بِسّمِ اللَّہ الرّ
حمٰنِ الرَّحیم
إن الحمد لله نحمده ، و نستعينه ، ونستغفره ، ونعوذ
بالله من شرور أنفسنا ، ومن سيئات أعمالنا .من يهده الله فلا مضل له ، ومن يضلل
فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له .وأ شهد أ ن محمداً عبدُه
و رسولُه .
يَاأَيها الذين آ مَنُوا اتقُوا اللهَ حَق تُقَا ته
ولاتموتن إلا وأنتم مُسلمُون,يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ الَّذِي
خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا
رِجَالاً كَثِيراً وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَتَسَاءَلُونَ بِهِ
وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيباً,
يَا أ يها
الذين آ منوا اتقوا الله وقولوا قَو لاً سَديداً يُصلح لَكُم أَ عما لكم وَ يَغفر
لَكُم ذُ نُو بَكُم وَ مَن يُطع الله وَ رَسُولَهُ فَقَد فَازَ فَوزاً عَظيم أَمَّا
بَعْدُ:
فَإِنَّ أَصْدَقَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ،
وَأَحْسَنَ الْهَدْيِ هَدْيُ مُحَمَّدٍ، وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا،
وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ، وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي
النَّارِ
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ كَمَا
صَلَّيْتَ عَلٰی اِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاهِيْمَ اِنَّكَ حَمِيْدٌ
مَّجِيْدٌ
اَللّٰهُمّ بَارِكْ
عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰی اِبْرَاهِيْمَ
وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاهِيْمَ اِنَّكَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ [q
ربنا
آتنا فى الدنيا حسنة و فى الآخرة حسنة و قنا عذاب النار ۔
ربنا
افرغ علينا صبراً وثبت اقدامنا وانصرنا على القوم الکافرين۔
ربنا لا
تواخذنا ان نسينا او اخطاٴنا۔ ربنا
ولا تحمل علينا اصراًکما حملتہ على الذين من قبلنا۔
ربنا ولا تحملنا مالا طاقة لنابہ واعف عنا واغفرلنا وارحمنآ انت مولانا فانصرناعلى
القوم الکافرين۔
ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذ ہديتنا وھب لنا من لدنک رحمة انک انت الوھاب۔
ربنا اننا آمنا فاغفرلنا ذنوبنا وقنا عذاب النار۔
ربنا اغفر لنا ذنوبنا و اسرافنا فى امرنا وثبت اقدامنا و انصرنا على القوم
الکافرين۔
ربنا فاغفر لنا ذنوبنا وکفر عنا سيئاتنا و توفنا مع الابرار۔
اِنَّمَا یُؤمِنُ بِاٰیٰتِنَاالَّذِیْنَ اِذَا
ذُکِّرُوْابِھَا خَرُّوْا سُجَّدًا وَّ سَبَّحُوْا بِحَمْدِ رَبِّھِمْ وَ ھُمْ لَا
یَسْتَکْبِرُوْنَ ٭ تَتَجَافٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ
رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا وَّ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْن٭ فَلَا
تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ جَزَآئً م بِمَا
کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ﴾[.السجدۃ32 : 15۔17]
’’ہماری آیات پر تو وہی ایمان لاتے ہیں کہ
جب انھیں ان کے ساتھ نصیحت کی جاتی ہے تو وہ سجدہ میں گر جاتے ہیں اور اپنے رب کی
تعریف کے ساتھ تسبیح بیان کرتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے۔ان کے پہلو بستروں سے الگ
رہتے ہیں۔وہ اپنے رب کو خوف اور امید سے پکارتے ہیں۔اور ہم نے انہیں جو رزق دیا ہے
اس سے خرچ کرتے ہیں۔پس کوئی نہیں جانتا کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کیلئے کیا چیزیں
ان کیلئے چھپا کر رکھی گئی ہیں۔یہ ان کاموں کا بدلہ ہو گا جو وہ کیا کرتے تھے۔‘‘
تکبر کی
مختلف صورتیں
سامعین گرامی ! حدیث نبوی کی روشنی میں تکبر کی وضاحت
کرنے کے بعد اب ہم اس کی مختلف صورتیں بیان کرتے ہیں۔
1۔اکڑ کر چلنا
زمین پر اکڑ کر چلنا اور فخر وغرور کا مظاہرہ کرنا
تکبر ہے۔جس سے اللہ تعالی نے منع فرمایا ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿ وَ لَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَ لَا
تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ
﴾ [لقمان31 : 18]
’’اور لوگوں ( کو حقیر سمجھتے ہوئے اور اپنے
آپ کو بڑا تصور کرتے ہوئے ) ان سے منہ نہ موڑنا۔اور زمین پر اکڑکر نہ چلناکیونکہ
اللہ تعالی تکبر کرنے والے اور فخر کرنے والے شخص کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
((
بَیْنَمَا رَجُلٌ یَتَبَخْتَرُ،یَمْشِیْ فِی بُرْدَیْہِ، قَدْ أَعْجَبَتْہُ
نَفْسُہُ، فَخَسَفَ اللّٰہُ بِہِ الْأَرْضَ فَہُوَ یَتَجَلْجَلُ فِیْہَا إِلٰی یَوْمِ
الْقِیَامَۃِ)) [صحیح مسلم :2088]
’’ ایک آدمی اپنی دو چادریں پہنے ہوئے اکڑ
کرچل رہا تھا اور خود پسندی میں مبتلا ہو چکا تھا۔اسی دوران اللہ تعالی نے اسے زمین
میں دھنسا دیا۔چنانچہ وہ قیامت تک اس کی گہرائی میں نیچے جاتا رہے گا۔‘‘
اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
: (( مَنْ تَعَظَّمَ فِی نَفْسِہٖ أَوِ اخْتَالَ فِی مِشْیَتِہٖ لَقِیَ اللّٰہَ
وَہُوَ عَلَیْہِ غَضْبَانُ)) [السلسلۃ الصحیحۃ : 543]
’’ جو شخص اپنے آپ کو بڑا جانے یا اکڑ کر
چلے تو وہ اللہ تعالی سے اس حال میں ملے گا کہ وہ اس پر ناراض ہو گا۔‘‘
لہٰذا مسلمان کو اکڑکر چلنے سے بچنا چاہئے۔اور اسے
عاجزی اور انکساری کے ساتھ زمین پر چلنا چاہئے۔
اللہ تعالی نے اپنے بندوں کی صفات میں سے سب سے پہلی
صفت یہ بیان فرمائی ہے :
﴿
وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ہَوْنًا ﴾ الفرقان25
:63 1]
’’ اور رحمن کے حقیقی بندے وہ ہیں جو زمین پر
انکساری سے چلتے ہیں۔‘‘
2۔کپڑا
ٹخنوں سے نیچے لٹکانا
کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکانا بھی تکبر ہی کی ایک صورت
ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
((
مَنْ جَرَّ ثَوْبَہُ خُیَلَائَ لَمْ یَنْظُرِ اللّٰہُ إِلَیْہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ
))
’’ جو شخص اپنا کپڑا تکبر کرتے ہوئے گھسیٹے
اس کی طرف اللہ تعالی قیامت کے روز دیکھنا بھی گوارا نہ کرے گا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث سے ہوتی
ہے، جو بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( مَا أَسْفَلَ مِنَ
الْکَعْبَیْنِ مِنَ الْإِزَارِ فَفِی النَّارِ)) [.صحیح البخاری :5787 ]
’’ جو تہ بند ٹخنوں سے نیچے ہو وہ جہنم کی
آگ میں ہے۔‘‘
اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی
ہے :
((ثَلَاثَۃٌ
لَا یُکَلِّمُہُمُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَا یَنْظُرُ إِلَیْہِمْ، وَلَا یُزَکِّیْہِمْ
وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ))
’’ تین قسم کے لوگوں سے اللہ تعالی قیامت کے
روز نہ بات چیت کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ انھیں پاک کرے گا۔اور ان کیلئے
دردناک عذاب ہو گا۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ تین بار کہے۔تو
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے کہا : وہ یقینا ذلیل وخوار ہونگے اور خسارہ پائیں گے۔یا
رسول اللہ ! وہ کون ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
((
اَلْمُسْبِلُ إِزَارَہُ، وَالْمَنَّانُ، وَالْمُنْفِقُ سِلْعَتَہُ بِالْحَلِفِ
الْکَاذِبِ)) [صحیح مسلم : 106]
’’ اپنے تہ بند کو نیچے لٹکانے والا، احسان
جتلانے والا اور اپنے سودے کو جھوٹی قسم کھا کر بیچنے والا۔‘‘
ان تینوں احادیث سے ثابت ہوا کہ کپڑا ٹخنوں سے نیچے
لٹکانا حرام اور بہت بڑا گناہ ہے۔لہذا جو کپڑا بھی نیچے پہنا ہوا ہو، شلوار ہو یا
چادر، پائجامہ ہو یا پینٹ، اسے ٹخنوں سے اوپر ہی رکھنا چاہئے نیچے نہیں لٹکانا
چاہئے خواہ تکبر نہ بھی ہو۔اور اگر اِس کے ساتھ ساتھ تکبر بھی ہو تو یہ اور زیادہ
سنگین گناہ ہے۔اور اس کی سزا بھی بہت سخت ہے۔جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے ارشاد فرمایا :
((
بَیْنَمَا رَجُلٌ یَجُرُّ إِزَارَہُ خَسَفَ اللّٰہُ بِہٖ فَہُوَ یَتَجَلْجَلُ فِی
الْأرْضِ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ))
’’ ایک آدمی اپنے تہ بند کو گھسیٹ رہا تھا
کہ اللہ تعالی نے اسے دھنسا دیا۔پس وہ قیامت تک زمین کی گہرائی میں نیچے جاتا رہے
گا۔‘‘[ صحیح البخاری:5790]
3۔خود
پسندی میں مبتلا ہونا
جی ہاں، اپنے حسن وجمال، یا خوبصورت لباس، یا مال
ودولت، یا ذہانت وفطانت کی بناء پر خود پسندی میں مبتلا ہونا بھی تکبر ہی کی ایک
صورت ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
((
بَیْنَمَا رَجُلٌ یَمْشِی فِی حُلَّۃٍ تُعْجِبُہُ نَفْسُہُ، مُرَجِّلٌ جُمَّتَہُ،
إِذَا خَسَفَ اللّٰہُ بِہٖ فَہُوَ یَتَجَلْجَلُ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃ)) [صحیح
البخاری:۵۷۸۹،صحیح مسلم : 2088]
’’ ایک آدمی اپنے لمبے لمبے بالوں کو کنگھی
کئے ہوئے خوبصورت لباس میں چل رہا تھا اور خود پسندی میں مبتلا تھا،
اسی دوران اچانک اللہ تعالی نے اسے زمین میں دھنسا دیا۔پس
وہ قیامت تک زمین کی گہرائی میں جاتا رہے گا۔‘‘
اس حدیث میں غور فرمائیں کہ یہ آدمی اپنے حسن وجمال
اور خوبصورت لباس کی وجہ سے خود پسندی کا شکار ہو گیا۔چنانچہ اللہ تعالی نے اسے زمین
میں دھنسا دیا۔والعیاذ باللہ
4۔یہ
پسند کرنا کہ اسے دیکھ کر لوگ کھڑے ہو جائیں !
جی ہاں، یہ بھی تکبر ہی کی ایک علامت ہے۔
ابو مجلز بیان کرتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ آئے
تو انھیں دیکھ کر عبد اللہ بن زبیر اور ابن صفوان کھڑے ہو گئے۔تو انھوں نے کہا : بیٹھ
جاؤ، کیونکہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ آپ نے فرمایا :
((
مَنْ سَرَّہُ أن یَّتَمَثَّلَ لَہُ الرِّجَالُ قِیَامًا فَلْیَتَبَوَّأْ
مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ ))
’’ جس شخص کو یہ بات اچھی لگے کہ لوگ اس کیلئے
( تعظیماً)کھڑے ہو جائیں تو وہ یقین کر لے کہ اس کا ٹھکانا جہنم کی آگ ہے۔‘‘[ جامع
الترمذی : 2755۔حسنہ الترمذی وصححہ الألبانی []
یہی وجہ ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر کھڑے نہیں ہوتے تھے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ
بات ناپسند تھی۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ((لَمْ یَکُنْ شَخْصٌ أَحَبَّ إِلَیْہِمْ مِنْ
رَّسُوْلِ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم وَکَانُوا إِذَا رَأَوْہُ لَمْ یَقُومُوا
لِمَا یَعْلَمُوْنَ مِنْ کَرَاہِیَتِہٖ لِذَلِکَ)) [جامع الترمذی : 2754 وصححہ
الألبانی]
’’ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو رسول اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ محبوب کوئی شخص نہ تھا، اِس کے باوجود وہ جب آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے تھے تو کھڑے نہیں ہوتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ
آپ کو نا پسند ہے۔‘‘
آخر میں اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہم سب کو
تکبر کی تمام صورتوں سے محفوظ رکھے۔آمین
[1] جامع الترمذی : 2755۔حسنہ الترمذی وصححہ
الألبانی [2] جامع الترمذی : 2754 وصححہ الألبانی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں