اپنی زبان منتخب کریں

جمعرات، 25 فروری، 2021

شرعی علم کی فضیلت

 

خطبہ الجمعہ        موضوع ۔      شرعی علم کی فضیلت

ان الحمدللہ نحمدہ ونستعینہ ، ونستفرہ ، ونعوذ باللہ من شرور انفسنا ومن سیئات أعمالنا ، من یھدہ اللہ فلا مضل لہ، ومن یضلل فلا ھادی لہ، وأشھد ان لا الہ الااللہ وحدہ لاشریک لہ، وأشھد أن محمدا عبدہ ورسولہ

أما بعد: فان خیر الحدیث کتاب اللہ وخیر الھدی ھدی محمدﷺ وشر الامور محدثاتھا وکل بدعۃ ضلالہ وکل ضلالۃ فی النار۔    قال تعالی۔۔

علم کی اہمیت و فضیلت

انسان اور دیگر مخلوقات میں فرق عمل اور علم کا ہی ہے کہ دیگر مخلوقات میں یہ اہلیت نہیں ہوتی کہ وہ اپنی معلومات اور علم میں اضافہ کریں ۔جبکہ انسان دیگر ذرائع کو استعمال کرکے اپنی معلومات میں اضافہ کر سکتا ہے ۔علم ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو مہذب بناتا ہے اسے اچھے اور برے میں فرق سیکھاتاہے،اللہ تعالی نے اپنے نبی ّ پروحی کا آغاز بھی علم کی آیات سے کیا ،سورۃ علق نازل کرکے ،ایک علم والا اور جاہل انسان برابر نہیں ہو سکتے، اللہ تعالی فرماتا ہے،سورہ مجادلہ میں آیت نمبر :۱۱ میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔

"يَرْ‌فَعِ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَ‌جَاتٍ ۚ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِير"

اور اللہ تعالی تم میں ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور جو علم دیے گئے ہیں درجے بلند کردے گا اور اللہ تعالی(ہر اس کام سے) جو تم کر رہے ہو (خوب)باخبر ہے:

اللہ تعالی علم والے بندوں کے درجات کو بلند فرماتا ہے اس کے راستے میں آنے والی مشکلات کو دور فرماتا ہے عالم کی بہت زیادہ فضیلت احادیث میں وارد ہوئی ہے ۔

حضرت امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا ان میں سے ایک عالم تھا اور دوسرا عابد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عالم کی فضیلت عابد پہ ایسے ہی ہے جیسے کہ میری فضیلت تم میں سے ادنی شخص پر،پھر آپّ نے فرمایا:کہ اللہ تعالی ،اس کے فرشتے اور آسمانوں طرف بلایا اس کے لیے اتنا ہی اجر ہےجتنا اس پہ چلنے والوں کے لیے ہے ،اور ان کے اجر میں سے کچھ بھی کم نہ کیا جائے گا،اور جس نے گمراہی کی طرف بلایا اس کو اتنا ہی گناہ ملے گا جتنا کہ اس پر چلنے والوں کو ملے گا اور اس کے گناہ میں سے کچھ بھی کم نہ کیا جائے گا ''۔ (مسلم ۲۶۷۴)

وہ لوگ جو دین کا علم حاصل کرکے خود بھی عمل کرتے اور دوسروں کو بھی ہدایت کی طرف بلاتے ہیں ان کے بارے میں اللہ کے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

راوی ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ ہیں :کی جس نے ہدایت کی طرف بلایا اس کے لیے اتنا ہی اجر ہے جتنا اس پر چلنے والوں کے لیے ہے اور ان کے اجر میں کچھ کمی نہ کی جائے گی اور جس نے گمراہی کی طرف بلایا ۔اس کو اتنا ہی گناہ ملے گاجتناکہ اس پر چلنے والوں کو ملے گا اور اسکے گناہ میں کچھ کمی نہ کی جائے گی۔ (مسلم۔۲۶۷۴)

یعنی جو شخص کسی کو اچھی راہ دیکھادے تو وہ جو نیک عمل کرے گا ءسکا ثواب اس راہ دیکھانے والے کو بھی ملے گا،اور جس نے کسی کو گناہ کی راہ دیکھا دی تو اس کو تو گناہ کرنے کا نقصان ہوگا ساتھ اس شخص کو بھی ہوگا جس نے اسے اس گناہ کی راہ دیکھائی ۔انکے گناہ میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔

علم کا پہنچانا واجب ہے

ارشاد باری تعالی ہے :

" هَـٰذَا بَلَاغٌ لِّلنَّاسِ وَلِيُنذَرُ‌وا بِهِ وَلِيَعْلَمُوا أَنَّمَا هُوَ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ وَلِيَذَّكَّرَ‌ أُولُو الْأَلْبَابِ" (سورۃ ابراہیم:52)

یہ قرآن تمام لوگوں کے لیے پیغام ہے کہ اس کے ذریعے انہیں ڈرایا جائے اور وہ بخوبی یہ جان لیں کہ اللہ ایک ہی معبود ہے تاکہ عقلمند لوگ سمجھ لیں

حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا ۔

جو یہاں حاضر ہے وہ اس کو پہنچا دے جو غائب ہے،کیونکہ جو حاضر ہے وہ شائید ایسے شخص کو خبر کردے جو بات کو اس سے زیادہ یاد رکھے۔ (بخاری،۶۷۔مسلم ۱۶۷۹)

حضرت عبد اللہ بن عمر رض سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

میری بات لوگوں تک پہنچادو خواہ وہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو۔ (بخاری، ۳۴۶۱)

علم چھپانے والوں کی سزا٫    علم چھپانے والوں کی لیے قرآن اور حدیث میں بڑی وعید آئی ہے ۔ارشاد باری تعالی ہے:

إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَىٰ مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ ۙ أُولَـٰئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّـهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ - إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَبَيَّنُوا فَأُولَـٰئِكَ أَتُوبُ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنَا التَّوَّابُ الرَّ‌حِيمُ (البقرہ 159۔160)

جو لوگ ہماری اتاری ہوئی دلیلوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں باوجود اس کے کہ ہم اسے اپنی کتاب میں لوگوں کے لیے بیان کر چکے ہیں،ان لوگوں پہ اللہ کی اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے،مگر وہ لوگ جو توبہ کر لیں اور اصلاح کرلیں اور بیان کردیں تو میں ان کی توبہ قبول کرتا ہوں اور میں توبہ قبول کرنےوالااور رحم کرنے والا ہوں۔

حضرت ابو ھریرہ رض اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

جس سے کوئی ایسی بات پوچھی گئی جس کا اسے علم تھااور اس نے اسے چھپا لیاتو قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائی جائے گی۔(ابو داود ۳۶۵۸۔ ترمذی ،۲۶۴۹)

یعنی اگر کوئی شخص علم ہونے کے باوجود چھپا لے تو اسے مندرجہ بالا عذاب ہو گا ،ہاں ااگر نہ جانتا ہو تو یہ کہہ دےواللہ اعلم ۔جو لوگ صرف دنیاوی مقصد کےلیے علم حاصل کرتے ہیں کہ وہ اس کے ذریعے سے دنیا کمائے گے صرف ان کے بارے میں بھی سخت وعید آئی ہے۔

ابو ھریرہ رض سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔

جس نے کوئی ایسا علم حاصل کیا جس سے اللہ کی خوشنودی حاصل کی جاتی ہے لیکن اس نے اسکو دنیا کا مال کمانے کے لیے حاصل کیا تو قیامت کے دن وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پائے گا ۔(ابو داود ۳۶۶۴، ابن ماجہ :۲۵۲)

حضرت کعب بن مالک رض کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا

"جس نے علم اس لیے حاصل کیا تاکہ علماء سے مقابلہ کرے یا احمقوں سے جھگڑے یا اس کے ذریعے لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذ ول کرے تو اللہ تعالی اس کو جہنم میں داخل کرے گا۔ (ترمذی :۲۶۵۴۔۔ابن ماجہ ۔۲۵۳)

جن کو اللہ نے علم دیا ہے ان کے لیے یہ واجب ہے کہ وہ بالکل صحیح صحیح بات آگے پہنچادے کچھ چھپائے نہ اللہ اور اس کے رسول پہ جھوٹ نہ بولے جو اللہ اور اسکے رسولّ پہ جھوٹ باندھتا ہے تو ایسے لوگوں کے لیے قرآن پاک مِیں سخت وعید آئی ہے ۔

"فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَ‌ىٰ عَلَى اللَّـهِ كَذِبًا لِّيُضِلَّ النَّاسَ بِغَيْرِ‌ عِلْمٍ ۗ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ "(الانعام ۱۴۴)

تو اس سے زیادہ ظالم کون ہوگا جو اللہ پہ جھوٹ باندھے تاکہ وہ لوگوں کو گمراہ کردے بغیر علم کے بے شک اللہ نہیں ہدایت دیتا ظالم لوگوں کو۔

وَلَا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَـٰذَا حَلَالٌ وَهَـٰذَا حَرَ‌امٌ لِّتَفْتَرُ‌وا عَلَى اللَّـهِ الْكَذِبَ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُ‌ونَ عَلَى اللَّـهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ -مَتَاعٌ قَلِيلٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (سورة النحل:116، 117)

اور یونہی اپنی زبان سے جھوٹ نہ کہہ دیا کروکہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اللہ پہ جھوٹ باندھنے لگو،سمجھ لو کہ اللہ تعالی پر بہتان بازی کرنے والے کامیابی سے محروم ہی رہتے ہیں ،انہیں بہت معمولی فائدہ ملتا ہے ،اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔

حضرت ابو ھریرہ رض سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فرمایا

"جو شخص جان بوجھ کر مجھ پہ جھوٹ باندھے وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں بنا لے۔(بخاری ۱۱۰، مسلم ۳)

علم سیکھنے اور سکھانے والے کی فضیلت:

ارشاد ربانی ہے:

 

"وَلَـٰكِن كُونُوا رَ‌بَّانِيِّينَ بِمَا كُنتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنتُمْ تَدْرُ‌سُونَ'' (آل عمران:۷۹)

بلکہ وہ تو کہےگا تم سب رب کے ہوجاو،اسلیےکہ تم کتاب سکھایا اور پڑھا کرتے تھے۔

حضرت ابو موسی رض سے رویت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اللہ تعالی نے علم و ہدایت کی جو باتیں مجھ کو دی ہیں ان کی مثال زور دار بارش کی طرح ہے ،جو کسی زمین پر برسی ،جو زمین عمدہ تھی اس نے پانی چوس لیا،اور اس نے گھاس اور سبزی خوب اگائی اور بعض زمین سخت تھی اس نے پانی تھام لیا ،اللہ تعالی نے لوگوں کو اس سے فائدہ پہنچایا ،انہوں نے اسے پیا اور جانوروں کو بھی پلایا اور کھیتی باڑی کی ۔اسی زمین کے بعض ایسے حصے میں بارش ہوئی جو صاف چٹیل تھی اس نے نہ تو پانی روکا نہ گھاس اگائی (بلکہ پانی اس پر سے بہہ کر نکل گیا) یہی مثال اس شخص کی ہے جس نے اللہ کے دین میں سمجھ پیدا کی اور جو اللہ تعالی نے مجھ کو دے کر بھیجا اس سے اسکو فائدہ ہوا ،اس نے خود سیکھا اور دوسروں کو بھی سیکھایا۔ اور اس شخص کی مثال ہے جس نے اس پر سر ہی نہیں اٹھایا اور اللہ کی ہدایت جو میں دےکر بھیجا گیا ہوں اسے نہ مانا ۔(بخاری۔ ۷۹۔مسلم ۔۲۲۸۲)

اسی طرح دوسری حدیث میں آتا ہے ،عبداللہ بن مسعود رض سے مروی ہے نبی ﷺ نے فرمایا:

رشک صرف دو آدمیوں کی خصلتوں پہ کیا جائَے،ایک وہ آدمی جسے اللہ نے دولت دی اور وہ اسے نیک کاموں میں خرچ کرتا ہو،دوسرے اس پر جو کو اللہ نے قرآن و حدیث کا علم دیا ہو اور وہ اسکے موافق فیصلے کرتا ہو اور لوگوں کو سکھاتا ہے،(بخاری،۷۳، مسلم ،۸۱۶)

یہ فضیلت ہے ان لوگوں کی جو دین کا علم حاص کرکے اسے آگے بھی پہنچاتے ہیں خود عمل کرکے دوسروں کو عمل کرنے کی ترغیب دلاتے ہیں ایسے لوگوں پہ رشک کرنا جائز ہے۔حسد نہ کی جائے کیونکہ حسد نیکیوں کو کھا جاتی ہے جیسے آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے۔قرب قیامت علم اٹھالیا جائے گا علم کو اٹھائے جانے کی کیفیت کیا ہوگی ؟وہ اس حدیث میں مذکور ہے۔

حضرت انس رض سے روایت ہے رسول اللہّ نے فرمایا ؛

قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ دین کا علم اٹھالیا جائے گا اور جہالت پھیل جائے گی ،زنا عام ہوجائے گا ،اور لوگ شراب کثرت سے پییں گے ،مردوں کی قلت اور عورتوں کی کثرت ہوگی،یہاں تک کی پچاس عورتوں کا نگران ایک مرد ہوگا۔( بخاری ،۸۱ مسلم، ۲۶۷۱)

حضرت عبداللہ بن عمرو رض کہتے ہیں میں نے آپّ کو فرماتے ہوئے سنا کہاکہ

اللہ تعالی [دین] کا علم بندوں سے چھین کر نہیں اٹھاتا بلکہ عالموں کو اٹھا کر علم اٹھاتا ہے ،یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہ رہے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا سردار بنالیں گے ،ان سے مسئلہ پوچھا جائے گا تو بغیر علم کے فتوی دیں گے،خود بھی گمراہ ہوں گے اوروں کو بھی گمراہ کریں گے۔(بخاری ۱۰۰۔مسلم۔ ۲۶۷۳)

اس طرح قیامت سے پہلے علم اٹھا لیا جائے گا آپ خود مشاہدہ کرسکتے ہیں کہاجکل کس طرح لوگ بغیر علم کے لوگوں کو گمراہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور لوگ بھی انکھیں بند کرکے اندھی تقلید کیے جارہے ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ خود قرآن و حدیث کا مطالعہ کریںتاکہ گمراہ ہونے سے بچ جائے، اللہ کے رسولّ نے فرمایا کہ میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں تم ہرگز گمراہ نہ ہوں گے اگر تم نے انہیں مضبوطی سے تھام لیا تو وہ دو چیزیں ،قرآن و حدیث ہیں۔

آج ہماری گمراہی کی بڑی وجہ ہی یہ ہے کہ ہم نے قرآن وحدیث کو پس پشت ڈال دیا ہے لہذا ذلت و پسپائی ہمارا مقدر بن گئی ہے۔

حمید بن عبد الرحمن رض فرماتے ہیں انہوں نے معاویہ سے سنا وہ کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ا

للہ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرمادیتاہے،نیز اللہ تعالی دینے والا ہے اور میں تقسیم کرنے والا ہوں اور یہ امت غالب ہی رہے گی ،یہاں تک کہ امر آجائےاور وہ اس وقت بھی غالب رہیں گے ۔( بخاری،۳۱۱۶، مسلم، ۱۰۳۷)

حضرت عثمان رض سے روایت ہے نبیﷺ نے فرمایا :

تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور دوسروں کو بھی سکھائے۔(بخاری ،۵۰۲۷)

دین کے علم حاصل کرنے کی بہت زیادہ فضیلت ہے یہاں میں نے اختصار کے ساتھ بیان کی ہیں ،جن مجلسوں میں اللہ کا ذکر ہوتا ہے ان مجلسوں کے بارے میں حدیث میں آتا ہے ۔

حضرت ابو ھریرہ اور ابو سعید خدری رض نے اس بات کی گواہی دی کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :

جب کچھ لوگ ایک ساتھ بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو فرشتے ان کو ڈھانپ لیتے ہیں اوراللہ کی رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے ،اور ان پہ سکینت نازل ہوتی ہےاور اللہ تعالی ان کا ذکر ان لوگوں میں کرتا ہے،جو اس کے پاس ہیں (یعنی فرشتوں میں)(مسلم،۲۷۰۰)

علم ایک عبادت ہے اور عبادت کی دو شرطیں ہیں ایک یہ کہ وہ عبادت اللہ کے لیے خاص ہواور دوسری یہوہ سنت کے مطابق ۔علماء انبیاء کے وارث ہیں ،علوم کی کئی اقسام ہے لیکن سب سے افضل علم وہ ہے جو انبیاء و رسل لے کر آئے ۔یعنی اللہ کی ذات،اسکے اسماء و صفات اور افعال اور اس کے دین و شریعت کی معرفت۔

خلاصہ:

مندرجہ بالاا دلائل سے علم کی فضیلت واضح ہوگئی ہیں لیکن اس کو بیان کرنے کو مقصد یہ نہیں کہ دنیا کا علم حاصل نہ کریں نہیں بلکہ وہ علم بھی بے انتہا ضروری ہے ،لیکن دنیا کے علم کے ساتھ دنیاوی علم کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے آجکل کے والدین بچوں کی دنیاوی تعلیم کی طرف تو بہت توجہ دیتے لیکن دینی تعلیم کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتے یہی وجہ ہے کہ آج کے بچے دین سے دور ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ بچوں کی دنیاوی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم کی طرف بھی خصوصی توجہ دی جائے تاکہ ان کی اخلاقی قدریں بہتر ہوں اور وہ ایک اچھے اور با اخلاق انسان بن سکے معاشرے کےلیے بہتر رول ماڈل کا کردار ادا کرسکے۔اللہ سے یہی دعا ہے کہ وہ ہمیں باعمل مسلمان بنائے اور ہر معاملے میں اللہ اور اسکے رسول کی تعلیمات پر چلنے والا بنائے آمین (وما علینا الا البلغ المبین۔واللہ اعلم)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں