیاوی علم اور اعلی سے اعلی ڈگریوں کے حصول پر مرکوز ہے۔ان کا مطمع ِ
نظر زیادہ سے زیادہ دنیاوی آسائشوں کو حاصل کرنا اور اپنے اور اپنے بیوی بچوں کے
مستقبل کو زیادہ سے زیادہ ’محفوظ ‘ بناناہے۔ان کی تمنا ہے کہ ’بنک بیلنس ‘ اتنا ہو
جائے کہ آنے والی نسل کی ضرورتوں کیلئے پورا ہو جائے ! وہ اپنی اِن بڑی بڑی
خواہشات کو پورا کرنے کیلئے جو جد وجہد اور تگ ودو کر رہے ہیں اور جس طرح دن رات
محنت کر رہے ہیں اس کی وجہ سے وہ دین سے مکمل طور پر یا کافی حد تک غافل ہو چکے
ہیں۔جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ وہ اور ان کے اہل وعیال دین کے بنیادی مسائل اور
حلال وحرام کے بارے میں بالکل جاہل ہیں۔
اِس پر مستزاد یہ کہ منبر ومحراب کے متولی حضرات میں سے بہت سارے
لوگوں نے اپنے خطبات وغیرہ میں سامعین کرام کو قصوں ،کہانیوں کا عادی بنا دیا ہے
اور دین کے بنیادی اور اہم ترین مسائل پر بہت کم گفتگو فرماتے ہیں۔اور ان میں سے
کئی لوگ ایسے بھی ہیں کہ جو حق گوئی سے کام نہیں لیتے اور لوگوں کی خواہشات کو
سامنے رکھتے ہوئے ان کے مزاج اور شوق کے مطابق ہی بات کرتے ہیں۔اور چونکہ پیٹ بھی
ساتھ لگا ہوا ہے اور بیوی بچوں کی ضرورتوں کو بھی پورا کرنا ہوتا ہے اس لئے وہ
سامعین کے مزاج کے خلاف بات کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے !! انہی حضرات کے ’ کتمان ِ
حق ‘ کی وجہ سے گمراہی ہے کہ بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔طوفان بد تمیزی ہے کہ تھمنے
کا نام ہی نہیں لے رہا ! اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ انہی میں سے کئی لوگ حرام کو
حرام کہنے کی بجائے حرام کو حلال کہنے کی بھی جسارت کر جاتے ہیں ! یوں وہ خود بھی
گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کی بھی گمراہی کا سبب بنتے ہیں۔
اِس کے علاوہ ’میڈیا ‘آج کل اتنی ترقی کر چکا ہے کہ ایک ہی ملک میں
بیسیوں چینل مختلف ناموں کے ساتھ زہر افشانی کر رہے ہیں۔ اور ملکی چینلز کے علاوہ
غیر ملکی چینلز بھی بہت زیادہ ہیں جن کے ذریعے مغربی ثقافت کی تباہ کن یلغار ہے
اور اخلاق وکردار کا جنازہ نکل رہا ہے ! اور نہایت دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ
ان ملکی وغیر ملکی ٹی وی چینلز تک رسائی بھی بہت آسان کردی گئی ہے۔چنانچہ دور
دراز کے علاقوں میں بھی ’کیبل ‘ اور ’ سیٹلائٹ ‘ کے ذریعے ان کی نشریات نہایت
آسانی کے ساتھ پہنچ رہی ہیں۔چوبیس گھنٹے ’نیوز چینلز‘ ’ انٹر ٹینمنٹ چینلز ‘
’سپورٹس چینلز ‘ وغیرہ کے ذریعے بے حیائی کا وہ سیلِ رواں ہے کہ اللہ کی پناہ !
نیوز ہوں ، ٹاک شوز ہوں ، میچز ہوں ، انٹرٹینمنٹ کے مختلف پروگرامز ہوں… ہر ایک
میں یہ چینلز کسی نہ کسی طرح بے حیائی اور بے غیرتی کو خوب ہوا دے رہے ہیں۔جس کے
نتیجے میں لوگ بڑی تیزی کے ساتھ دین سے برگشتہ ہو رہے ہیں ، فرائضِ اسلام نَسْیًا
مَّنْسِیًّا ہو رہے ہیں اور حرام کام رفتہ رفتہ حلال اور ناجائز امور آہستہ
آہستہ جائز ہوتے جا رہے ہیں !
اسی طرح جدید وسائل مثلا موبائل فون ، ایم پی تھری(mp3)، ایم پی فور(mp4)اور سی ڈی پلیر وغیرہ جو آج کل تقریبا ہر
شخص کے پاس موجود ہیں ، ان کے ذریعے مزید آسانیاں ہو گئی ہیں اور ’ انٹر ٹینمنٹ ‘
کے نام پر بہت ساری چیزیں جنھیں کچھ عرصہ قبل ہمارے بزرگوں کے دور میں بہت بڑا
گناہ تصور کیا جاتا تھا ، وہ آج کل جائز ہی نہیں بلکہ اِس دور کی اہم ترین ضرورت
تصور کی جانے لگی ہیں !
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:(لَتُنْقَضُنَّ عُرَی
الْإِسْلَامِ عُرْوَۃً عُرْوَۃً ، فَکُلَّمَا نَقَضَتْ عُرْوَۃٌ تَشَبَّثَ النَّاسُ
بِالَّتِی تَلِیْہَا ، فَأَوَّلُہَا نَقْضًا الْحُکْمُ وَآخِرُہَا الصَّلَاۃُ)
اسلام کے کڑوں کو ایک ایک کرکے توڑ دیا جائے گا۔جب ایک کڑا ٹوٹے گا
تو لوگ دوسرے کے پیچھے پڑ جائیں گے۔جو کڑا سب سے پہلے ٹوٹے گا وہ ہے:فیصلہ۔اور سب
سے آخری کڑا ہے:نماز ‘‘[رواہ أحمد بسند حسن 1]
اسلام کے جن کڑوں کو توڑ دیا گیا ہے انہی میں سے ایک حلال وحرام کا
کڑا بھی ہے جس کو لوگوں نے چُور چُور کردیا ہے۔حالانکہ تحلیل وتحریم کا اختیار صرف
اور صرف اللہ تعالی کے پاس ہے۔وہ جس چیز کو چاہے حلال قرار دے اور جس کو چاہے حرام
قرار دے۔اور کسی بھی شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنی منشاء کے مطابق کسی چیز
کو حلال یا حرام قرار دے۔جو شخص ایسے کرے گا وہ یقینا اللہ تعالی کی حدود کو
پھلانگنے والا ہو گا۔جس کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿ وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ
اللّٰہِ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ ﴾
’’ اور جو شخص اللہ کی حدود کو پھلانگے گا تو ایسے ہی لوگ ظالم ہیں۔‘‘[
[البقرۃ:۲۲۹]
حلال وحرام کا ایک مسئلہ جس کو اِس دور میں کھلونا بنا لیا گیا ہے
اور جو آج ہمارے خطبۂ جمعہ کا موضوع ہے وہ ہے آلات ِ
موسیقی اور گانے بجانے کا مسئلہ ! چنانچہ بہت سارے لوگ نہ صرف ان چیزوں کو سرے
سے حرام ہی نہیں سمجھتے بلکہ ستم ظریفی یہ ہے کہ کئی نام نہاد ’’ روشن خیال ‘‘
لوگوں نے ان کے جواز کے فتوے بھی جاری کر دئیے ہیں ! ان سے پوچھا جائے کہ کیا
انھوں نے کسی دلیل کی بناء پر ان چیزوں کو حلال قرار دیا ہے ؟ تو اگرچہ ان کی طرف
سے جواب یہ ملے گا کہ ہاں فلاں فلاں دلیل کی بناء پر یہ فتوی جاری کیا گیا ہے ،
لیکن حقیقت میں ان کے یہ دلائل خود ساختہ ہیں اور وہ قطعا اِس چیز پر دلالت نہیں
کرتے کہ موسیقی حلال ہے۔تو انھوں نے یہ فتوی کیوں جاری کیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ
ان لو گوں نے ایسا عام لوگوں کا رجحان دیکھ کر اور اپنی خواہشِ نفس کی تسکین کی
خاطر کیا ہے۔جبکہ قرآن وحدیث میں آلاتِ موسیقی اور گانے بجانے کے حرام ہونے کے
دلائل بالکل واضح ہیں اور ان میں کسی قسم کا شک وشبہ نہیں ہے۔ان دلائل کو ذکر کرنے
سے پہلے ہم آپ کو یہ بتاتے چلیں کہ قرآن مجید کی جو آیات موسیقی کی تحریم پر
دلالت کرتی ہیں وہ سب مکی آیات ہیں۔جبکہ شراب کو مدینہ منورہ میں حرام کیا
گیا۔یعنی موسیقی کی تحریم شراب کی تحریم سے قبل نازل ہوئی ، جس کی وجہ یہ بیان کی
گئی ہے کہ جس دل میں گانوں کی محبت ہو وہ اللہ رب العزت کی وحی کو سننے اور اس کے احکامات
پر عمل کرنے کے قابل نہیں رہتا۔اس لیے اللہ تعالی نے دین کے متعدد احکامات کو نازل
کرنے سے قبل صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے دلوں کو موسیقی وغیرہ کی محبت سے پاک
کرنا چاہا تاکہ جب اس کے احکامات نازل ہوں تو ان کے دل انھیں قبول کرنے کیلئے
بالکل تیار ہوں۔
آئیے اب ان دلائل کا تذکر ہ کرتے ہیں۔
قرآن مجید میں موسیقی کے حرام ہونے کے دلائل
پہلی آیت:
اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿ وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْتَرِیْ لَھْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ
عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّ یَتَّخِذَھَا ھُزُوًا اُولٰٓئِکَ لَھُمْ
عَذَابٌ مُّھِیْنٌ ٭ وَ اِذَا تُتْلٰی عَلَیْہِ اٰیٰتُنَا وَلّٰی مُسْتَکْبِرًا
کَاَنْ لَّمْ یَسْمَعْھَا کَاَنَّ فِیْٓ اُذُنَیْہِ وَقْرًا فَبَشِّرْہُ بِعَذَابٍ
اَلِیْمٍ﴾
’’ اور لوگوں میں کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو اللہ سے غافل کرنے والی بات
خرید لیتا ہے تاکہ بغیر علم کے اللہ کے بندوں کو اس کی راہ سے بھٹکائے اور اس راہ
کا مذاق اڑائے۔ایسے ہی لوگوں کیلئے رسوا کن عذاب ہے۔اور جب اس کے سامنے ہماری
آیتوں کی تلاوت کی جاتی ہے تو مارے تکبر کے اس طرح منہ پھیر لیتا ہے کہ گویا اس
نے انھیں سنا ہی نہیں ، گویا کہ اس کے دونوں کان بہرے ہیں۔لہذا آپ اسے دردناک
عذاب کی خوشخبری دے دیجئے۔‘‘[ لقمان:۶۔ ۷ ]
ان آیات میں ان لوگوں کا ذکر
کیا گیا ہے جو ’اللہ سے غافل کرنے والی بات ‘ کو اِس لیے خرید لیتے ہیں کہ وہ
لوگوں کو اللہ کے دین سے دور رکھیں اور دین ِ الٰہی کا مذاق اڑائیں ، تو اِن جیسے
لوگوں کو اللہ تعالی نے توہین آمیز عذاب کی وعید سنائی ہے۔
آیت کریمہ میں ﴿ لَہْوَ الْحَدِیْثِ﴾ ’’ اللہ سے غافل کرنے
والی بات ‘‘سے مراد گانا بجانااور موسیقی ہے۔متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے
اس کی یہی تفسیر کی ہے۔
1۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جوکہ
اولیں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ، علماء صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور فتوی دینے
والے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ایک جلیل القدر صحابی تھے ، ان سے جب اِس
آیت کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا:(اَلْغِنَائُ وَاللّٰہِ الَّذِیْ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ)یُرَدِّدُہَا
ثَلَاثَ مَرَّاتٍ
’’ اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں ! اس سے مراد گانا ہے۔‘‘[ تفسیر ابن جریر۔ج ۲۱ ص ۷۲ ، ابن ابی شیبہ۔ج ۶ ص ۳۰۹۔وسندہ حسن]] انھوں نے تین مرتبہ اسی طرح کہا۔
2٭ ترجمان القرآن عبد اللہ بن عباس رضی اللہ
عنہ جن کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کی تھی کہ(اَللّٰہُمَّ عَلِّمْہُ
التَّأْوِیْلَ وَفَقِّہْہُ فِی الدِّیْنِ)’’ اے
اللہ ! اسے قرآن کی تفسیر کا علم دے اور اسے دین کی سمجھ نصیب فرما۔‘‘[ تفسیر ابن جریر۔ج ۲۱ ص ۷۲ ، ابن ابی شیبہ۔ج ۶ ص ۳۱۰ ]
وہ بھی
اس آیت کے بارے میں یہی کہتے ہیں کہ ﴿ لَہْوَ الْحَدِیْثِ ﴾ سے مراد گانے گانا اور
ان کا سننا ہے۔
3۔ حضرت جابر بن عبد اللہ الأنصاری رضی اللہ
عنہ نے بھی﴿ لَہْوَ الْحَدِیْثِ ﴾کی تفسیر یہی کی ہے کہ اس سے مراد گانے گانا اور
ان
کا سننا ہے۔[ تفسیر ابن جریر۔ج ۲۱ ص ۷۳ وإسنادہ حسن
اسی طرح تابعین عظام رحمہ اللہ بھی اس کی تفسیر یہی کرتے تھے۔چنانچہ
امام مجاہد بن جبر المکی ، جو علم تفسیر کے مشہور عالم تھے اور ان کے بارے میں
امام سفیان رحمہ اللہ نے کہا تھا کہ(إِذَا جَائَ کَ التَّفْسِیْرُ عَنْ مُّجَاہِدٍ فَحَسْبُکَ بِہِ)
’’ جب تمھارے پاس مجاہد رحمہ اللہ کی تفسیر آئے تو بس وہی تمھارے لئے
کافی ہے۔‘‘
کیونکہ مجاہد رحمہ اللہ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے
شاگرد تھے اور انھوں نے قرآن مجید کی تفسیر انہی سے سیکھی تھی ، وہ کہتے تھے کہ ﴿
لَہْوَ الْحَدِیْثِ ﴾سے مراد گانے اور ہر بے ہودہ کلام کو سننا ہے۔
ایک روایت میں ان کے الفاظ یہ ہیں:
(اِشْتِرَائُ الْمُغَنِّی
وَالْمُغَنِّیَۃِ بِالْمَالِ الْکَثِیْرِ ، أَوِ اسْتِمَاعٌ إِلَیْہِ أَوْ إِلٰی
مِثْلِہِ مِنَ الْبَاطِلِ)
’’ ﴿ لَہْوَ الْحَدِیْثِ﴾ کو خریدنے سے مراد
گانا گانے والے مرد یا گانا گانے والی عورت کو مالِ کثیر کے بدلے خریدنا ، یا گانے
سننا یا اس جیسے کسی اور باطل امر کی طرف متوجہ ہونا ہے۔‘‘ تفسیر ابن جریر۔ج ۲۱ ص ۷۳ بإسناد صحیح
اس کے علاوہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے ایک اور قابل قدر شاگرد
جناب عکرمہ رحمہ اللہ بھی یہی کہتے تھے کہ اس سے مراد گانا ہے۔[ تفسیر ابن جریر۔ج ۲۱ ص ۷۴
امام ابن جریر الطبری اپنی تفسیر میں یہ سارے اقوال ذکر کرنے کے بعد
کہتے ہیں کہ اس سے مراد ہر وہ بات ہے جو اللہ کے دین سے غافل کرنے والی ہو ، جس کو
سننے سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کر دیا ہے… اور گانا اور
شرک بھی اسی میں سے ہے
تفسیر
ابن جریر۔ج ۲۱ ص ۷۴
لہذا جو شخص بھی گانے سنتا اور سناتا ہو یا رقص وسرور کی محفلوں میں
شرکت کرتا ہو یا گھر میں بیٹھ کر ایسی محفلوں کا نظارہ کرتا ہو تو اس کیلئے اِس
آیت کے مطابق رسوا کن عذاب ہے۔والعیاذ باللہ
دوسری آیت:
اللہ تعالی نے ابلیس کو جنت سے نکالتے ہوئے فرمایا تھا:
﴿ وَ اسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْھُمْ بِصَوْتِکَ وَ اَجْلِبْ
عَلَیْھِمْ بِخَیْلِکَ وَ رَجِلِکَ وَ شَارِکْھُمْ فِی الْاَمْوَالِ وَ
الْاَوْلَادِ وَ عِدْھُمْ وَ مَا یَعِدُھُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا ﴾
’’ اور ان میں سے جس پر تیرا زور چلے اپنی
آواز کے ساتھ اسے بہکا لے۔اور ان پر اپنے سوار وپیادہ لشکر کو
دوڑا لے۔اور ان کے مالوں اور اولاد میں شریک ہو لے اور ان سے وعدے کر
لے۔اور شیطان ان سے جو وعدے کرتا ہے وہ سراسر دھوکہ ہے۔‘‘[1 الإسراء:۶۴]
اس آیت کریمہ میں(بِصَوْتِک)’’ اپنی آواز ‘‘ سے مراد موسیقی کی
آواز ہے جس کے ساتھ شیطان انسانوں کو بہکاتا ہے۔اور وہ انھیں اللہ تعالی کے دین
سے دور رکھنے اور انھیں اس کے ذکر سے غافل کرنے کیلئے انھیں اپنی سریلی آوازوں
میں مگن کردیتا اورراگ گانوں کا دلدادہ بنا دیتا ہے۔
امام مجاہد بن جبر المکی رحمہ اللہ(بِصَوْتِک)کی تفسیر کرتے ہوئے
کہتے ہیں:(بِاللَّہْوِ
وَالْغِنَائِ)’’بے ہودہ کلام اور موسیقی کے ساتھ ‘‘ یعنی
اے ابلیس ! تو انسانوں میں سے جس پر قدرت حاصل کرلے اسے ہر قسم کے بے ہودہ کلام
اور موسیقی وغیرہ کے ساتھ بہکا لے۔[ تفسیر ابن جریر۔ج ۱۵ ص ۱۳۶ وإسنادہ صحیح
تیسری آیت:
اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿ اَفَمِنْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ تَعْجَبُوْنَ ٭ وَتَضْحَکُوْنَ وَلاَ
تَبْکُوْنَ ٭ وَاَنْتُمْ سٰمِدُوْنَ﴾
’’کیا تم لوگ اِس بات(قرآن مجید)کو سن کر تعجب کرتے ہو ؟ اور ہنستے
اور روتے نہیں ہو ؟ اور غفلت میں مبتلا ہنس کھیل رہے ہو ؟
النجم:۵۹۔ ۶۱
اِس آیت کریمہ میں کفار کو توبیخ ہو رہی ہے کہ تم قرآن مجید کو سن
کر تعجب کا اظہار کرتے ہو اور اس کا مذاق اڑاتے ہوئے ہنستے رہتے ہو ؟ ہونا تو یہ
چاہئے تھا کہ تم اسے سن کر اس سے متاثر ہوتے اور رو دیتے۔لیکن تم اس کے برعکس ہنس
کھیل رہے ہو اورتمھارے اوپر اس کا ذرا سا بھی اثر نہیں ہوتا ؟
﴿سٰمِدُوْنَ﴾ کا معنی حضرت ابن عباس رضی
اللہ عنہ یہ کرتے ہیں کہ ’’ تم گانے سنتے رہتے ہو ‘‘ کیونکہ کفار مکہ جب قرآن سنتے
تھے تو گانا بجانا شروع کردیتے تھے اور کھیل تماشے میں مگن ہو جاتے تھے۔اہلِ یمن
کی زبان میں سَمَد گانے کو کہتے ہیں۔[ تفسیر ابن جریر
الطبری۔ج ۲۷ ص ۹۶ بإسناد صحیح
تو اللہ تعالی نے اِس پر انھیں سختی سے ڈانٹا۔اور اس کے بعد اہل
ایمان کو حکم دیا کہ ﴿ فَاسْجُدُوْا
لِلّٰہِ وَاعْبُدُوْا﴾ ’’ پس تم اللہ ہی کیلئے سجدہ
کرو اور اسی کی عبادت کرو۔‘‘ یعنی تم اُن کافروں کی طرح نہ بنو جو قرآن کو سن کر
اس کا مذاق اڑاتے ہیں،بلکہ تم قرآن مجید کو سن کر اللہ تعالی کے سامنے سجدہ ریز
ہو جایا کرو اور اس کی عبادت میں مشغول رہا کرو۔
خلاصہ یہ ہے کہ ان آیات میں اللہ تعالی نے کفار کو قرآن مجید کو
چھوڑ کرگانے سننے پر سختی سے ڈانٹا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ گانے سننا اللہ کے
نزدیک حرام ہے۔اگر یہ حرام نہ ہوتا تو اللہ تعالی انھیں اِس فعل پر نہ ڈانتا۔
سامعین کرام ! یہ تو تھے قرآنی دلائل جن سے ثابت ہوتا ہے کہ گانے
گانا اور سننا حرام ہے۔
اب آئیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ سے یہ جاننے
کی کوشش کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے موسیقی اور اس کے آلات کے متعلق
کیا ارشاد فرمایا۔اور احادیث ذکر کرنے سے پہلے آپ کی معلومات کیلئے آپ کو بتاتے
چلیں کہ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ گانوں کی حرمت کے متعلق جو
احادیث مروی ہیں وہ متواتر درجہ کی ہیں اور انھیں روایت کرنے والے صحابۂ کرام رضی
اللہ عنہم کی تعداد تیرہ ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں