اپنی زبان منتخب کریں

جمعرات، 11 اگست، 2022

سود ختم

 

سود ختم

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ ٔ حجۃ الوداع میں جاہلیت کے سود کو بھی ختم فرمادیا ۔ جاہلیت میں جب ایک مالدار کسی کو قرضہ دیتا تو سود کے ساتھ دیتا ، پھر جب قرضہ لینے والا مقررہ مدت میں قرضہ واپس نہ کرتا تو قرضہ دینے والا مدت بڑھا دیتا اور اس کے ساتھ سود کی مقدار میں بھی اضافہ کردیتا۔یوں کرتے کرتے سود اصل قرضہ سے زیادہ ہو جاتا۔یہ بد ترین ظلم ہے اور اسے اسلام نے قطعی طورپر حرام کردیاہے ۔ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

{یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لاَ تَأْکُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَۃً وَّاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ}] آل عمران3 :130]

’’اے ایمان والو ! تم بڑھا چڑھا کر سود نہ کھاؤ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو تاکہ تم کامیابی پا سکو ۔ ‘‘

نیز فرمایا:{یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَذَرُوا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبَا إِن کُنتُم مُّؤْمِنِیْنَ.فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُولِہِ وَإِن تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُؤُوسُ أَمْوَالِکُمْ لاَ تَظْلِمُونَ وَلاَ تُظْلَمُونَ }[ البقرۃ2:279-278]

’’ اے ایمان والو ! تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اگر تم سچے مومن ہو توجو سود باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو۔ اگر تم ایسا نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے جنگ کرنے کیلئے تیار ہو جاؤ ۔ ہاں اگر توبہ کر لو تو تمھارا                              اصل مال تمھارا ہی ہے ، نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے ۔ ‘‘

لہٰذا سودی لین دین سے سچی توبہ کرتے ہوئے اسے فورا چھوڑ دیں اور نہ کسی شخص یا کسی بنک سے سود پر قرضہ لیں ‘ خواہ اپنی ضروریات کیلئے ہو یا تجارتی مقاصد کیلئے ہو ‘ اور نہ کسی کو سود پر قرضہ دیں اور نہ ہی کسی بنک میں فکس منافع پر رقم جمع کرائیں کیونکہ یہ بھی سود ہی کی ایک شکل ہے ۔

سود کتنا بڑا گناہ ہے ! اس کا اندازہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے کر سکتے ہیں :

(( اَلرِّبَا سَبْعُوْنَ حَوْبًا،أَیْسَرُہُمَا أَنْ یَّنْکِحَ الرَّجُلُ أُمَّہُ [سنن ابن ماجہ:2274وصححہ الألبانی

’’ سود میں ستر گناہ ہیں اور اس کا سب سے ہلکا گناہ ایسے ہے جیسے کوئی آدمی اپنی ماں سے نکاح کر لے ۔ ‘‘

اور دوسری روایت میں ہے :

(( اَلرِّبَا اِثْنَانِ وَسَبْعُوْنَ بَابًا أَدْنَاہَا مِثْلُ إِتْیَانِ الرَّجُلِ أُمَّہُ …[ الطبرانی عن البراء صحیح الجامع للألبانی:3537

’’ سود کے بہتر دروازے ہیں اور اس کا سب سے ہلکا گناہ ایسے ہے جیسے کوئی شخص اپنی ماں سے زنا کرے۔‘‘

اور حضرت عبد اللہ بن حنظلۃ الراہب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( دِرْہَمُ رِبًا یَأْکُلُہُ الرَّجُلُ وَہُوَ یَعْلَمُ أَشَدُّ عِنْدَ اللّٰہِ مِنْ سِتَّۃٍ وَّثَلَاثِیْنَ زَنْیَۃً[سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ :1033 [

’’سود کی حرمت کو جانتے ہوئے اس کا ایک درہم کھانا اللہ کے نزدیک چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ برا ہے۔ ‘‘

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ایک خواب بیان فرمایا ۔ اس میں ہے کہ :

’’ ۔۔۔۔۔۔جبریل علیہ السلام نے کہا : آگے چلو تو ہم آگے چلے گئے حتی کہ ہم خون کی ایک نہر پر پہنچ گئے۔ ایک آدمی اس کے اندر کھڑا ہوا تھا اور دوسرا اس کے کنارے پر۔ کنارے پر کھڑے ہوئے آدمی کے سامنے ایک پتھر پڑا ہوا تھا ، اندر کھڑا ہوا آدمی جب باہر نکلنے کی کوشش کرتا تو کنارے پر کھڑا ہوا آدمی وہ پتھر اس کے منہ پر دے مارتا اور اسے اس کی جگہ پر واپس لوٹا دیتا۔ وہ بار بار ایسا کر رہے تھے۔میں نے پوچھا : یہ کیا ہے ؟ انھوں نے کہا:آگے چلو تو ہم آگے چلے گئے…پھر حضرت جبریل علیہ السلام نے بتایا کہ …جسے آپ نے خون کی نہر میں دیکھا تھا وہ سود خور تھا…‘‘ [4 صحیح البخاری

اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ

(( لَعَنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم آکِلَ الرِّبَا،وَمُوْکِلَہُ،وَکَاتِبَہُ،وَشَاہِدَیْہِ،وَقَالَ:ہُمْ سَوَائٌ)) [صحیح مسلم:1598]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت بھیجی سود کھانے والے پر ، سود کھلانے والے پر ، اس کے لکھنے والے پر اور اس کے گواہوں پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ سب گناہ میں برابر ہیں ۔

برادران اسلام ! لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سود سے مال بڑھتا اور اس میں اضافہ ہوتاہے حالانکہ اللہ رب العزت کا فرما ن ہے :

{وَمَا آتَیْْتُم مِّن رِّبًا لِّیَرْبُوَ فِیْ أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُو عِندَ اللّٰہِ وَمَا آتَیْْتُم مِّن زَکَاۃٍ تُرِیْدُونَ وَجْہَ اللّٰہِ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْمُضْعِفُونَ}[ الروم30:39]

’’ اور تم لوگ جو سود دیتے ہو تاکہ لوگوں کے اموال میں اضافہ ہو جائے تو وہ اللہ کے نزدیک نہیں بڑھتا اور تم لوگ جو زکاۃ دیتے ہو اللہ کی رضا حاصل کرنے کیلئے ، ایسے ہی لوگ اسے کئی گنا بڑھانے والے ہیں ۔‘‘

نیز فرمایا :{یَمْحَقُ اللّٰہُ الْرِّبَا وَیُرْبِیْ الصَّدَقَاتِ }[ البقرۃ2 :276]

’’ اللہ سود کو گھٹاتا اور صدقوں کو بڑھاتا ہے ۔ ‘‘

ان دونوں آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ سود سے مال میں اضافہ نہیں بلکہ کمی واقع ہوتی ہے ، ہاں جو چیز مال میں بڑھوتری کا سبب بنتی ہے وہ ہے صدقہ وزکاۃ !

اور جو لوگ سودی لین دین کرکے ہمیشہ اپنا روپیہ پیسہ بڑھانے کے چکر میں رہتے ہیں انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((

مَا أَحَدٌ أَکْثَرَ مِنَ الرِّبَا إِلَّا کَانَ عَاقِبَۃُ أَمْرِہٖ إِلٰی قِلَّۃٍ [سنن ابن ماجہ:2279 وصححہ الألبانی]))

’’ کوئی شخص چاہے کتنا سودلے لے ، اس کا انجام آخر کار قلت اور خسارہ ہی ہو گا ۔ ‘‘

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں