خطبہ جمعہ
17۔جولايی
فحاشی کی مذمت
سلام
کے واضح اور پاکیزہ احکام مصائب و آلام سے دوچار انسانیت کے لئے راحت وسکون اور
فرحت و انبساط کا باعث ہیں۔ دنیا اور آخرت کی تمام بھلائیاں اور کامیابیاں ان میں
پوشیدہ ہیں۔ اسلام کی یہ عظمت و رِفعت ابلیس اور اس کے پیروکاروں کے دل و دماغ میں
نوکدار کانٹوں کی مانند چبھن پیدا کرتی ہے۔ چنانچہ اس اذیت سے نجات حاصل کرنے اور
اپنے اصل مقصدکی بجاآوری کے لئے شیطان کا گروہ ہروقت اس جدوجہد میں مگن ہے کہ جیسے
بھی ممکن ہو، ابن ِآدم کو راہِ راست سے منحرف کرکے اسلام سے بیزار کردیا جائے اور
انہیں لذت کے سرور میں مبتلا کرکے اسلام کی تعلیمات اور حق و صداقت کی پہچان سے اس
قدر دور کردیا جائے کہ مخلوق اپنے پیدا کرنے والے کو بھول کر اس کی یاد سے غافل
ہوجائے۔
پس
نیکی اور بدی کے مابین یہ جنگ اُسی روز سے جاری ہے جس دن ابلیس نے اللہ تعالیٰ کے
حکم کے باوجود حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا تھا۔ اس عدمِ
اطاعت پرخالق ِکائنات نے شیطان کے مہلت طلب کرنے پر اسے یومِ آخرت تک مہلت عطا
فرمائی تاکہ وہ انسان کو اپنی خوش نما اور دل فریب چالوں کے پھندے میں پھنسا کر سیدھے
راستے سے بھٹکا سکے۔ چنانچہ سب سے پہلا اور مہلک ترین داوٴ جو شیطان نے کھیلا، یہ
تھا کہ اس نے دھوکا دہی اور کذب بیانی کے ساتھ آدم و حوا علیہما السلام کو اس درخت
کے چکھنے پرمجبور کردیا جس کے پاس جانے سے بھی اللہ نے منع فرمایا تھا۔ اس نافرمانی
اور معصیت کے نتیجے میں آدم و حوا
کے ستر ایک دوسرے کے سامنے کھل گئے اور وہ فطری شرم و حیا
کی بنا پر اپنے برہنہ جسموں کو پتوں سے چھپانے لگے۔ اس واقعے کا قرآن حکیم میں یوں
تذکرہ کیا گیا:
"اور ہم نے( آدم
سے) کہا کہ تم اور تمہاری بیوی بہشت میں رہو سہو اور
جہاں سے چاہو (اور جو چاہو) نوشِ جان کرو مگر اس درخت کے پاس نہ جانا ورنہ گناہ
گار ہوجاوٴ گے۔ تو شیطان دونوں کو بہکانے لگا تاکہ ان کے ستر کی چیزیں جو ان سے
پوشیدہ تھیں، کھول دے اور کہنے لگا کہ تمہیں تمہارے پروردگار نے اس درخت سے صرف اس
لئے منع کیا ہے کہ کہیں تم فرشے نہ بن جاوٴ یا ہمیشہ جیتے نہ رہو اور ان سے قسم
کھاکر کہنے لگاکہ میں تو تمہارا خیرخواہ ہوں۔
غرض
(مردود نے ) دھوکا دے کر ان کو (گناہ کی طرف) کھینچ ہی لیا۔ جب انہوں نے اس درخت
(کے پھل) کو کھا لیا تو ان کے ستر کی چیزیں کھل گئیں اور وہ جنت کے (درختوں کے)
پتے اپنے اوپر چپکانے (اور ستر چھپانے) لگے۔ تب ان کے ربّ نے ان کو پکارا کہ کیا میں
نے تمہیں اس درخت (کے پاس جانے) سے منع نہیں کیا تھا اور بتا نہیں دیا تھا کہ شیطان
تمہارا کھلم کھلا دشمن ہے۔"
(ترجمہ آیات ، الاعراف:۱۹تا۲۲)
---------------------------------------------------------------------
عصرحاضر
میں مسلمانوں کے اخلاق و کردار کی پستی کا ایک تاریک پہلو یہ بھی ہے کہ ہم عریانی
و فحاشی یا عرفِ عام میں بے پردگی کو ایک غیر اہم مسئلہ تصور کرتے ہیں، حالانکہ
اللہ تعالیٰ قرآن حکیم(النور :۱۹) میں ارشاد فرماتا ہے
اِنَّ الَّـذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ
الْفَاحِشَةُ فِى الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لَـهُـمْ عَذَابٌ اَلِيْـمٌ فِى
الـدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۚ وَاللّـٰهُ يَعْلَمُ وَاَنْتُـمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (19)
بے
شک جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمانداروں میں بدکاری کا چرچا ہو ان کے لیے دنیا اور آخرت
میں دردناک عذاب ہے، اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
ایک
دوسرے مقام پر یوں فرمایا\
اور
اپنے گھروں میں بیٹھی رہو اور گزشتہ زمانہ جاہلیت کی طرح بناؤ سنگھار دکھاتی نہ
پھرو، اور نماز پڑھو اور زکوٰۃ دو اور اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو،
اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے اس گھر والو تم سے ناپاکی دور کرے اور تمہیں خوب پاک کرے۔
جو لوگ عریانی و فحاشی کو صرف ایک معاشرتی برائی سمجھتے
ہیں اور اس کے نقصانات اور برے اثرات کو نوجوان نسل کے اخلاق وکردار کے لئے اتنا
تباہ کن خیال نہیں کرتے وہ درحقیقت اس کے نقصانات کا حقیقی ادراک نہیں کرتے۔حقیقت
تو یہ ہے کہ بے پردگی اور اخلاقی بے راہ روی ہی بہت سی برائیوں اور گمراہیوں کی جڑ
ہے۔ جب کسی بے پردہ عورت پرمرد کی نظر پڑتی ہے تو اس کے دل و دماغ میں ہیجان برپا
ہوجاتاہے، اس عورت کی یاد مرد کی عبادت میں خلل انداز ہوتی ہے اور وہ شخص آہستہ
آہستہ یادِ خداوندی سے غافل ہوکر راہِ راست سے بھٹک جاتا ہے۔ اس گمراہی کاذمہ دار
کون ہے ؟
حافظ ابن قیم نے ذکر کیا ہے کہ" مصر میں ایک
نوجوان رہتا تھا، وہ مسجد میں اذان دیتا اور نماز پڑھتا تھا۔ اس کے چہرے پر عبادت
کا نور عیاں تھا۔ ایک روز وہ حسب ِمعمول مسجد کے مینار پر اذان دینے کے لئے چڑھا
تو مسجد کے پڑوس میں ایک خوبصورت عیسائی لڑکی پر اس کی نگاہ پڑگئی۔ مینار سے اتر
کر وہ اس کے گھر چلا گیا۔ لڑکی نے پوچھا کہ : تم یہاں کیسے آئے ہو؟ اس نوجوان نے
کہاکہ تمہاری محبت مجھے یہاں کھینچ لائی ہے۔ لڑکی نے کہا کہ میں تمہاری آرزو کبھی
پوری نہیں کرسکتی۔ لڑکے نے کہا: میں تم سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔ لڑکی نے کہا: یہ کیسے
ہوسکتا ہے، تم مسلمان ہو اور میں عیسائی۔ لڑکے نے کہاکہ میں عیسائیت اختیار کرلیتا
ہوں۔ چنانچہ وہ عیسائی ہوگیا اور ان کے ساتھ رہنے لگا۔ ایک رات وہ سونے کے لئے
مکان کی چھت پر گیا، پاوٴں پھسلا تو نیچے آگرا اور مر گیا۔ یوں اس لڑکے نے ایمان
سے تو ہاتھ دھویا ہی تھا، اس لڑکی سے نکاح پر بھی قادر نہ ہوسکا۔" یعنی حال
اس شعر کے مصداق ہوگیا
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
جس شخص میں غیرت و حمیت اور عفت و آبرو کی حفاظت کے
جراثیم ہی ختم ہوجائیں، اسے انسان کہلانے کا کوئی حق نہیں،کیونکہ شرم و حیا ہی
انسانیت کا طرہٴ امتیاز ہے اور اسی سے فرد کو اپنی بقا اور سلامتی کا پیغام ملتا
ہے۔اسی لئے اسلام نے بھی اپنی تعلیمات میں حیا کی اہمیت پر بہت زور دیا ہے۔ چنانچہ
نبی اقدسﷺنے ارشاد فرمایا: "حیا ایمان کا حصہ ہے۔" ( بخاری(
نیز فرمایا: "گذشتہ انبیا کے کلام میں سے یہ بھی
ہے کہ شرم و حیا رخصت ہوجائے تو پھر جو چاہے کرو۔" (صحیح بخاری)
خود آپﷺ کے متعلق حضرت ابوسعید خدری
بیان فرماتے ہیں کہ "نبی1 پردہ نشین کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیادار تھے۔
" (صحیح بخاری، کتاب الادب)
جوشخص اپنی بیوی،بہن یا ماں کے اجنبی افراد سے ملنے پر
خوشی محسوس کرتا ہے، وہ کتنا بے غیرت ہے، وہ آرزو رکھتا ہے کہ لوگ اس کی گھریلو
خواتین کی خوبصورتی کا اعتراف کریں، حالانکہ ایسی عورتیں جوغیرمردوں کے سامنے اپنا
حسن و جمال ظاہر کرتی ہیں، درحقیقت انسانیت کا بدصورت طبقہ ہیں۔ زمین پر چلنے والے
بے زبان جانور اور رینگنے والے بے حیثیت کیڑے مکوڑے ان سے کئی گنا بہتر ہیں، کیونکہ
ایسی عورتیں ابلیس کی فرمانبرداری کو اللہ کی اطاعت پر ترجیح دیتی ہیں اور اس
راستے کو اختیار کرکے اللہ کے غضب کو دعوت دیتی ہیں جس کی منزل دوزخ کی بھڑکتی ہوئی
آگ ہے۔ ان ہی کے متعلق آپ نے ارشاد فرمایا: "دوزخیوں کی دو قسمیں ہیں جنہیں میں نے نہیں دیکھا۔ ایک وہ لوگ
جن کے پاس بیل کی دم کی مانند کوڑے ہیں جن سے وہ لوگوں کومارتے ہیں اور دوسری وہ
عورتیں ہیں جو کپڑے پہننے کے باوجود ننگی ہیں (لباس اتناباریک پہنتی ہیں) یہ خود
بھی لوگوں کی طرف مائل ہوتی ہیں اور انہیں بھی اپنی جانب جھکاتی ہیں۔ ان کے سربختی
اونٹ (ایک قسم) کی کوہان کی مانند ایک طرف جھکے ہوئے ہیں۔ یہ جنت میں داخل نہ ہوں
گی بلکہ اس کی خوشبو بھی نہ سونگھ سکیں گی۔" (صحیح مسلم، کتاب اللباس)
ان عورتوں کی پہچان یہ ہے کہ ان کے دل ہمیشہ حقیقی راحت
و سکون کو ترستے رہتے ہیں۔ ایسی عورتوں کی ہر مسکراہٹ میں درد و غم کاسمندر موجزن
ہے، ان کی ہر مسرت و شادمانی میں حسرت و ندامت کی پرچھائیں ہوتی ہیں، ان کی ہر
حالت میں بے اطمینانی اور کرب کا شائبہ ہوتا ہے اور ان کی ہر آرزو میں فطرت سے
بغاوت کی صدا شامل ہوتی ہے!!
دورِ حاضر میں عریانی و فحاشی کے فروغ اور بحیثیت
ِمجموعی انسان کے اخلاق و روحانی زوال کے اس الم انگیز اور افسوسناک تجزیے کے بعد
سوال یہ ہے کہ پوری دنیا کے انسانوں کو بے راہ روی اور مادر پدر آزادی کے اس تباہ
کن حالالت
سے کیسے نکالا
جائے؟
یہ سوال پوری اُمت ِمسلمہ کے مصلحین کے لیے لمحہ فکریہ
ہے کیونکہ جو معاشرہ عریانی و فحاشی کے ذریعے بدکاری کے عذاب میں مبتلا ہوجائے اور
جس قوم کے افراد شہوانیت پرستی اور نفسیاتی چاہتوں ہی کو سب کچھ سمجھ لیں، ان
پروقتی دعوت و تبلیغ اور وعظ و نصیحت کا اثر انداز ہونا اگر ناممکن نہیں تو انتہائی
مشکل ضرور ہے کیونکہ نفس کے فتنے کی شدت سے صرف وہی لوگ باخبر ہیں جو اس کا کڑوا
مزا چکھ چکے ہوں۔ یہ سوال اس قدر فکر انگیز ہے کہ انتہائی سوچ بچار کے باوجود ہم
اس کا جواب تلاش کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔لہٰذا ہم کسی اور صاحب ِغوروتدبر کو
دعوت فکر و نظر دیتے ہیں کہ وہ ابلیس کی اس موٴثر، دلکش اور کشش انگیز سازش کا توڑ
تلاش کریں جو آج کے انسان کو اس حقیقی انسانیت سے روشناس کراسکے جسے اللہ نے دیگر
تمام مخلوق پرفضیلت و بزرگی عطا فرمائی ہے- اللہ تعالی ہم سب کو
ایمان کی دولت سے نوازے ۔ آمین ۔
خطبہ جمعہ ۔
عبدالمومن سلفی
مقام ۔ ہوم ٹنگمرگ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں