الحمد للہ رب العالمین والصلاةوالسلام علی
أشرف النبیاء والمرسلین وعلی آلہ وصحبہ أجمعین وبعد
إن الحمد ﷲ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونعوذ
باللہ من شرور أنفسنا ومن سیئات أعمالنا۔من یھدہ اللہ فلا مضل لہ ومن یضللہ فلا
ھادی لہ۔ وأشھد ان لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ وأشھد أن محمدا عبدہ ورسولہ
أما بعد‘ فقد قال اللہ تعالی فی کتابہ
الکریم:
اَمْ حَسِبْتُـمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللّـٰهُ
الَّـذِيْنَ جَاهَدُوْا مِنْكُمْ وَيَعْلَمَ الصَّابِـرِيْنَ (142)
کیا تم یہ خیال کرتے
ہو کہ جنت میں داخل ہو جاؤ گے اور (حالانکہ) ابھی تک اللہ نے نہیں ظاہر کیا ان
لوگوں کو جو تم میں سے جہاد کرنے والے ہیں اور ابھی صبر کرنے والوں کو بھی ظاہر
نہیں کیا۔
آل عمرآن142
عن كعب بن عياض، قال: سمعت النبي صلى الله
عليه وسلم يقول: " إن لكل امة فتنة، وفتنة امتي المال "، قال ابو عيسى:
هذا حديث حسن صحيح غريب، إنما نعرفه من حديث معاوية بن صالح.
کعب بن عیاض رضی الله
عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے
ہوئے سنا: ”ہر امت کی آزمائش کسی نہ کسی چیز میں ہے اور
میری امت کی آزمائش مال میں ہے
عْلَمُوا أَنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ
وَأَنَّ اللَّهَ عِندَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ
اور تم اس بات کو جان
لو کہ تمہارے مال اور تمہاری اولادیں ایک امتحان کی چیز ہیں اور اس بات کو بھی جان
لو کہ اللہ تعالی کے ہاں بہت بڑا اجر ہے" الانفال/28
اللہ تعالی بعض اوقات
مصائب اور بعض اوقات نعمتوں کے ساتھ آزمائش میں ڈالتا ہے تا کہ یہ پتہ چل سکے کہ
کون شکر گزار اور کون ناشکرا اور کون اطاعت گزار اور کون نافرمان ہے تو پھر انہیں
قیامت کے روز بدلہ دے گا
كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۗ وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ
فِتْنَةً ۖ وَإِلَيْنَا تُرْجَعُون
ہم آزمائش کے لۓ ہر ایک کو برائی اور بھلائی میں مبتلا کرتے ہیں اور
تم سب ہماری طرف لوٹاۓ جاؤ گے " الانبیاء / 35
اَوَلَا يَرَوْنَ اَنَّـهُـمْ يُفْتَنُـوْنَ فِىْ كُلِّ
عَامٍ مَّرَّةً اَوْ مَرَّتَيْنِ ثُـمَّ لَا يَتُـوْبُـوْنَ وَلَا هُـمْ
يَذَّكَّرُوْنَ (126)
کیا نہیں دیکھتے کہ
وہ ہر سال میں ایک دفعہ یا دو دفعہ آزمائے جاتے ہیں پھر بھی توبہ نہیں کرتے اور نہ
نصیحت حاصل کرتے ہیں۔
عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لاَ
تَتَّخِذُوا الضَّيْعَةَ فَتَرْغَبُوا فِي الدُّنْيَا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۹۲۳۱) (صحیح)
۲۳۲۸- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ
عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جائداد ۱؎ کو مت بناؤ کہ اس کی وجہ سے
تمہیں دنیا کی رغبت ہوجائے گی''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ: "لَوْكَانَ
لابْنِ آدَمَ وَادِيَانِ مِنْ ذَهَبٍ لأَحَبَّ أَنْ يَكُونَ لَهُ ثَالِثٌ، وَلاَ
يَمْلأُ فَاهُ إِلاَّ التُّرَابُ، وَيَتُوبُ اللهُ عَلَى مَنْ تَابَ". وَفِي
الْبَاب عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ وَأَبِي سَعِيدٍ وَعَائِشَةَ وَابْنِ
الزُّبَيْرِ وَأَبِي وَاقِدٍ وَجَابِرٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ
أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: خ/الرقاق ۱۰ (۶۴۳۹)،
م/الزکاۃ ۳۹ (۱۰۴۸) (تحفۃ الأشراف: ۱۵۰۸)،
وحم (۳/۱۲۲، ۱۷۶، ۱۹۲، ۱۹۸، ۲۳۸، ۲۷۲)،
ودي/الرقاق ۶۲ (۲۸۲۰) (صحیح)
۲۳۳۷- انس بن مالک رضی اللہ عنہ
کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اگرآدمی کے پاس سونے کی دد وادیاں ہوں تو
اسے ایک تیسری وادی کی خواہش ہوگی اوراس کاپیٹ کسی چیز سے نہیں بھرے گا سوائے مٹی
سے۔ اور اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کی توبہ قبول کرتاہے جواس سے توبہ کرے '' ۱؎ ۔
1. قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَاتَّقُوا فِتْنَةً لاَ
تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً}:
1. باب: اللہ تعالیٰ کا
(سورۃ الانفال میں) یہ فرمانا کہ ”ڈرو اس فتنہ سے جو ظالموں پر خاص نہیں رہتا
(بلکہ ظالم و غیر ظالم عام خاص سب اس میں پس جاتے ہیں
حدثنا محمد بن
يوسف، حدثنا سفيان، عن الزبير بن عدي، قال: اتينا انس بن مالك، فشكونا إليه ما
نلقى من الحجاج، فقال:"اصبروا، فإنه لا ياتي عليكم زمان إلا الذي بعده شر منه
حتى تلقوا ربكم، سمعته من نبيكم صلى الله عليه وسلم".
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے، ان سے زبیر بن عدی نے
بیان کیا کہ، ہم انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے حجاج کے طرز عمل
کی شکایت کی، انہوں نے کہا کہ صبر کرو کیونکہ تم پر جو دور بھی آتا ہے تو اس کے
بعد آنے والا دور اس سے بھی برا ہو گا یہاں تک کہ تم اپنے رب سے جا ملو۔ میں نے یہ
تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔(( بخاری حدیث نمبر: 7068))
وقوله تعالى: من
كان يريد الحياة الدنيا وزينتها نوف إليهم اعمالهم فيها وهم فيها لا يبخسون {15}
اولئك الذين ليس لهم في الآخرة إلا النار وحبط ما صنعوا فيها وباطل ما كانوا
يعملون {16} سورة هود آية 15-16.
اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ ہود میں) فرمایا «من كان يريد الحياة الدنيا وزينتها نوف إليهم
أعمالهم فيها وهم فيها لا يبخسون * أولئك الذين ليس لهم في الآخرة إلا النار وحبط
ما صنعوا فيها وباطل ما كانوا يعملون» ”جو شخص دنیا
کی زندگی اور اس کی زینت کا طالب ہے تو ہم اس کے تمام اعمال کا بدلہ اسی دنیا میں
اس کو بھر پور دے دیتے ہیں اور اس میں ان کے لیے کسی طرح کی کمی نہیں کی جاتی یہی
وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں دوزخ کے سوا اور کچھ نہیں ہے اور جو کچھ انہوں نے
اس دنیا کی زندگی میں کیا وہ (آخرت کے حق میں) بیکار ثابت ہوا اور جو کچھ (اپنے
خیال میں) وہ کرتے ہیں سب بیکارمحض ہے
6443بخاری
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ہول ناک مرض کی صحیح تشخیص بہت پہلے
فرما دی تھی، چناں چہ ارشاد فرمایا:
”واللّٰہ لا الفقر
أخشیٰ علیکم ولکن أخشیٰ علیکم أن تبسط علیکم الدنیا کما بسطت علی من کان قبلکم
فتنافسوھا کما تنافسوھا فتھلککم کما اھلکتہم“․ (صحیح البخاری، کتاب الرقاق، باب من
یحذر من زہرة الدنیا والتنافس فیھا، ج:۲، ص:۹۵۱، ط: قدیمی․ الصحیح
لمسلم، کتاب الزہد ج:۲، ص:۴۰۷، ط: قدیمی)
” بخدا! مجھے تم پر فقر کا اندیشہ قطعاً نہیں، بلکہ اندیشہ ہے کہ تم پر دنیا
پھیلائی جائے، جیسا کہ تم سے پہلوں پر پھیلائی گئی، پھر تم پہلو ں کی طرح ایک
دوسرے سے آگے بڑھ کر اسے حاصل کرنے کی کوشش کرو، پھر اس نے جیسے ان کو برباد کیا،
تمہیں بھی برباد کر ڈالے۔“ (بخاری ومسلم)
یہ تھا وہ نقطئہ آغاز، جس سے اِنسانیت کا بگاڑ شروع ہوا، یعنی دنیا کو نفیس
اور قیمتی چیز سمجھنا اور ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اس پر جھپٹنا، پھر آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے تشخیص پر ہی اکتفا نہیں کیا؛ بلکہ اس کے لیے ایک جامع نسخہٴ شفا بھی
تجویز فرمایا، جس کا ایک جزاعتقادی ہے اور دوسرا عملی۔
اعتقادی جزیہ ہے کہ اس حقیقت کو ہر موقع پر مستحضر رکھا جائے کہ اس دنیا
میں ہم چند لمحوں کے مہمان ہیں، یہاں کی ہر راحت وآسائش بھی فانی ہے اور ہر تکلیف
ومشقت بھی ختم ہونے والی ہے، یہاں کے لذائذ و شہوات، آخرت کی بیش بہا نعمتوں او
رابدالآباد کی لازوال راحتوں کے مقابلہ میں کالعدم اور ہیچ ہیں۔ قرآن کریم اس
اعتقاد کے لیے سراپا دعوت ہے اور سیکڑوں جگہ اس حقیقت کو بیان فرمایا گیا ہے۔ سورة
اعلیٰ میں نہایت بلیغ مختصر او رجامع الفاظ میں اس پر متنبہ فرمایا:”بل توٴثرون الحیوٰة
الدنیا والآخرة خیر و أبقی“ (کان کھول کر سن لو!کہ تم آخرت کو
اہمیت نہیں دیتے) بلکہ دنیا کی زندگی کو (اس پر) ترجیح دیتے ہو؛ حالاں کہ آخرت
(دنیا سے) بدر جہابہتر اور لازوال ہے۔“ (سورہٴ اعلیٰ:۱۶، ۱۷)
صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا قصہ مروی ہے کہ کچھ لوگوں پر
ان کا گزر ہوا، جن کے سامنے بھنا ہوا گوشت رکھا تھا، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی
اللہ عنہ کو کھانے کی دعوت دی، آپ نے انکار کر دیا اور فرمایا: ”محمد صلی اللہ
علیہ وسلم ایسی حالت میں دنیا سے رخصت ہوئے کہ جو کی روٹی بھی پیٹ بھر کر نہ
کھائی۔“ (صحیح بخاری، کتاب الاطعمة، باب ماکان النبی صلی اللہ علیہ وسلم واصحابہ
یاکلون، ج:۲، ص:۸۱۵، ط: قدیمی)
عن ابي سعيد الخدري
، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إن الدنيا حلوة خضرة، وإن الله
مستخلفكم فيها، فينظر كيف تعملون فاتقوا الدنيا واتقوا النساء، فإن اول فتنة بني
إسرائيل كانت في النساء ". وفي حديث ابن بشار: لينظر كيف تعملون.
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا: دنیا (ظاہر میں) شیریں اور سبز ہے (جیسے تازہ میوہ) اللہ تعالیٰ تم کو
حاکم کرنے والا ہے دنیا میں، پھر دیکھے گا تم کیسے عمل کرتے ہو، تو بچو دنیا سے
(یعنی ایسی دنیا جو اللہ تعالیٰ سے غافل کر دے) اور بچو عورتوں سے اس لیے کہ اول
فتنہ بنی اسرائیل کا عورتوں سے شروع ہوا
(ترقیم
فوادعبدالباقی:) (2742) (مسلم 6948)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں