عیدالاضحی
کے احکام (یومِ عید کے احکام
مسلمان بھائی! اللہ عزوجل
کا شکر ادا کریں جس نے آپ کو یہ عظیم دن نصیب فرمایا اور آپ کی عمر دراز کی کہ آپ
پے در پے ان دنوں اور مہینوں کو دیکھ لیں اور ان ماہ وایام میں ایسے اعمال، اقوال
اور افعال کی نشاندہی فرما دی جو آپ کو اللہ کے قریب کرنے کا وسیلہ ہیں ۔عید اُمت
ِمحمدیہ کا خاصہ، دین کی علامت اور اسلامی شعار ہے۔ اب اس کی حفاظت اور تعظیم ہم
پرلازم ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ذَٰلِكَ
وَمَن يُعَظِّمْ شَعَـٰٓئِرَ ٱللَّـهِ
فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى ٱلْقُلُوبِ
﴿٣٢﴾...سورة الحج
'' جو اللہ کی نشانیوں کی عزت و تکریم کرے تو یہ اس کے دلی تقویٰ
کی وجہ سے ہے۔''
عید
کے دن میں مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھا جائے:
نمازکے
لئے جلد آنا
اللہ
تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَٱسْتَبِقُوا
ٱلْخَيْرَٰتِ
ۚ...﴿١٤٨﴾...سورة
البقرة
''نیکیوں میں آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔''
اور
عید کی نماز تو عظیم نیکیوں میں سے ہے۔
امام
بخاری رحمة اللہ علیه باب التبکیر
للعید(عید کی نماز کے لئے جلدی کرنے کا بیان)
کے تحت حضرت براء بن عازبؓ کی یہ حدیث لائے ہیں :
خطبنا النبي ! یوم النحر فقال:
(إن أوّل ما نبدأ به في یومنا ھذا أن نصلي۔۔ صحیح
بخاری:968 ۔)20
نحرکے
دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:
''اس دن میں ہمارا سب سے پہلا کام عید کی نماز ادا کرنا ہے۔''
حافظ
ابن حجر رحمة اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں :
''اس سے پتہ چلتا ہے کہ عید کے دن سواے عید کی نماز کی تیاری کے
کسی کام میں مشغول ہونا مناسب نہیں اور یہ ضروری ہے کہ نمازِ ) فتح الباری:2؍457 (عید سے پہلے اس کے علاوہ کچھ نہ کیا جائے۔ یہ امر عید گاہ کی
طرف جلدی نکلنے کا تقاضا کرتا ہے۔''21
تکبیر
کہنا
تکبیر
مقید vi مشروع ہے جو کہ فرض نمازوں کے بعد کہی جاتی ہیں اور اس کا وقت یومِ
عرفہ کے دن فجر کے بعد سے لے کر ایامِ تشریق کی آخری یعنی تیرہویں ذی الحجہ کی عصر
کی نماز تک تکبیرات کہی جائیں ، جیسا کہ اللہ نے فرمایا:
وَٱذْكُرُوا
ٱللَّهَ
فِىٓ أَيَّامٍ مَّعْدُودَٰتٍ ۚ...﴿٢٠٣﴾...سورة
البقرة
''اور اللہ کو ان چند گنتی کے دِنوں (ایامِ تشریق) میں یاد کرو۔''
قربانی
کے جانور کوذبح کرنا
عید
کی نماز کے بعد قربانی کے جانور کوذبح کیا جاتا ہے۔ نبیؐ نے فرمایا:
(من ذبح قبل أن یصلي فلیعد مکانھا أخری ومن لم یذبح فلیذبح)
''جس شخص نے عید کی نماز سے پہلے قربانی کا جانورذبح کیا تو وہ
اس کی جگہ پر عید کے بعد ایک اور جانور ذبح کرے اور جس نے نماز سے پہلے ذبح نہیں کیا
وہ بعد میں ذبح کرے۔''( حیح بخاری:5562
)) 22
قربانی
کا جانور ذبح کرنے کے چار دن ہیں جن میں ١٠ ذوالحجہ اور ایام تشریق کے تین دن ہیں
جس طرح کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کل أیام التشریق ذبح
''ایام تشریق سب کے سب قربانی کے دن ہیں۔''vii (السلسلة الصحیحة:2476)
عید
کے دن نئے کپڑے ، خوشبو اور غسل
مردوں
کے لئے عید کے دن یہ ہے کہ وہ غسل کریں ، خوشبو لگائیں اور اِسراف سے بچتے ہوئے
عمدہ لباس پہنیں ، کپڑے کو ٹخنوں سے نیچے نہ لٹکائیں اورداڑھی مونڈنے جیسے حرام
کام کا ارتکاب ہرگز نہ کریں ۔ عورتوں کو نمائشی بناؤ سنگھار کرنے اور خوشبو لگائے
بغیر عیدگاہ کی طرف نکلنا چاہئے۔ مسلمان عورتوں کیلئے مناسب یہی ہے کہ وہ نماز وغیرہ
کیلئے نکلیں تو اللہ کی نافرمانی سے بچتے ہوئے غیر محرم مردوں کے سامنے بناؤ
سنگھار کی نمائش، بے پردگی اور خوشبو لگانے سے مکمل اجتناب کریں ۔
عیدگاہ
کی طرف پیدل جانا اور جاے نماز
عیدگاہ
کی طرف ممکن ہو تو پیدل جانا چاہئے اور یہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔عید
کی نماز کھلی جگہ پر پڑھنا آپ ؐ سے ثابت ہے لیکن بارش وغیرہ کی وجہ سے مسجد میں
بھی پڑھی جاسکتی ہے۔
مسلمانوں
کے ساتھ نماز ادا کرنا اور خطبہ میں شمولیت
علماے
محققین کے نزدیک عید کی نماز پڑھنا واجب ہے۔امام ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ کی بھی یہی
رائے ہے، فرماتے ہیں :
أن صلاة العید واجبة لقوله تعالی
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَٱنْحَرْ ﴿٢﴾...سورة الکوثر
اور
یہ وجوب بغیر شرعی عذر کے ساقط نہیں ہوتا۔ حیض والیوں اور نوعمر لڑکیوں سمیت تمام
عورتوں پر واجب ہے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ عید گاہ میں حاضر ہوں اور حیض والی عورتیں
عیدگاہ میں علیحدہ رہیں ۔
راستہ
بدلنا
نبی
صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے مطابق عیدگاہ میں آتے جاتے راستہ بدلنا سنت ہے۔ __ صحیح بخاری:986 ۔۔۔24
عید کی مبارک باد دینا
عیدکے دن مبارک باد کے طور پر تقبل اﷲ مناومنکم کے
الفاظ کہے جائیں(viii)
۔
25{{{ بیہقی: 3؍319
نماز
سے پہلے کچھ نہ کھانا
حضرت
بریدہؓ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے دن نماز کے لئے کچھ کھا
کر جاتے جبکہ عید الاضحی میں نماز کے بعد کچھ کھاتے۔{{ ترمذی:542
}}26
ان
مقدس ایام میں سرزد ہونے والے غیر مشروع کاموں سے اجتناب کیجئے۔ ان میں سے چند ایک
کا ہم اختصار سے ذکر کرتے ہیں
:
تکبیرات
کو سب لوگوں کا ایک ہی آواز میں اکٹھے پڑھنا یا کسی ایک شخص کے تکبیر کہنے پر سب
کا بیک زبان ہوکر تکبیرات پڑھنا۔
حرام
کردہ چیزوں سے اس دن دل بہلانا، مثلاً گانا وغیرہ سننا، فلمیں دیکھنا، غیر محرم
مردوزن کا آپس میں اختلاط اور اس کے علاوہ دیگرمنکرات کا ارتکاب۔
ان
ایام میں قربانی کرنے والے کا بال اور ناخن کٹوانا جبکہ آپؐ نے ان دنوں میں اس عمل
سے منع فرمایا ہے۔
بلا
مصلحت اور بے فائدہ اسراف و تبذیر کرنا اور یہ اسراف وتبذیر خواہ وہ کپڑوں میں ہو یا
کھانے اور پینے میں ہر حال میں حرام ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَلَا
تُسْرِفُوٓا ۚ
إِنَّهُۥ
لَا يُحِبُّ ٱلْمُسْرِفِينَ
﴿١٤١﴾...سورة الانعام
اِسراف
نہ کرو بے شک وہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔''
عید
کی شب بیداری کے مشروع ہونے کا عقیدہ رکھنا اوراس کی فضیلت میں غیر مستند روایات
نقل کرنا۔
زیارتِ
قبور اور مردوں کو سلام بھیجنے وغیرہ کے لئے عید کے دن کو شرعاً مخصوص سمجھنا۔
عید
کے دن روزہ رکھنا، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الفطر کے دن اور عید
الاضحی کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔{{{
صحیح بخاری: 1991 }}27
ان
ایام میں ہر مسلمان کو خاص طور پر نیکی اور خیر کے کاموں کی کوشش کرنا چاہیے اور
وہ نیک اعمال: صلہ رحمی کرنا، عزیز و اقارب سے میل جول رکھنا، بغض ، حسد اور
ناگواری سے اپنے دل کو پاک رکھنا، مسکینوں ، یتیموں اور فقراء پر مہربانی کرنا اور
ان کے ساتھ تعاون کرکے اُنہیں آسودگی پہنچانا وغیرہ ہے۔
قربانی
سے متعلقہ بعض مشروع احکام
اللہ
تعالیٰ نے اپنے اس فرمان:
فَصَلِّ
لِرَبِّكَ وَٱنْحَرْ
﴿٢﴾...سورة الکوثر
وَالْبُدْنَ
جَعَلْنَاهَا لَكُم مِّن شَعَائِرِ اللَّـهِ...﴿٣٦﴾...سورۃ
الحج
کے
ساتھ قربانی کرنے کو مشروع قرا ردیا ہے اور یہ سنت ِمؤکدہ ہے ، باوجود استطاعت کے
قربانی نہ کرنے کو ناپسند کیا گیاہے۔
حضرت
انس کی روایت میں ہے کہ ان رسول اﷲ ! ضحی
بکبشین ملحین قرنین ذبحھما بیدہ وسمی وکبر(37 صحیح بخاری:1494}})''نبی صلی اللہ علیہ
وسلم نے دو سینگوں والے چتکبرے مینڈھوں کی
قربانی کی اور اُنہیں اپنے ہاتھ سے بسم اللہ، اللہ اکبر پڑھتے ہوئے ذبح کیا۔''
اور
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
ما
عمل آدم من عمل یوم النحر أحب إلی اﷲ من إہراق الدم،إنھا لتأت یوم القیامة
بقرونھا وأشعارھا وأظلافها وإن الدم لیقع من اﷲ بمکان قبل أ ن یقع من الأرض،فطیبوا
بھا نفسا
''نحر کے دن آدمی کاکوئی عمل ایسا نہیں جو اللہ کے ہاں اتنا پسندیدہ
ہو جتنا کہ اس دن خون بہانا اور یہ قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں،
کھروں اوربالوں کے ساتھ آئے گا۔ اور خون زمین پر گرنے سے پہلے ہی یہ عمل اللہ کی
بارگاہ میں شرف قبولیت حاصل کر لیتا ہے ،پس اپنے دلوں کو قربانی کرنے پر راضی
کرو۔'' جامع ترمذی:1493 'ضعیف' {38}{
رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب اپنی اور اپنے گھر
والوں کی طرف سے قربانی کرتے تھے۔
شیخ محمد بن صالح عُثیمین
سے سوال کیا گیا کہ کیا محتاج قرض لے کر قربانی کرسکتا ہے؟
آپ
نے جواب دیا: ''اگر تو اسے یقین ہے کہ وہ قرض ادا کرسکتا ہے تو قرض لے کر قربانی
کرلے اور اگروہ جانتا ہے کہ اس کے لئے قرض لوٹانا مشکل ہوجائے گا تو قربانی کے لئے
اس کا قرض اُٹھانا مناسب نہیں۔''
قربانی
صرف اونٹ، گائے، بھیڑ اور بکری کی ہوتی ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
لِّيَذْكُرُوا
ٱسْمَ
ٱللَّهِ
عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّنۢ
بَهِيمَةِ ٱلْأَنْعَـٰمِ
ۗ...﴿٣٤﴾...سورة
الحج
''تا کہ (ہر اُمت کے) لوگ ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس
نے ان کو بخشے ہیں ۔''
قربانی کا جانور کیسا ہو؟
بہیمة:قربانی
کے لئے اوّلین شرط یہ ہے کہ وہ جانو رہو جو اللہ نے مشروع کئے ہیں ، اللہ تعالیٰ
فرماتے ہیں :
لِّيَذْكُرُوا
ٱسْمَ
ٱللَّهِ
عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّنۢ
بَهِيمَةِ ٱلْأَنْعَـٰمِ
ۗ...﴿٣٤﴾...سورة
الحج
''تا کہ (ہر اُمت کے) لوگ ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس
نے ان کو بخشے ہیں ۔''
واضح
رہے کہ بہمیة میں
اونٹ ، گائے، بھیڑ اور بکری وغیرہ شامل ہیں ۔
مُسِنّـة:آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
{ صحیح
مسلم } (لا
تذبحوا إلا مسنة إلا أن یعسر علیکم فتذبحوا جذعة من الضأن) 28
''مُسِنَّـة
(دو دانتا ) کے سوا کوئی جانور ذبح نہ کرو، اگر اس کا ملنا دشوار ہوجائے تو بھیڑ
کا جذعہ (کھیرا) ذبح کرلو۔''
قربانی
کی شرائط میں سے ہے کہ جانور ظاہری عیوب سے پاک ہو۔ حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ رسول
صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا:
{ سنن ابو داود: 2804 }(أن
نستشرف العین والأذن)29
''ہم جانور کی آنکھ اور کان اچھی طرح دیکھ لیں ۔''
رسول
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(أربع
لا تجوز في الأضاحي) فقال: (العوراء بین عورھا، والمریضة بین مرضھا، والعرجاء بین
ضلعھا، والکسیر التي لا تنقي) { . ابوداود:2802 } 30
''قربانی کے لئے چار عیبوں والا جانورذبح نہیں کیا جا سکتا :(1)
کانا: جس کا کانا پن ظاہرہو۔ (2) بیمار: جس کی بیماری واضح ہو۔ (3) لنگڑا : جس کا
لنگڑاپن واضح ہو۔ (4) ایسا لاغر کہ اس کی ہڈیوں میں گودا تک نہ ہو۔''
قربانی
کے ذبح کا وقت عید کی نماز کے فوراً بعد شروع ہوجاتا ہے ۔ آپؐ نے فرمایا:
(من
ذبح قبل الصلاة فإنما یذبح لنفسه، ومن ذبح بعد الصلاة فقد تم نسکه وأصاب سنة
المسلمین)
''جس نے عید کی نماز سے پہلے قربانی ذبح کرلی وہ صرف ذبیحہ ہے
اور جس نے نماز کے بعد ذبح کیا، اس کی قربانی ادا ہوگئی اور اس نے مسلمانوں کے طریقہ
کو پالیا۔''{ صحیح بخاری:5546 }31
قربانی میں حصے
اونٹ
کی قربانی میں دس افراد اور گائے کی قربانی میں سات افراد تک شریک ہوسکتے ہیں ۔
ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں تھے
کہ عید الاضحی آگئی۔ ہم نے اونٹ میں 10 آدمیوں اور گائے میں 7 آدمیوں نے شرکت کی۔
{ سنن ابن ماجہ: 3131، ترمذی: 905، نسائی:
4404 }32
ذبح
کرنے والے کے لئے سنت طریقہ یہ ہے کہ وہ ذبح کرتے وقت جانور کے پہلو پر پائوں رکھے
اور دائیں ہاتھ سے ذبح کرے اور ذبح کرتے وقت بسم اﷲ واﷲ أکبر پڑھے ۔ حضرت انسؓ سے
مروی ہے:
أن
رسول اﷲ ضحی بکبشین أملحین فرأیته واضعا قدمه علی صفاحهما، یسمي ویکبر فذبحهما بیدہ
{{{33} صحیح بخاری: 5558 }}}}
''آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو چتکبرے مینڈھوں کی قربانی کی۔ میں
نے دیکھا کہ آپؐ اپنا پائوں جانور کے پہلو پر رکھے ہوئے ہیں اور بسم اﷲ واﷲ أکبر
پڑھ رہے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے ان دونوں مینڈھوں کو ذبح کیا۔''
اونٹ کو نَحرکرنا
اونٹ
کو قربان کرنے کا مسنون طریقہ نَحر کرنا
ہے۔ حضرت انس کہتے ہیں
أن
النبي نحر سبع بدنات قیاما {{ سنن ابو داود: 3793 }}]}34
''آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے کھڑے سات اونٹ اپنے ہاتھ سے
ذبح کئے۔''
طریقہ:
اونٹ کو کھڑا کرکے ایک گھٹنا باندھ دیا جاتا ہے اور کسی آلہ سے اس کی نحر کی جگہ(
یعنی سینہ سے اوپر) گہرا زخم کردیا جاتا ہے ، جس سے سارا خون بہہ جانے کی وجہ سے
اونٹ خود ہی گر جاتا ہے۔
قربانی
دینے والے کے لئے یہ ہے کہ وہ قربانی کا گوشت خود کھائے، عزیز واقارب اور ہمسایوں
کو ہدیہ کرے اور فقراء کو صدقہ کرے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَكُلُوا
مِنْهَا وَأَطْعِمُوا ٱلْبَآئِسَ
ٱلْفَقِيرَ
﴿٢٨﴾...سورة الحج
'' پس
تم خود بھی کھاؤ اور بھوکے فقیروں کوبھی کھلاؤـ۔''
فَكُلُوا
مِنْهَا وَأَطْعِمُوا ٱلْقَانِعَ
وَٱلْمُعْتَرَّ
ۚ...﴿٣٦﴾...سورة
الحج
'خود بھی کھاؤ اور قانع مسکین ( یعنی صبر شکر کرنے والے) اور
سوال کرنے والوں کوبھی کھلاؤ۔''
اسلاف
میں سے بعض پسند کرتے تھے کہ گوشت کے تین حصے کئے جائیں ix ایک حصہ اپنے لئے ، ایک اقربا کو ہدیہ
کے لئے اور ایک حصہ فقرا کے لئے مختص کیا جائے۔ وہ قصاب کو اس گوشت میں سے اُجرت
کے طور پر کچھ بھی نہ دیتے تھے۔
قربانی کی کھال
حضرت
علیؓ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کی قربانیوں کی نگرانی کروں اوران کا گوشت ، کھالیں اور جلیں صدقہ کردوں اور
ان میں سے قصاب کو کچھ نہ دوں ۔ علیؓ کہتے ہیں کہ ہم قصاب کو اپنی گرہ سے اس کی
اُجرت دیتے تھے۔ 35
آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ان کا گوشت کھائو، صدقہ کرو اور ان کی کھالوں سے
فائدہ اُٹھائو۔'' 36
اس
سے معلوم ہوا کہ کھال گھر میں جائے نماز، مشکیزہ یا کسی اور کام کے لئے رکھی جاسکتی
ہے۔
مسلمانو!
اس عظیم کام کے لئے آگے بڑھئے اور ان محروم لوگوں کی طرح نہ ہوجائیے کہ سارا سال
مالِ کثیر خرچ کرتے ہیں اور جانور بھی ذبح کرتے ہیں لیکن جب عید کا وقت آتا ہے تو
قربانی خریدنے میں سستی اور لاپرواہی برت جاتے ہیں ۔
اے
اللہ! ہمیں یہ دن ہر سال دیکھنا نصیب فرما اور ہمیں اپنے نیک بندوں میں شامل فرما
لے۔ ہمیں ، ہمارے والدین اور تمام مسلمانوں کی بخشش فرما۔ آمین!
وصلی
اﷲ علی نبینا محمد وعلی آله وصحبه أجمعین
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں