خطبہ الجمعہ موضوع ۔ شرعی علم کی فضیلت
ان الحمدللہ نحمدہ ونستعینہ ، ونستفرہ ، ونعوذ
باللہ من شرور انفسنا ومن سیئات أعمالنا ، من یھدہ اللہ فلا مضل لہ، ومن یضلل فلا
ھادی لہ، وأشھد ان لا الہ الااللہ وحدہ لاشریک لہ، وأشھد أن محمدا عبدہ ورسولہ
أما بعد: فان خیر الحدیث کتاب اللہ وخیر الھدی
ھدی محمدﷺ وشر الامور محدثاتھا وکل بدعۃ ضلالہ وکل ضلالۃ فی النار۔ قال تعالی۔۔شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ
الۡقُرۡاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الۡہُدٰی وَ الۡفُرۡقَانِ ۚ
فَمَنۡ شَہِدَ مِنۡکُمُ الشَّہۡرَ فَلۡیَصُمۡہُ ؕ وَ مَنۡ کَانَ مَرِیۡضًا اَوۡ
عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ یُرِیۡدُ اللّٰہُ بِکُمُ الۡیُسۡرَ
وَ لَا یُرِیۡدُ بِکُمُ الۡعُسۡرَ ۫ وَ لِتُکۡمِلُوا الۡعِدَّۃَ وَ لِتُکَبِّرُوا
اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدٰىکُمۡ وَ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ ﴿۱۸۵﴾
ہم رمضان
المبارک کا استقبال کیسے کریں؟
اللہ تعالیٰ نے اس ماہ
مبارک کو بہت سے خصائص وفضائل کی وجہ سے دوسرے مہینوں کے مقابلے میں ایک ممتاز
مقام عطا کیاہے جیسے:
ا س ماہ مبارک میں قرآن
مجید کا نزول ہوا:
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ
الْقُرْآنُ (البقرہ:2/185)
اس کے عشرہ اخیر کی طاق
راتوں میں ایک قدر کی رات(شب قدر) ہوتی ہے جس میں اللہ کی عبادت ہزار مہینوں کی
عبادت سے بہتر ہے:
لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ
(القدر 97/3)
"شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے"
ہزار مہینے 83 سال اور 4
مہینے بنتے ہیں۔عام طور پر ایک انسان کو
اتنی عمر بھی نہیں ملتی۔یہ امت مسلمہ پر اللہ کا کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے اسے
اتنی فضیلت والی رات عطا کی۔
رمضان کی ہر رات کو اللہ
تعالیٰ اپنےبندوں کو جہنم سے آزادی عطا فرماتے ہیں۔
اس میں جنت کے دروازے
کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کےدروازے بند کردیئے جاتے ہیں۔
سرکش شیاطین کو جکڑ دیاجاتا
ہے۔
اللہ تعالیٰ روزانہ جنت
کو سنوارتا اور مزین فرماتا ہے اور پھر جنت سے خطاب کرکے کہتا ہے کہ :
"میرے نیک بندے
ا س ماہ میں اپنےگناہوں کی معافی مانگ کر اورمجھے راضی کرکے تیرے پاس آئیں
گے۔
رمضان کی آخری رات میں
روزے داروں کی مغفرت کردی جاتی ہے۔اگر انہوں نے صحیح معنوں میں روزے رکھ کر ان
کےتقاضوں کو پورا کیا ہوگا۔
فرشتے،جب تک روزے دار
روزہ افطار نہیں کرلیتے،ان کے حق میں رحمت ومغفرت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں۔
روزے دار کے منہ کی بو
اللہ کے ہاں کستوری کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ اور خوشگوار ہے۔
یہ اس مہینے کی چندخصوصیات
اور فضیلتیں ہیں۔اب ہمیں سوچنا ہے کہ ہم کیسے
اس کا استقبال کریں؟کیا ویسے ہی جیسے ہر مہینے کا استقبال ہم اللہ کی نافرمانیوں
اور غفلت سے کرتے ہیں؟یا اس اندازے سے کہ ہم اس کی خصوصیات اور فضائل سے بہرہ ور
ہوسکیں؟اور جنت میں داخلے کے اور جہنم سے آزادی کے مستحق ہوسکیں؟
اللہ کے نیک بندے اس کا
استقبال اس طرح کرتے ہیں کہ غفلت کے پردے چاک کردیتے ہیں اور بارگاہ الٰہی میں
توبہ واستغفار کے ساتھ یہ عزم صادق کرتے ہیں کہ اللہ نے انہیں اس ماہ مبارک کی
عظمتوں اور سعادتوں سے ایک مرتبہ پھر نوازا ہے تو ہم اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے
اس کی فضیلتیں حاصل کریں گے اور ا پنے اوقات کو اللہ کی عبادت کرنے ،اعمال صالحہ
بجا لانے اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں سمیٹنے میں صرف کریں گے۔اس لیے ضروری ہے کہ ہم
یہ سمجھیں کہ اس مہینے کے کون سے وہ اعمال صالحہ ہیں جن کی خصوصی فضیلت اور تاکید بیان کی گئی ہے۔
رمضان المبارک ک خصوصی
اعمال ووضائف:۔
1۔روزہ:۔
ان میں سب سے اہم
عمل،روزہ رکھنا ہے ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( كُلُّ
عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعَفُ الْحَسَنَةُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا إِلَى سَبْعمِائَة
ضِعْفٍ ، قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ : إِلا الصَّوْمَ فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا
أَجْزِي بِهِ ، يدع طعامه وشهوته من أجلي ، للصائم فرحتان : فرحة عند لقاء ربه ولخلوف فم الصائم اطيب عند الله من ريح
المسك (صحیح بخاری ،باب فضل الصوم،رقم
1893 مسلم باب فضل الصیام رقم 163۔165۔واللفظ لمسلم)
"انسان جو بھی نیک عمل کرتا ہے ،اس کا اجراسے دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک ملتا
ہے۔لیکن روزے کے بابت اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ یہ عمل(چونکہ) خالص میرے لیے ہے،اس
لیے میں ہی اس کی جزادوں گا۔(کیونکہ) روزے دار صرف میر ی خاطر اپنی جنسی
خواہش،کھانا ور پینا چھوڑتا ہے۔روزے دار کے لیے دو خوشیاں ہیں:ایک خوشی اسے روزہ
کھولتے وقت حاصل ہوتی ہے اور دوسری خوشی اسے اس وقت حاصل ہوگی جب وہ اپنے رب سے
ملے گا اور روزے دار کے منہ کی بو اللہ کے
ہاں کستوری سے بھی زیادہ پاکیزہ ہے"
ایک دوسری روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا
غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ (صحیح
بخاری،الصوم،باب من صام رمضان ایمانا واحتسابا ونیة رقم:1901)
"جس نے رمضان کے روزےایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے(یعنی
اخلاص سے)رکھے تو اس کے پچھلے گناہ معاف
کردیے جاتے ہیں"
یہ فضیلت اور اجرعظیم صرف
کھانا پینا چھوڑ دینے سے حاصل نہیں ہوجائے گا،بلکہ اس کا مستحق صرف وہ روزے دار
ہوگا جو صحیح معنوں میں روزوں کے تقاضے بھی پورے کرے گا۔جیسے جھوٹ سے،غیبت
سے،بدگوئی اورگالی گلوچ سے ،دھوکہ فریب دینے سے اور اس قسم کی تمام بے ہودگیوں اور
بدعملیوں سے بھی اجتناب کرے گا۔اس لیے کہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
من لم يدع قول الزور والعمل به فليس لله حاجة في
أن يدع طعامه وشرابه (صحیح بخاری الصوم باب من لم یدع قول الزور والعمل به
رقم:1903)
"جس نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا،تواللہ
تعالیٰ کو کوئی حاجت نہیں کہ یہ شخص اپنا کھانا پینا چھوڑے"۔۔۔اور فرمایا:
"الصيام جنةوإذا كان يوم صوم أحدكم فلا يرفث، ولا
يصخب فإن سابه أحد، أو قاتله فليقل: إني امرؤ صائم"
"روزہ ایک ڈھال ہے۔جب تم میں سے کسی کا روزے کا دن ہو،تو
وہ نہ دل لگی کی باتیں کرے اور نہ شوروشغب۔اگر کوئی اسے گالی دے یالڑنے کی کوشش
کرے تو(اس کو) کہہ دے کہ میں تو روزے دار
ہوں"(بخاری رقم 1903 مسلم رقم1151 باب 29۔30)
یعنی جس طرح ڈھال کےذریعے
سے انسان دشمن کے وار سے اپنا بچاؤ کرتا
ہے۔اس طرح جو روزے دار روزے کی ڈھال سے اللہ کی نافرمانی اور گناہوں سے بچے گا۔گویا
اس کے لیے ہی یہ روزہ جہنم سے بچاؤ کے لیے ڈھال ثابت ہوگا۔اس لیے جب ایک مسلمان
روزہ رکھے،تو اس کے کانوں کا بھی روزہ ہو،اس کی آنکھ کابھی روزہ ہو،اس کی زبان کا
بھی روزہ ہو،اور اسی طرح اس کے دیگراعضاء
وجوارح کا بھی روزہ ہو۔یعنی اس کاکوئی بھی
عضو اور جزاللہ کی نافرمانی میں استعمال نہ ہو۔اور اس کی روزے کی حالت اور
غیر روزے کی حالت ایک جیسی نہ ہو بلکہ ان دونوں حالتوں اور دونوں میں فرق وامتیاز
واضح اور نمایاں ہو۔
2۔قیام اللیل:۔
دوسرا عمل،قیام اللیل ہے۔یعنی
راتوں کو اللہ کی عبادت اور اس کی بارگاہ
میں عجزونیاز کا اظہار کرنا۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے
عبادالرحمان(رحمان کے بندوں) کی جو صفات بیان فرمائی ہیں ،ان میں ایک یہ ہے:
وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّداً
وَقِيَاماً (الفرقان:25/63)
"ان کی راتیں اپنے رب کے سامنے قیام وسجود میں گزرتی ہیں"
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا:
مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا
غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ (صحیح بخاری صلاۃ التراویح باب فضل من
قام رمضان رقم 2009 مسلم صلاۃ المسافرین
باب الترغیب فی قیام رمضان وھو التراویح رقم 759)
"جس نے رمضان(کی راتوں) میں قیام کیا،ایمان کی حالت میں
،ثواب کی نیت(اخلاص) سے ،تو اسکے پچھلے گناہ معاف کردیئے جائیں گے"
راتوں کا قیام نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی مستقل معمول
تھا ،صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین
اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ بھی اس
کا خصوصی اہتمام فرماتے تھے اور ہر دور کے اہل علم وصلاح اور اصحاب زہدو تقویٰ کا یہ امتیاز
رہاہے۔خصوصاً رمضان المبارک میں اس کی بڑی اہمیت اور فضیلت ہے۔رات کا یہ تیسراآخری
پہر اس لیے بھی بڑی اہمیت رکھتاہے کہ اس
وقت اللہ تعالیٰ ہر روز آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور اہل دنیا سے خطاب کرکے کہتا ہے:
"کون ہے جو مجھ سے مانگے،تو میں اس کی دعا قبول کروں؟کون
ہے جو مجھ سے سوال کرے،تو میں اس کو عطا کروں؟کون ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے ،تو
میں اسے بخش دوں؟"
"يَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُلَّ
لَيْلَةٍ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا حِينَ يَبْقَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الْآخِرُ
يَقُولُ: مَنْ يَدْعُونِي فَأَسْتَجِيبَ لَهُ مَنْ يَسْأَلُنِي فَأُعْطِيَهُ مَنْ
يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ "(البخاری ،کتاب التہجد باب الدعاء والصلاۃ
من آخر اللیل رقم:1135)
اللھم وفقنا
لما تحب و ترضی ... آمین یارب العالمین !
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں