دنیا کیا ہے؟۔
الحمد للہ
دنیا دارالعمل اور آخرت دار جزا ہے، تو مومنوں کو بدلہ جنت اور کافروں کو جہنم کی صورت میں ملے گا۔
تو جب جنت طیب اور اچھی چیز ہے تو اس میں داخل بھی وہی ہوگا جو کہ اچھا اور طیب ہوگا اور پھر اللہ تعالی طیب اور پاک صاف ہے تو وہ قبول بھی طیب اور پاک صاف چیز ہی کرتا ہے اسی لئے اللہ تعالی کا اپنے بندوں میں یہ طریقہ رائج ہے کہ وہ اپنے بندوں کو آزمانے کےلئے مصائب اور فتنہ میں ڈالتا ہے تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ مومن کون اور کافر کون ہے اور جھوٹے اور سچے کے درمیان تمیز ہوسکے جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
"کیا لوگوں نے یہ گمان کررکھا ہے کہ ان کے صرف اس دعوے پر کہ ہم ایمان لائے ہیں ہم انہیں بغیر آزمائے ہوئے ہی چھوڑ دینگے؟ ان سے پہلوں کو بھی ہم نے خوب آزمایا تھا یقینا اللہ تعالی انہیں بھی جان لے گا جو سچ کہتے ہیں اور انہیں بھی جو معلوم کرلے گا جو کہ جھوٹے ہیں" العنکبوت1-2
تو کامیابی اور نجات اس وقت تک مکمل نہیں ہوگی جب تک کہ امتحان نہ ہوجائے اور طیب خبیث سے علیحدہ نہ ہوجائے اور مومن اور کافر کا پتہ نہ چل جائے جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے:
"جس حال پر تم ہو اسی پر اللہ تعالی ایمان والوں کہ نہ چھوڑدے گا جب تک کہ پاک اور ناپاک کو الگ نہ کردے اور نہ ہی اللہ تعالی ایسا ہے کہ تمہیں غیب سے آگاہ کردے گا"آل عمران 179
وہ آزمائش جس سے اللہ تعالی اپنے بندوں کو مبتلا کرتا ہے تاکہ مومن اور کافر کے درمیان تمیز ہوسکے اس کا ذکر اس فرمان میں کیا ہے:
"اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کرینگے دشمن کے ڈر سے، بھوک پیاس سے، مال وجان اور پھلوں کی کمی سے، اور ان پر صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجئے جنہیں کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تر خود اللہ تعالی کی ملکیت ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں، ان پر ان کے رب کی رحمتیں اور نوازشیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں،" البقرۃ 155-157
تو اللہ تعالی بندوں کو آزمائش میں مبتلا کرتا اور صبر کرنے والوں سے محبت کرتا اور انہیں جنت کی خوشخبری دے رہا ہے۔
اور ایسے ہی اللہ تعالی اپنے بندوں کو جہاد کے ساتھ بھی آزماتا ہے فرمان باری تعالی ہے:
"کیا تم یہ سمجھ بیٹھے ہو کہ تم جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ ابھی تک اللہ تعالی نے یہ ظاہر نہیں کیا کہ تم میں سے جہاد کرنے والے کون ہیں اور صبر کرنے والے کون ہیں؟" آل عمرآن142
اور اسی طرح مال واولاد بھی فتنہ ہیں جس میں اللہ تعالی اپنے بندوں کو مبتلا کرتا ہے تاکہ یہ معلوم کرلے کہ کون شکر کرتا اور کون ناشکری کرتے ہوئے ان میں مشغول رہتا ہے فرمان ربانی ہے:
"اور تم اس بات کو جان لو کہ تمہارے مال اور تمہاری اولادیں ایک امتحان کی چیز ہیں اور اس بات کو بھی جان لو کہ اللہ تعالی کے ہاں بہت بڑا اجر ہے" الانفال/28
اللہ تعالی بعض اوقات مصائب اور بعض اوقات نعمتوں کے ساتھ آزمائش میں ڈالتا ہے تا کہ یہ پتہ چل سکے کہ کون شکر گزار اور کون ناشکرا اور کون اطاعت گزار اور کون نافرمان ہے تو پھر انہیں قیامت کے روز بدلہ دے گا –
فرمان ربانی ہے :
" ہم آزمائش کے لۓ ہر ایک کو برائی اور بھلائی میں مبتلا کرتے ہیں اور تم سب ہماری طرف لوٹاۓ جاؤ گے " الانبیاء / 35
اور پھر یہ آزمائش بھی ایمان کے اعتبار سے ہوتی ہے تو لوگوں میں سب سے زیادہ سخت آزمائش انبیاء کی پھر اسے کم درجے کی پھر اس سے کم والے کی ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
" مجھے اتنا تیز بخار ہوتا ہے جتنا کہ دو آدمیوں کو ہوتا ہے " صحیح بخاری حدیث نمبر 5648
اللہ تعالی اپنے کو کئ قسم کی آزمائش میں ڈالتا ہے ۔
بعض اوقات تو انہیں مصائب وآلام اور فتنے میں ڈال کر امتحان لیتا ہے تا کہ مومن اور کافر اور اطاعت گزار اور نافرمان اور شکر گزار اور ناشکرے کا پتہ چل سکے ۔
اور بعض اوقات جب اس کے بندے نافرمانی کرتے ہیں تو وہ اپنے بندوں کو مصائب میں مبتلا کر کے انہیں سکھاتا ہے تا کہ وہ اس نافرمانی سے باز آ جائیں ۔
جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے :
" تمہیں جو کچھ بھی مصیبتیں آتی ہیں وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کا بدلہ ہے اور وہ تو سب باتوں سے تو درگزر فرما دیتا ہے " الشوری / 30
اللہ سبحانہ و تعالی کا فرمان ہے :
" اور ہم نے انہیں عذاب میں بھی پکڑا تاہم یہ لوگ نہ اپنے رب کے سامنے جھکے اور نہ ہی انہوں نے عاجزی اختیار کی " المومن / 76
اللہ تعالی اپنے بندوں پر بہت زیادہ رحیم ہے اور امت پر بار بار آزمائش لاتا ہے تا کہ وہ واپس لوٹ آۓ اور گناہوں سے توبہ کر کے اللہ تعالی کی حرام کردہ چیزوں کو ترک کر دے تا کہ اللہ تعالی انہیں بخش دے ۔
ارشاد باری تعالی ہے :
" اور کیا ان کو یہ دکھائی نہیں دیتا کہ یہ لوگ ہر سال ایک یا دو بار کسی نہ کسی آفت میں پھنسے رہتے ہیں پھر بھی نہ توبہ کرتے اور نہ ہی نصیحت قبول کرتے ہیں " التوبہ / 126
اور اللہ تعالی کی رحمت ہے کہ وہ گناہوں کی سزا دنیا میں ہی دیتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ لوگ تزکیہ نفس کر لیں اور موت سے پہلے پہلے اللہ کی طرف رجوع کر لیں –
" اور یقینا ہم انہیں قریب کے اور چھوٹے عذاب کے علاوہ چکھائیں گے تا کہ وہ لوٹ آئیں " سجدہ / 21
اور بعض اوقات اللہ تعالی اپنے بندوں کو مصائب میں اس لۓ مبتلا کرتا ہے کہ ان کے درجات بلند کرے اور ان کی برائیاں ختم کرے، جیسا کہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
( کسی بھی مسلمان کو کوئی تکلیف اور بیماری غم اور پریشانی وافسوس حتی کہ اگر کوئی کانٹا بھی چبھتا ہے تو اس کی بناء پر اللہ تعالی اس کے گناہ معاف کر دیتا ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر 5641 صحیح مسلم .
الشیخ محمد بن ابراہیم التویجری کی کتاب : اصول الدین الاسلامی سے لیا گیا--
الحمد للہ
دنیا دارالعمل اور آخرت دار جزا ہے، تو مومنوں کو بدلہ جنت اور کافروں کو جہنم کی صورت میں ملے گا۔
تو جب جنت طیب اور اچھی چیز ہے تو اس میں داخل بھی وہی ہوگا جو کہ اچھا اور طیب ہوگا اور پھر اللہ تعالی طیب اور پاک صاف ہے تو وہ قبول بھی طیب اور پاک صاف چیز ہی کرتا ہے اسی لئے اللہ تعالی کا اپنے بندوں میں یہ طریقہ رائج ہے کہ وہ اپنے بندوں کو آزمانے کےلئے مصائب اور فتنہ میں ڈالتا ہے تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ مومن کون اور کافر کون ہے اور جھوٹے اور سچے کے درمیان تمیز ہوسکے جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
"کیا لوگوں نے یہ گمان کررکھا ہے کہ ان کے صرف اس دعوے پر کہ ہم ایمان لائے ہیں ہم انہیں بغیر آزمائے ہوئے ہی چھوڑ دینگے؟ ان سے پہلوں کو بھی ہم نے خوب آزمایا تھا یقینا اللہ تعالی انہیں بھی جان لے گا جو سچ کہتے ہیں اور انہیں بھی جو معلوم کرلے گا جو کہ جھوٹے ہیں" العنکبوت1-2
تو کامیابی اور نجات اس وقت تک مکمل نہیں ہوگی جب تک کہ امتحان نہ ہوجائے اور طیب خبیث سے علیحدہ نہ ہوجائے اور مومن اور کافر کا پتہ نہ چل جائے جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے:
"جس حال پر تم ہو اسی پر اللہ تعالی ایمان والوں کہ نہ چھوڑدے گا جب تک کہ پاک اور ناپاک کو الگ نہ کردے اور نہ ہی اللہ تعالی ایسا ہے کہ تمہیں غیب سے آگاہ کردے گا"آل عمران 179
وہ آزمائش جس سے اللہ تعالی اپنے بندوں کو مبتلا کرتا ہے تاکہ مومن اور کافر کے درمیان تمیز ہوسکے اس کا ذکر اس فرمان میں کیا ہے:
"اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کرینگے دشمن کے ڈر سے، بھوک پیاس سے، مال وجان اور پھلوں کی کمی سے، اور ان پر صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجئے جنہیں کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تر خود اللہ تعالی کی ملکیت ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں، ان پر ان کے رب کی رحمتیں اور نوازشیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں،" البقرۃ 155-157
تو اللہ تعالی بندوں کو آزمائش میں مبتلا کرتا اور صبر کرنے والوں سے محبت کرتا اور انہیں جنت کی خوشخبری دے رہا ہے۔
اور ایسے ہی اللہ تعالی اپنے بندوں کو جہاد کے ساتھ بھی آزماتا ہے فرمان باری تعالی ہے:
"کیا تم یہ سمجھ بیٹھے ہو کہ تم جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ ابھی تک اللہ تعالی نے یہ ظاہر نہیں کیا کہ تم میں سے جہاد کرنے والے کون ہیں اور صبر کرنے والے کون ہیں؟" آل عمرآن142
اور اسی طرح مال واولاد بھی فتنہ ہیں جس میں اللہ تعالی اپنے بندوں کو مبتلا کرتا ہے تاکہ یہ معلوم کرلے کہ کون شکر کرتا اور کون ناشکری کرتے ہوئے ان میں مشغول رہتا ہے فرمان ربانی ہے:
"اور تم اس بات کو جان لو کہ تمہارے مال اور تمہاری اولادیں ایک امتحان کی چیز ہیں اور اس بات کو بھی جان لو کہ اللہ تعالی کے ہاں بہت بڑا اجر ہے" الانفال/28
اللہ تعالی بعض اوقات مصائب اور بعض اوقات نعمتوں کے ساتھ آزمائش میں ڈالتا ہے تا کہ یہ پتہ چل سکے کہ کون شکر گزار اور کون ناشکرا اور کون اطاعت گزار اور کون نافرمان ہے تو پھر انہیں قیامت کے روز بدلہ دے گا –
فرمان ربانی ہے :
" ہم آزمائش کے لۓ ہر ایک کو برائی اور بھلائی میں مبتلا کرتے ہیں اور تم سب ہماری طرف لوٹاۓ جاؤ گے " الانبیاء / 35
اور پھر یہ آزمائش بھی ایمان کے اعتبار سے ہوتی ہے تو لوگوں میں سب سے زیادہ سخت آزمائش انبیاء کی پھر اسے کم درجے کی پھر اس سے کم والے کی ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
" مجھے اتنا تیز بخار ہوتا ہے جتنا کہ دو آدمیوں کو ہوتا ہے " صحیح بخاری حدیث نمبر 5648
اللہ تعالی اپنے کو کئ قسم کی آزمائش میں ڈالتا ہے ۔
بعض اوقات تو انہیں مصائب وآلام اور فتنے میں ڈال کر امتحان لیتا ہے تا کہ مومن اور کافر اور اطاعت گزار اور نافرمان اور شکر گزار اور ناشکرے کا پتہ چل سکے ۔
اور بعض اوقات جب اس کے بندے نافرمانی کرتے ہیں تو وہ اپنے بندوں کو مصائب میں مبتلا کر کے انہیں سکھاتا ہے تا کہ وہ اس نافرمانی سے باز آ جائیں ۔
جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے :
" تمہیں جو کچھ بھی مصیبتیں آتی ہیں وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کا بدلہ ہے اور وہ تو سب باتوں سے تو درگزر فرما دیتا ہے " الشوری / 30
اللہ سبحانہ و تعالی کا فرمان ہے :
" اور ہم نے انہیں عذاب میں بھی پکڑا تاہم یہ لوگ نہ اپنے رب کے سامنے جھکے اور نہ ہی انہوں نے عاجزی اختیار کی " المومن / 76
اللہ تعالی اپنے بندوں پر بہت زیادہ رحیم ہے اور امت پر بار بار آزمائش لاتا ہے تا کہ وہ واپس لوٹ آۓ اور گناہوں سے توبہ کر کے اللہ تعالی کی حرام کردہ چیزوں کو ترک کر دے تا کہ اللہ تعالی انہیں بخش دے ۔
ارشاد باری تعالی ہے :
" اور کیا ان کو یہ دکھائی نہیں دیتا کہ یہ لوگ ہر سال ایک یا دو بار کسی نہ کسی آفت میں پھنسے رہتے ہیں پھر بھی نہ توبہ کرتے اور نہ ہی نصیحت قبول کرتے ہیں " التوبہ / 126
اور اللہ تعالی کی رحمت ہے کہ وہ گناہوں کی سزا دنیا میں ہی دیتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ لوگ تزکیہ نفس کر لیں اور موت سے پہلے پہلے اللہ کی طرف رجوع کر لیں –
" اور یقینا ہم انہیں قریب کے اور چھوٹے عذاب کے علاوہ چکھائیں گے تا کہ وہ لوٹ آئیں " سجدہ / 21
اور بعض اوقات اللہ تعالی اپنے بندوں کو مصائب میں اس لۓ مبتلا کرتا ہے کہ ان کے درجات بلند کرے اور ان کی برائیاں ختم کرے، جیسا کہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
( کسی بھی مسلمان کو کوئی تکلیف اور بیماری غم اور پریشانی وافسوس حتی کہ اگر کوئی کانٹا بھی چبھتا ہے تو اس کی بناء پر اللہ تعالی اس کے گناہ معاف کر دیتا ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر 5641 صحیح مسلم .
الشیخ محمد بن ابراہیم التویجری کی کتاب : اصول الدین الاسلامی سے لیا گیا--
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں