اپنے
دین کو فتنوں سے کیسے بچائے
مسلمان
اللہ تعالی کی توفیق سے اپنے دین کو فتنوں سے محفوظ کرتا ہے؛ اور جس راستے
پر چلنے کا مومنین کو حکم دیا گیا ہے اسی راہ کا راہی بنتا ہے ،وہ راستہ درج ذیل
امور کو شامل ہیں:
1- اخلاقی اور دینی اعتبار سے گرے ہوئے معاشرے سے دور رہے، اس کیلیے کفار کے
علاقوں میں رہائش اختیار کرنے سے اجتناب کرے، اپنے آپ کو فاسقوں کی صحبت سے بچائے،
چنانچہ جو شخص دین میں بگاڑ اور خرابیاں پیدا کرنے کے اسباب سے دور رہے گا تو اللہ
تعالی کے حکم سے اس کا دین بگڑنے سے محفوظ رہے گا ، اور یہ بھی ممکن ہے کہ کفار کے
معاشرے میں رہنے والا مسلمان شخص کفریہ معاشرے سے متاثر ہو جائے ، ہم نے بہت سے
ایسے لوگوں کے بارے میں اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا ہے کہ وہ دین
اسلام سے بیزار ہو گئے، جنہوں نے اپنے دین کا سودا فانی دنیا سے کر لیا؛ اس کی وجہ
صرف یہ تھی کہ وہ کفریہ معاشرے اور کافروں سے مرعوب ہو گئے، اور ان کے ساتھ
رہنے کی وجہ سے ان کا دل اور ضمیر دونوں مردہ ہو گئے۔
گزشتہ
معاملے سے ملتی جلتی یہ بات بھی ہے کہ : مسلمانوں کے درمیان ایسے اختلافات سے دور
رہے جن میں دخل اندازی کی وجہ سے باہمی بغض، لا تعلقی اور معرکہ آرائی کو ہوا
ملے۔
شیخ
الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مسلمانوں کے ہاں سر اٹھانے والے فتنوں کے حالات کا اچھی طرح سے مطالعہ کریں تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ: کوئی بھی ایسا شخص نہیں ہے جسے ان امور میں دخل اندازی کا فائدہ ہوا ہو؛ کیونکہ ایسے امور میں دخل اندازی کا دینی اور دنیاوی ہر اعتبار سے نقصان ہوتا ہے، اسی لیے اسے شریعت میں منع قرار دیا گیا ہے، لہذا ایسے امور سے بچ کر رہنا ان فرامین الہیہ میں سے ہے جن کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:
فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
ترجمہ: اللہ کے حکم کی مخالفت کرنے والوں کو اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ کہیں انہیں فتنہ یا درد ناک عذاب نہ پہنچ جائے۔[النور: 63]"
" منهاج السنَّة النبوية " ( 4 / 410 )
"مسلمانوں کے ہاں سر اٹھانے والے فتنوں کے حالات کا اچھی طرح سے مطالعہ کریں تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ: کوئی بھی ایسا شخص نہیں ہے جسے ان امور میں دخل اندازی کا فائدہ ہوا ہو؛ کیونکہ ایسے امور میں دخل اندازی کا دینی اور دنیاوی ہر اعتبار سے نقصان ہوتا ہے، اسی لیے اسے شریعت میں منع قرار دیا گیا ہے، لہذا ایسے امور سے بچ کر رہنا ان فرامین الہیہ میں سے ہے جن کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:
فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
ترجمہ: اللہ کے حکم کی مخالفت کرنے والوں کو اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ کہیں انہیں فتنہ یا درد ناک عذاب نہ پہنچ جائے۔[النور: 63]"
" منهاج السنَّة النبوية " ( 4 / 410 )
2- مسلمان کیلیے دین بچانے کے متعلق معاون امور میں یہ بھی شامل ہے
کہ: اپنا ایمان مضبوط بنائے، اس کیلیے واجبات کی ادائیگی اور حرام امور سے
اجتناب یقینی بنائے، چنانچہ سب سے بڑا فرض اور واجب نماز ہے، اس لیے مسلمان کو
نماز قائم کرنے کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے کہ وہ مقررہ وقت پر ، شرائط،
ارکان اور خشوع کے ساتھ نماز ادا کرے، فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَأَقِمِ الصَّلاةَ إِنَّ الصَّلاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ )
ترجمہ: اور نماز قائم کر، بیشک نماز برائی اور بے حیائی کے کاموں سے روکتی ہے۔[العنكبوت: 45]
( وَأَقِمِ الصَّلاةَ إِنَّ الصَّلاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ )
ترجمہ: اور نماز قائم کر، بیشک نماز برائی اور بے حیائی کے کاموں سے روکتی ہے۔[العنكبوت: 45]
نیز
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کثرت سے نیکیاں کرنے کی ترغیب دلائی ہے تا کہ
کوئی فتنہ آپ کے دین کو داغ دار نہ کر سکے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زر،
زن، اور منصب جیسے دنیاوی فتنوں سے خبردار کیا کہ کہیں ان کی وجہ سے اپنے
دین کا سودا نہ کر بیٹھیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ایسا ممکن ہے کہ
رات کے وقت کوئی شخص مسلمان ہو اور جب صبح ہو تو وہ مرتد ہو چکا ہو! یا یہ بھی
ممکن ہے کہ دن میں مسلمان ہو اور رات کے وقت مرتد ہو جائے۔
ابو
ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں
کہ آپ نے فرمایا: (اندھیری رات کے اندھیروں جیسے فتنوں سے قبل نیک عمل
کر لو [جن میں] انسان صبح مومن ہو گا تو شام کو کافر ہو جائے گا یا شام کو مومن ہو
گا تو صبح کو کافر ہو جائے گا، وہ اپنا دین دنیا کے مال و متاع کے عوض بیچ دے گا)
مسلم: (118)
شیخ
محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اہم بات یہ ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اندھیری رات کے اندھیروں جیسے فتنوں سے خبردار فرمایا، جس میں انسان صبح مومن ہو گا تو شام کو کافر ہو جائے گا –اللہ تعالی اپنی حفاظت میں رکھے- ایک دن می
"اہم بات یہ ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اندھیری رات کے اندھیروں جیسے فتنوں سے خبردار فرمایا، جس میں انسان صبح مومن ہو گا تو شام کو کافر ہو جائے گا –اللہ تعالی اپنی حفاظت میں رکھے- ایک دن می
ں ہی انسان اسلام سے پھر جائے گا، دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے گا؟ اس کی وجہ کیا ہو گی؟ دنیا کے بدلے میں اپنے دین کا سودا کر لے گا، اب آپ یہ مت سمجھیں کہ دنیا سے مراد صرف مال ہے، بلکہ اس میں دنیا کی ہر چیز شامل ہے، چاہے وہ مال کی صورت میں ہو یا عزت و جاہ کی شکل میں یا دنیاوی منصب یا عورت سمیت کسی بھی صورت میں ہو، دنیا کی ہر چیز دنیاوی متاع میں داخل ہو گی اور اسی کو اللہ تعالی نے سازو سامان سے تعبیر کیا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فَعِنْدَ اللَّهِ مَغَانِمُ كَثِيرَةٌتم دنیاوی ساز و سامان کی تلاش میں ہو! تو اللہ تعالی کے ہاں ڈھیروں غنیمتیں ہیں۔[النساء: 94] اس لیے دنیا میں کچھ بھی یہ عارضی ساز و سامان ہے۔
چنانچہ
یہ جو لوگ صبح مومن ہوں گے تو شام کو کافر ہو جائیں گے یا شام کو مومن ہوں گے صبح
کافر ہو جائیں گے یہ سب کے سب اپنا دین دنیا کیلیے فروخت کر دیں گے۔
اللہ
تعالی سے دعا کہ ہمیں اور آپ سب کو فتنوں سے محفوظ رکھے، آپ سب بھی ہمیشہ فتنوں سے
اللہ تعالی کی پناہ مانگتے رہیں"
" شرح ریاض الصالحین " ( 2 / 20 )
" شرح ریاض الصالحین " ( 2 / 20 )
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں