Momin Al Hashmi:
خطبہ الجمعہ موضوع ۔ انبیا اور صالحین کی قرآنی دعائیں
ان الحمدللہ نحمدہ ونستعینہ ، ونستفرہ ، ونعوذ باللہ من شرور انفسنا ومن سیئات أعمالنا ، من یھدہ اللہ فلا مضل لہ، ومن یضلل فلا ھادی لہ، وأشھد ان لا الہ الااللہ وحدہ لاشریک لہ، وأشھد أن محمدا عبدہ ورسولہ
أما بعد: فان خیر الحدیث کتاب اللہ وخیر الھدی ھدی محمدﷺ وشر الامور محدثاتھا وکل بدعۃ ضلالہ وکل ضلالۃ فی النار۔ قال تعالی۔۔
حضرت ایوبؑ کی دعا
(( وَأَيُّوبَ إِذْ نَادَى رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ ))
حضرت ایوب علیہ السلام وہ نبی ہیں جن کا صبر دنیا میں ضرب المثل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اللہ تعالی نے جناب ایوب ؑ کو بہت ساری نعمتوں سے نوازا اور وہ بھی عبادت گزاروں میں اپنے مثال آپ تھے اس لئے شیطان نے جناب ایوبؑ کی بندگی پر حسد کرکے اللہ تعالی سے کہا : اے اللہ ! اگر حضرت ایوب ؑ تیرے فرمانبردار ہیں تو صرف تیری نعمتوں کی وجہ سے ہیں ورنہ اتنے مطیع نہیں ہوتے ۔ خداوندمتعال نے حضرت ایوب ؑ کی بندگی کا اخلاص ثابت کرنے کے لئے ہر طرح سےامتحان لیا یہاں تک کہ آپ کی ساری دولت اور اولاد ضائع ہوگئی پھر بھی انہوں نے صبر کیا اور آخری مرحلہ میں عرض حال کرکے اللہ کی بارگاہ میں دعا کی ((أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ)) (( مجھے بیماری نے آلیا ہے اور تو بہترین رحم کرنے والا ہے )) ۔ ایک اور آیت میں اس طرح آیا ہے : (( ۔۔۔ أَنِّي مَسَّنِيَ الشَّيْطَانُ بِنُصْبٍ وَعَذَابٍ )) ( شیطان نے مجھے بڑی تکلیف اور اذیت پہنچائی ہے ) ۔ شیطان جناب ایوب ؑ کے صبر کو آزماتا رہا اور پروردگار بھی اس پر واضح کرتا رہا کہ ہمارے مخلص بندے ایسے ہی ہوتے ہیں ( یعنی ان کو رزق و روزی اور نعمات ملیں یا نہ ملیں وہ فرمانبردار ہی ہوتے ہیں ) ۔
جناب ایوب ؑ کی حاجت قبول ہوگئی اور خدا نے صبر کے صلہ میں پہلی جیسی تمام نعمتیں دے دیں بلکہ ان میں اضافہ بھی کردیا جو صبر کرنے والے کے ساتھ اس کی مہربانی کا تقاضا ہے اور یہی معنی ( ان الله مع الصابرین) کے ہیں ۔
آسیہ زوجہ فرعون کی دعا
((رَبِّ ابْنِ لِي عِندَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَنَجِّنِي مِن فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهِ وَنَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ))
“تلازم حق” اسلام کا کھلا قانون ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کسی کو اس وقت تک کوئی حق نہیں دیتا جب تک کسی کے ذمہ کوئی فرض عائد نہیں کردیتا ہے اور اس وقت تک اس کے ذمہ کوئی فرض عائد نہیں کردیتا ہے جب تک اس کے مقابلہ میں کوئی حق ادا نہ کردے ۔ ازواج پیغمبر ﷺ کے بارے میں بھی اس کا یہی نظام ہے کہ انہیں عام امت سے بالاتر مرتبہ دیا ہے افراد امت کے لئے ماں قرار دیا ہے ان کے ساتھ کسی صورت میں بھی نکاح کو روا نہیں رکھا ہے تو اس کے مقابلے میں ان کی عظیم ذمہ داریاں بھی قرار دی ہیں انہی ذمہ داریوں کی ادئیگی کو ان کی عظمت کا راز قرار دیا ہے ورنہ صرف زوجیت کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور اسی لئے اس نے دونوں طرف کی مثالیں بیان کردی ہیں ۔ ایسی مثال بھی جہاں ایمان دار عورتیں بدترین شوہروں کے ساتھ رہیں اور انہیں کوئی نقصان نہ ہوا اور ایسی مثال بھی جہاں بے ایمان عورتیں بہترین شوہروں بلکہ پیغمبروں کے ساتھ رہیں اور انہیں کوئی فائدہ نہ ہوا اس لئے کہ دین خدا زوجیت اور قرابت کا دین نہیں ہے اس میں ایمان اور کردار معیار ہے .اللہ تعالی نے قرآن مجید میں کفر اختیار کرنے والوں کے لئے زوجہ نوحؑ اور زوجہ لوط کی مثال بیان کی ہے اور ایمان والوں کے لئے فرعون کی زوجہ آسیہ کی مثال بیان کی ہے جو کہ خدا پرست تھیں ۔ آسیہ فرعون کی زوجہ اس کے گھر میں زندگی بسر کررہی تھی لیکن فرعون کے خدائی دعوی کو نہیں مانتی تھیں جب فرعون کو معلوم ہوا کہ اس کی زوجہ خدا پرست ہے اس کے حکم سے آسیہ کو سزا دی گئی یہاں تک کہ اس کی روح پرواز کرگئی اور ظالموں کے ظلم سہتے ہوئے اللہ کو اس طرح پکارتی تھی ((رَبِّ ابْنِ لِي عِندَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَنَجِّنِي مِن فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهِ وَنَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ) (( پروردگارا ! جنت میں میرے لئے اپنے پاس ایک گھر بنا اور مجھے فرعون اور اس کی حرکت سے بچا اور مجھے ظالموں سے نجات عطا فرما ! )) پس معلوم ہوا ہے کہ انسان ہر حال میں اپنے ایمان اور بندگی کو حفظ کرسکتا ہے ۔
پیغمبر اسلام ﷺ کی دعائیں
))رَّبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَل لِّي مِن لَّدُنكَ سُلْطَانًا نَّصِيرًا((
الف) قرآن مجید میں مختلف مقامات پر اللہ تعالی نے اپنے حبیب حضرت محمد مصطفی ﷺ کو مختلف تعلیمات دی ہیں ان میں سے ایک دعا یہ ہے جس میں اللہ تعالی حضور ﷺ کو حکم دیتا ہے خدا کو یوں پکاریں : ((اللَّهُمَّ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ أَنتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِي مَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ)) (( اے اللہ ! آسمانوں اور زمین کے خالق ، پوشیدہ اور ظاہری باتوں کو جاننے والے ! تو ہی اپنے بندوں کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں وہ اختلاف کیا کرتے تھے ))
ب) پیغمبر اسلام ﷺ کے دشمن بڑے سرکش لوگ تھے۔ وہ پیغام حق سے دور بھاگتے اور لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے ہر دن ایک نئی چال چلتے تھے۔ پھر بھی ہر چال اور بہانہ کے مقابلے میں حضور ﷺ سے مناسب جواب دریافت کرتے تھے اور اکثر اوقات خود پیغمبر ﷺ بھی اللہ تعالی کے جانب سے جواب کے منتظر رہتے تھے تاکہ دشمنوں کو جواب بھی مل جائے اور حضور ﷺ کے عزم اور ارادے میں پختگی بھی بڑھ جائے ۔
اللہ تعالی سورہ انبیاء میں توحید کے منکروں کو جواب دیتے ہوئے رسول خدا ﷺ کو اس طرح دعا کرنے کی تعلیم دیتا ہے : ((رَبِّ احْكُم بِالْحَقِّ وَرَبُّنَا الرَّحْمَنُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ)) ((پروردگار ! ہمارے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کردے اور ہمارا رب یقینا مہربان اور تمہاری باتوں کے مقابلہ میں قابل استعانت ہے )) ۔
ج) سورہ مؤمنون ، مؤمنین کے پیغام نجات سے شروع ہوئی ہے اور کافرین کی عدم نجات پر تمام ہوئی ہے جیسا کہ اللہ ارشاد فرمارہا ہے : جو اللہ کے ساتھ کسی اور خدا کو پکارے گا جس کی کوئی دلیل بھی نہیں ہے تو اس کا حساب پروردگار کے پاس ہے اور کافروں کے لئے نجات بہر حال نہیں ہے ۔ اس کے بعد فوراً مغفرت کی دعا کی گئی ہے تاکہ انسان توفیق الہی اور رحمت پروردگار کے سہارے مؤمنین کے زمرے میں شامل رہے اور کفار کے گروہ میں محشور نہ ہونے پائے اور خداوند رسول ﷺ کو دعا کرنے کا تعلیم دیتا ہے کہ رسولخدا ﷺ کہہ دیجئے : ((رَّبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَأَنتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ)) ؛ (( اے میرے پروردگار ! معاف فرما اور رحم فرما اور تو سب سے بہترین رحم کرنے والا ہے )) حضور ﷺ کی اقتدا کرتے ہوئے ہمیں بھی ہر وقت سارے مؤمنین کی مغفرت کے لئے دعا کرنی چاہئے ۔
د) اللہ تعالی اپنے حبیب ﷺ کو حکم دیتا ہے کہ وحی کے تمام ہونے سے پہلے قرآن کے بارے میں عجلت سے کام نہ لیا کریں اور کہتے رہیں ((رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا)) (( پروردگارا میرے علم میں اضافہ فرما )) ۔ اس مطلب کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے کہ ہمارے رسول ﷺ کے مخلوقات میں سب سے داناترین شخص ہونے کے باوجود اللہ تعالی انہیں حکم کرتا ہے کہ وہ (رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا) کی تلاوت کرتے رہے تو ہمارے لئے جو کہ ایک ذرے سے زیادہ علم نہیں رکھتے ، ضروری ہے کہ اس دعا کا ورد کرتے ہوئے خدا سے زیادہ سے زیادہ علم طلب کریں ۔
ھ) اللہ تعالی حضور اکرم ﷺ کو حکم کیا کہ وہ اس طرح اللہ کے حضور دعا کرے : ((رَّبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَل لِّي مِن لَّدُنكَ سُلْطَانًا نَّصِيرًا)) (( پروردگارا ! مجھے ( ہر مرحلہ میں ) سچائی کے ساتھ داخل کر اور سچائی کے ساتھ ( اس سے ) نکال اور اپنے ہاں سے مجھے ایک قوت عطا فرما جو مددگار ثابت ہو )) ۔
امام صادق رحمۃاللہ علیہ نے فرمایا : تم جب کسی ایسی جگہ میں داخل ہو جہاں پر تمہیں خوف ہو تو اس آیت کی تلاوت کرو ۔
مفسرین نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے کہ فتح مکہ کے دن جب پیغمبر اسلام ﷺ نے مکہ میں داخل ہونے کا ارادہ کیا تو یہ آیت نازل ہوگئی اور اللہ نے فرمایا : اے محمد تم آیہ ((رَّبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَل لِّي مِن لَّدُنكَ سُلْطَانًا نَّصِيرًا)) کی تلاوت کرکے داخل ہوجاؤ ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ اس آیت ((رَّبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَل لِّي مِن لَّدُنكَ سُلْطَانًا نَّصِيرًا)) یعنی (( اور اپنے ہاں سے مجھے ایک قوت عطا فرما جو مددگار ثابت ہو ) کے بارے میں کہتا ہے : خدا کی قسم اللہ تعالی نے حضور ﷺ کی دعا قبول فرمائی اور علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو رسول ﷺ کے لئے عطا کیا جنہوں نے دشمنوں کے خلاف حضور ﷺ کی مدد کی ۔
و) اللہ تعالی کبھی رسول ﷺ کو اس طرح دعا کرنے کا حکم دیتا ہے :
((اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاء وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاء وَتُعِزُّ مَن تَشَاء وَتُذِلُّ مَن تَشَاء بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَىَ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ، تُولِجُ اللَّيْلَ فِي الْنَّهَارِ وَتُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَتُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَتُخْرِجُ الَمَيَّتَ مِنَ الْحَيِّ وَتَرْزُقُ مَن تَشَاء بِغَيْرِ حِسَابٍ)) ؛(( خدایا تو صاحب اقتدار ہے جس کو چاہتا ہے اقتدار دیتا ہے اور جس سے چاہے چھین لیتا ہے ، جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ذلیل کرتا ہے ساری خیر تیرے ہاتھ میں ہے اور تو ہی ہر شئی پر قادر ہے ۔ تو رات کو دن اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور تو ہی جاندار سے بےجان اور بے جان سے جاندار پیدا کرتا ہے اور تو جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے )) ۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا : جب بھی اسم اعظم کے ساتھ دعا کی جائے تو مستجاب ہوجاتی ہے جو عبارت ((اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاء وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاء وَتُعِزُّ مَن تَشَاء وَتُذِلُّ مَن تَشَاء بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَىَ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ، تُولِجُ اللَّيْلَ فِي الْنَّهَارِ وَتُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَتُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَتُخْرِجُ الَمَيَّتَ مِنَ الْحَيِّ وَتَرْزُقُ مَن تَشَاء بِغَيْرِ حِسَابٍ )) ۔
معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کہتا ہے : ایک دن نماز جمعہ حضور اکرم ﷺ کی امامت میں ادا نہیں کرسکا جب حضور ﷺ نے مجھے دیکھا تو مجھ سے سوال کیا: اے معاذ ! کس چیز نے تم کو نماز سے روکا ؟ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ میں یوحنای یہودی کو کچھ مقدار سونے کا مقروض ہوں وہ میرے گھر کے دروازے پر کھڑا تھا تاکہ جب میں گھر سے باہر نکلوں تو وہ مجھ سے سونا مانگے ۔ چونکہ میرے پاس سونا نہیں ہے اس لئے میں گھر سے باہر نہیں نکلا ۔ حضور ﷺ نے فرمایا : اے معاذ ! کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ تعالی تمہارا قرض اداکرے ؟ میں نے عرض کیا : جی ہاں یا رسول اللہ ، حضور ﷺ نے فرمایا : تم آیات ((اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاء وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاء وَتُعِزُّ مَن تَشَاء وَتُذِلُّ مَن تَشَاء بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَىَ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ، تُولِجُ اللَّيْلَ فِي الْنَّهَارِ وَتُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَتُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَتُخْرِجُ الَمَيَّتَ مِنَ الْحَيِّ وَتَرْزُقُ مَن تَشَاء بِغَيْرِ حِسَابٍ)) کی تلاوت کرو اس کے بعد یوں پڑھو : (( یا رحمن الدنیا والآخرة و رحیمهما تعطی منهما ما تشاء و تمنع منهما ما تشاء صل علی محمد و آل محمد اقض عنی دینی یا کریم )) یعنی ( اے دنیا اور آخرت کو بخشنے والا، اے دو جہان کے مہربان ، تو دنیا اور آخرت میں سے جو چاہو دیتے ہو اور دونوں میں سے جو چاہتے ہو منع کرتے ہو پس محمد و آل محمد پر درود بھیج اور میرے قرض کو ادا کر اے کریم ) اگر تمھارے ذمے پوری زمین کے برابر سونا ہی کیوں نہ ہو ، اللہ تعالی ادا کرے گا
آج کی خطبہ میں اتنا ہی اللہ ہمیں پڑھنے پڑھانے مجھے سمجھانے سے زیادہ عمل کی توفیق عطا فرمائے اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں