خطبہ الجمعہ موضوع ۔ آدابِ
دُعاء
ان الحمدللہ
نحمدہ ونستعینہ ، ونستفرہ ، ونعوذ باللہ من شرور انفسنا ومن سیئات أعمالنا ، من
یھدہ اللہ فلا مضل لہ، ومن یضلل فلا ھادی لہ، وأشھد ان لا الہ الااللہ وحدہ لاشریک
لہ، وأشھد أن محمدا عبدہ ورسولہ
أما بعد: فان خیر الحدیث کتاب اللہ وخیر الھدی ھدی محمدﷺ
وشر الامور محدثاتھا وکل بدعۃ ضلالہ وکل ضلالۃ فی النار۔ قال تعالی۔۔
يقول الله -تبارك وتعالى: وَإِذَا سَأَلَكَ
عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ
فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ [سورة
البقرة:186].
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جو آسمان وزمین کو
پیدا کرنے والا ہے،ہمہ قسم کی تکالیف کو دور کرنے والاہے، میں اپنے رب کی تعریف
اور شکر گزاری کرتے ہوئے اسی کی جانب رجوع اور گناہوں سے معافی چاہتا ہوں، اور میں
یہ گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ یکتا ہے،اس کے اچھے اچھے نام
ہیں،اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی جناب محمد اللہ کے بندے اور اسکے
رسول ہیں ، آپ دینِ حنیف پر چلنے والوں کے امام ہیں، یا اللہ! اپنے بندے، اور رسول
محمد پر درود و سلام بھیج، آپکی آل اور تمام متقی صحابہ کرام پر بھی۔
اللہ کی حمد و ثناء اور نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم پر درود و سلام کے بعد!
ہمیشہ اطاعت گزاری اور گناہوں سے اجتناب کرتے
ہوئے اللہ تعالی سے ڈرو ،اگر تم نے یہ کر لیا تو کامیاب ہونے والوں میں شامل ہوجاؤ
گے۔
مسلمانو!
یہ بات سمجھ لو کہ انسان اپنے لئے اللہ کی مدد
اور توفیق کے بغیر کچھ بھی اچھا کام نہیں کرسکتا، فرمانِ باری تعالی ہے: قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلا ضَرًّا إِلا مَا شَاءَ اللَّهُ
وَلَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ
السُّوءُ إِنْ أَنَا إِلا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ آپ کہہ دیجئے کہ : '' مجھے تو خود اپنے آپ کو بھی نفع یا نقصان پہنچانے کا
اختیار نہیں۔ اللہ ہی جو کچھ چاہتا ہے وہ ہوتا ہے۔ اور اگر میں غیب جانتا ہوتا تو
بہت سی بھلائیاں حاصل کر لیتا اور مجھے کبھی کوئی تکلیف نہ پہنچتی۔ میں تو محض ایک
ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں، ان لوگوں کے لئے جو ایمان لے آئیں [الأعراف:
188]اگر سید البشر صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ بات ہے تو آپ سے کم تر لوگ
تو اپنے لئے کچھ بھی نہیں کرسکتے، وہ کسی نفع اور نقصان کے مالک نہیں ہوسکتے۔
اللہ تعالی نے مکلفین پر رحم کرتے ہوئے قرآن
وسنت میں ان کیلئے مفید اور دنیا و آخرت میں نفع بخش ہر چیز بیان کردی، پھر ان کیلئے
کامیاب زندگی کیلئے تمام اسباب بھی بیان کردئے، اور انہیں بدبختی کے تمام اسباب سے
آگاہ کردیا، فرمایا: وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَى دَارِ السَّلَامِ
وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ اور اللہ تمہیں سلامتی کے گھر (جنت) کی طرف بلاتا ہے اور وہ جسے چاہتا ہے سیدھی
راہ دکھلا دیتا ہے [يونس: 25] ایسے ہی فرمایا: يَا أَيُّهَا
الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا
يُحْيِيكُمْ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ
وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کا حکم
مانو جبکہ رسول تمہیں ایسی چیز کی طرف بلائے جو تمہارے لیے زندگی بخش ہو۔ اور یہ
جان لو کہ اللہ تعالیٰ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے اور اسی کے
حضور تم جمع کئے جاؤ گے [الأنفال: 24]
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : (اللہ تعالی فرماتا ہے: "میں اپنے
بندے کیساتھ ایسا ہی پیش آتا ہوں جیسے وہ میرے بارے میں گمان کرتا ہے، جہاں کہیں
بھی میرا ذکر کرے میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں " اللہ کی قسم! اللہ تعالی اپنے
بندے کی توبہ پر اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جو بیابان علاقے میں اپنی سواری
گم ہونے کے بعد پالے، جو میری طرف ایک بالشت قریب ہوتا ہے میں ایک ہاتھ اسکے قریب
ہوتا ہوں، اور جو میری طرف ایک ہاتھ قریب ہو، میں اسکی طرف ایک باع قریب ہوتا ہوں،
جو میری طرف چل کر آتا ہے میں اسکی طرف دوڑ کر آتا ہوں) بخاری و مسلم
اللہ کے قریب کرنے والے اعمال میں دعا ایک خاص
مقام رکھتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: وقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ
إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ داخلین ۔پ کے پروردگار نے فرمایا ہے:
''مجھے پکارو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا جو لوگ میری عبادت سے ناک بھوں چڑھاتے
ہیں عنقریب ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔ [غافر: 60]
اس آیت کریمہ میں ضمنی طور پر دعا بطور عبادت
اور دعا بطور حاجت کا مسئلہ بیان کیا گیا ہے، دعا بطور عبادت یہ ہے کہ انسان اللہ
کے دئے ہوئے تمام احکامات چاہے فرض ہوں یا مستحب تمام کو ادا کرتے ہوئے عبادات کے
ذریعے اللہ کا قرب حاصل کرے، چنانچہ جب کوئی مسلمان فرائض یا نوافل ادا کر کے تو یہ
حقیقت میں ان عبادات کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتاہے اور اللہ تعالی
اسے اس کا ثواب دیتے ہوئے جنت میں داخل کردیتا ہے، اور اسے اپنے عذاب سے نجات بھی
دیتا ہے، اور دنیا میں اس عبادت کے باعث اسکی حالت بھی درست فرما دیتا ہے، لہذا
مسلمان ہر عبادت چاہے فرض ہو یا نفل اسکے بدلے میں بھلائی طلب کرتاہے اور تکالیف
کا مداوا چاہتا ہے، جبکہ دعابطور حاجت یہ ہے کہ اللہ تعالی سے اپنی ضروریات کا
مطالبہ کیا جائے، مثلا بیماری سے شفا، کشادگی رزق ، رفعِ تکلیف، قرضوں کی ادائیگی،
اور آخرت کے بارے میں سوال کرے، جیسے جنت میں داخلہ ، جہنم سے آزادی، قبر کے
سوالات میں کامیابی، اور ہمہ قسم کی آزمائشوں سے نجات مانگنے کا نام ہے، اور دونوں
اقسام کی دعائیں اللہ تعالی کیلئے خاص ہیں، ان میں سے کوئی بھی غیر اللہ کیلئے
جائز نہیں چاہے کوئی رسول، نبی ،یا کوئی اور مخلوق ہو، چنانچہ جس نے غیر اللہ سے
دعا مانگی وہ مشرک ہے، اور مشرک پر اللہ تعالی نے جنت حرام کرتے ہوئے اسے ہمیشہ کیلئے
جہنمی قرار دیا ہے، ہاں اگر مرنے سے پہلے توبہ کرلے تو اللہ تعالی اسکی توبہ قبول
فرما لیتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: وَقَالَ الْمَسِيحُ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ
اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۖ إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ
حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ ۖ وَمَا لِلظَّالِمِينَ
مِنْ أَنصَارٍ مسیح نے کہا:''اے بنی اسرائیل! اللہ کی عبادت
کرو، جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی۔ کیونکہ جو شخص اللہ سے شرک کرتا ہے اللہ
نے اس پر جنت حرام کر دی ہے اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی بھی
مددگار نہ ہوگا'' [المائدة: 72]
ایسے ہی ایک اور مقام پر فرمایا: وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا اور یہ مسجدیں اللہ کے لیے ہیں لہذا اللہ کے ساتھ کسی اور کو مت پکارو
[الجن: 18] پھر فرمایا: وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ
مِنْ قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ
الْخَاسِرِينَ ، بَلِ اللَّهَ فَاعْبُدْ وَكُن مِّنْ الشَّاكِرِينَ آپ کی طرف یہ وحی کی جا چکی ہے اور ان لوگوں کی طرف بھی جو آپ سے پہلے تھے،
کہ اگر آپ نے شرک کیا تو آپ کے عمل برباد ہوجائیں گے اور آپ خسارہ اٹھانے والوں میں
شامل ہوجائیں گے [الزمر: 65]
جبکہ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی
اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا کہ آپ نے فرمایا: (دعا ہی عبادت ہے) ابو داود، ترمذی،
اور اسے حسن صحیح کہا۔
انس رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان
کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (دعا عبادت کا مغز ہے) ترمذی
دعا ہی وہ عظیم دروازہ ہے جہاں سے لوگوں اور
تمام مخلوقات کی مشکل کشائی اور حاجت روائی ہوتی ہے، اسکی وجہ یہ ہے کہ مخلوقات کی
ضروریات لا تعداد اور بے شمار ہیں اور انہیں جاننے والی ذات صرف اور صرف خالق و
قادر اور علیم و رحیم ہے وہی ان ضروریات کو پوری کرسکتا ہے، وہی ہر سائل کی حاجت
روائی کرتا ہے، ہر امید وار کی امیدیں پوری کرتا ہے، یہ سب کچھ کرنے کے با وجود
اسکے خزانے میں کوئی کمی نہیں آتی، اور نہ ہی اسکے خزانے کبھی ختم ہو سکتے ہیں، جیسے
کہ اللہ تعالی نے فرمایا: وَلِلَّهِ خَزَائِنُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ آسمان
اور زمین کے خزانوں کا مالک اللہ ہی ہے [المنافقون: 7] اور پھر فرمایا: إِنَّ هَٰذَا لَرِزْقُنَا مَا لَهُ مِن نَّفَادٍ یہ ہماری عنائت ہے جو کبھی ختم نہ ہوگی[ص: 54]
جبکہ حدیث قدسی میں اللہ تعالی نے فرمایا: (میرے
بندو! اگر پہلے جن و انس سے لیکر آخری جن و انس تک ایک ہی میدان میں جمع ہوکر اپنی
ضروریات مجھ سے طلب کریں تو انہیں تمام مطلوبہ اشیاء دینے کے بعد میرے خزانوں میں
صرف اتنی کمی آئے گی جتنی سوئی سے سمند ر میں آتی ہے) مسلم نے ابو ذر رضی اللہ عنہ
سے بیان کیا۔
ہمارا رب پاک ہے، اسکے علاوہ کوئی معبود نہیں ،
اسے مختلف زبانوں کی وجہ سے کوئی پریشانی نہیں ہوتی، بیک وقت کئی آوازیں اسے تنگ
نہیں کر سکتی، تمام کی حاجات مختلف ہیں، ہر وقت اسے یا د بھی کیا جاتا ہے، اللہ
تعالی نے اپنے بارے میں کچھ یوں فرمایا: يَسْأَلُهُ مَنْ فِي
السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ آسمانوں اور زمین میں جو مخلوق بھی موجود ہے سب اسی سے (اپنی حاجات)
مانگتے ہیں۔ وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہے [الرحمن: 29]
ابو درداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ تعالی ہر دن کسی نہ کسی کام میں ہوتا ہے، کہ کسی
کے گناہوں کو معاف کردیا، تو کسی کی مشکل کشائی کردی، یا دعا قبول کی اور قوموں کو
ترقی یا تنزلی سے دوچار کردیا) اسے بزار نے روایت کیا۔
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "مجھے
قبولیت کی اتنی فکر نہیں ہوتی میر اکام صرف مانگنا ہے، اگر تمہیں مانگنا آگیا تو
سمجھو دعا قبول ہوگئی"
بعض سلف سے منقول ہے کہ : "میں غور وفکر
کے بعد ایک نتیجے پر پہنچا کہ اطاعت گزاری ہی ہر خیر کا سر چشمہ ہے، پھر غور و فکر
کیا تو پتہ چلا کہ تمام خیرو برکات دعا میں پوشیدہ ہیں"
انسان کیلئے یہ بہت ہی بڑا خسارہ ہے کہ وہ دعا
کرنے میں سستی کرے، چنانچہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا: (جس کیلئے دعا کا دروازہ کھول دیا گیا اسکے لئے رحمت کے دروازے
کھول دئے گئے، اللہ تعالی کو اپنے بندوں کی جانب سے عافیت کا مطالبہ بہت پسند ہے،
اور دعا نازل شدہ و غیر نازل شدہ تکالیف سب میں یکساں فائدہ دیتی ہے، اور تقدیری فیصلوں
کو دعا سے ہی تبدیل کیا جاسکتا ہے، چنانچہ کثرت سے دعا کیا کرو) ترمذی، حاکم روایت
کیا۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ کے ہاں دعا سے عزیز کوئی عبادت نہیں)ترمذی،
ابن ماجہ، اور حاکم نے اسے روایت کیا۔
عبادت میں دعا کرنے والے کو مسلسل ثواب ملتا ہے
اور منقطع نہیں ہوتا، عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا: (کرہ ارضی پر کوئی بھی مسلمان اللہ سے دعا مانگے تو اللہ
تعالی اسکو وہی عنائت فرماتا ہے، اور اسی قدر اسکی تکالیف بھی دور کر دیتا ہے،
تاآنکہ گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ مانگے)ایک آدمی نے کہا: پھر تو ہم کثرت سے دعائیں
کریں گے، آپ نے سن کر فرمایا: (اللہ اکبر)، ترمذی نے روایت کیا اور اسے حسن و صحیح
قرار دیا، جبکہ حاکم نے روایت کرتے ہوئے اضافہ کیا ہے: (یا اسکے لئے دعا کے برابر
ثواب محفوظ فرما لیتا ہے)
دعا ایک عظیم الشان عبادت ہے، جسکے آثار واضح
اور قابل مشاہدہ بھی ہوتے ہیں، جیسے اللہ تعالی نے نوح علیہ السلام کی دعا پر کفار
کو غرق فرمایا، نوح علیہ السلام نے دعا میں کہا تھا: فَدَعَا رَبَّهُ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانتَصِرْ چنانچہ انہوں نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ: ''میں مغلوب ہوچکا، اب تو ان
سے بدلہ لے'' [القمر: 10]
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا پر اللہ
تعالی نے غزوہ احزاب میں تمام اتحادی افواج کو شکستِ فاش دی، ابراہیم علیہ السلام
کی دعا پر اس امت کو نوازتے ہوئے ان میں آخری نبی سید البشر صلی اللہ علیہ وسلم کو
مبعوث فرمایا، زکریا علیہ السلام کو یحیی علیہ السلام عنائت فرمائے، حالانکہ آپ
اور آپکی زوجہ محترمہ انتہائی بڑھاپے کی حالت میں تھے، انبیاء کرام کو اللہ تعالی
نے نجات دی، اور انکے تمام تر ساتھیوں کو ظالموں کے چُنگل سے آزادی دلائی ۔
دعا کے اثرات ہر وقت لوگوں میں مشہور ہوتے ہیں
، ایسا شخص انتہائی خوش نصیب ہے جو اپنے لئے جنت کی اور جہنم سے بچنے کی دعا کرے،
صراطِ مستقیم پر قائم رہنے کی دعا کرے، اور ایسے ہی اللہ تعالی سے ہمہ قسم کے
فتنوں سے محفوظ رہنے کیلئے دعا کرے، اور اسلام کی بلندی اور غلبہ کیلئے اللہ سے
مانگے۔
مسلمانو!
دعا کیلئے مسلمانوں کو تو کیا کفار کو بھی ترغیب
دی گئی ہے، کہ اگر کافر بھی مظلومیت کی حالت میں اللہ سے مانگے اللہ تعالی اسکی
دعا قبول فرماتا ہے۔
دعا کے چند آداب اور اوقات ہیں، جو انہیں جمع
کرلے اسکی دعا قبول ہوتی ہے، چنانچہ دعا کے آداب میں سے یہ ہے کہ :
1- اللہ تعالی کے احکامات پر
عمل کرے اور ممنوعات سے دور رہے،
2- اخلاص اور حضورِ قلب کے ساتھ
مانگے، اس بارےمیں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا: (اللہ کی جانب سے قبولیت پر یقین رکھتے ہوئے اس سے مانگو، دھیان
رکھنا ! اللہ تعالی کسی غافل اور لاپرواہ دل کی دعا قبول نہیں فرماتا) ترمذی، حاکم
3- اللہ تعالی کی حمد و ثناء کی
جائے ، اور پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجا جائے، فضالہ بن عبید
رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب کوئی دعا
کرنےلگے تو حمد و ثناء سے ابتدا کرے ، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے
اور اسکے بعد جو چاہے اللہ سے مانگے)ترمذی، ابو داود، نسائی
4- دعا کی قبولیت کیلئے جلد بازی
سے کام نہ لے، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا: (تمہاری دعائیں اس وقت تک قبول ہوتی ہیں جب تک جلد بازی کرتے ہوئے
"دعائیں تو کی ہیں لیکن قبول ہی نہیں ہوتیں!"کے الفاظ زبان پر نہ
لائے)بخاری و مسلم
5- دعا کرنے سے قبل صدقہ کرے،
اور قبلہ رخ ہوکر دعائیں مانگے۔
6- دعا کے آداب میں سب سے اہم
ترین ادب رزقِ حلال ہے، کھانا ، پینا ، اور پہناوا حلال کا ہو، رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو فرمایا: (سعد! اپنا کھانا پینا حلال
رکھنا مستجاب الدعوات بن جاؤ گے)پھر تاریخ گواہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ واقعی
مستجاب الدعوات تھے۔
دعا کے اسبابِ قبولیت میں :
1- لوگوں کو نیکی کی دعوت اور
برائی سے روکنے پر دعائیں قبول ہوتی ہیں۔
2- رمضان میں یا عام روزوں کے
بعد دعا قبول ہوتی ہے کہ فرمانِ باری تعالی احکام رمضان کے بعد ہے اور وہ ہے: وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ
الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُواْ لِي وَلِيُؤْمِنُوا بِيْ لَعْلَهمْ
يُرْشِدُونْ اور جب میرے بندے آپ سے میرے متعلق پوچھیں تو انہیں
کہہ دیجئے کہ میں (ان کے) قریب ہی ہوں، جب کوئی دعا کرنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں
اس کی دعا قبول کرتا ہوں لہذا انہیں چاہیے کہ میرے احکام بجا لائیں اور مجھ پر ایمان
لائیں اس طرح توقع ہے کہ وہ ہدایت پا جائیں گے [البقرة: 186]
3- رات کی آخری تہائی میں بھی
دعا قبول ہوتی ہے۔
4- بارش کے نازل ہونے کے وقت۔
5- بیت اللہ کو دیکھتے ہوئے
6- آذان اور اقامت کے درمیان
7- فرض نمازوں کے بعد
8- سفر میں
9- اور کسی بھی تکلیف کے وقت
اللہ کا کرم کتنا وسیع ہے وہ کتنا کریم ہے، جو
بھی اس سے مانگے عنائت کرتا ہے، اور جو نہ مانگے اس پر غضب ناک ہوتا ہے، ابو ہریرہ
رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو اللہ سے نہ
مانگے اللہ تعالی اس پر غضب ناک ہوتا ہے)ترمذی
جامع ترین دعاؤں میں انبیاء کرام کی دعائیں
شامل ہیں اور ان سب دعاؤں میں سب سے جامع ترین دعا :
ربنا اتنا في الدنيا حسنة وفي الاخرة حسنة وقنا
عذاب النار
فرمانِ باری تعالی ہے: ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ
الْمُعْتَدِينَ وَلا تُفْسِدُوا فِي الأَرْضِ بَعْدَ إِصْلاحِهَا وَادْعُوهُ
خَوْفاً وَطَمَعاً إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ اپنے پروردگار کو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے پکارو۔ یقینا وہ حد سے بڑھنے
والوں کو پسند نہیں کرتا[٥6] اور زمین میں (حالات کی) درستی کے بعد ان میں بگاڑ پیدا
نہ کرو۔ اور اللہ کو خوف اور امید سے پکارو۔ یقینا اللہ کی رحمت نیک کردار لوگوں
سے قریب ہے [الأعراف: 55، 56]
اللہ تعالی میرے لئے اور آپ سب کیلئے قرآن مجید
کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس سے مستفید ہونیکی توفیق دے، ہمارے
لئے سنتِ سید المرسلین اور انکی جانب سے ملنے والی ہدایات کو نفع بخش بنائے، میں
اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ بزرگ و برتر سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے
گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں یقینا وہ بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں