خطبہ الجمعہ موضوع ۔ اعتکاف کے مسائل
ان الحمدللہ نحمدہ ونستعینہ ، ونستفرہ ، ونعوذ
باللہ من شرور انفسنا ومن سیئات أعمالنا ، من یھدہ اللہ فلا مضل لہ، ومن یضلل فلا
ھادی لہ، وأشھد ان لا الہ الااللہ وحدہ لاشریک لہ، وأشھد أن محمدا عبدہ ورسولہ
أما بعد: فان خیر الحدیث کتاب اللہ وخیر الھدی
ھدی محمدﷺ وشر الامور محدثاتھا وکل بدعۃ ضلالہ وکل ضلالۃ فی النار۔ قال تعالی۔۔ وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً
لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًا١ؕ وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى١ؕ وَ
عَهِدْنَاۤ اِلٰۤى اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَهِّرَا بَیْتِیَ
لِلطَّآئِفِیْنَ وَ الْعٰكِفِیْنَ وَ الرُّكَّعِ السُّجُوْدِ
نفسِ اعتکاف ان عبادات میں سے ہے جو پچھلے انبیاءِ کرام علیہم السلام
کے زمانے سے چلی آرہی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں بھی ان کا ذکر
فرمایاہے، اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت
اسماعیل علیہ السلام کو بیت اللہ کی تعمیر کے بعد طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے
والوں اور نماز ادا کرنے والوں کے لیے اسے (بیت اللہ) پاک صاف رکھنے کا حکم دیا
ہے۔ گویا طواف ونماز کی طرح اعتکاف بھی اللہ تعالیٰ کے قرب کا خاص ذریعہ ہے کہ
باری تعالیٰ اپنے دو برگزیدہ پیغمبروں کو معتکفین کی خدمت اور ان کے اعزاز میں
مسجدِ حرام کی صفائی اور خدمت کا حکم ارشاد فرمارہے ہیں۔
اور رمضان کے اخیر عشرہ کا اعتکاف کرنا رسول اللہ ﷺ
کی مستقل سنت ہے، اوراس کی فضیلت اس سے زیادہ کیا ہوگی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم ہمیشہ اس کا اہتمام فرماتے تھے، امام زہری ؒ فرماتے ہیں : کہ لوگوں پر تعجب
ہے کہ انہوں نے اعتکاف کی سنت کو چھوڑ رکھا ہے حال آں کہ رسول اللہ ﷺبعض امور کو
انجام دیتے تھے اور ان کو ترک بھی کرتے تھے ،اور جب سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ
تشریف لائے اس وقت سے لے کر وفات تک بلا ناغہ آپ اعتکاف کرتے رہے ،کبھی ترک نہیں
کیا ۔ (اور اگر ایک سال اعتکاف نہ کرسکے تو اگلے سال بیس دن کا اعتکاف فرمایا۔ کما
فی الحدیث)۔اور حضورِ اکرم ﷺ کا ہمیشگی فرمانا (ترک کرنے والوں پر نکیر کیے بغیر)
یہ اس کی سنیت کی دلیل ہے ۔
نیز اعتکاف میں اللہ تعالیٰ کے گھر میں قیام کرکے
تقربِ باری تعالیٰ کا حصول ہے،دنیا سے منہ موڑنا اور رحمتِ خداوندی کی طرف متوجہ
ہونا اور مغفرتِ باری تعالیٰ کی حرص کرنا ہے ۔ اور معتکف کی مثال ایسے بیان فرمائی
گئی ہے گویا کوئی شخص کسی کے در پر آکر پڑجائے کہ جب تک مقصود حاصل نہیں ہوگا اس
وقت تک نہیں لوٹوں گا، معتکف اللہ کے در پر آکر پڑجاتاہے کہ جب تک رب کی رضا اور
مغفرت کا پروانا نہیں مل جاتا وہ نہیں جائے گا، ایسے میں اللہ کی رضا ومغفرت کی
قوی امید بلکہ اس کے فضل سے یقین رکھنا چاہیے۔
چناں چہ احادیث میں آپ ﷺ کا طرزعمل اس طرح بیان
کیاگیاہے:
صحيح البخاري (3/ 47):
" حدثنا إسماعيل بن عبد الله، قال: حدثني ابن وهب، عن
يونس، أن نافعا، أخبره عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما، قال: «كان رسول الله
صلى الله عليه وسلم يعتكف العشر الأواخر من رمضان».
ترجمہ:حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری دس دنوں کااعتکاف کرتے تھے۔
صحيح البخاري (3/ 47):
" حدثنا عبد الله بن يوسف، حدثنا الليث، عن عقيل، عن
ابن شهاب، عن عروة بن الزبير، عن عائشة [ص:48] رضي الله عنها، - زوج النبي صلى
الله عليه وسلم -: «أن النبي صلى الله عليه وسلم، كان يعتكف العشر الأواخر من
رمضان حتى توفاه الله، ثم اعتكف أزواجه من بعده»".
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ اللہ
کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری دس دنو ں کااعتکاف کیاکرتے تھے، یہاں تک
کہ اللہ نے آپ کووفات دے دی۔
صحيح البخاري (3/ 51):
"حدثنا عبد الله بن أبي شيبة، حدثنا أبو بكر، عن أبي
حصين، عن أبي صالح، عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم
«يعتكف في كل رمضان عشرة أيام، فلما كان العام الذي قبض فيه اعتكف عشرين يوماً»".
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہررمضان میں دس دن اعتکاف کرتے تھے ،لیکن جو آپ کی
وفات کاسال تھا توآپ نے بیس دن اعتکاف فرمایا۔
علمانے لکھا ہے کہ آپ نے بیس دن کااعتکاف اس لیے
فرمایاتھا کہ آپ کو منکشف ہوگیاتھاکہ یہ آپ کا آخری رمضان ہے، آپ نے چاہاکہ
اعمالِ خیرمیں کثرت کی جائے ؛تاکہ امت کوعمل خیر میں جدوجہد کرنا ظاہرہوجائے
اوربعض نے کہاکہ یہ بیس دن کا اعتکاف اس لیے تھا کہ آپ نے اس سے پہلے سال رمضان
میں سفرہوجانے کی بناپر اعتکاف نہیں کیاتھا، اس لیے پچھلے سال اعتکاف نہ کرسکنے کی
تلافی کرنے کے لیے اس سال بیس دن کااعتکاف فرمایا۔ بہرحال اس سے معلوم ہواکہ
اعتکاف کا عمل آپ ﷺ کی نظر میں کتنی بڑی فضیلت والا اور اہم عمل تھا۔ چنانچہ
اعتکاف کے فضائل میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں، ذیل میں کچھ نقل کی جاتی
ہیں:
صحيح البخاري (3/ 48):
"حدثنا إسماعيل، قال: حدثني مالك، عن يزيد بن عبد
الله بن الهاد، عن محمد بن إبراهيم بن الحارث التيمي، عن أبي سلمة بن عبد الرحمن،
عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يعتكف في
العشر الأوسط من رمضان، فاعتكف عاماّ، حتى إذا كان ليلة إحدى وعشرين، وهي الليلة
التي يخرج من صبيحتها من اعتكافه، قال: «من كان اعتكف معي، فليعتكف العشر الأواخر،
وقد أريت هذه الليلة ثم أنسيتها، وقد رأيتني أسجد في ماء وطين من صبيحتها،
فالتمسوها في العشر الأواخر، والتمسوها في كل وتر»، فمطرت السماء تلك الليلة وكان
المسجد على عريش، فوكف المسجد، فبصرت عيناي رسول الله صلى الله عليه وسلم على
جبهته أثر الماء والطين، من صبح إحدى وعشرين".
ترجمہ:حضرت ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں :کہ نبی کریم ﷺ
نے رمضان المبارک کے پہلے عشرہ میں اعتکاف فرمایا اور پھر دوسرے عشرہ میں بھی ،
پھر ترکی خیمہ سے جس میں اعتکاف فرمارہے تھے، سر باہر نکال کرارشاد فرمایا :کہ میں
نے پہلے عشرہ کااعتکاف شبِ قدر کی تلاش اور اہتمام کی وجہ سے کیا تھا ،پھر اسی کی
وجہ سے دوسرے عشرہ میں کیا ، پھر مجھے کسی بتلانے والے (یعنی فرشتہ )نے بتلایا کہ
وہ رات اخیر عشرہ میں ہے ۔ لہٰذا جو لوگ میرے ساتھ اعتکاف کررہے ہیں وہ اخیر عشرہ
کا بھی اعتکاف کریں ۔ مجھے یہ رات دکھلا دی گئی تھی پھر بھلا دی گئی ،(اس کی علامت
یہ ہے کہ) میں نے اپنے آپ کو اس رات کے بعد کی صبح میں گیلی مٹی میں سجدہ کرتے
دیکھا، لہٰذا اب اس کو اخیر عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو ۔ راوی کہتے ہیں :کہ
اس رات میں بارش ہوئی اور مسجد چھپر کی تھی وہ ٹپکی اور میں نے اپنی آنکھوں سے
نبی کریم ﷺ کی پیشانی مبارک پر کیچڑ کا اثر اکیس(۲۱ویں ) کی صبح کو دیکھا ۔
معلوم ہواکہ اعتکاف کی عبادت کے ذریعے شبِ قدر کا
حصول متوقع ہے۔
سنن ابن ماجه (1/ 567):
"حدثنا عبيد الله بن عبد الكريم قال: حدثنا محمد بن
أمية قال: حدثنا عيسى بن موسى البخاري، عن عبيدة العمي، عن فرقد السبخي، عن سعيد
بن جبير، عن ابن عباس، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال في المعتكف: «هو يعكف
الذنوب، ويجرى له من الحسنات كعامل الحسنات كلها»".
ترجمہ : نبی کریم ﷺ کاا رشاد ہے : کہ معتکف گناہوں
سے محفوظ رہتا ہے اور اس کے لیے نیکیاں اتنی ہی لکھی جاتی ہیں جتنی کہ کرنے والے
کے لیے ۔
اس حدیث میں اعتکاف کرنے والے کے لیے اتنی نیکیوں کی
بشارت سنائی گئی ہے جتنی کہ کرنے والے کے لیے، اس کامطلب یہ ہے کہ اعتکاف کرنے
والا اعتکاف کی وجہ سے بعض نیک اعمال نہیں کرسکتا،مثلاً مریض کی عیادت ،جنازہ میں
شرکت وغیرہ، ایسے اعمال کے بارے میں کہاگیاہے کہ اعتکاف کرنے والا اگرچہ عمل نہیں
کرتا ؛مگر ا س کواتناہی ثواب دیاجاتاہے جتناکہ کرنے والے کودیا جاتا ہے۔
المعجم الأوسط (7/ 220):
" حدثنا محمد بن العباس الأخرم، ثنا أحمد بن خالد
الخلال، نا الحسن بن بشر قال: وجدت في كتاب أبي، حدثنا عبد العزيز بن أبي رواد، عن
عطاء، [ص:221] عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من
مشى في حاجة أخيه كان خيراً له من اعتكاف عشر سنين، ومن اعتكف يوماً ابتغاء وجه
الله جعل الله بينه وبين النار ثلاث خنادق، كل خندق أبعد مما بين الخافقين»".
لم يرو هذا الحديث عن عبد العزيز بن أبي رواد إلا بشر بن سلم البجلي، تفرد به:
ابنه ".
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کا ارشاد
نقل کرتے ہیں کہ جو شخص اپنے بھائی کے کسی کام میں چلے پھرے اور کوشش کرے اس کے
لیے دس برس کے اعتکاف سے افضل ہے ، اور جو شخص ایک دن کا اعتکاف بھی اللہ کی رضا
کے واسطے کرتا ہے تو حق تعالیٰ شانہٗ اس کے اور جہنم کے درمیان تین خندقیں آڑ
فرمادیتے ہیں جن کی مسافت آسمان اور زمین کی مسافت سے بھی زیادہ چوڑی ہے۔بدائع
الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 108):
"والدليل على أنه في الأصل سنة، مواظبة النبي صلى
الله عليه وسلم فإنه روي عن عائشة وأبي هريرة - رضي الله عنهما - أنهما قالا: «كان
رسول الله صلى الله عليه وسلم يعتكف العشر الأواخر من شهر رمضان حتى توفاه الله
تعالى». وعن الزهري أنه قال: عجباً للناس تركوا الاعتكاف وقد «كان رسول الله صلى
الله عليه وسلم يفعل الشيء ويتركه ولم يترك الاعتكاف منذ دخل المدينة إلى أن مات» .
ومواظبة النبي صلى الله عليه وسلم عليه دليل كونه
سنة في الأصل؛ ولأن الاعتكاف تقرب إلى الله تعالى بمجاورة بيته والإعراض عن الدنيا
والإقبال على خدمته لطلب الرحمة وطمع المغفرة، حتى قال عطاء الخراساني: مثل
المعتكف مثل الذي ألقى نفسه بين يدي الله تعالى يقول: لا أبرح حتى يغفر لي؛ ولأنه
عبادة لما فيه من إظهار العبودية لله تعالى بملازمة الأماكن المنسوبة إليه.
والعزيمة في العبادات القيام بها بقدر الإمكان
وانتفاء الحرج، وإنما رخص تركها في بعض الأوقات فكان الاشتغال بالاعتكاف اشتغالا
بالعزيمة حتى لو نذر به يلتحق بالعزائم الموظفة التي لا رخصة في تركها والله أعلم
اللہ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں