اپنی زبان منتخب کریں

جمعرات، 6 مئی، 2021

آخری عشرہ کی فضیلت اورلیلۃ القدر

خطبہ الجمعہ موضوع ۔ آخری عشرہ کی فضیلت اورلیلۃ القدر ان الحمدللہ نحمدہ ونستعینہ ، ونستفرہ ، ونعوذ باللہ من شرور انفسنا ومن سیئات أعمالنا ، من یھدہ اللہ فلا مضل لہ، ومن یضلل فلا ھادی لہ، وأشھد ان لا الہ الااللہ وحدہ لاشریک لہ، وأشھد أن محمدا عبدہ ورسولہ أما بعد: فان خیر الحدیث کتاب اللہ وخیر الھدی ھدی محمدﷺ وشر الامور محدثاتھا وکل بدعۃ ضلالہ وکل ضلالۃ فی bgالنار۔ قال تعال ۔ ۔ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَ لْفِ شَهْرٍ . . . سَلاَمٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ : عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «من قام ليلة القَدْر إيمَانا واحْتِسَابًا غُفِر له ما تَقدم من ذَنْبِه نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں عبادت اوراطاعت پوری کوشش سے کیا کرتے تھے جوباقی مہینوں کی بنسبت زيادہ ہوا کرتی تھی اس کا بیان احادیث میں کچھ یوں ملتا ہے : عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا: «كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْتَهِدُ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ، مَا لَا يَجْتَهِدُدُ فِي غَيْرِهِ قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا: «كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْتَهِدُ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ، مَا لَا يَجْتَهِدُ فِي غَيْرِههِ : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرہ میں اتنی کوشش کیا کرتے تھے جتنی دوسرے دنوں میں نہيں کرتے تھے ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1175 ) ۔ اوراس کوشش میں یہ شامل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے اوراس میں لیلۃ القدر کی تلاش کیا کرتے تھے ۔ دیکھیں صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1913 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1169 ) ۔ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کا قول " احیا اللیل " کامعنی ہے کہ رات کونماز وغیرہ کے لیے بیدار رہا کرتے تھے ۔ أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِداً وَقَائِماً يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُو ررَحْمَةَ رَبِّهِ﴾ الزمر 9 جو رات کے وقتوں میں زمین پر پیشانی رکھ کر اور کھڑے ہو کر عبادت کرتا اور آخرت سے ڈرتا اور اپنے پروردگار کی رحمت کی امید رکھتا ہے۔ ایک اورحدیث میں عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے بھی ثابت ہے کہ وہ بیان کرتی ہیں وَلَا أَعْلَمُ أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ الْقُرْآنَ كُلَّهُ فِي لَيْلَةٍ" (مسلم کتاب الصلوٰۃ المسافرین (139) المغنی لابن قدامہ 2/612) : ( مجھے یہ علم نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی بھی ایک ہی رات میں پورا قرآن مجید پڑھا ہو یا پھر صبح تک قیام ہی کرتے رہے ہوں ، اوررمضان المبارک کے علاوہ کسی اورمکمل مہینہ کے روزے رکھے ہوں ) سنن نسائي حدیث نمبر ( 1641 ) ۔ لھذا ان کے قول احیااللیل یعنی رات بیدار رہا کرتے تھے کواس پر محمول کیا جائے گا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کا اکثر حصہ بیدار رہتے تھے ، یا پھر اس کا معنی یہ ہوگا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عشاء اورسحری وغیرہ کو نکال کر ساری رات قیام کرتے تھے ، تواس کا معنی یہ ہوگا کہ رات کا اکثر حصہ بیدار رہتے تھے ۔ قولھا : " وایقظ اھلہ " یعنی قیام اللیل کے لیے اپنی ازواج مطہرات کو بھی بیدار کیا کرتے تھے ، یہ تومعلوم ہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھروالوں کو سارا سال ہی جگایا کرتےتتھے ، لیکن یہ صرف رات کے کچھ حصہ میں قیام کےلیے ہوتا تھا ۔ صحیح بخاری میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات بیدار ہوئے اورفرمانے لگے : ( سبحان اللہ آج رات کیا فتنے اتارے گئے ! کیاخزانےنازل کیے گئے ہيں ! ان کمروں والیوں کوکون جگائے گا ؟ دنیا میں بہت سی لباس والیاں آخرت میں بے لباس ہونگی ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1074 ) ۔ اورایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب وتر پڑھنا چاہتے ہوعائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کوبیدار کیا کرتے تھے ۔ دیکھیں صحیح بخاری حدیث نمبر ( 952 ) ۔ لیکن رمضان کے آخری عشرہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی گھروالیوں کو باقی سارے سال کی بنسبت زيادہ جگایا کرتے تھے ۔ لھذا مسلمان پرضروری ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء اورپیروی کرے اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہ ہی اس کے لیے آئڈیل اورقدوہ و اسوہ ہیں اورمسلمان کواللہ تعالی کی عبادت میں کوشش اوراہمتام کرنا چاہیے ، اوراسے چاہیے کہ وہ ان دنوں اور راتوں کے اوقات کوضائع نہ کرے ، اس لیے کہ کسی بھی شخص کو یہ علم نہیں کہ دوبارہ یہ دن اسے نصیب ہونگے یا نہيں ؟ ہوسکتا ہے آئندہ رمضان سے قبل ہے لذتوں اورراحتوں کو ختم کرنے والی موت آدبوچے جو سب جماعتوں کے بکھیر کررکھ دیتی ہے ، اورپھریہ بات تو یقینی اوراظہرمن الشمس ہے کہ جب کسی شخص کی زندگي ختم ہوجائے اوراس کا وقت آپہنچے تواسے موت آدبوچتی ہے ، اورپھر اس وقت کسی بھی قسم کی کوئي ندامت کام نہیں آتی ۔ اس عشرے اور دنوں کی فضیلت اورخصوصیت اورباقی دوسرے دنوں سے امتیازی حیثیت یہ بھی ہے کہ اس میں ایک ایسی رات پائي جاتی ہے جوہزار مہینوں سے بھی زيادہ بہتر اورافضل ہے ۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے اس کا ذکر کچھ یوں فرمایا ہے حم ۔ وَالْكِتَابِ الْمُبِيْنِ 3 ۔ ِنَّـآ اَنْزَلْنَاهُ ففِىْ لَيْلَـةٍ مُّبَارَكَةٍ ۚ اِنَّا كُنَّا مُنْذِرِيْنَ 4 فِـيْـهَا يُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِـيْمٍ 5۔ اَمْرًا مِّنْ عِنْدِنَا ۚ اِنَّا كُنَّا مُرْسِلِيْنَ 6 ۔ رَحْـمَةً مِّنْ رَّبِّكَ ۚ اِنَّهٝ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِـيْمُ اللہ سبحانہ وتعالی نے قرآن مجید کوایسی رات میں نازل فرمایا جسے رب العالمین نے بابرکت فرمایا اوراسے برکت والی رات کانام دیا ہے ، سلف صالحین کی ایک جماعت جن میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما ، قتادہ ، سعید بن جبیر ، عکرمہ اورمجاھد وغیرہ رحمہم اللہ جمیعا شامل ہيں سے یہ صحیح طور پر منقول ہے کہ جس رات میں قرآن مجید نازل کیا گیا وہ لیلۃ القدر ہی ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان : { اس میں ہرحکمت والاامر کی تقسیم ہوتی ہے } کامعنی ہے کہ : یعنی اس رات میں مخلوق کی پورے سال کی مقادیر مقدر کی جاتی ہیں ، لھذا یہ لکھا جاتا ہےکہ اس سال میں کسے موت آئے گي اورکون پیدا ہوگا ، کون ہلاکت سے دوچارہوگا اورکسے نجات اورکامیابی ملے گی ۔ کون سعادت مندوں کی شامل ہوگا اورکسے شقاوت وبدبختوں میں شمولیت ملے گی ، کون ہے جسے عزت و مرتبہ ملے گا اورکون ہے جسے ذلت ورسوائي کا سامنا کرنا ہوگا ، قحط اورخشک سالی بھی لکھی جاتی ہے اوراس سال میں جوکچھ اللہ تعالی چاہے سب کچھ مقدر کردیا جاتا ہے ۔ لیلۃ القدر میں مخلوق کی تقدیر لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ( واللہ اعلم ) کہ لیلۃ القدر میں لوح محفوظ سے اسے منتقل کیا جاتا ہے ۔ ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما کا قول ہے : دیکھا جاتا ہے کہ ایک شخص بستر اورچٹائي بچھا رہا ہے اور کھیتی باڑي میں مصروف ہے حالانکہ وہ توفوت شدگان میں شامل ہے ۔ یعنی لیلۃ القدر میں یہ لکھا جاچکا ہےکہ یہ شخص فوت شدگان میں سے ہے ، اوریہ بھی کہا گيا ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ اس رات مقادیر فرشتوں کے لیے واضح ہوجاتی ہیں ۔ اور لیلۃ القدر کا معنی قدر اور تعظیم والی رات ہے یعنی ان خصوصیتوں اورفضیلتوں کی بنا پر یہ قدر والی رات ہے ، یا پھر یہ معنی ہے کہ جوبھی اس رات بیدار ہوکر عبادت کرے گا وہ قدروشان والا ہوگا ، قدر کا معنی تنگی بھی کیا گيا ہے ، یعنی اس کی تعیین کاعلم خفیہ رکھا گیا ہے ۔ خلیل بن احمد کا کہنا ہے : لیلۃ القدر کوقدر والی رات اس لیے کہتے ہیں کہ : اس رات فرشتوں کی کثرت کی وجہ سے زمین تنگ ہوجاتی ہے ، یعنی قدر تنگی کے معنی میں ہے جیسا کہ اللہ تعالیلی کا فرمان ہے فَأَمَّا الْإِنْسَانُ إِذَا مَا ابْتَلَاهُ رَبُّهُ فَأَكْرَمَهُ وَنَعَّمَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَكْرَمَنِ[15] وَأَمَّا إِذَا مَا ابْتَلَاهُ فَقَدَرَ عَلَيْههِ رِزْقَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَهَانَن: { اورجب اللہ تعالی اسے آزمائش میں ڈالتا ہے تواس پراس کے رزق کو تنگ کردیتا ہے } الفجر ( 16 ) ۔ تویہاں پر قدر کا معنی ہے کہ اس کا رزق تنگ کردیا جاتا ہے ۔ جیسا کہ صحیحین کی حدیث میں ہے ، ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «من قام ليلة القَدْر إيمَانا واحْتِسَابًا غُفِر له ما تَقدم من ذَنْبِه ( جوبھی لیلۃ القدر میں ایمان اوراجروثواب کی نیت سے قیام کرے اس کے پہلے سارے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں ) ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1910 ) صحیح مسلم حديث نمبر اللہ سبحانہ وتعالی نے اس رات کی شان میں ایک سورۃ نازل فرمائي جوقیامت تک پڑھی جاتی رہے گی ، اس سورۃ میں اللہ تعالی نے اس رات کی قدرومنزلت اورشان کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا : { یقینا ہم نے اسے قدر والی رات میں نازل فرمایا ہے ، توکیا سمجھا کہ قدر والی رات کیا ہے ؟ قدر والی رات ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے ، اس میں ہرکام کوسرانجام دینے کے لیے فرشتے اور جبریل اپنے رب کے حکم سے اترتے ہیں ، یہ رات سراسر سلامتی کی ہوتی ہے اورفجر کے طلوع ہونے تک رہتی ہے} القدر ( 1 - 5 ) ۔ لھذا اللہ تعالی کا فرمان : { توکیا سمجھا کہ قدروالی رات کیا ہے } اس رات کی عظمت اورشان بیان کرنے کے لیے ہے ۔ : { قدر والی رات ایک ہزار رات سے بہتر ہے } یعنی اس رات میں کی گئي عبادت تراسی 83 برسوں کی عبادت سے بھی زيادہ بہتر ہے ، یہ بہت ہی بڑا فضل ہے جس کی قدر صرف اللہ رب العالمین ہی جانتا ہے ۔ اس رات کو رمضان اورخاص کراس کے آخری عشرہ میں تلاش کرنا مستحب ہے ، اس کا ذکر حدیث میں بھی ملتا ہے : ابوسعید رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ سے چٹائي پکڑ کرقبے کے کی ایک طرف کی اوراپناسرنکال کرلوگوں سے کلام تولوگ ان کے قریب ہوئے توآپ نے فرمایا : ( میں نے یہ رات تلاش کرنے کے لیے پہلا عشرہ اعتکاف کیا پھر درمیانہ عشرہ بھی اعتکاف کیا پھرمیرےپاس نیندمیں گئي اورکہا گيا یہ رات آخری عشرہ ميں ہے ، لھذا تم میں سے جوبھی اعتکاف کرنا چاہے وہ اعتکاف جاری رکھے تولوگوں نے بھی نبی صلی اللہ علیہ سلم کے ساتھ اعتکاف کیا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے یہ طاق رات میں دکھائي گئي ہے اورمیں اس رات کی صبح پانی اورکیچڑ میں سجدہ کرہا ہوں ، اکیسویں رات صبح تک قیام کرتے رہے اورآسمان سے بارش بھی نازل ہوئي تومسجدٹپکنا شروع ہوگئي ، میں نے پانی اورکیچڑ دیکھا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نمازفجر سے فارغ ہونے کے بعد نکلے توان کی پیشانی اورناک پانی اورکيچڑ میں لتھڑا ہوا تھا ، اوریہ آخری عشرہ میں اکیسویں رات تھی ) صحیح مسلم حدیث نمبر (1167) اورآخری عشرہ میں بھی طاق راتوں میں یقینی ہے کیونکہ عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( آخری عشرہ کی طاق راتوں میں لیلۃ القدر تلاش کرو ) صحیح بخاری ( 4/ 259 ) ۔ اوربالذات طاق راتوں میں یعنی اکیسویں ، تئیسویں ، پچیسویں ، ستائسویں ، اورانتیسویں رات ، صحیحین میں حدیث وارد ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( اس رات کو آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1912 ) اور ( 1913 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1167 ) اور ( 1165 ) ۔ اورستائسویں رات میں تواس کی اوربھی زيادہ امید کی جاسکتی ہے ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے : امام احمد نے ابن عمررضي اللہ تعالی عنہ اورامام ابوداود رحمہ اللہ تعالی نے معاویہ رضي اللہ تعالی عنہ سے بیان کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( لیلۃ القدر ستائسویں رات ہے ) مسند احمد ، سنن ابوداود حدیث نمبر ( 1386 ) ۔ اکثر صحابہ اورجمہور علماء کرام کا مذھب یہی ہے کہ لیلۃ القدر ستائسویں رات ہی ہے ، حتی کہ ابی بن کعب رضي اللہ تعالی عنہ استثناء کے بغیر حلفا کہا کرتے تھے کہ لیلۃ القدر ستائسویںیں رات ہی ہے ، زر بن حبیش رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ میں نے کہا اے ابومنذر آپ ایسے کس وجہ سےکہتے ہیں ؟ وہ کہنے لگے : اس نشانی اورعلامت کی بنیاد پرجونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتائي تھی ، وہ یہ ہے کہ : اس دن سورج طلوع ہوگا تواس میں شعاع اور تمازت نہيں ہوتی ۔ اسے امام مسلم رحمہ اللہ تعالی نے روایت کیا ہے دیکھیں صحیح مسلم ( 2 / 268 ) ستائیسویں کی تعیین میں بہت ساری مرفوع احادیث مروی ہيں : اورابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما نے بھی یہی کہا ہے کہ : ( یہ ستائیسویں رات ہی ہے ) اورکچھ امور سے ایک عجیب وغریب استنباط کیا ہے ، بیان کیا جاتا ہے کہ عمررضي اللہ تعالی نے صحابہ کرام کوجمع کیا اوران کے ساتھ ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہم کوبھی جمع کیا جوکہ ابھی بچے یعنی چھوٹی عمر کے تھے تو صحابہ کرام کہنے لگے ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہ توہمارے بچوں کی طرح ہے آپ اسے ہمارے ساتھ کیوں جمع کررہے ہیں ؟ توعمررضي اللہ تعالی عنہ نے جواب میں فرمایا : اس نوجوان کا دل عقلمندوں کا اور زبان سوال والی ہے ، پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لیلۃ القدر کے بارہ میں سسوال کیا تو وہ سب کہنے لگے رمضان کے آخری عشرہ ميں ہے ، توعمررضي اللہ تعالی عنہ نے اس کے متعلق ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما سے پوچھا تو وہ کہنے لگے : مجھے علم ہے کہ یہ کونسی ہے ، یقینا یہ ستائیسویں رات ہے ، توعمر رضي اللہ تعالی عنہ نے کہا آپ کو کیسے علم ہوا ؟ تووہ کہنے لگے : اللہ تعالی نے سات آسمان بنائے ، اورزمینیں بھی سات ہی بنائيں ، اور دن بھی سات ہی بنائے ، اورانسان کو بھی سات سے پیدا فرمایا ، اور طواف بھی سات چکر بنائے ، اورسعی بھی سات چکر ہی ہیں ، اوررمی جمرات بھی سات کنکریاں ہیں ۔ توان استنباطات کی بنا پرابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما یہی خیال کرتے تھے کہ لیلۃ القدر ستائيسویں رات ہی ہے ، اورابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما سے یہ بات ثابت ہے ۔ اوران امورمیں سے جن سے یہ استنباط کیا جاتا ہے کہ لیلۃ القدر ستائیسویں رات ہے وہ اللہ تعالی کے فرمان کا کلمہ ہے جس میں یہ ہے : { تنزل الملائکۃ والروح فیھا } اس میں فرشتے اورروح اترتے ہیں ۔ یہ سورۃ القدر کا ستائیسواں کلمہ ہے ۔ لیکن اس پرکوئي شرعی دلیل نہیں ، اس لیے اس طرح کے حسابات کی کوئي ضرورت نہيں ہے ، اس لیے کہ ہمارے پاس شرعی دلائل ہيں جوہمیں اس سے مستغنی کردیتے ہيں ۔ لیکن غالبا یہی ہے کہ ستائسویں رات لیلۃ القدر ہوتی ہے واللہ اعلم ، لیکن یہ مستقل نہيں بلکہ اس میں تبدیلی ہوتی ، بعض اوقات اکیسویں رات ہوتی ہے جیسا کہ ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ کی مندرجہ بالا حدیث میں ہے ۔ اور بعض اوقات تئيسویں رات ہوتی ہے جیسا کہ عبداللہ بن انیس رضي اللہ تعالی عنہ کی روایت میں ہے اس کا بیان ہوچکا ہے ، اورابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کی حدیث میں ہے کہ نبی ص صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( لیلۃ القدر کورمضان المبارک کے آخری عشرہ میں تلاش کرو ، باقی نو رہ جائيں ، باقی سات رہ جائيں ، باقی پانچ رہنے پر ) صحیح بخاری ( 4 / 260 ) ۔ اوربعض علماء کرام نے تواسے راجح قرار دیا ہے کہ لیلۃ القدر ہرسال ہی کسی ایک معین رات میں نہیں ہوتی بلکہ منتقل ہوتی رہتی ہے ، امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں : ( اس میں صحیح احاديث کے تعارض کی بنا پر ظاہر ، صحیح اورمختار یہی ہے یہ منتقل ہوتی رہتی ہے ، اورانتقال کے بغیر احادیث میں جمع ممکن نہیں ) دیکھیں المجموع للنووی ( 6 / 450 ) ۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے لیلۃ القدر کو چھپایا اورمخفی اس لیے رکھا ہے کہ اس کے بندے اسے تلاش کرنے کی تگ ودو کریں اور عبادت کرنے کی کوشش کریں ، جیسا کہ جمعہ کے دن اس گھڑی کوخفیہ اورپوشیدہ رکھا گيا ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے ۔ لھذا مسلمان پرواجب اور ضروری ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کرتے ہوئے ان آخری دس دن اوررات لیلۃ القدر کی تلاش کے لے عبادت کریں اوراللہ تعالی سے دعا اوراس کی جانب التجائيں کریں ۔ عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا : اے اللہ تعالی کے رسول مجھےکیا کہنا ہے ؟ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( اللهم إنك عفو كريم تحب العفو فاعف عني ) اے اللہ تومعاف کرنے والا کرم والا ہے اورمعافی کوپسند کرتا ہے لھذا مجھے معاف کردے ۔ مسند احمد ، سنن ترمذی حدیث نمیر ( 3513 ) سن ا للہ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں