خطبہ الجمعہ موضوع ۔ رمضان کے بعدکیا کرے
ان الحمدللہ نحمدہ ونستعینہ ، ونستفرہ ، ونعوذ
باللہ من شرور انفسنا ومن سیئات أعمالنا ، من یھدہ اللہ فلا مضل لہ، ومن یضلل فلا
ھادی لہ، وأشھد ان لا الہ الااللہ وحدہ لاشریک لہ، وأشھد أن محمدا عبدہ ورسولہ
أما بعد: فان خیر الحدیث کتاب اللہ وخیر الھدی
ھدی محمدﷺ وشر الامور محدثاتھا وکل بدعۃ ضلالہ وکل ضلالۃ فی
bgالنار۔
قال تعال ۔ ان الحسنات
یذھبن السیئات
۔ و قال رسول اللہ ﷺ۔ قال صلی اللہ علیہ وسلم قل امنت باللہ ثم
استقم)
سب سے پہلے ہم اپنے لئے اورآپ سبھی بھائیوں کے لئے
دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی ہماری اور آپ سب کی نیکیاں قبول فرمائے اور یہ مبارک
مہینہ ہمیں بار بار نصیب فرمائے آمین یارب العالمین ۔
رمضان کا مبارک مہینہ رخصت ہوا، اس کے خوبصورت دنوں
اور اس کی خوبصورت اورمعطرراتوں کو ہم نے الوداع کہا ،اس کےدنوں کو روزہ رکھ کراس
کی راتوں کو تراویح کی نما زادا کرکے ہم نے آباد کیا، اور اپنے نفس کو خیروبھلائی
کاعادی بنایا، ہمیں چاہئے کہ ہم ہمیشہ نیکیوں پرگامزن رہیں، اعمال خیر پرمداومت
وہمیشگی برتیں، ایک مومن بندہ کی یہی شان ہونی چاہئے،اللہ کےجو نیک بندے ہوتے ہیں
وہ رمضان کے بعد بھی نیک عمل کرتے رہتے ہیں کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالی
تمام شہوروایام اور تمام ازمان واماکن کارب ہے، وہ صرف رمضان ہی کارب نہیں ہے اس
لئے وہ رمضان کے بعد بھی نیک کاموں پرمداوم ومستمر رہتے ہیں۔
ماہ رمضان میں ہم نے جو نیکیاں کی ہیں ان کے مقبول
ہونےکی علامت وپہچان یہ ہے کہ ہم نیکی کےبعد بھی نیکی کرتے رہیں ،اور ہماری نیکیوں
کے مردود ومرفوض ہونے کی علامت یہ ہے کہ ہم نیکی کےبعد برائی کرنا شروع کردیں، جس
طرح یہ مسلم ہے کہ (ان
الحسنات یذھبن السیئات) نیکیاں
برائیوں کوختم کردیتی ہیں ٹھیک اس کا عکس ہے، ان السیئات یحبطن الاعمال کہ برائیاں
نیک اعمال کو برباد کردیتی ہیں ،ایک مومن سے اس کے مرتے دم تک نیک عمل کرنا مطلوب
ہے، موت تک اعمال خیر پرمداومت مقصود ہے، حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ( لایکون لعمل المومن اجل دون الموت) کہ مومن کے نیک عمل کرنے کے لئے کوئی وقت نہیں ہے سوائے موت کے،
پھرآپ نے قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ ” اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں یہاں تک کہ یہاں تک کہ آپ کو موت آجائے
(سورت الحجر آیت :99) یہاں پر الیقین سے مراد موت ہے، اس آیت میں نبی علیہ
السلام کو مرتےدم تک عبادت وبندگی کا حکم ہے جب کہ آپ بخشے بخشائے ہوئے ہیں، اور
ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا رمضان میں نیکاں کرلینا سال بھر کے لئے کافی ہے، اب ہمیں
آئندہ رمضان تک نماز پڑھنےکی قرآن مجید تلاوت کرنے، ذکرواذکار کرنے،روزہ رکھنےکی
کوئی ضرورت نہیں، یہ تصورسراسرغلط ہے، حضرت سفیان بن عبد اللہ الثقفی رضی اللہ عنہ
بیان کرتے ہیں (
قلت یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قل لی فی الاسلام قولا لا اسال عنہ احدا بعدک
، قال صلی اللہ علیہ وسلم قل امنت باللہ ثم استقم) ’’میں نےعرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھےاسلام کے بارے میں
ایک ایسی بات بتلادیجئے ( کہ جس میں ساری باتیں آجائیں) کہ آپ کے بعد مجھے کسی اور
سے پوچھنے کی ضرورت نہ پڑے ،توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا امنت باللہ کہہ کر
اس پر ڈٹ جاؤ ،ثابت قدم ہوجاؤ، یعنی اپنی زبان سےامنت باللہ کہہ کر اپنے مومن ہونے
کا اقرار کرو اورپھراس اقرارپرقائم اور دائم ہوجاؤ، مطلب یہ ہےاب تومومن ہے،
تمہاری ذمہ داری ہے کہ ایما ن کے مطالبات کو ایمان کے تقاضوں کو اور ایمانی صفات
کواختیارکرو یعنی اللہ تعالی نے جن چیزوں کا حکم دیا ہے، جن بھلے کاموں کا حکم دیا
اس کو بجالاؤ اورجن کاموں سے روکا ہے اس سے رک جاؤ اور باز رہو، اللہ کے حکموں کا
خیال رکھو تب تو تم دین اسلام پراستقامت اور ثابت قدمی اختیار کرنے والا سمجھے جاؤ
گےورنہ نہیں، اس حدیث میں ایک مسلمان کو ایمان لانے کے بعد طاعت کے کاموں اور
نیکیوں پرگامزن رہنےکا حکم دیا جاریا ہے بایں طور کہ وہ اللہ کےاوامرکو بجالائے
اورنواہی سے پرہیز کرے،اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح رمضان میں ہم نے
خیر کے کاموں پر استقامت کا مظاہرہ کیا اسی طرح شوال میں اورسال کے باقی تمام
مہینوں میں بھی ہمیں استقامت اختیارکرنا چاہئے۔!
ماہ رمضان کے بعد ایک
مسلمان کا اللہ کے فرائض واجبات کی پابندی کرنا اور نیکیوں پر گامزن رہنا اور اپنے
اقوال وافعال کی اصلاح کرلینا یہ بہت بڑی دلیل ہے کہ اس نے رمضان سے کچھ حاصل کیا
اورسیکھا ہے کیوں کہ رمضان ہماری روحانی تربیت کا ایک مدرسہ ہے ، رمضان پورے ایک
مہینہ کا مکمل تدریبی وتربیتی کورس ہے، اور یہ اس کےاعمال خیر کےمقبول ہونے کی
علامت اور پہچان ہے، ایک مومن کا عمل رمضان کے چلےجانے اوردوسرے مہینےکےشروع ہوجانےسےرک
اورختم نہیں ہوجاتا، بلکہ مومن کا عمل مرتے دم تک جاری رہتا ہے ، جیساکہ اللہ نے
اس آیت میں فرمایا وَاعْبُدْ
رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ ۔ ایک مومن کے عمل کو صرف موت ہی ختم کرتا ہے جیسا کہ حدیث میں
ہے
( اذا
مات الانسان انقطع عملہ ــ۔)
دینی بھائیو اورساتھیو ۔ اگرچہ رمضان کا روزہ ختم
ہوگیا ہےمگرنفلی روزے رکھنا تو سال بھر ہمارے لئے مشروع ہے، (ومن العبادات
المشروعۃ اتباع رمضان بصیام ست من شھر شوال و صیام الاثنین والخمیس والایام البیض
وعاشوراء وعرفۃ وغیرھا) مشروع عبادات میں سے ہےکہ رمضان کے بعد ماہ شوال کے چھ
روزے رکھےجائیں، ہر مسلمان کے لئے شوال کے چھ روزے رکھنا مستحب ہے، شوال کے اس چھ
روزہ رکھنے کی بڑی فضیلت آئی ہوئی ہے، اوراس کے رکھنے پر بڑا اجروثواب بیان ہوا ہے
،صحیح مسلم کی حدیث ہے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ حدیث کے راوی ہیں
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا(من صام رمضان ثم اتبعہ ستا من شوال کان
کصیام الدھر) جس نے رمضان کا روزہ رکھا اس کے بعد شوال کا چھ روزہ رکھا تواس نے
زمانہ بھر کا روزہ رکھا ” رمضان کا روزہ اور اس کے بعد شوال کا چھ روزہ رکھنا
یہ سال بھر روزہ رکھنے کے برابر ہے کیوں؟ اس لئے کہ الحسنۃ بعشر امثالھا ایک
نیکی کاثواب دس گنا ہے جس کی وضاحت حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے ہوتی ہے
،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ( صیام شھر رمضان بعشرۃ اشھر، وصیام ستۃ ایام بشھرین فذلک صیام
سنۃ)(صحیح ابن خزیمۃ 3/298 سنن نسائی 2/ 166) ” رمضان کے ایک مہینہ کاروزہ دس مہینوں کے روزہ کے برابر ہے اور شوال
کے چھ دن کا روزہ (ستون یوما ) دوماہ کے روزوں کے برابر ہے، اس طرح سے یہ
پورے ایک سال کا روزہ رکھنا ہوا” اس طرح اگرکوئی مسلمان اپنی زندگی میں ہرسال
رمضان آنے پر رمضان کے فرض روزے رکھے اس کے بعد پھر شوال کے چھ (نفل)روزے
رکھے تو کہا جائے گا کہ اس نے زمانہ بھر کا روزہ رکھا اس کے نامہ اعمال میں زمانہ
بھر روزہ رکھنے کا اجروثواب لکھا جائے گا۔
اللہ تعالی کتنا مشفق
اورمہربان ہے اپنے بندوں پر کہ وہ بلاکسی تعب اور مشقت کے زمانہ بھرکے روزے کا
ثواب آپ کے نامہ اعمال میں لکھدیتا ہے، اس لئے شوال کے اس چھ روزہ رکھنے میں ہمیں
جلدی کرنا چاہئے،شوال کےاس چھ روزے رکھنے میں جلدی کرنا مستحب ہے، کیوں کہ خیر کے
کاموں میں ہمیں جلدی کرنا چاہئے،ویسےاس روزہ کو اس ماہ کے اخیراوردرمیان کے ایام
تک موخر کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، سلف صالحین شوال کا چھ روزہ رکھنےمیں
مبادرت کرتے تھے، امام شافعی رحمہ اللہ شوال کے دوسرے اور تیسرے ہی دن سے
روزہ رکھنا شروع کردیتےتھے،اسی طرح ان چھ دنوں کے روزے متواتر ومسلسل رکھنا زیادہ
افضل ہے ،البتہ ان روزوں کا متفرق اورالگ الگ رکھنا بھی جائز ہے،البتہ جس کے ذمہ
رمضان کے قضا روزے ہوں تو اسے چاہئے کہ وہ پہلے قضا روزے رکھے، اس کے بعد شوال کے
یہ چھ روزے رکھے، کیوں کہ فرمان نبوی ہے (من صام رمضان ثم اتبعہ ستا من شوال) جس
نے رمضان کا روزہ رکھا پھر اس کے پیچھے شوال کا روزہ رکھا ۔۔۔ تو جس کے ذمہ
رمضان کے قضا روزے ہوں اس پر یہ حدیث صادق نہیں ہوگی کیوں کہ اس نے پورے رمضان کا
روزہ نہیں رکھا ہے ہاں اگروہ اس کی قضا سے بری ہوجائے، قضا دیدے ،پھر شوال کےچھ
روزے رکھے، تو اسے بھی یہ اجروثواب ملے گا، اسی طرح سوموار اور جمعرات کے روزے
رکھے جائیں ،(
کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یصوم یوم الاثنین والخمیس ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سوموار اور جمعرات کے روزے رکھا کرتے
تھے ، اور آپ ان دنوں کا روزہ اس لئے رکھتے تھےکہ آپ نے خود فرمایا ہے کہ اس دن
لوگوں کے اعمال اللہ کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں
(احب ان یرفع عملی وانا صائم، ) اس لئے میری یہ خواہش ہے کہ جب میرا عمل اللہ کی بارگاہ میں
پیش کیا جارہا ہوتو میں روزے سے ہوں ”
اسی طرح ایام بیض ( تیرہویں ، چودھویں اور پندرہویں
کا) عاشوراء( نو اور دس محرم کا)اورعرفہ ۹( ذی الحجہ) وغیرہ کے روزے رکھے جائیں ۔
اسلامی بھائیو!
اگرچہ رمضان کے جانے سے قیام رمضان تراویح کی
نمازختم ہوگئ مگر قیام اللیل سال کی ہررات مشروع ہے،فرمان باری تعالی ہے
(وکانوا قلیلا من اللیل ما یھجعون
،وبالاسحارھم یستغفرون ) (الذاریات 17) ” وہ رات میں تھوڑا سوتے تھے اور وقت صبح وہ استغفار
کرتے تھے‘‘ اس آیت میں اللہ تعالی نے اپنے نیک بندوں کے اوصاف کو بیان
کرتے ہوئے فرمایا وہ رات کو قیام اللیل تہجد کی نماز پرھتے ہیں، آپ کی زوجہ مطہرہ
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ (کان النبی یقوم لیصلی حتی تتفطر قدماہ
فقالت عائشۃ : لم تصنع ھذا یارسول اللہ وقد غفر اللہ لک ماتقدم من ذنبک وما
تاخر قال افلا احب ان اکون عبدا شکورا )” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو بیدار ہوکر نماز پڑھتےرہتے
یہاں تک کہ آپ کے قدم مبارک متورم ہوجاتے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پوچھتیں اے
اللہ کے رسول آپ ایسا کیوں کرتے ہیں جب کہ اللہ تعالی نے آپ کے اگلے اور پچھلے
تمام گناہوں کو معاف کردیا ہے؟ تو آپ فرماتے: کیا میں رب کا شکر گزار بندہ نہ بنوں
” کیااللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے بارے میں ہمیں یہ نہیں بتایا کہ کہ وہ ہروقت اپنے
متقی اور محسن بندوں کے ساتھ ہوتا ہے۔
کیا ہمارے رسول نے اللہ
تعالی کے بارے میں ہمیں یہ نہیں بتایا کہ جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہتا ہے،
تواللہ تعالی ہررات آسمان دنیا پر اترتا ہے اور اس کا یہ نزول اترنا حقیقی ہوتا
ہے(کمایلیق بجلالہ وعظمتہ) جیسا اس کی جلال وعظمت کولائق ہے، پھر اللہ سبحانہ
وتعالی فرماتا ہے (من
یدعونی فاستجیب لہ، من یسالنی فاعطیہ من یستغفرنی فاغفرلہ)” کون ہے جو مجھ سے دعا مانگے میں اس کی دعا قبول کروں ، کون ہے جو مجھ
سے سوال کرے میں اسے عطاکردوں، کون ہے جومجھ سے مغفرت طلب کرے میں اسے بخش دوں ۔۔۔۔”
لیکن افسوس صد افسوس آج
بیشتر مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ رمضان ختم ہوتے ہی اپنی پہلی حالت پر لوٹ جاتے
ہیں،عبادت میں جو کوتاہی اور سستی پہلے تھی وہی کوتاہی وسستی دوبارہ شروع کردیتے
ہیں، اور اسی پر بس نہیں کرتے بلکہ جماعت کے ساتھ فرائض وواجبات کو ترک کرنا شروع
کردیتے ہیں جب کہ ایک مومن کی یہ شان نہیں ہونی چاہئیے ۔
قرون اولی کے مسلمان اپنے
نبی کی اقتداء اور پیروی میں رمضان کے بعد بھی نیک کاموں پرمداومت وہمیشگی کرتے
تھے ،وہ موسمی نمازی اور روزہ دار نہیں تھے البتہ نیکیوں کے موسم کو نیکیوں کے
لمحات کو موقع اورغنیمت جانتے تھے، پھر ان موسموں میں عبادتوں کے لئے بہت زیادہ
نشیط اور سرگرم ہوجایا کرتے تھے۔
قاسم بن محمد کہتے ہیں
: (سئلت أم المؤمنين عائشة رضي الله عنها كيف كان عمل رسول الله صلى الله
عليه وسلم ؟ هل كان يخص شيئاَ من الأيام فقالت ( كان عمله ديمة وأيكم يستطيع ما
كان يعمل رسول الله صلى الله عليه وسلم ) ” ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا
سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل کیسا تھا؟ کیا آپ دنوں
میں سے کوئی دن (عمل کے لئے)خاص کرلیا کرتے تھے توآپ فرماتیں آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کے عمل میں ہمیشگی ہواکرتی تھی ، اور تم میں سے کون رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کی طرح عمل کرنے کی طاقت رکھتا ہے ”(صحیح مسلم)
اسی لئے علماء نے انقطاع
عمل کو عمل چھوڑدینے کو اس حدیث (لا تكن مثل فلان كان يقوم الليل فترك قيام الليل) ”
فلاں شخص کی طرح مت
بن جاؤ جو قیام اللیل کرتاتھا پھر اس نے چھوڑدیا” کو مستدل بناتے ہوئے مکروہ
کہا ہے۔
اسلامی بھائیو!
آپ اپنی عبادات میں
موسمی نہ بنیں، اللہ والے بنیں ،رمضانی نہ بنیں بلکہ طاعات اور نیکیوں پر مداومت
وہمیشگی کرنے والا بنیں جیسا کہ ىبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ( أيها الناس أكلفوا من العمل ما تطيقون فإن الله لا
يمل حتى تملوا ، وإن أحب الأعمال إلى الله ما دُوِم عليه وإن قل ) متفق عليه ” اپنی طاقت کے مطابق عمل کیا کرواس لئے کہ
اللہ تعالی اجر دیتے ہوئے نہیں تھکتے جب کہ تم تھک جاؤگے اور اللہ کو وہ عمل سب سے
زیادہ پسند ہے جس پر مداومت کیا جائے چاہے وہ کم ہی کیوں نہ ہو”
گرچہ رمضان کا مہینہ ختم
ہوچکا اور جاچکا جو فضائل وخوبیوں کا مہینہ تھا لیکن نیکیوں کے جو فضائل وخوبیاں
ہیں وہ منقطع اور ختم نہیں ہوتے، جو رمضان کی عبادت کرتا تھا وہ سمجھ لے کہ رمضان
گزرگیا اور جو اللہ کی عبادت کرتا تھا وہ سمجھ لے کہ اللہ تعالی زندہ ہے اسے موت
نہیں آئے گی۔
اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ
وہ ہمیں نیکیوں پر مداومت وہمیشگی کرنے والا بنائے اور پناہ مانگتے ہیں کہ وہ ہمیں
اس عورت کی طرح نہ بنائے جس نے اپنا سوت مضبوط کاتنے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے کرکے توڑ
ڈالا ۔۔۔۔ للہ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں