قرآن وحدیث کی روشنی میں
قربانی کے احکام ومسائل
الحمد اللہ وصلاۃ وسلام علی
رسول اللہ و بعد ،،،،،
عشرہ ذو الحجہ کی بڑی فضیلت ہے،اس میں بڑے بڑے اعمال انجام دئے جاتے
ہیں ،ان اعمال میں ایک اہم ترین عمل اللہ کی قربت کی نیت سے قربانی کرنا ہے ۔
قربانی جانور ذبح کرنے اور گوشت کھانے کا نام نہیں ہے ، یہ ایثار وجاں نثاری ،
تقوی وطہارت ،مومنانہ صورت وسیرت اور مجاہدانہ کردار کا حامل ہے ،اس لئے قربانی
کرنے والوں کو اپنی نیت خالص اور قربانی لوجہ اللہ کرنی چاہئے ۔ اللہ تعالی کا
فرمان ہے : لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا
وَلَا دِمَاۗؤُهَا وَلٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰي مِنْكُمْ(الحج :37) '
ترجمہ: اللہ تک تمہاری قربانیوں کا گوشت یا
خون ہر گز نہیں پہنچتا بلکہ تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔
اور نبی ﷺ کا فرمان ہے : إنَّ اللَّهَ لا ينظرُ إلى أجسادِكُم ، ولا إلى صورِكُم ، ولَكِن
ينظرُ إلى قلوبِكُم(صحیح مسلم:2564)
ترجمہ: بے شک اللہ تمہارے جسموں اور تمہاری
صورتوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے ۔
قربانی کا حکم:
قربانی کے حکم میں اہل علم کے درمیان اختلاف
پایا جاتا ہے ، امام ابوحنیفہ ؒ کو چھوڑکے بقیہ ائمہ ثلاثہ اور جمہور اہل علم سے
سنت مؤکدہ ہونا منقول ہے ۔ دلائل کی رو سےیہی مسلک قوی معلوم ہوتا ہے ۔ نبی ﷺ کا
فرمان ہے :
إذا رأيتم هلالَ ذي الحجةِ ، وأراد أحدكم
أن يُضحِّي ، فليُمسك عن شعرِهِ وأظفارِهِ(صحيح
مسلم:1977)
ترجمہ: جب ذوالحجہ کا مہینہ شروع ہوجائے
اور تم میں سے جو قربانی کرنے کا ارادہ کرے تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔
اس حدیث میں "من اراد" کا لفظ
اختیاری ہے یعنی جو قربانی کرنا چاہےوہ قربانی کرے گویا قربانی واجبی حکم نہیں
اختیاری معاملہ ہے ۔ ترمذی(حدیث نمبر:1506) میں قربانی کے عدم وجوب سے متعلق ایک
روایت ہے جسے شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے ۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے حسن صحیح کہنے
کے بعد لکھا ہے کہ اہل علم کا اسی پرعمل ہے کہ قربانی واجب نہیں ہے بلکہ رسول اللہ
ﷺ کی سنتوں میں سے ایک سنت ہے اور اس پر عمل کرنا مستحب ہے۔ سفیان ثوری اورابن
مبارک کا یہی قول ہے۔
شیخ ابن بازرحمہ اللہ نے ترمذی کی اس روایت
کو ذکر کرکے مشروعیت کا ہی حکم لگایا ہے لیکن یاد رہےقربانی مشروع اوراختیاری یعنی
واجب نہ ہونے کی باوجود جو اس کی طاقت رکھے اور قربانی نہ کرے اس کے لئے بڑی وعید
ہے ۔نبی ﷺ کا فرمان ہے : من كانَ لَه سَعةٌ ولم يضحِّ
فلا يقربنَّ مصلَّانا(صحيح ابن ماجه:2549)
ترجمہ: جس کوقربانی دینے کی گنجائش ہو
اوروہ قربانی نہ دے تو وہ ہمارے عید گاہ میں نہ آئے۔
ترمذی میں ذکر ہے کہ آپ ﷺ مدینہ میں دس سال
قیام کیا اور ہرسال قربانی کی ،اس روایت کو شیخ البانی ؒ نے ضعیف کہا ہے۔
قربانی کی
فضیلت:
قربانی ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ،
اللہ تعالی نے اسے بعد والوں کے لئے بھی باقی رکھا، اللہ کا فرمان ہے : وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْاٰخِرِيْنَ(الصافات:108)
ترجمہ:اور ہم نے اس (چلن) کو بعد والوں کے
لئے باقی رکھا۔
ذو الحجہ کے دس ایام اللہ کو بیحد عزیز ہیں
، ان ایام میں انجام دیا جانے والاہرنیک عمل اللہ کو پسند ہے ، ان میں ایک بہترین
ومحبوب عمل قربانی بھی ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :أعظمُ
الأيامِ عند اللهِ يومُ النَّحرِ ، ثم يومُ القُرِّ(صحيح الجامع:1064)
ترجمہ: اللہ کے نزدیک سب سے عظیم دن یوم
النحر(قربانی کا دن) اور یوم القر(منی میں حاجیوں کے ٹھہرنے کادن ) ہے ۔
ایک حدیث میں نبی ﷺ کا فرمان اس طرح ہے:
أفضلُ أيامِ الدنيا أيامُ العشْرِ(صحيح
الجامع:1133)
ترجمہ: دنیا کے افضل دنوں میں ذوالحجہ کے
ابتدائی دس دن افضل دن ہیں۔
اللہ تعالی نے دس راتوں کی قسم کھائی ہے ان
میں سے ایک رات دس ذو الحجہ کی بھی ہے، اس سے بھی قربانی کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے ۔
قربانی کی
حکمت :
قربانی کی بہت ساری حکمتیں ہیں ان سب سے
اہم تقوی اور اللہ کا تقرب حاصل کرنا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے : قُلْ إِنَّ صَلاَتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلّهِ رَبِّ
الْعَالَمِينَ(الأنعام :162)
ترجمہ: آپ فرمادیجئےکہ بےشک میری نماز،
میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا سب خالص اللہ ہی کے لئے ہےجو سارے جہاں کا
مالک ہے ۔
جو قربانی اس مقصد کو پورا کرنے سے قاصر ہو
وہ عنداللہ مقبول نہیں ہے ۔
قربانی
کرنے والوں کے حق میں :
جو قربانی کا ارادہ کرے وہ یکم ذو الحجہ سے
قربانی کا جانور ذبح ہونے تک اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إذا دخل العَشْرُ ، وعندَهُ أضحيةٌ ، يريدُ
أن يُضحِّي ، فلا يأخذَنَّ شعرًا ولا يُقَلِّمَنَّ ظفرًا(صحيح مسلم:1977)
ترجمہ: جب ذو الحجہ کا عشرہ آجائے اور کسی
کے پاس جانور ہو جو اس کی قربانی دینا چاہتا ہو تو اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔
جو لوگ قربانی کرنے کی طاقت نہ رکھے اگر وہ
بھی بال وناخن کی پابندی کرے تو باذن اللہ قربانی کا اجر پائے گا ۔ نسائی ،
ابوداؤد، ابن حبان ، دارقطنی،بیہقی اور حاکم سمیت متعدد کتب حدیث میں یہ حدیث
موجود ہے ۔عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے
فرمایا:
أمرت بيوم الأضحى عيدا جعله الله عز وجل
لهذه الأمة قال الرجل أرأيت إن لم أجد إلا أضحية أنثى أفأضحي بها قال لا ولكن تأخذ
من شعرك وأظفارك وتقص شاربك وتحلق عانتك فتلك تمام أضحيتك عند الله عز وجل(سنن أبي داود:2789)
ترجمہ: مجھے اضحیٰ کے دن کے متعلق حکم دیا
گیا ہے کہ اسے بطور عید مناؤں جسے کہ اللہ عزوجل نے اس امت کے لیے خاص کیا ہے ۔ایک
آدمی نے کہا : فرمائیے کہ اگر مجھے دودھ کے جانور کے سوا کوئی جانور نہ ملے تو کیا
میں اس کی قربانی کر دوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:نہیں ‘ بلکہ اپنے بال
کاٹ لو ‘ ناخن اور مونچھیں تراش لو اور زیر ناف کی صفائی کر لو ۔ اﷲ کے ہاں تمہاری
یہی کامل قربانی ہو گی ۔
بال وناخن کی پابندی سے متعلق ایک بات یہ
جان لیں کہ یہ پابندی صرف قربانی کرنے والوں کی طرف سے ہے گھر کے دوسرے افراد
مستثنی ہیں لیکن سبھی پابندی کرنا چاہیں تو اچھی بات ہے ۔دوسری بات یہ ہے کہ وہ
آدمی جس نے غفلت میں چالیس دنوں سے بال وناخن نہیں کاٹا تھا اور اس کو قربانی دینی
ہے اس حال میں کہ ذوالحجہ کا چاندبھی نکل آیا ہے ایسا شخص واقعی بہت بڑا غافل ہے
،اگر بال وناخن تکلیف کی حد تک بڑھ گئے ہوں تو زائل کرلے ،اللہ معاف کرنے والاہے
وگرنہ چھوڑ دے۔
قربانی دینے والےنے بھول کر اپنا بال یا
ناخن کاٹ لیا تو اس پہ کوئی گناہ نہیں لیکن جس نے قصدا بال یا ناخن کاٹا ہے اس پر
توبہ لازم ہے
ذبح کرنے کے آداب وطریقہ :
ذبح کرتے وقت جانور کوقبلہ رخ لٹایاجائے ، یہ سنت ہے۔
اگر غیرقبلہ پہ ذبح کرلیاگیاہوتوبھی کوئی حرج نہیں ۔قربانی دینے والا خود سے ذبح
کرے ، اگر ذبح کرنا اس کے لئے مشکل ہوتو کوئی بھی اس کی جگہ ذبح کردے۔ جب جانور
ذبح کرنے لگیں تو چھری کو تیز کرلیں تاکہ جانور کو ذبح کی کم سے کم تکلیف محسوس
ہو۔
زمین پر قبلہ رخ جانور لٹاکر تیزچھری اس کی گردن پہ
چلاتے ہوئے بولیں بسم اللہ واللہ اکبر ۔ اتنا دعابھی کافی ہے اور نیت کا تعلق دل
سے ہے ۔ یہ دعا بھی کرسکتے ہیں :
"بِاسْمِ
اللهِ وَاللهُ أَكْبَرْ أَللهُمَّ هذا مِنْكَ وَلَكَ اَللھُم َّھذَا عَنِّيْ وَ
عْن أهْلِ بَيْتِيْ "
مندرجہ ذیل دعا بهی پڑھنا سنت سے ثابت ہے .
"إنِّي
وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَالسَّمَاْوَاتِ وَاْلأَرْضِ حَنِيْفًا
وَمَاْأَنَاْمِنَ الْمُشْرِكِيْنَ، إِنَّ صَلاْتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَاْيَ
وَمَمَاتِيْ لِلّهِ رَبِّ اْلعَاْلَمِيْنَ، لَاْشَرِيْكَ لَه’وَبِذالِكَ أُمِرْتُ
وَأَنَاْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ، بِاسْمِ اللهِ وَاللهُ أَكْبَرْ أَللهُمَّ هَذا
مِنْكَ وَلَكَ أَللهُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّيْ ( وَمِنْ أَهْلِ بَيْتِيْ)"
*
اس حدیث کو شیخ البانی نے مشکوہ کی تخریج میں صحیح قرار دیا ہے اور شعیب ارناؤط نے
اس کی تحسین کی ہے۔
ذبح کرنے میں چند باتیں ملحوظ رہے ۔ ذبح کرنے والا عاقل
وبالغ مسلمان ہو،کسی خون بہانے والے آلہ سے ذبح کیا جائے،ذبح میں گلہ یعنی سانس کی
نلی اور کھانے کی رگیں کاٹنی ہیں اور ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لینا ہے ۔ بے نمازی
کی قربانی اور اس کے ذبیحہ بابت جواز وعدم جوازسے متعلق علماء میں اختلاف ہے ۔ میں
یہاں اتنا ضرور کہوں گا کہ ترک نماز بالاتفاق کفر ہے ۔ قربانی دینے والا یا ذبح
کرنےوالا اپنے اس عمل سے پہلے توبہ کرے اور آئندہ پابندی نماز کا عہد کرے ۔ عورت
اپنی قربانی اپنے ہاتھوں سے کرسکتی ہے اور قربانی دن کی طرح رات میں بھی کی جاسکتی
ہے ۔
قربانی سے متعلق آخری چند باتیں :
پہلی بات : قربانی کے جانور کی فضیلت میں کوئی صحیح حدیث
ثابت نہیں ہے لہذا بالوں والے اور موٹے تازے جانوروں کی فضیلت والی ضعیف احادیث بیان
نہ کریں، پل صراط پہ موٹا جانور تیزی سےگزرنے والی حدیث بھی ضعیف ہے۔
دوسری بات : قربانی کے وجوب کےلئے لوگوں میں جو زکوۃ کا
نصاب مشہور ہے وہ ثابت نہیں ہے بس اتنی سی بات ہے کہ قربانی کا جانور خریدنے کی
طاقت ہو۔
تیسری بات : قربانی کا جانور ذبح کرنے کی بجائے اس کی
رقم صدقہ کرنا صحیح نہیں ہے ، نہ ہی اس کا گوشت یا اس کی کھال بیچی جائے گی البتہ
ذاتی مصرف میں لاسکتے ہیں ،فقیرومسکین ہدیہ میں ملا گوشت بیچ سکتاہے۔ اجرت میں
قصاب کو قربانی کا گوشت دینا جائز نہیں ،تحفہ میں کچھ دینا ممنوع نہیں ۔
چوتھی بات : حج کی قربانی اور عید کی قربانی دونوں الگ
الگ ہے اس لئے دونوں کا ایک سمجھنا غلط ہے ۔
پانچویں بات : قربانی کو صحیح ہونے کے لئے اخلاص کے
ساتھ مزید پانچ شرائط ہیں : (1)
منصوص جنس میں سے ہو،(2) مسنہ(دانتا ہو)، (3) اپنی ملکیت ہو،(4)حدیث میں بیان کردہ
چار عیوب سے پاک ہو،(5) قربانی کے جائز اوقات میں قربانی دی گئی ہو۔
چھٹی بات : قربانی کے جانور سے متعلق مختلف بدعات
وخرافات ہیں۔ الگ الگ علاقہ میں الگ قسم کی بدعات رائج ہیں ،کہیں جانور کو سجانا،
کہیں جانور کی نمائش کرانا (اور یہ شہروگاؤں ہرجگہ عام ہورہاہے)بلکہ ٹی وی اور
اخبار پر اس کی خبریں شائع کرنا، ذبح کے وقت جانورکو وضو وغسل کرانا، اس کے خون کو
متبرک سمجھ کر گھروں ،سواریوں اور بچوں کے جسموں پر لیپنا یا اسی جانور کے بالوں
اور پیشانی پر ملناوغیرہ ۔ اس قسم کے کاموں کو ثواب کی نیت سے کرنا گناہ کا باعث
ہے کیونکہ جو دین نہیں اسے دین بنالینا بدعت ہے اور ہربدعت گمراہی ہے اور ہرگمراہی
جہنم میں لے جانے والی ہے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں