اپنی زبان منتخب کریں

جمعرات، 2 جون، 2022

حج کی فرضیت واہمیت

 


الحمد للہ رب العالمین والصلاةوالسلام علی أشرف النبیاء والمرسلین وعلی آلہ وصحبہ أجمعین وبعد

إن الحمد ﷲ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونعوذ باللہ من شرور أنفسنا ومن سیئات أعمالنا۔من یھدہ اللہ فلا مضل لہ ومن یضللہ فلا ھادی لہ۔ وأشھد ان لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ وأشھد أن محمدا عبدہ ورسولہ

أما بعد‘ فقد قال اللہ تعالی فی کتابہ الکریم:

اَلْحَجُّ اَشْهُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ١ۚ فَمَنْ فَرَضَ فِیْهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوْقَ١ۙ وَ لَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ١ؕ وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْهُ اللّٰهُ١ؔؕ وَ تَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰى١٘ وَ اتَّقُوْنِ یٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ

حج کے مہینے (معین ہیں جو) معلوم ہیں تو جو شخص ان مہینوں میں حج کی نیت کرلے تو حج (کے دنوں) میں نہ تو عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے اور نہ کسی سے جھگڑے اور نیک کام جو تم کرو گے وہ خدا کو معلوم ہوجائے گا اور زاد راہ (یعنی راستے کا خرچ) ساتھ لے جاؤ کیونکہ بہتر (فائدہ) زادِراہ (کا) پرہیزگاری ہے اور (اے) اہل عقل مجھ سے ڈرتے رہو

حج کی فرضیت واہمیت

حج اسلام کا ایک بنیادی رکن ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

(( بُنِیَ الْإِسْلَامُ عَلٰی خَمْسٍ:شَھَادَۃِ أَن لَّا إِلٰہَ إلِاَّ اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُ،وَإِقَامِ الصَّلاَۃِ،وَإِیْتَائِ الزَّکَاۃِ،وَحَجِّ بَیْتِ اللّٰہِ،وَصَوْمِ رَمَضَانَ[متفق علیہ

’’دین ِ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ اس بات کی گواہی دینا کہ اﷲ تعالیٰ ہی معبودِ برحق ہے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اﷲ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکاۃ ادا کرنا ، حج ِ بیت اللہ کرنا اور رمضان المبارک کے روزے رکھنا۔‘‘

اور حج زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ ہر اس مردوعورت پرفرض ہے جو اس کی طاقت رکھتا ہو۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:(( أَیُّہَا النَّاسُ،قَدْ فَرَضَ اللّٰہُ عَلَیْکُمُ الْحَجَّ فَحُجُّوْا ))

’’ اے لوگو ! اللہ نے تم پرحج فرض کیا ہے ، لہٰذا تم حج کرو۔ ‘‘

یہ سن کر ایک آدمی نے کہا : اے اللہ کے رسول ! کیا ہر سال حج فرض ہے ؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار کی حتی کہ اس نے تین مرتبہ یہی سوال کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( لَوْ قُلْتُ نَعَمْ،لَوَجَبَتْ،وَلَمَا اسْتَطَعْتُمْ)) [صحیح مسلم:1337

’’ اگر میں ہاں کہتا تو ہر سال حج واجب ہو جاتا ، اور ایسا ہو جاتا تو تم اس کی طاقت نہ رکھتے۔ ‘‘

فرضیت ِ حج کی شروط

فرضیتِ حج کی پانچ شرطیں ہیں :

1۔ اسلام۔ یعنی حج صرف مسلمان پر فرض ہوتا ہے ، کافر پر فرض نہیں ہوتا اور اگر کافر حالت ِ کفر میں حج کرلے تو وہ کافی نہیں ہو گا کیونکہ حج سے پہلے اس کا مسلمان ہونا ضروری ہے۔ لہٰذا اسلام قبول کرنے کے بعد اگر وہ صاحب استطاعت ہے تو دوسرا حج فرض ہو گا۔ اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن روانہ کیا تو فرمایا :

(( إِنَّکَ تَأْتِیْ قَوْمًا مِنْ أَھْلِ الْکِتَابِ،فَادْعُہُمْ إِلٰی شَھَادَۃِ أَن لَّا إلٰہَ إلَّا اللّٰہُ ،وَأَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ،فَإِنْ ہُمْ أَطَاعُوْا لِذَلِکَ فَأَعْلِمْہُمْ أَنَّ اللّٰہَ افْتَرَضَ عَلَیْہِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِیْ کُلِّ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ ۔۔۔۔۔ الخ )) [صحیح البخاری:1496،صحیح مسلم :19]

’’ تم اہلِ کتاب کی ایک قوم کے پاس جارہے ہو ،اس لئے تم انہیں ( سب سے پہلے ) اس بات کی طرف دعوت دینا کہ وہ گواہی دیں کہ اﷲ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیںاور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ اگر وہ تمھاری یہ بات مان لیں تو انہیں آگاہ کرنا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔۔۔ ‘‘

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سب سے پہلے اسلام قبول کرنا ضروری ہے اور دوسرے واجباتِ دین کا رتبہ اس کے بعد ہے۔

2۔ عقل۔ یعنی حج عاقل اور باشعورمسلمان پر ہی فرض ہوتا ہے ، مجنون پر نہیں۔کیونکہ مجنون کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرفوع القلم ( غیر مکلف ) قرار دیا ہے۔

3۔ بلوغت۔ فرضیتِ حج کیلئے بلوغت شرط ہے کیونکہ نابالغ بچہ مکلف نہیں ہوتا ، البتہ نابالغ بچہ حج کر سکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک عورت نے اپنا ایک بچہ بلند کیا اور کہا : اے اللہ کے رسول ! کیا یہ حج کر سکتا ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((نَعَمْ، وَلَکِ أَجْرٌ )) ’’ ہاں اور تمہیں بھی اجر ملے گا۔‘‘[ صحیح مسلم:1336

[1] [2] [3]

لیکن اس کا یہ حج فرض حج سے کفایت نہیں کرے گا۔ بالغ ہونے کے بعد اگر وہ مستطیع ہو تو اسے فرض حج دوبارہ کرنا پڑے گا۔

4۔ آزادی۔یعنی حج آزاد مسلمان پر ہی فرض ہوتا ہے ، غلام پر نہیں۔ البتہ غلام حج کر سکتا ہے لیکن یہ حج فرض حج سے کفایت نہیں کرے گا اور اسے آزاد ہونے کے بعد بحالتِ استطاعت فرض حج دوبارہ کرنا پڑے گا۔

5۔ استطاعت۔ یعنی وہ حج کرنے کی قدرت رکھتا ہو ، مالی طور پر حج کے اخراجات اٹھا سکتا ہو اور جسمانی طور پر سفرِ حج کے قابل ہو۔ راستہ پر امن ہو اور قدرت حاصل کرنے کے بعدحج کے ایام تک مکہ مکرمہ میں پہنچنا اس کیلئے ممکن ہو۔ فرمانِ الٰہی ہے :

{وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً}[ آل عمران4 :97]

’’حج بیت اللہ کرنا ان لوگوں پر اللہ کا حق ہے جو اسکی طرف جانے کی طاقت رکھتے ہوں۔ ‘‘

اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استطاعت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اَلزَّادُ وَالرَّاحِلَۃُ)یعنی اس سے مراد یہ ہے کہ اس کے پاس زادِ راہ اور سواری موجود ہو ( یا سواری کا کرایہ ادا کرنے کی طاقت رکھتا ہو۔)[ سنن ابن ماجہ،صحیح الترغیب والترہیب للألبانی:]

اگرکوئی شخص مالی طاقت تو رکھتا ہو لیکن جسمانی طور پر سفرِ حج کے قابل نہ ہو تو اس پر لا زم ہے کہ وہ اپنی جانب سے کسی ایسے شخص کو حج کرائے جو پہلے اپنی طرف سے فریضۂ حج ادا کر چکا ہو۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حجۃ الوداع میں خثعم قبیلے کی ایک عورت آئی اور کہنے لگی:اے اللہ کے رسول! میرے باپ پر حج فرض ہو چکا ہے لیکن وہ بہت بوڑھا ہے اور سواری پر بیٹھنے کے قابل نہیں۔ تو کیا میں اس کی طرف سے حج کر لوں ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(نَعَمْ،حُجِّیْ عَنْہُ) ’’ ہاں ، تم اس کی طرف سے حج کر لو۔ ‘‘[صحیح البخاری: 1513، صحیح مسلم:1334]

اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو سنا جو کہہ رہا تھا : (لَبَّیْکَ عَنْ شُبْرُمَۃَ ) تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : شبرمۃ کون ہے ؟ اس نے کہا: میرا بھائی ہے ( یا میرا رشتہ دار ہے۔)  تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : کیا تم نے خود حج کیا ہواہے ؟ اس نے کہا : نہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(( حُجَّ عَنْ نَفْسِکَ،ثُمَّ حُجَّ عَنْ شُبْرُمَۃَ[1سنن أبی داؤد:1811،سنن ابن ماجہ :2903۔ وصححہ الألبانی]))

’’ پہلے اپنی طرف سے حج کرو ، پھر شبرمۃ کی طرف سے کرنا۔ ‘‘

یاد رہے کہ عورت کیلئے ان شرائط کے علاوہ ایک اورشرط یہ ہے کہ سفرِ حج کیلئے اسے محرم یا خاوند کا ساتھ میسر ہو۔ اگر ایسا نہ ہو تو اس پر حج فرض نہیں۔ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :

(( لَا یَحِلُّ لِامْرَأَۃٍ أَنْ تُسَافِرَ ثَلَاثًا إِلَّا وَمَعَہَا ذُوْ مَحْرَمٍ مِنْہَا[صحیح البخاری:1086، صحیح مسلم:1338]))

’’کسی عورت کے لئے حلال نہیں کہ وہ تین دن کی مسافت کا سفر اپنے محرم کے بغیر کرے۔‘‘

یاد رہے کہ جب کوئی شخص ان شرائط کے مطابق حج کی قدرت رکھتا ہو تو اسے پہلی فرصت میں حج کر لینا چاہئے اور اگلے سال تک اسے مؤخر نہیں کرنا چاہئے۔کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:(( مَنْ أَرَادَ الْحَجَّ فَلْیَتَعَجَّلْ،فَإِنَّہُ قَدْ یَمْرُضُ الْمَرِیْضُ،وَتَضِل الضَّالَّۃُ،وَتَعْرِضُ الْحَاجَۃُ) [حمد وابن ماجہ۔ وصحیح الجامع الصغیر للألبانی:6004،والإرواء:990]

’’ جس آدمی کا حج کرنے کا ارادہ ہو تو ( فرضیت کے بعد ) وہ جلدی کر لے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ بیمار پڑ جائے یا اس کی کوئی چیز گم ہو جائے یا اسے کوئی ضرورت پیش آ جائے۔ ‘‘

جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ میرا دل چاہتا ہے کہ میں اِن شہروں میںکچھ لوگوں کو بھیج کر معلوم کروں کہ کس کے پاس مال موجود ہے اوراس نے حج نہیں کیا تو اس پر میں جزیہ لگا دوں کیونکہ وہ یقینا مسلمان نہیں ہیں

)صححہ ابن حجر فی الکبائر۔ [

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں