: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ الحمد للہ الذی سھل اسباب السنۃ المحمدیۃ لمن اخلص لہ واناب وسلسل مواردھا النبویۃ لمن تخلق بالسنن والاداب۔ واشھدان لاالہ الا اللہ شھادۃ تنقذ قائلھا من ھول یوم الحسابط واشھدان سیدنا محمد اعبدہ ورسولہ الذی کشف لہ الحجاب وخصہ بالاقتراب ﷺ وعلی الال والاصحاب والانصار والاحزاب ط اما بعد: فاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم ط بسم اللہ الرحمن الرحیمط يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۱۰۲ وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا۰۠ وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللہِ عَلَيْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَاۗءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا۰ۚ وَكُنْتُمْ عَلٰي شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْھَا۰ۭ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللہُ لَكُمْ اٰيٰتِہٖ لَعَلَّكُمْ تَھْتَدُوْنَ۱۰۳ (آل عمران:۱۰۲۔۱۰۳)
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مومنوں کو مخاطب کر
کے فرمایا ہے: اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے اتنا ہی ڈرو، جتنا کہ اس سے ڈرنے کا
حق ہے، دیکھو مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا،اللہ کی رسی کو سب مل کر تھام لو، اور
پھوٹ نہ ڈالو، اور خدا کی اس وقت کی نعمت کو یاد رکھو، جب کہ تم ایک دوسرے کے دشمن
تھے، اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال کر اپنی مہربانی سے تمہیں بھائی بھائی بنا
دیا، اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پہنچ چکے تھے، اس نے تمہیں بچا لیا، اللہ تعالیٰ
اسی طرح تمہارے لیے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے، تاکہ تم راہ پاؤ۔
یعنی اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے کما حقہ ڈرتے
رہو، اور اسلام پر قائم رہو، اور اس کی رسی کو مضبوط پکڑے رہو، اس رسی سے مراد
قرآن مجید ہے اور رسول کی سنت بھی اور اختلاف مت ڈالو، اختلاف ڈالنے کی ایک صورت
یہ بھی ہے،کہ حدیث و قرآن کے خلاف کیا جائے، اور نیا نیا راستہ اختیار کیا جائے
اس اختلاف کی وجہ سے انسان کما حقہ مسلمان نہیں رہتا ہے، اختلاف سے بچنے کے لیے
صرف یہی ایک صورت ہے، کہ کتاب و سنت کی پیروی کی جائے، اور اس کو مضبوطی سے تھام
رکھا جائے،
حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
قام فینا رسول اللہ ﷺ ذات یوم فوعظنا موعظۃ بلیغۃ
وجلت منھا القلوب وذرفت منھا العیون فقیل یارسول اللہ وعظت موعظۃ مودع فاعھد الینا
بعھد فقال علیکم بتقوی اللہ والسمع والطاعۃ وان عبداحبشیاوسترون من بعدی
اختلافاشدیدافعلیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین وعضواعلیھا بالنواجذ
وایاکم والامور المحدثات فان کل بدعۃ ضلالۃ۔ (ابن ماجہ)
رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ وعظ فرمانے کے لیے کھڑے
ہوئے، تو ایسا فصیح وبلیغ وعظ فرمایا: کہ جس سے لوگوں کے دل لرز گئے، اور آنکھوں
سے آنسو جاری ہوگئے، آپﷺ سے عرض کیا گیا، کہ یارسول اللہ یہ رخصت کرنے والے کی
سی نصیحت ہے، کہ کوئی بات نہیں چھوڑتا، مگر سب بیان کر دیتا ہے، اسی طرح آپﷺ نے
بھی ساری باتیں نصیحت کی فرما دی ہیں، تو آپﷺ ہمیں کوئی نصیحت فرمائیے جو امانت
رکھنے کے قابل ہو اور اس پر نہایت احتیاط سے عمل کیا جائے، آپﷺ نے فرمایا: ہمیشہ
اللہ سے ڈرتے رہو، اور اپنے امیر و خلیفہ کی اطاعت و فرمانبرداری کرتے رہنا، اور
عنقریب میرے بعدبہت اختلاف دیکھوگے (اس اختلاف سے بچنے کے لیے)میری سنت اور خلفائے
راشدین کی سنت کو لازم پکڑے رہنا، اور اس کو دانت سے مضبوط تھامے رہنا، اور نئی
نئی باتوں سے بچتے رہنا، کیونکہ ہر نئی بات گمراہی ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْہُ
اِلَى اللہِ وَالرَّسُوْلِ۔ (النساء:۵۹)
اگر کسی بات میں تمہارا اختلاف ہو جائے، تو اللہ
اور اس کے رسول کی طرف لے جاؤ،( یعنی اللہ اور رسول کی طرف فیصلہ لوٹا ؤ)
یہ حکم صحابہ کرام اور عام مسلمانوں کو ہے، اب
دیکھنا یہ ہے، کہ صحابہ کرام اور اسلاف عظام اختلاف کے وقت میں کیا طریقہ اختیار
کرتے تھے، تحقیق کرنے کے بعد آپ کو یہی بات معلوم ہوگی، کہ وہ کتاب و سنت کے
مطابق فیصلہ ک…
اور حضرت ابن عباسؓ سے بھی یہی مروی ہے، اس کے
الفاظ یہ ہیں:
اغسلوا نبیکم وعلیہ قمیصہ فغسل رسول اللہ ﷺ فی
قمیصہ۔
کہ نبی ﷺ کو غسل دو اس حال میں کہ آپ ﷺ کپڑے
پہنے ہوئے ہوں تو آپﷺ کو کُرتے سمیت غسل دیا گیا۔
بہرحال اس واقعہ سے صحابہ کرام کا ا ختلاف دور
ہوگیا۔
(۳) تیسرا اختلاف آپﷺ کے انتقال کے بعد یہ ہوا کہ
آپﷺ کو کہاں دفن کیا جائے، کسی نے کہا، کہ آپ ﷺکو بیت المقدس میں دفن کیا جائے،
کسی نے کہا کہ آپ ﷺ کو مکہ مکرمہ میں دفن کیا جائے، کسی نے کہا کہ آپ ﷺ کو جنت
البقیع میں دفن کیا جائے، کسی نے کہا آپﷺ کو منبر کے پاس دفن کیا جائے، کسی نے
کہا آپ ﷺکو اس جگہ دفن کیا جائے، جہاں آپﷺ کھڑے ہو کر امامت کراتے تھے، حضرت
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپﷺ کو اسی جگہ دفن کیا جائے گا، جہاں آپﷺ
کا انتقال ہوا ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کو میں نے فرماتے ہوئے سنا ہے، کہ:
مامات نبی الا دفن حیث یقبض وفی روایۃ ماتوفی
اللہ نبیا قط الا دفن حیث تقبض روحہ ۔ (طبقات ابن سعد ص۱۰۶، ج۴)
یعنی جس جگہ نبی کی روح نکلتی ہے، اسی جگہ نبی کو
دفن کیا جاتا ہے۔
اس حدیث کی وجہ سے صحابہ کرام کا اختلاف دور
ہوگیا۔
(۴) چوتھا اختلاف آپﷺ کے انتقال کے بعد یہ ہوا، کہ
آپﷺ کے لیے کیسی قبر تیار کی جائے، کسی نے کہا، لحد تیار کی جائے، اور کسی نے
کہا، شق یعنی صندوق نما، اس اختلاف کے رفع کرنے کے لیے گورکنوں کے پاس آدمی بھیجا
گیا، تاکہ قبر کھودنے کے لیے بلا لائے،جو سب سے پہلے آجائے گا، وہ اپنے طریقے پر
قبر کھودے گا، چنانچہ سب سے پہلے لحد بنانے والا گورکن آیا، اور لحد تیار کی ،
اور اس طرح وہ حدیث بھی صادق آگئی ، کہ:
اللحد لنا والشق لغیرنا۔ (ترمذی)
یعنی لحد ہم نبیوں کے لیے ہے اور شق دوسروں کے
لیے ہے۔
بہر حال اس حدیث کی وجہ سے اختلاف رفع ہوگیا۔
(۵) پانچواں اختلاف آپﷺ کے انتقال کے بعد یہ ہوا، کہ
آپﷺ کا جانشین کون ہو؟ انصار نے کہا، ہم میںسے خلیفہ ہوگا، کسی نے کہا ایک امیر
انصارمیں سے ہوگا، ایک امیر مہاجرین میں سے ہوگا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ
نے یہ حدیث سنائی، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے، کہ:
الائمۃ من قریش۔ (بخاری)
یعنی قریش میں سے ا میر ہونا چاہیے
جب صحابہ کرام ؓ نے یہ حدیث سنی، تو اپنے خیالات
سے باز آگئے، قریش میںسے حضرت ابوبکر ؓ کو خلیفہ منتخب کیا، تو اس حدیث سے صحابہ
کرام کا اختلاف جاتا رہا۔
(۶) چھٹا اختلاف آپﷺ کے انتقال کے بعد یہ ہوا، کہ
استحکام خلافت کے بعد وارثوں نے اپنے اپنے حصہ کا مطالبہ شروع کر دیا، ازواج
مطہرات نے اپنے حصوں کے لیے حضرت ابوبکر ؓ کے پاس حضرت عثمان ؓ کو بھیجنے کا ا
رادہ کیا (بخاری)حضرت فاطمہ ؓ اور حضرت عباسؓ نے ا پنا اپنا حصہ طلب کیا (بخاری)
حضرت صدیق اکبرؓ نے سب کے سامنے حدیث نبوی لا نورث ما ترکناہ صدقۃ پیش فرما دی، اس
پر سب لوگ خاموش ہوگئے، حتی کہ حضرت فاطمہ ؓ جنہوں نے پہلے رنج کا اظہار کیا تھا،
بعد میں وہ بھی راضی ہوگئیں۔ (بیہقی)
(۷) ساتواں اختلاف، خلیفہ اول نے جب مانعین زکوٰۃ سے
قتال کرنے کا عزم مصمم کر لیا، تو حضرت عمر ؓ مانع ہوئے اور حدیث نبوی امرت ان
اقاتل الناس حتی یشھدوا (بخاری پ20) پیش کی کہ یہ لوگ کلمہ شہادت تو پڑھتے ہیں،
حضرت ابوبکر ؓ نے دوسری حدیث سے جس میں بحق الاسلام وارد ہوا ہے استدلال کر کے
حضرت عمرؓ کو خاموش کر دیا، کہ زکوۃ حق الاسلام ہے، فتح الباری، پارہ اول صفحہ ۴۰ سطر آخر، امام بخاری فرماتے ہیں۔
فلم یلتفت ابوبکر الی مشورۃ عمر اذ کان عندہ حکم
رسول اللہ۔(بخاری ص۱۰۹۶، ج ۲)
یعنی چونکہ حضرت ابوبکر ؓ کے پاس حدیث نبوی موجود
تھی انہوں نے حضرت عمرؓ کا استدلال مسترد کر دیا۔
یہ تھیں پہلے خلیفہ راشد کی سنتیں، اب خلیفہ دوم
کی روش ملاحظہ ہو۔
(۸) آٹھواں اختلاف، حضرت عمر ؓ سے آخری وقت میں کہا
جارہا تھا، کہ کسی کو اپنا خلیفہ مقررکر جائیے تو وہ جواب دیتے ہیں:
ان لا استخلف فان النبی ﷺ لم یستخلف وان استخلف
فان ابابکر قد استخلف۔ (صحیح مسلم)
یعنی اگر میں خلیفہ مقرر نہ کروں تو ا س میں، میں
سنت نبویہ کا عامل ہوں گا، اور اگر خلیفہ مقرر کردوں، تو ابوبکر ؓ کی سنت پر عمل
ہوگا۔
چونکہ سنت نبوی پر عمل کرنا ہی افضل ہے، اس لیے
حضرت عمر ؓ نے کسی خاص شخص کو خلیفہ مقرر نہیںفرمایا: چنانچہ ان کے بیٹے حضرت
عبداللہ کہتے ہیں:
فعلمت انہ لم یکن لیعدل رسول اللہ احدا و انہ غیر
مستخلف۔ (مسلم)
یعنی میں سمجھ گیا کہ حضرت عمرؓ آنحضرت ﷺ کے
برابر کسی کو نہیں ٹھہرائیں گے اور وہ کسی کو خلیفہ مقرر نہیں کریں گے۔
معلوم ہوا کہ خلفائے راشدین کی سنت کو ، سنت
نبویہ کے اگر خلاف سمجھتے ہیں تو اس خلیفہ کی سنت کو چھوڑ دیتے ہیں اور سنت نبویہ
کو لازم پکڑتے ہیں۔ آئیے ایک واقعہ حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کا بھی
سن لیجئے، کیونکہ یہ بھی خلفائے راشدین میں سے تھے۔
(۹) نواں اختلاف ولید بن عقبہ نے کوفہ میں نبیذ پی تو
نشہ آگیا۔ قے کی پکڑے گئے۔ خلیفہ ثالث حضرت عثمانؓ نے مقدمہ کی تحقیقات کے بعد
حضرت علیؓ کو حکم دیا کہ ولید پر حد شرعی لگاؤ، عبداللہ بن جعفر نے کوڑے مارنے
شروع کیے اور حضرت علیؓ نے شمار کرنا شروع کیا۔ جب چالیس کوڑے لگ چکے تو حضرت علیؓ
نے عبداللہ سے فرمایا کہ بس۔
قال علی حسبک جلد النبی ﷺ وابوبکر اربعین وعمر
ثمانین وکل سنۃ وھذا احب الی (صحیح مسلم)
یعنی اب رک جاؤ، عہد نبوی اور خلافت صدیقی تک
حدخمر چالیس ہی رہی حضرت عمر ؓ نے اسی مقرر کی ، مجھے عہد نبوی کی مروجہ حد زیادہ
پسند ہے۔
دیکھیے حضرت علی ؓ نے دونوںکو سنت فرما کرسنت
نبوی کو سنت فاروقی پر مقدم کیا، حالانکہ حضرت عمر ؓ نے حضرت علیؓ کے مشورہ سے ہی
اسی کوڑے مقرر فرمائے تھے ، موطا ملاحظہ ہو، نیز حضرت عثمان ؓ خلیفہ راشد نے چالیس
پر سکوت فرما کر اپنی رضامندی کا اظہار کیا۔
واقعات مذکورہ سے صاف ثابت ہے، کہ رسول اللہ ﷺ کے
قول و فعل کو تمام اقوال و افعال پرمقدم کرنا ہی خلفاء راشدین مہدیین کا طریقہ
تھا، دیگر صحابہ کرام بھی آپﷺ کی سنت ہی کو مقدم کرتے ہیں چنانچہ حضرت عبداللہ بن
عمر نے جب شامیوں کو تمتع بالحج کا فتوی دیا، تو ان لوگوں نے کہا، کہ آپ کے ابا
جان تو منع کرتے تھے، تو حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا امرابی یتبع ام امر
النبی ﷺ (ترمذی) یعنی میرے ابا جان کی اتباع واجب ہے یا رسول اللہ ﷺ کی ، معلوم
ہوا، کہ ہر پیش آنے والے کام میں رسول اللہ ﷺ کی سنتوں کو مدنظر رکھنا، اور اس کے
مطابق عمل کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔
ہوتے ہوئے مصطفیٰ ﷺ کی گفتار
مت دیکھ کسی کا قول و کردار
خلفائے راشدین ہر پیش آنے والے امر میں حدیث
نبوی تلاش کرتے تھے، حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پاس جدہ نے آکر اپنا حصہ دریافت کیا،
آپ کواس مسئلہ میں کوئی حدیث نبوی یاد نہ تھی، تو صحابہ کرام سے دریافت کیا، آپ
کو دوصحابیوں (مغیرہ بن شعبہ اور محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہما) نے حدیث سنائی، کہ
رسول اللہ ﷺ نے جدہ کو چھٹا حصہ دلوایا تھا، ابوبکر صدیق ؓ نے اسی حدیث کے مطابق
فیصلہ فرمایا۔ (مؤطا وسنن اربعہ)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک مقدمہ پیش
ہوا، کہ مقتول شوہر کی دیت سے اس کی بیوی کو حصہ ملنا چاہیے یا نہیں، آپ ؓنے
فتویٰ نفی کا دے دیا ، ضحاک بن سفیان نے سنا تو منیٰ میں آپ ؓسے ملاقات کی اور
کہا کہ میرے پاس رسول اللہ ﷺ کا نوشتہ موجود ہے، کہ آپﷺ نے اشیم ضبی کی بیوی کو
اشیم کے مارے جانے کے بعد اس کی دیت میںسے حصہ دینے کاحکم دیا ہے، یہ سن کرحضرت
عمر ؓ نے اپنے فتویٰ سے رجو ع فرمایااور حدیث نبوی کے مطابق فتویٰ دیا۔ (موطا وسنن
اربعہ)
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ جس عورت
کا شوہر مر جائے، وہ عورت جہاں چاہے اپنی عدت گذارے، آخر حدیث نبوی کی تلاش ہوئی،
تو حضرت ابوسعید خدری کی بہن فریعہ بنت مالک نے اپنا واقعہ سنایا، کہ میرا شوہر
مارا گیا تھا، تو میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا، کہ میں عدت کہاں گزاروں؟ آپﷺ نے
ارشاد فرمایا: کہ شوہر کے گھر پر، حضرت عثمان ؓ نے اس حدیث کے مطابق فیصلہ کیا۔
(موطا)۔اللہ تعالی عمل کی توفیق عطا فرماے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں