اَلحَمدُ لِلّٰہِ نَحمَدُہ، وَنَستَعِینُہ،
وَنَستَغفِرُہ، وَنَعُوذُ بِاﷲِ مِن شُرُورِ اَنفُسِنَاوَمِن سَیِّئَآتِ
اَعمَالِنَا مَن یَھدِہِ اﷲُ فَلَا مُضِلَّ لَہ، وَمَن یُضلِل فَلَا ھَادِیَ لَہ،
وَاَشھَدُ اَن لَّا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وَحدَہ، لَا شَرِیکَ لَہ، وَاَشھَدُ اَنَّ
مُحَمَّدًا عَبدُہ، وَرَسُولُہٗ اما بعد
اِنَّ اَصدَقَ الحَدِیثِ کِتَابُ اﷲِ وَاِنَّّ
اَفضَلَ الھَدیِ ھَدیُ مُحَمَّدٍ صلی
اللہ علیہ وسلم وَّ شَرُّ الْامُورِ مُحدَثَاتُھَا وَ کُلُّ
مُحدَثَۃٍ بِدعَۃٌ وَ کُلُّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّارِ۔
دلوں کو نرم کرنے کے اسباب
عزیز القدر بھائیو اور لائق احترام ماؤں اور بہنو !
سنگدلی کے اسباب معلوم کرنے کے بعد آئیے اب دلوں کو نرم کرنے والے اسباب معلوم
کرتے ہیں۔
1۔ موت کو یاد کرنا
اگر موت سے غفلت اختیار کرنا سنگدلی کا سبب ہے تو
موت کو یاد کرنا دل کو نرم کرنے کا بہت بڑا سبب ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور ارشاد فرمایا:(کُنْ فِیْ الدُّنْیَا کَأَنَّکَ غَرِیْبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِیْلٍ)’’ دنیا میں ایک اجنبی یا ایک مسافر کی طرح رہو۔‘‘
اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے
تھے:(إِذَا أَمْسَیْتَ فَلاَ تَنْتَظِرِ الصَّبَاحَ ، وَإِذَا أَصْبَحْتَ
فَلاَ تَنْتَظِرِ الْمَسَائَ، وَخُذْ مِنْ صِحَّتِکَ لِمَرَضِکَ ، وَمِنْ
حَیَاتِکَ لِمَوْتِکَ)
’’ جب شام ہو جائے تو صبح کا
انتظار مت کرو اورجب صبح ہو جائے تو شام کا انتظار مت کرو۔ اور تندرستی کی حالت
میں اتنا عمل کر لو کہ جو بیماری کی حالت میں بھی کافی ہو جائے۔اور اپنی زندگی میں
اس قدر نیکیاں کما لوکہ جو موت کے بعد بھی تمھارے لئے نفع بخش ہوں البخاری:۶۴۱۶
مسند احمد وغیرہ میں اس حدیث کے الفاظ یوں ہیں:(کُنْ فِیْ الدُّنْیَا کَأَنَّکَ غَرِیْبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِیْلٍ،
وَعُدَّ نَفْسَکَ مِنْ أَہْلِ الْقُبُوْرِ)’’
دنیا میں ایک اجنبی یا ایک مسافر کی طرح رہو اور اپنے آپ کو قبر والوں میں شمار
کرو۔ الصحیحۃ
للألبانی:۱۱۵۷
اورحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:(أَکْثِرُوْا
ذِکْرَ ہَاذِمِ اللَّذَّاتِ الْمَوْتَ)
’’ لذتوں کو ختم کردینے والی چیز
یعنی موت کو زیادہ سے زیادہ یاد کیا کرو۔[ صحیح الجامع
للألبانی:۱۲۱۱
اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے
ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا کہ اچانک ایک انصاری آیا ،
اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہا ، پھر کہنے لگا:اے اللہ کے رسول !
مومنوں میں سب سے افضل کون ہے ؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(أَحْسَنُہُمْ أَخْلَاقًا)’’ ان میں
جو سب سے اچھے اخلاق والا ہو۔‘‘
اس نے پھر پوچھا:مومنوں میں سب سے زیادہ عقلمند کون
ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(أَکْثَرُہُمْ لِلْمَوْتِ ذِکْرًا وَأَحْسَنُہُمْ لِمَا بَعْدَہُ
اسْتِعْدَادًا،أُولٰئِکَ الْأکْیَاسُ)
’’ ان میں جو سب سے زیادہ موت
کویاد کرنے والا ہواور جو موت کے بعد آنے والے مراحل کیلئے سب سے زیادہ تیاری
کرنے والا ہو وہی زیادہ عقلمند ہے۔ [ ابن ماجہ:۴۲۵۹۔وصححہ الألبانی]
2۔قبرستان کی زیارت کرنا
قبرستان کی زیارت کرنے سے بھی دلوں میں رقت اور نیک
اعمال کی رغبت اور برے اعمال سے نفرت پیدا ہوتی ہے۔
نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
(کُنْتُ نَہَیْتُکُمْ عَنْ
زِیَارَۃِ الْقُبُورِ ، أَلاَ فَزُوْرُوْہَا ، فَإِنَّہَا تُرِقُّ الْقَلْبَ ،
وَتُدْمِعُ الْعَیْنَ، وَتُذَکِّرُ الْآخِرَۃَ)
’’ میں نے تمھیں قبروں کی زیارت سے
منع کیا تھا۔خبردار ! اب تم ان کی زیارت کیا کرو۔کیونکہ یہ زیارت دل کو نرم کرتی
ہے ، آنکھ سے آنسو بہاتی ہے اور آخرت کی یاد دلاتی ہے۔ [ أخرجہ الحاکم بسند
حسن:أحکام الجنائز للألبانی:۱۸۰]
3۔قرآن مجید میں تدبر کرنا
قرآن مجید دل کی اعتقادی بیماریوں مثلا کفر ، شرک
اور نفاق کا علاج ہے۔اسی طرح دل کی اخلاقی بیماریوں مثلا حسد ، بغض ، کینہ اور حرص
ولالچ کیلئے بھی شفا ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿یٰٓا أَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَائَ تْکُم مَّوْعِظَۃٌ مِّن
رَّبِّکُمْ وَشِفَائٌ لِّمَا فِی الصُّدُورِ وَہُدًی وَّرَحْمَۃٌ
لِّلْمُؤْمِنِیْنَ ﴾
’’ اے لوگو ! تمھارے پاس تمھارے رب
کی طرف سے نصیحت آ چکی ، یہ دلوں کے امراض کی شفا اور مومنوں کیلئے ہدایت اور
رحمت ہے۔‘ یونس:۵۷
عزیز بھائیو اور بہنو ! قرآن مجید دلوں کو نرم کرنے
اور ان میں رقت پیدا کرنے کا سب سے بڑا سبب ہے۔
اللہ تعالی اس کی تاثیر کے بارے میں فرماتا ہے:﴿ اَللّٰہُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کِتَابًا مُّتَشَابِہًا
مَّثَانِیَ تَقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُودُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ ثُمَّ
تَلِیْنُ جُلُودُہُمْ وَقُلُوبُہُمْ إِلَی ذِکْرِ اللّٰہِ ذَلِکَ ہُدَی اللّٰہِ
یَہْدِیْ بِہِ مَنْ یَّشَائُ وَمَن یُّضْلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہُ مِنْ ہَادٍ ﴾
’’ اللہ تعالی نے بہترین کلام نازل
کیا جو ایسی کتاب ہے کہ اس کے مضامین ملتے جلتے اور بار بار دہرائے جاتے ہیں۔اس سے
ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں۔پھر ان کی جلد اور ان
کے دل نرم ہو کر اللہ کے ذکر کی طرف راغب ہوتے ہیں۔یہی اللہ کی ہدایت ہے ، اِس کے
ذریعے اللہ جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جسے اللہ گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت
دینے والا نہیں۔ الزمر:۲۳
قرآن مجید تو اِس قدر مؤثر ہے کہ اللہ تعالی تعالی
فرماتا ہے:
﴿لَوْ اَنْزَلْنَا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیْتَہُ
خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ ﴾
’’ اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر
نازل کرتے تو آپ دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دبا جا رہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے۔‘‘[[
الحشر:۲۱]
اگر پہاڑ قرآن کے نزول کے بعد اللہ کی خشیت کی بناء
پر دب سکتا ہے تو کیا انسان کے دل میں رقت پیدا نہیں ہو سکتی ؟ اور اگر پہاڑ قرآن
کی وجہ سے پھٹ سکتا ہے تو کیا انسان کا دل نرم نہیں پڑ سکتا ؟ یقینا ایسا ہو سکتا
ہے۔ بس اس کی شرط یہ ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت اس کے معانی میں تدبر اور غور وفکر
کرتے ہوئے کی جائے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿ أَفَلَا یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَی قُلُوبٍ
أَقْفَالُہَا﴾
’’ کیا وہ قرآن میں غور وفکر نہیں
کرتے یا ان کے دلوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں ؟‘‘ [ محمد:۲۴]
4۔اللہ کا ذکر غور وفکر کے ساتھ کرنا
ذکر اللہ دلِ مومن کو زندگی بخشتا ہے۔اورذکر اللہ سے
دلوں کو حقیقی سکون ملتا ہے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿ اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوْبُہُمْ
بِذِکْرِ اللّٰہِ أَلاَ بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ﴾
’’ جو لوگ ایمان لاتے ہیں اور ان
کے دل اللہ کے ذکر سے مطمئن ہوجاتے ہیں۔ یاد رکھو ! دل اللہ کے ذکر سے ہی مطمئن
ہوتے ہیں۔‘‘[ الرعد:۲۸]
اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿ إِنَّمَا الْمُؤمِنُونَ الَّذِینَ إِذَا ذُکِرَ اللّٰهُ وَجِلَتْ
قُلُوبُہُمْ وَإِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ آیَاتُہُ زَادَتْہُمْ إِیمٰنًا
وَّعَلَیٰ رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُونَ ٭ الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلاَۃَ وَمِمَّا
رَزَقْنٰـہُمْ یُنْفِقُونَ ٭ أُولٰئِکَ ہُمُ الْمُؤمِنُونَ حَقًّا لَہُمْ
دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَمَغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ کَرِیمٌ﴾
’’ سچے مومن تو وہ ہیں کہ جب ان کے
سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں۔ اور جب انھیں اللہ کی
آیات سنائی جائیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے۔اور وہ اپنے رب پر ہی بھروسہ کرتے
ہیں۔(اور)وہ نماز قائم کرتے ہیں اور ہم نے جو مال ودولت انھیں دے رکھا ہے اس میں
سے وہ خرچ کرتے ہیں۔ یہی سچے مومن ہیں جن کیلئے ان کے رب کے ہاں درجات ہیں ، بخشش
ہے اور عزت کی روزی ہے۔‘‘[ الأنفال:۲۔ ۴]
اللہ تعالی ان لوگوں کو کہ جن کے دل اللہ کے ذکر کے
بعد بھی نرم نہیں پڑتے اور ان میں رقت پیدا نہیں ہوتی ، انھیں تنبیہ کرتے ہوئے
ارشاد فرماتا ہے:
﴿ اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ
تَخْشَعَ قُلُوْبُہُمْ لِذِکْرِ اللّٰہِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَلاَ
یَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْہِمُ
الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُہُمْ وَکَثِیْرٌ مِّنْہُمْ فٰسِقُوْنَ ﴾
’’ جو لوگ ایمان لائے ہیں کیا ان
کیلئے وقت نہیں آیا کہ اللہ کے ذکر سے اور جو حق نازل ہوا ہے اس سے ان کے دل پسیج
جائیں ؟ اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جنھیں اس سے پہلے کتاب دی گئی تھی ، پھر
ان پر
ایک طویل مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔اور ان
میں سے اکثر فاسق ہیں الحدید:۱۶
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں