اپنی زبان منتخب کریں

جمعرات، 20 مئی، 2021

عشرۂ ذی الحجہ کی عظمت وفضیلت

خطبہ الجمعہ        موضوع ۔   عشرۂ ذی الحجہ کی عظمت وفضیلت

ان الحمدللہ نحمدہ ونستعینہ ، ونستفرہ ، ونعوذ باللہ من شرور انفسنا ومن سیئات أعمالنا ، من یھدہ اللہ فلا مضل لہ، ومن یضلل فلا ھادی لہ، وأشھد ان لا الہ الااللہ وحدہ لاشریک لہ، وأشھد أن محمدا عبدہ ورسولہ

أما بعد: فان خیر الحدیث کتاب اللہ وخیر الھدی ھدی محمدﷺ وشر الامور محدثاتھا وکل بدعۃ ضلالہ وکل ضلالۃ فی   

النار۔    قال تعال    ۔۔قمری سال کے آخری مہینہ کانام ذی الحجہ ہے یہ مہینہ ان حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے جس کو اللہ تعالی نے زمین وآسمان کی تخلیق ہی کے وقت سے محترم بنا رکھا ہے، اسی مہینہ میں حج جیسا اہم فريضہ ادا کیا جاتا ہے، پورے عالم اسلام میں قربانی کی جاتی ہے اورسال کا دوسرا اسلامی تہوار منایا جاتا ہے، اس مہینے کے پہلے دس دنوں کی بڑی فضیلت ہے، ان دس دنوں میں نیک اعمال دوسرے دنوں کی بنسبت اللہ تعالی کو زیادہ محبوب ہیں۔
فضائل : کتاب وسنت سے عشرۂ ذی الحجہ کی عظمت وفضیلت واضح ہے، فرمان باری تعالی ہے {وَالفَجْرِ وَلَيَالٍ عَشْرٍ} (سورۃ الفجر آیت: ۱۔۲)قسم ہے فجر اور دس راتوں کی‘‘
مشہورمفسرامام بغوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیرمعالم التنزیل میں بحوالہ عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نقل فرماتے ہیں [ولیال عشر] سے مراد ذی الحجہ کے ابتدائ دس دن ہیں اور یہی قول مجاہد ، قتادہ، ضحاک، سدی اور کلبی رحمہم اللہ تعالی کا ہے۔
دوسری جگہ اللہ تعالی کافرمان ہے {وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ } (سورۂ حج آیت: ۲۸)
’’
اورمعلوم دنوں میں اللہ کا نام یاد کریں‘‘
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بحوالہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نقل فرمایا ہے کہ ان معلوم دنوں سے مراد ذی الحجہ کے ابتدائ دس دن ہیں، ملاحظہ ہو (صحیح بخاری ،کتاب العیدین)
فرمان نبوی صلى الله عليه وسلم ہے { ما من أيام العمل الصالح فيهن أحب إلى الله من هذه الأيام العشر فقالوا يا رسول الله ولا الجهاد في سبيل الله ؟ فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم ولا الجهاد في سبيل الله إلا رجل خرج بنفسه وماله ولم يرجع من ذلك بشيئ)  ’’ذی الحجہ کے ان دس دنوں سے بہتر ایسا کوئ دن نہیں جس میں نیک عمل اللہ کے نزدیک بہت زیادہ محبوب ہو، صحابہ نے پوچھا یارسول اللہ صلى الله عليه وسلم ! کیا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں؟ آپ نے فرمایا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں، ہاں مگر وہ شخص جو اپنی جان ومال کے ساتھ“ راہ جہاد میں” نکلے اور کچھ واپس لےکر نہ آئے یعنی اپنی جان ومال اسی راہ میں قربان کردے‘‘ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ ( صحیح سنن ابی داؤد)
آپ صلى الله عليه وسلم نےیہ بھی فرمایا {ما من عمل أزكى عند الله عز و جل ولا أعظم أجرا من خير يعمله في عشر الأضحى قيل ولا الجهاد في سبيل الله قال ولا الجهاد في سبيل الله عز و جل الا رجل خرج بنفسه وماله فلم يرجع من ذلك بشيء} “یعنی اللہ عزوجل کے نزدیک عشرۂ ذی الحجہ میں نیک عمل کرنے سے زیادہ پاکیزہ اور زیادہ ثواب کا حامل کوئ عمل نہیں ہے، کہا گیا کہ جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں؟ آپ نے فرمایا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں، ہاں البتہ اس شخص کا جہاد جس نے اپنی جان ومال کو خطرے میں ڈال دیا اور کچھ بھی واپس نہ لاسکا ” (مسند احمد ،دارمی، اس حدیث کی اسناد حسن ہے، ملاحظہ ہو ارواء الغلیل ج۳/ ۳۹۸)
مذکورہ آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ سے عشرۂ ذی الحجہ کی عظمت وفضیلت روزروشن کی طرح واضح ہے ، اسی بناپر علماۓمحققین فرماتے ہیں کہ عشرۂ ذی الحجہ کےایام مجموعی طور پر عشرۂ رمضان سے بھی افضل ہے، اس لئے کہ اس میں بہت سی بنیادی عبادتیں اکٹھی ہوجاتی ہیں جیسے نماز ، روزہ، صدقہ اور حج وغیرہ اور یہ ان کے علاوہ کسی اور دن میں جمع نہیں ہوتیں، اس لئے اللہ کے نیک بندے ان دس دنوں میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرکے زاد آخرت جمع کرنے کی کوشش کرتےتھے۔
امام دارمی رحمہ اللہ نے حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ کے متعلق نقل کیا ہے کہ جب عشرۂ ذی الحجہ داخل ہوجاتا تو سعید بن جبیر تاحد استطاعت عبادت کرتے تھے۔ 
عشرۂ ذی الحجہ کے فضائل میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ اس کا نواں دن یوم عرفہ ہے، یہ وہی دن ہے جس میں اللہ تعالی نے دین اسلام کو مکمل فرمایا اور اہل اسلام پر اپنی نعمت کو پورا فرمایا اور یہی وہ عظیم دن ہے جس میں اللہ تعالی کثرت سے گنہگاروں کو جہنم کی آگ سے آزادی عطافرماتا ہے، اس لئے ہر مسلمان کو حتی الامکان عشرۂ ذی الحجہ کی قدر کرکے زیادہ سے زیادہ حصول ثواب کی فکر کرنی چاہئے۔
اعمال: کثرت سے تسبیح وتحمید اور تہلیل پڑھنا: اس عشرۂ میں تکبیروتحمید اورتہلیل کا بکثرت ورد کرنا مسنون ہے،{ مَا مِنْ أَيَّامٍ أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّهِ وَلَا أَحَبُّ إِلَيْهِ الْعَمَلُ فِيهِنَّ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ الْعَشْرِ فَأَكْثِرُوا فِيهِنَّ مِنْ التَّهْلِيلِ وَالتَّكْبِيرِ وَالتَّحْمِيدِ)’’ اللہ کے نزدیک ان دس دنوں میں عمل صالح کرنا جس قدر محبوب اور عظیم المرتبت ہے اتنا دوسرے دنوں میں محبوب نہیں ہے اس لئے تم ان دس دنوں میں کثرت سے لا الہ الا اللہ ، اللہ اکبر اور الحمد للہ کہا کرو‘‘( مسند احمد ، طبرانی)
تکبیر کے کوئ خاص الفاظ وصیغے آپ صلى الله عليه وسلم سے ثابت نہیں ہیں بلکہ جتنے بھی الفاظ وصیغے ہیں وہ صحابہ کرام اور تابعین عظام رضی اللہ عنہم اجمعین سے ماثور ومنقول ہیں ۔ ملاحظہ ہو ( ارواء الغلیل ج۳/ ۱۲۵)
تکبیرات کے صیغے یہ ہیں :
(
۱الله أكبر الله أكبركبيرا .
(2)
الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله والله أكبر الله أكبر ولله الحمد.
اور تکبیر دوطرح سے کہنا مشروع ہے:
(
۱) تکبیر مطلق۔  (۲) تکبیر مقید۔

تکبیرمطلق کا مطلب یہ ہے کہ ہر آن اور ہر لمحہ مسجدوں ،گھروں، بازاروں، گلی کوچوں، راستوں، فرض اور نفلی نمازوں کے بعد، اورہر اس جگہ جہاں اللہ کے ذکر کی اجازت ہے تکبیر کہتا رہے ، یہ تکبیر مطلق ہے اور اس کا وقت ذی الحجہ کا چاند نکلنے ہی سے شروع ہوجاتا ہے۔
تکبیر مقید یہ ہے کہ عرفہ کے دن فجر کی نماز کے بعد سے تکبیر کہنا شروع کیاجائے اور ایام تشریق کے آخری دن کے نمازعصر تک تکبیر کہتا رہے ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں تکبیر کی ابتداء اور انتہاء کے بارے میں مختلف اقوال ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ نبی علیہ الصلاۃ والسلام سے اس سلسلہ میں کوئ حدیث ثابت نہیں ہے ، البتہ حضرات صحابہ سے اس سلسلے میں جو کچھ وارد ہیں اس میں سب سے زیادہ صحیح قول حضرت علی اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کاہے کہ تکبیر مقید کا وقت یوم عرفہ کی صبح سے شروع ہوکر منی کے آخری دن تک رہتا ہے، ابن المنذر وغیرہ نے اس کو بیان کیا ہے ۔ ملاحظہ ہو (فتح الباری ج۲/ ۴۶۲)
ابن قدامہ المقدسی المغنی میں فرماتے ہیں کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت کیا کہ کس حدیث کی بنیاد پر آپ یہ کہتے ہیں کہ تکبیر مقید عرفہ کے دن نماز فجر سے شروع کیا جائے اور ایام تشریق کے آخری دن تک ختم کیا جائے تو امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا اس پر حضرت عمر، حضرت علی اورحضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم اجمعین کا اجماع رہاہے۔ انتہی کلامہ، ملاحظہ ہو ( المغنی ۲۸۹۳۳ ، ارواء الغلیل ج۳/ ۱۲۵)
مرد بآواز بلند تکبیر کہیں گے اور عورتیں آہستہ آہستہ تکبیریں کہیں گی، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے کہ ان دس دنوں میں حضرت ابن عمر اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما تکبیر پکارتے ہوئے بازار نکلتے اور لوگ بھی ان کے ساتھ تکبیر کہنا شروع کردیتے، ملاحظہ ہو (صحیح بخاری کتاب العیدین)
مقصد یہ تھا کہ تکبیر سن کر لوگوں کو تکبیر یاد آجائے اور لوگ بھی تکبیر پڑھنا شروع کردیں ، ہاں ایک بات مد نظر رہے کہ بیک آواز اجتماعی تکبیر نہ پکارا جائے کیوں کہ ایسا کرنا مشروع اور جائز نہیں ہے، بلکہ ہر آدمی علیحدہ علیحدہ تکبیر پکارے، آج تکبیر کہنے کی سنت ہمارے درمیان سے ختم ہوتی جارہی ہے، بہت کم لوگوں کو آپ تکبیر کہتے ہوئےسنیں گے، اس لئے سنت کو زندہ کرنے کے لئے ہمیں کثرت سے تکبیرات کا اہتمام کرنا چاہئے، اگر ہم نے اس مردہ سنت کو زندہ کیا تو یقین جانئے اس میں ہمارے لئے عظیم ثواب ہے، فرمان نبوی صلى الله عليه وسلم ہے {من أحيا سنة من سنتي قد أميتت بعدي فإن له من الأجر مثل من عمل بها من غير أن ينقص من أجورهم شيئا }’’جس نے میری سنت کو زندہ کیا جو میرے بعد چھوڑدی گئ تھی تو اس کے لئےان لوگوں کی مانند ثواب ہےجنہوں نے اس پر عمل کیا بغیر اس کے کہ ان کے ثواب میں سے کچھ کم کیا جائے‘‘ (سنن ترمذی ، یہ حدیث اپنی شواہد کی بناپر حسن ہے (

اس لئے ہمیں ذی الحجہ کے ان ابتدائ دس دنوں میں کثرت سے اللہ رب العزت کی بڑائ ،بزرگی اور اس کی تحمید وتقدیس بیان کرنی چاہئے۔
یوم عرفہ کا روزہ رکھنا:  اس دن روزہ رکھنے کا بڑا اجر وثواب ہے اور یہ دوسال کے گناہوں کا کفارہ ہے، حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا { صيام يوم عرفة إني أحتسب على الله أن يكفر السنة التي قبله والتي بعده } ’’ عرفہ۹/ ذی الحجہ کےدن کے روزہ کے بارے میں مجھے اللہ تعالی سے امید ہے کہ اگلے اور پچھلے دو سال کے گناہ معاف ہوجائیں گے‘‘ (صحیح مسلم)
یہ روزہ غیر حاجیوں کے لئے مستحب ہے البتہ حاجیوں کے لئے اس دن کاروزہ رکھنا مسنون نہیں ہے، کیوں کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر عرفہ میں روزہ نہیں رکھا تھا، چنانچہ ام الفضل بنت الحارث رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ کچھ لوگ ان کے پاس جھگڑا کرنے لگے کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے عرفہ کو روزہ رکھا ہے یا نہیں کچھ نے کہا آپ روزے سے ہیں اور کچھ نے کہا نہیں آپ روزے سے نہیں ہیں ، پھر ام الفضل نے دودھ کا ایک پیالہ آپ صلى الله عليه وسلم کے پاس بھیجا ،آپ اونٹ پر سوا ر تھے، آپ نے پی لیا۔” (صحیح بخاری وصحیح مسلم )
عرفہ کے دن دعا کرنا : عرفہ کے دن دعا کرنے کی بڑی فضیلت ہے، نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: {خَيْرُ الدُّعَاءِ دُعَاءُ يَوْمِ عَرَفَةَ وَخَيْرُ مَا قُلْتُ أَنَا وَالنَّبِيُّونَ مِنْ قَبْلِي { لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ} ’سب سے بہترین دعا عرفہ کے دن کی دعا ہے اورسب سے افضل دعا جو میں نے اور مجھ سے پہلے انبیاء علیہم السلام نے کی وہ یہ ہے ‘‘
( لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ)
علامہ ابن عبد البررحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں یہ بھی دلیل ہے کہ یوم عرفہ کی دعا اکثروبیشتر قابل قبول ہوتی ہے۔ ملاحظہ ہو (کتاب التمہید ج۶/ ۴۱)
اس لئے جو لوگ حج پر نہیں گئے ہوں انہیں بھی چاہئے کہ اس عظیم دن میں دعا کا اہتمام کریں اور قبولیت دعا کی امید میں اپنے لئے اور اپنے والدین، بیوی، بچے، تمام مسلمانوں اور دین اسلام کی سربلندی کے لئے دعا کریں۔
حج وعمرہ کرنا : اس عشرہ میں کئے جانے والے بہترین اعمال میں سے ایک بہترین عمل اللہ کے گھر کاحج بھی کرنا ہے اور جسے اللہ اپنے گھر کے حج کی توفیق دے اور وہ حج کے اعمال کو بحسن وخوبی انجام دے تو اسے نبی کریم صلى الله عليه وسلم کے فرمان کے مطابق جنت ضرور ملے گی، ارشادنبوی صلى الله عليه وسلم ہے،{الْحَجُّ الْمَبْرُورُ لَيْسَ لَهُ جَزَاءٌ إِلا الْجَنَّةُ}  ’’حج مبرور کا بدلہ تو جنت ہی ہے‘‘
اعمال صالحہ کا اہتمام: اس عشرہ میں نیک عمل اللہ تعالی کو بہت ہی محبوب ہے اس لئے جو شخص حج پر قادر نہ ہو اسے چاہئے کہ کہ اس سنہرے ایام اور مبارک اوقات کو اللہ کی اطاعت میں لگائے، یعنی نماز، تلاوت قرآن، ذکر الہی، دعا ، صدقہ ، والدین کی اطاعت، صلہ رحمی، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر علاوہ ازیں نیک اور اطاعت کے جوبھی راستے ہوں اس کو انجام دے ۔
سچی توبہ : ویسے تمام ہی اوقات میں مسلمانوں پر توبہ کرنا واجب ہے لیکن سنہرے ایام اورمبارک ساعات واوقات میں توبہ کرنے کی بہت زیادہ اہمیت ہے، اس لئے ہمیں اس عشرہ کو باعث غنیمت سمجھتے ہوئے اللہ کے سامنے سچی توبہ کرنا چاہئے اور توبہ کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے ،کیوں کہ کوئ نہیں جانتا کہ اسے کس لمحہ موت آجائے اور پھر اسے توبہ کی توفیق نصیب نہ ہو اور اگر کسی مسلمان کو اس سنہرے ایام اورمبارک اوقات میں نیک اعمال کی بجا آوری کے ساتھ ساتھ توبہ کی توفیق بھی نصیب ہوجائے تویہ اس کی کامیابی کی دلیل ہے، فرمان الہی ہے {فَأَمَّا مَنْ تَابَ وَآَمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَعَسَى أَنْ يَكُونَ مِنَ المُفْلِحِينَ} ’’ ہاں جو شخص توبہ کرلےایمان لے آئے اور نیک کام کرےیقین ہے کہ وہ نجات پانے والوں میں سے ہوجائے گا‘‘ (سورۃ القصص آیت: ۶۷)
دس ذی الحجہ کو قربانی کرنا : اس دن ساری دنیا کے مسلمان قربانی کرتے ہیں جس کو یوم النحر کہا جاتا ہے، اس دن تمام اعمال سے افضل قربانی کا خون بہانا ہے، فرمان نبوی صلى الله عليه وسلم ہے{ إِنَّ أَعْظَمَ الأَيَّامِ عِنْدَ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَوْمُ النَّحْرِ ثُمَّ يَوْمُ الْقَرِّ} ’ تمام دنوں سے بہتر اللہ کے نزدیک قربانی کا دن ہے ، پھر منی میں ٹہرنے کا دن ہے ‘‘ ( سنن ابوداؤد اس حدیث کی اسناد جید ہے ، ملاحظہ ہو تحقیق مشکاۃ ج۲/ ۸۱۰)
قربانی کا ثبوت قرآن وحدیث اور اجماع امت سے ہے، قرآن پاک میں اللہ تعالی نے دو مقامات پر نمازاور قربانی کا ایک ساتھ ذکر فرماکر قربانی کی اہمیت کو اجاگرکیا ہے، سورۃ الکوثر میں اللہ تعالی نے واضح طور پر نماز کے ساتھ قربانی کا حکم دیا ہے {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ }’’ پس تو اپنے رب کے لئے نماز پڑھ اور قربانی کر ‘‘ اس طرح ایک دوسری جگہ نماز اور قربانی کا ذکرساتھ ساتھ کیا گیا ہے ، ارشاد الہی ہے { قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي للهِ رَبِّ العَالَمِينَ } “ بیشک میری نماز ، میری قربانی ، میرا جینا اور میرا مرنا اللہ ہی کے لئے ہے‘‘  (سورۃ الانعام آیت: ۱۶۲ )
نیز اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آپ نے ہجرت مدینہ کے بعد مدنی زندگی میں باقاعدگی کے ساتھ ہرسال قربانی کی اور اپنی امت کو بھی تاکید فرمائ کہ ان کا ہر گھرانہ ہر سال قربانی دے، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں { أَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ عَشْرَ سِنِينَ يُضَحِّي } ’’ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے دس سال مدینہ میں قیام فرمایا اور ہرسال قربانی کی ” ( سنن ترمذی)
حضرت محنف بن سلیم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے ساتھ عرفات میں تھے تو آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا {يا أيها الناس إن على كل أهل بيت في كل عام أضحية} ’’اے لوگو! ہر سال ہر گھر والوں پر قربانی ہے‘‘ (سنن ابوداؤد ،سنن ترمذی، الفاظ حدیث سنن ابی داؤد کے ہیں علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس کوصحیح قرار دیا ہے، ملاحظہ ہو ( صحیح سنن ترمذی ج۲/۹۳)
معلوم ہوا کہ قربانی سنت مستمرہ ہے یہ اسلام کا شعار اور اسلامی تہذیب وتاریخ کا ایک بڑا نشان ہے، عہد نبوی صلى الله عليه وسلم سے لے کر آج تک تمام مسلمانوں کااسی پر عمل رہاہے، اور تا قیام قیامت اس پرعمل رہے گا۔ ان شاء اللہ۔
جانورکی قربانی کرتے وقت ایک مسلمان کے اندر یہ جذبہ زندہ رہناچاہئے کہ گرچہ ہم ایک جانور کو اللہ کی راہ میں قربانی کررہے ہیں لیکن درحقیقت ہم اللہ کے راستہ میں اپنی محبوب سے محبوب ترین شئ کو بھی قربان کرسکتے ہیں ، یاد رکھیں دنیا کا کوئ نظام بغیرایثار وقربانی کے زندہ نہیں رہ سکتا ، قوموں کے عروج وبقاء کے لئے قربانی ناگزیر اور ضروری ہے، دنیا میں سرداری وسربلندی سے وہی قوم ہمکنار ہوسکتی ہے جس کے اندر ایثار وقربانی کاجذبہ بدرجہ اتم موجود ہو۔
آج بھی ہوجو ابراہیم سا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے انداز گلستاں پیدا
آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہم تمام مسلمانوں کو ذی الحجہ کے پہلے دس دنوں میں زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ (آمین یا رب العالمین)

          ۔۔۔۔      ا             للہ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں