۔••••••••••••••••••••••••••••
👈 پہلی دلیل:
یہ بات ٹھیک ہے کہ علماء عرب سمیت اہل لغت کے بہت سارے علماء بھینس کی قربانی کو جائز بھی کہتے ہیں،
اور انکی دلیل صرف یہ ہے کہ بھینس گائے کی ہی ایک قسم ہے تو اسکی قربانی بھی جائز ہے،
(مجموع فتاوی ورسائل فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین : 34/25)
🌹 جواب_
۔•••••••••••
محترم علماء کا فتویٰ اپنی جگہ،
پر حقیقت یہ ہے کہ گائے اور بھینس میں زمین آسمان کا فرق ہے،دونوں کی جسامت، شکل و صورت، جلد، دونوں کی خوراک، پانی میں نہانے یا نا نہانے ، عادات و حرکات ، افزائش نسل ،گوشت،کھال اور دودھ تک ہر چیز میں فرق ہے، حالیہ ماہرین نے بھی بھینس کی الگ دو قسمیں ذکر کی ہیں،
دیکھیں ویکیپیڈیا پر..!!
https://ur.m.wikipedia.org/wiki/بھینس
جبکہ گائے ایک الگ جانور ہے بذات خود اس کی الگ سے بہت ساری نسلیں ہیں،
تفصیل کے لیے لنک ملاحظہ فرمائیں!!
https://ur.m.wikipedia.org/wiki/گائے
*اس کے باوجود بھی بھینس کو گائے کی نسل بنانا سمجھ سے باہر ہے*
۔۔••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
👈دوسری دلیل:
بھینس کی قربانی کی دوسری دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ بھینس کی زکوٰۃ گائے پر قیاس کر کے دیتے ہیں:
بھینس کی زکوٰۃ کے نصاب کے بارے
امام ابن المنذر فرماتے ہیں:
’’ واجمعوا علی ان حکم الجوامیس حکم البقر‘‘ اور اس بات پر اجماع ہےکہ بھینسوں کا وہی حکم ہے جو گائیوں کا ہے۔
(الاجماع کتاب الزکاۃ ص۴۳حوالہ:۹۱)
اس بنا پر کچھ علماء یہ بھی کہتے ہیں کہ جب بھینس کی زکوٰۃ ہم گائے پر قیاس کر کے اسکے اعتبار سے دیتے ہیں تو بھینس کی قربانی گائے پر قیاس کر کے کیوں نہیں کر سکتے؟؟
🌹 دلیل کا جواب..!!
۔••••••••••••••••••
سب سے پہلی بات کہ امام ابن المنذر رحمہ اللہ نے زکوٰۃ کے باب میں یہ بات فرمائی ہے کہ زکوٰۃ کے بارے جو حکم گایوں کا ہے وہی بھینسوں کا، جبکہ قربانی کے باب میں ایسی کوئی بات نہیں ملتی،
🌹 👈 قیاس کا سیدھا سادہ اصول یہ ہے جب اصل چیز موجود نہ ہو پھر قیاس سے کام چلایا جاتا ہے،
مطلب
جیسے اللہ پاک نے جانوروں کی زکوٰۃ فرض کی ہے،
اور اس فرض کو پورا کرنے کے لیے اب ہم نے بھینس کی زکوٰۃ نکالنی ہے ،
لیکن جب ہمیں حدیث میں بھینس کی زکوٰۃ نکالنے کا نصاب نہیں ملتا تو ہم مجبور ہیں کہ بھینس کو گائے پہ قیاس کر کے اسکے مطابق زکوٰۃ نکالیں،
اور کوئی راستہ نہیں ہمارے پاس، تا کہ زکوٰۃ نہ ادا کرنے کی وجہ سے ہم گناہ میں ملوث نہ ہو جائیں،
👈 ٹھیک اسی طرح جو قربانی کے لئے بھیڑ،بکری،گائے،اونٹ اصل جانور ہیں،
اگر یہ جانور نہ ملیں تو پھر ہم مجبور ہیں کہ اللہ کا حکم بجا لانے کے لیے ہم بھینس کو گائے پر قیاس کر کے اسکی قربانی کریں،
اور یقیناً اس وقت یہ جائز بھی ہو گا،لیکن جب قربانی کے لئے اصل جانور بھیڑ،بکری ،گائے،اونٹ عام دستیاب ہیں
تو پھر ہم آسانی یا چند پیسے بچانے کی خاطر قیاس کیوں کریں؟؟
اگر فرض کریں بھینس کی زکوٰۃ کا نصاب شریعت میں موجود ہوتا تو کیا اس بھینس کو گائے پر قیاس کیا جاتا؟
یقیناً نہیں کیا جاتا، تو یہ بات سمجھ آئی قیاس اس وقت ہوتا ہے جب اصل موجود نا ہو،جب اصل موجود ہو تو قیاس کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی،
۔••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
👈دوسری دلیل:
بھینس کی قربانی کی دوسری دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ بھینس کی زکوٰۃ گائے پر قیاس کر کے دیتے ہیں:
بھینس کی زکوٰۃ کے نصاب کے بارے
امام ابن المنذر فرماتے ہیں:
’’ واجمعوا علی ان حکم الجوامیس حکم البقر‘‘ اور اس بات پر اجماع ہےکہ بھینسوں کا وہی حکم ہے جو گائیوں کا ہے۔
(الاجماع کتاب الزکاۃ ص۴۳حوالہ:۹۱)
اس بنا پر کچھ علماء یہ بھی کہتے ہیں کہ جب بھینس کی زکوٰۃ ہم گائے پر قیاس کر کے اسکے اعتبار سے دیتے ہیں تو بھینس کی قربانی گائے پر قیاس کر کے کیوں نہیں کر سکتے؟؟
🌹 دلیل کا جواب..!!
۔•••••••••••••••••••
سب سے پہلی بات کہ امام ابن المنذر رحمہ اللہ نے زکوٰۃ کے باب میں یہ بات فرمائی ہے کہ زکوٰۃ کے بارے جو حکم گایوں کا ہے وہی بھینسوں کا، جبکہ قربانی کے باب میں ایسی کوئی بات نہیں ملتی،
اور دوسری بات میں دین کا ادنیٰ طالب علم ہونے کے ناطے ایک چھوٹی سی گزارش کرتا ہوں، کہ
کہ قیاس کا سیدھا سادہ اصول یہ ہے جب اصل چیز موجود نہ ہو پھر قیاس سے کام چلایا جاتا ہے،مطلب جیسے اللہ پاک نے جانوروں کی زکوٰۃ فرض کی ہے، اور اس فرض کو پورا کرنے کے لیے اب ہم نے بھینس کی زکوٰۃ نکالنی ہے ، لیکن جب ہمیں حدیث میں بھینس کی زکوٰۃ نکالنے کا نصاب نہیں ملتا تو ہم مجبور ہیں کہ بھینس کو گائے پہ قیاس کر کے اسکے مطابق زکوٰۃ نکالیں، اور کوئی رستہ نہیں ہمارے پاس، تا کہ زکوٰۃ نہ ادا کرنے کی وجہ سے ہم گناہ میں ملوث نہ ہو جائیں،
ٹھیک اسی طرح جو قربانی کے لئے بھیڑ،بکری،گائے،اونٹ اصل جانور ہیں،
اگر یہ جانور نہ ملیں تو پھر ہم مجبور ہیں کہ اللہ کا حکم بجا لانے کے لیے ہم بھینس کو گائے پر قیاس کر کے اسکی قربانی کریں، اور یقیناً اس وقت یہ جائز بھی ہو گا،لیکن جب قربانی کے لئے اصل جانور بھیڑ،بکری ،گائے،اونٹ عام دستیاب ہیں تو پھر ہم آسانی یا چند پیسے بچانے کی خاطر قیاس کیوں کریں؟؟
اگر فرض کریں بھینس کی زکوٰۃ کا نصاب شریعت میں موجود ہوتا تو کیا اس بھینس کو گائے پر قیاس کیا جاتا؟
یقیناً نہیں کیا جاتا، تو یہ بات سمجھ آئی قیاس اس وقت ہوتا ہے جب اصل موجود نا ہو،جب اصل موجود ہو تو قیاس کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی،
۔۔•••••••••••••••••••
🌹حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں ،
کہ نبی کریم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے بغیر اونٹ ، گائے اور بکری کے کسی قسم کے حیوان کی قربانی کرنا منقول نہیں ہے
(تلخیص الحبیر :ج۲ص۲۸۴)
۔۔•••••••••••••••••••••
🌹حافظ عبداللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :۔۔۔۔یاد رہے کہ بعض مسائل احتیاط کے لحاظ سے دو جہتوں والے ہوتے ہیں اور عمل احتیاط پر کرنا پڑتا ہے ام المومنین حضرت سودہ کے والد زمعہ کی لونڈی سے زمانہ جاہلیت میں عتبہ بن ابی وقاص نے زنا کیا لڑکا پید ا ہوا جو اپنی والدہ کے پاس پروش پاتا رہا زانی مر گیا اور اپنے سعد بن وقاص کو وصیت کر گیا کہ زمعہ کی لونڈی کا لڑکا میرا ہے اس کو اپنے قبضہ کرلینا فتح مکہ کے موقع پر سعد بن ابی وقاص نے اس لڑکے کو پکڑ لیا اور کہا یہ میرا بھتیجہ ہے زمعہ کے بیٹے نے کہا کہ یہ میرے باپ کا بیٹا ہے لہذا میرا بھائی ہے اس کو میں لوں گا مقدمہ دربار نبوی میں پیش ہوا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا الولد للفراش وللعاہر الحجر ۔اولاد بیوی والے کی ہے اور زانی کے لئے پتھر ہیں یعنی وہ ناکام ہے اور اس کا حکم سنگسار کیا جانا ہے بچہ سودہ رضی اللہ عنھا کے بھائی حوالے کر دیا جو حضرت سودہ کا بھی بھائی بن گیا لیکن حضرت سودہ کو حکم فرمایا کہ وہ اس سے پردہ کرے کیونکہ اس کی شکل وصورت زانی سے ملتی تھی جس سے شبہ ہوتا تھا کہ یہ زانی کے نطفہ سے ہے۔
دیکھئے اس مسئلہ میں شکل و صورت کے لحاظ سے تو پردے کا حکم ہوا اور جس کے گھر میں پیدا ہوا اس کے لحاظ سے اس کا بیٹا بنا دیا ،
گویا احتیاط کی جانب کو ملحوظ رکھا ایسا ہی معاملہ بھینس کا ہے اس میں دونوں جہتوں میں احتیاط پر عمل ہوگا ،زکوۃ ادا کرنے میں احتیاط ہے اور قربانی نہ کرنے میں احتیاط ہے اس لئے بھینس کی قربانی جائز نہیں ۔
اور بعض نے جو یہ لکھا ہے کہ الجاموس نوع من البقر یعنی بھینس گائے کی قسم ہے تو انکا یہ کہنا بھی زکوۃ کے لحاظ سے ہے، ورنہ ظاہر ہے کہ بھینس دوسری جنس ہے
(فتاوی اہل حدیث_ ج۲ ص۴۲۶)
۔۔۔•••••••••••••••••••
🌹اس فتوے پر تبصرہ کرتے محقق العصر عبدالقادر حصاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
کہ آپ (محدث روپڑی صاحب)کے مجتہد اور جامع المغموص ہونے کا بندہ پہلے ہی معترف ہے مگر گزشتہ پرچہ (تنظیم اہل حدیث جلد ۱۶شمارہ ۴۲ ،۱۷ اپریل ۱۹۶۴ )میں بھینسا کی قربانی کے فتوی میں آپ نے حدیث زمعہ سے اجتہاد فرما کر زکوۃ اور قربانی میں احتیاطی صورت کو جس طرح مدلل کیا ہے وہ آ پ کے مجتہد مطلق ہونے پر بین دلیل ہے ،اور ہمیں فخر ہے کہ ہماری جماعت میں بفضلہ تعالی مجتھد موجود ہیں ۔۔۔آپ نے جو جواب دیا ہے اس سے حنفیہ کا اعتراض اور استدلال رفع ہو گیا ہے
(فتاوی حصاریہ ج ۵ ص ۴۴۲)
۔•••••••••••••••••
🌹مفتی مبشر ربانی حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
ائمہ اسلام کے ہاں جاموس یعنی بھینس کا جنس بقر سے ہونا مختلف فیہ ہے مبنی بر احتیاط اور راجح موقف یہی ہے کہ بھینس کی قربانی نہ کی جائے بلکہ مسنون قربانی اونٹ ،گائے ،بھیڑ بکری سے کی جائے جب یہ جانور موجود ہیں تو ان کے ہوتے ہوئے مشتبہ امور سے اجتناب ہی کرنا چاہئے اور دیگر بحث و مباحثے سے بچنا ہی اولی وبہتر ہے۔
(احکام ومسائل ص۵۱۱)
۔۔۔•••••••••••••••••••••
🌹شیخ الاسلام حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ لکھتے ہیں کہ،
زکوۃ کے سلسلے میں،اس مسئلہ پر اجماع ہے کہ بھینس گائے کی جنس میں سے ہے۔ اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ بھینس گائے کی ہی ایک قسم ہے۔ تا ہم چونکہ نبی کریمﷺ یا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین سے صراحتا بھینس کی قربانی کا کوئی ثبوت نہیں لہذٰا بہتر یہی ہے کہ بھینس کی قربانی نہ کی جائے بلکہ صرف گائے،اونٹ،بھیڑ اور بکری کی ہی قربانی کی جائے اور اسی میں احتیاط ہے۔واللہ اعلم
( فتاوی علمیہ،جلد/دوم_ص181)
۔۔•••••••••••••••••
🌹سید سابق رحمہ اللہ فرماتے ہیں،
قربانی اونٹ ،بکری،بھیڑ اور گائے کے علاوہ جائز نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ یاد کریں اس پر اللہ کا نام جو اللہ نے انہیں مویشیوں اور چوپایوں میں سے دی ہے،
(فقہ السنہ ج3/ص264)
۔۔••••••••••••••••••••
🌹شیخ رفیق طاھر صاحب حفظہ اللہ،
فرماتے ہیں،
ان آٹھ جانوروں (۱،۲بکری نرومادہ، ۳ ،۴بھیڑ نرومادہ، ۵ ،۶اونٹ نرو مادہ، ۷ ،۸گائے نرومادہ) کے علاوہ دیگر حلال جانور (پالتو ہوں یا غیر پالتو) کی قربانی کتاب وسنت سے ثابت نہیں ۔ لہٰذا بھینس یا بھینسے کی قربانی درست نہیں ۔ قربانی ان جانوروں کی دی جائے جن کی قربانی رسول اللہﷺ کے قول وعمل و تقریر سے ثابت ہو،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں