اپنی زبان منتخب کریں

جمعرات، 20 جنوری، 2022

سنگ دلی کے اہم اسباب

 

 

[Name] | [Course Title] | [Date]

اَلحَمدُ لِلّٰہِ نَحمَدُہ، وَنَستَعِینُہ، وَنَستَغفِرُہ، وَنَعُوذُ بِاﷲِ مِن شُرُورِ اَنفُسِنَاوَمِن سَیِّئَآتِ اَعمَالِنَا مَن یَھدِہِ اﷲُ فَلَا مُضِلَّ لَہ، وَمَن یُضلِل فَلَا ھَادِیَ لَہ، وَاَشھَدُ اَن لَّا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وَحدَہ، لَا شَرِیکَ لَہ، وَاَشھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبدُہ، وَرَسُولُہٗ
اِنَّ اَصدَقَ الحَدِیثِ کِتَابُ اﷲِ وَاِنَّّ اَفضَلَ الھَدیِ ھَدیُ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم وَّ شَرُّ الْامُورِ مُحدَثَاتُھَا وَ کُلُّ مُحدَثَۃٍ بِدعَۃٌ وَ کُلُّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّارِ۔
اِس سنگدلی کے اہم اسباب یہ ہیں۔
۱۔ اللہ کے ذکر سے اعراض
ذکر اللہ سے اعراض اور اس سے غفلت کے نتیجے میں دل سخت ہو جاتے ہیں۔     رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
(
لَا تُکْثِرُوا الْکَلَامَ بِغَیْرِ ذِکْرِ اللّٰہِ ، فَإِنَّ کَثْرَۃَ الْکَلَامِ بِغَیْرِ ذِکْرِ اللّٰہِ قَسْوَۃٌ لِّلْقَلْبِ)
’’
تم اللہ کے ذکر کے علاوہ دوسرا کلام کثرت سے نہ کیا کرو۔کیونکہ اللہ کے ذکر کے علاوہ دوسرا کلام بکثرت کرنے سے دل سخت ہو جاتا ہے۔‘‘[ الترمذی:۲۴۱۱]
اورحضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(مَثَلُ الَّذِیْ یَذْکُرُ رَبَّہُ وَالَّذِیْ لاَ یَذْکُرُہُ مَثَلُ الْحَیِّ وَالْمَیِّتِ)
’’ اس شخص کی مثال جو اپنے رب کا ذکر کرتا رہتا ہے ایسے ہے جیسے ایک زندہ شخص ہو۔اور اُس شخص کی مثال جو اس کی یاد سے غافل رہتا ہے ایسے ہے جیسے ایک مردہ شخص ہو۔ البخاری:۶۴۰۷]
یعنی جو شخص اللہ تعالی کو یاد رکھے اس کا دل زندہ رہتا ہے اور اس میں حق بات کو قبول کرنے کی صلاحیت باقی رہتی    ہے۔اور جو شخص اللہ کے ذکر سے غافل رہے تو اس کا دل مردہ ہو جاتا ہے اور وہ حق بات کو قبول کرنے کی صلاحیت سے عاری ہوتا ہے۔
۲۔ موت کی یاد سے غفلت
جو شخص موت سے بالکل غافل رہے اور اس کے دل میں کبھی یہ خیال پیدا نہ ہو کہ اس نے مرنا بھی ہے اور اللہ تعالی کے سامنے پیش ہونا ہے تو اس کا دل سخت ہو جاتا ہے۔
۳۔ اللہ کے فرائض میں کوتاہی کرنا۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿ فَبِمَا نَقْضِھِمْ مِّیْثَاقَھُمْ لَعَنّٰھُمْ وَ جَعَلْنَا قُلُوْبَھُمْ قٰسِیَۃً
’’
پھر چونکہ انھوں نے اپنے عہد کو توڑ ڈالا لہٰذا ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دل سخت کردئیے۔‘‘[ المائدۃ:۱۳]
اِس سے پہلے اللہ تعالی نے ذکر کیا ہے کہ اس نے بنو اسرائیل سے چار باتوں کا عہد لیا تھا:پہلی نماز قائم کرنا، دوسری زکاۃ ادا کرتے رہنا ، تیسری اللہ کے رسولوں پر ایمان لانا اور چوتھی قرض حسنہ دینا۔لیکن بنو اسرائیل نے معاہدے کی ان چاروں شقوں کی دھجیاں اڑا دیں۔نماز ادا کرنے میں مجرمانہ غفلت برتی۔زکاۃ ادا کرنے کی بجائے بخل اور کنجوسی کرنے لگے۔رسولوں پر ایمان لانے اور ان کی مدد کرنے کی بجائے انھیں قتل تک کرنے سے باز نہ آئے۔قرض حسنہ دینے کی بجائے سود خوری شروع کردی۔اِس طرح جب انھوں نے اللہ سے کئے ہوئے عہد کو پاش پاش کیا تو اس نے ان پر لعنت بھیجی اور ان کے دلوں کو سخت کردیا ، جس سے ان کے دل حق بات کو قبول کرنے کی صلاحیت سے عاری ہو گئے۔اِس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کے فرائض ، یعنی نماز ، زکاۃ ، روزہ اور حج وغیرہ میں مجرمانہ کوتاہی سنگدلی کا ایک اہم سبب ہے۔
۴۔ گناہوں اور برائیوں میں مگن رہنا اور اللہ تعالی سے مغفرت طلب نہ کرنا
جو شخص گناہوں اور برائیوں میں مگن رہے اور اللہ تعالی سے معافی طلب نہ کرے تو اس کا دل سیاہ پڑ جاتا ہے۔اور اس کے نتیجے میں سخت ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿ کَلَّا بَلْ رَانَ عَلیٰ قُلُوْبِہِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ﴾
’’
ہرگز یہ بات نہیں ، بلکہ ان لوگوں کے دلوں پر ان کے(برے)اعمال کا زنگ لگ گیا ہے۔ المطففین:۱۴
اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانیوں اور گناہوں کی وجہ سے دل پر تاریکی چھا جاتی ہے۔اور جب کوئی شخص بکثرت گناہوں کا ارتکاب کرتا ہو اور اللہ سے معافی بھی نہ مانگتا ہو تو اس کے دل پرچھائی ہوئی تاریکی اور سیاہی نہایت گہری ہو جاتی ہے اور بڑھتے بڑھتے اس کے چہرے پربھی نمایاں ہونے لگتی ہے۔  حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ
(
إِنَّ لِلسَّیِّئَۃِ سَوَادًا فِی الْوَجْہِ ، وَظُلْمَۃً فِی الْقَلْبِ ، وَوَہْنًا فِی الْبَدَنِ ، وَنَقْصًا فِی الرِّزْقِ ، وَبُغْضًا فِی قُلُوبِ الْخَلْقِ)
’’
برائی کی وجہ سے چہرے پر سیاہی آ جاتی ہے ، دل پر تاریکی چھا جاتی ہے ، جسم کمزور پڑ جاتا ہے ، رزق میں کمی آ جاتی ہے اور لوگوں کے دلوں میں اس سے نفرت پیدا ہو جاتی ہے۔‘‘
اور ابن المبارک رحمہ اللہ نے کیا خوب کہا ہے:
رَأَیْتُ الذُّنُوبَ تُمِیْتُ الْقُلُوبَ   وَیُوْرِثُ الذُّلَّ إِدْمَانُہَا
وَتَرْکُ الذُّنُوبِ حَیَاۃُ الْقُلُوبِ   وَخَیْرٌ لِنَفْسِکَ عِصْیَانُہَا
’’میں نے دیکھا ہے کہ گناہ دلوں کو مردہ کردیتے ہیں۔اور ان میں مگن رہنا ذلت ورسوائی کا باعث بنتا ہے۔اور گناہوں کو چھوڑنے سے دلوں کو زندگانی نصیب ہوتی ہے۔اور تمھارے لئے بہتر یہ ہے کہ تم اپنے نفس کی نافرمانی کرو۔‘‘
۵۔ خواہشات ِ نفس کی پیروی کرنا اور حق کو قبول کرنے سے انکار کرنا
اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿ فَلَمَّا زَاغُوْٓا اَزَاغَ اللّٰہُ قُلُوْبَہُمْ
’’
پھر جب انھوں نے کجروی اختیار کی تو اللہ نے ان کے دل ٹیرھے کر دئیے۔‘‘[ الصف:۵

اسی طرح منافقوں کے متعلق ارشاد فرمایا:﴿ وَ اِذَا مَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَۃٌ نَّظَرَ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ ھَلْ یَرٰکُمْ مِّنْ اَحَدٍ ثُمَّ انْصَرَفُوْا صَرَفَ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ بِاَنَّھُمْ قَوْمٌ لَّا یَفْقَھُوْنَ﴾
’’
اور جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو آنکھوں میں ایک دوسرے کی طرف اشارہ کرکے پوچھتے ہیں کیا تمھیں کوئی دیکھ تو نہیں رہا ؟ پھر وہاں سے واپس چلے جاتے ہیں۔اللہ نے ان کے دلوں کو پھیر دیا ہے کیونکہ یہ لوگ ہیں ہی ایسے کہ جو کچھ بھی نہیں سمجھتے۔‘‘[ التوبۃ:۱۲۷]
۶۔ دنیا کی لذتوں اور آسائشوں کے حصول کیلئے اِس طرح مارے مارے پھرنا کہ آخرت بالکل یاد نہ رہے۔
۷۔ زیادہ ہنسنا اور لہو ولعب میں مشغول رہنا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:(لا تُکْثِرُوا الضَّحِکَ فَإِنَّ کَثْرَۃَ الضَّحِکِ تُمِیْتُ الْقَلْبَ)
’’
تم زیادہ نہ ہنسا کرو کیونکہ زیادہ ہنسنے سے دل مردہ ہو جاتا ہے۔ ابن ماجہ:۴۱۹۳۔ وصححہ الألبانی
۸۔ دنیاوی محفلوں میں بیٹھ کر اِدھر اُدھر کی باتیں اور فضول گفتگو کرنا۔
۹۔ فضول اور بے ہودہ چیزوں کو دیکھنا۔
۱۰۔ دین کو سمجھنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہ کرنا اور دین کے بنیادی مسائل سے جہالت اور ناواقفیت پر راضی اور خوش رہنا۔
یہ تمام امور سنگدلی کا سبب بنتے ہیں۔لہذا ہمیں ان سب سے بچنا اور پرہیز کرناچاہئے۔ورنہ یہ بات رہے کہ جس شخص کا دل ان جیسے اسباب کو اختیار کرنے کی بناء پر سخت ہوجائے تو اس کیلئے سوائے بربادی اور ہلاکت کے اور کچھ نہیں ہے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿ فَوَیْلٌ لِّلْقٰسِیَۃِ قُلُوْبُہُمْ مِّنْ ذِکْرِ اللّٰہِ اُوْلٰٓئِکَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ ﴾
’’
لہٰذا ہلاکت ہے ان لوگوں کیلئے جن کے دل اللہ کے ذکر سے سخت ہیں۔یہی لو گ واضح گمراہی میں ہیں۔‘‘[ الزمر:۲۲
یعنی جن کے دل اللہ کا ذکر سن کر بھی خوفزدہ نہیں ہوتے اور ان میں رقت پیدا نہیں ہوتی تو ایسے لوگوں کیلئے یقینی طور پر ہلاکت وبربادی ہے۔
اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ(إِنَّ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنَ اللّٰہِ الْقَلْبُ الْقَاسِی)
’’
بے شک لوگوں میں سے اللہ تعالی سے سب سے زیادہ دور وہ ہے جس کا دل سخت ہو۔ الترمذی:۲۴۱۱
یعنی جو آدمی سخت دل ہو وہ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ اللہ تعالی سے دور ہوتا ہے۔اور اگر اللہ تعالی کا قرب مطلوب ہو تو اپنے دل کو نرم کرنا ہو گا۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں