الحمد للہ رب
العالمین والصلاةوالسلام علی أشرف النبیاء والمرسلین وعلی آلہ وصحبہ أجمعین وبعد
إن الحمد ﷲ نحمدہ
ونستعینہ ونستغفرہ ونعوذ باللہ من شرور أنفسنا ومن سیئات أعمالنا۔من یھدہ اللہ فلا
مضل لہ ومن یضللہ فلا ھادی لہ۔ وأشھد ان لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ وأشھد أن
محمدا عبدہ ورسولہ
أما بعد‘ فقد قال
اللہ تعالی فی کتابہ الکریم:
برادران اسلام ! اِس ماہِ مبارک کے احکام میں
سے ایک یہ ہے کہ اِس کے اختتام پر صدقۃ الفطر ادا کیا جائے جو نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم نے ہر شخص پر فرض قراردیا ۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
(فَرَضَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه
وسلم زَکَاۃَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِیْرٍ عَلَی
الْعَبْدِ وَالْحُرِّ،وَالذَّکَرِ وَالْأُنْثٰی،وَالصَّغِیْرِ وَالْکَبِیْرِ مِنَ
الْمُسْلِمِیْنَ،وَأَمَرَ بِہَا أَنْ تُؤَدَّی قَبْلَ خُرُوْجِ النَّاسِ إِلَی
الصَّلَاۃِ) [صحیح البخاری:1503، صحیح مسلم:984]
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فطرانہ
فرض کیا ، کھجور یا جو کا ایک صاع ، غلام پر بھی اور آزاد پر بھی ، مرد پر بھی
اور عورت پر بھی ، اور مسلمانوں میں سے ہر چھوٹے بڑے پر اِس کو فرض قرار دیا اور
آپ نے حکم دیا کہ یہ نمازِ عید کیلئے لوگوں کے نکلنے سے پہلے ادا کیا جائے ۔ ‘‘
اِس حدیث سے ثابت ہوا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم نے جو فطرانہ فرض کیا وہ کھانے کی اجناس میں سے ایک صاع ہے جس کا وزن تقریبا
اڑھائی کلو گرام ہوتاہے ۔
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بھی جنسِ طعام سے ہی
فطرانہ ادا کرتے تھے ۔ چنانچہ حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
(کُنَّا نُخْرِجُ زَکَاۃَ
الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ طَعَامٍ،أَوْصَاعًا مِنْ شَعِیْرٍ،أَوْ صَاعًا مِنْ
تَمْرٍ،أَوْ صَاعًا مِنْ أَقِطٍ،أَوْ صَاعًا مِنْ زَبِیْبٍ) [صحیح البخاری:1506،
صحیح مسلم:985
الشَّعِیْرُ وَالزَّبِیْبُ وَالْأقِطُ
وَالتَّمْرُ) [صحیح البخاری:1510]
’’ہم فطرانہ ادا کرتے تھے ، اناج کا ایک صاع
، یا جو کا ایک صاع ، یا کھجور کا ایک صاع ، یا پنیر کا ایک صاع یا منقی کا ایک
صاع ۔ ‘‘
دوسری روایت میں حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کے
الفاظ یہ ہیں :
(کُنَّا نُخْرِجُ فِی عَہْدِ رَسُوْلِ
اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم یَوْمَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ طَعَامٍ،وَکَانَ
طَعَامَنَا
’’ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں
عید الفطر کے دن جنسِ طعام سے ایک صاع بطور فطرانہ نکالتے تھے اور اُس وقت ہمارا
کھانا جَو ، منقی ، پنیر اور کھجور سے تھا۔ ‘‘
لہٰذا فطرانہ جنسِ طعام سے ہی ادا کرنا چاہئے
مثلا گندم اور چاول وغیرہ ۔
صدقۃ الفطر میں حکمت یہ ہے کہ اِس کی ادائیگی
سے ایک تو غریب لوگوں کو کھانے کیلئے کچھ مل جاتا ہے اور دوسرا یہ کہ روزہ کے
دوران روزہ دار سے جو لغو اور بے ہودہ اقوال وافعال صادر ہوتے ہیں ان کا کفارہ ادا
ہو جاتا ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
(فَرَضَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ
وسلم زَکَاۃَ الْفِطْرِ طُہْرَۃً لِّلصَّائِمِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ ،
وَطُعْمَۃً لِّلْمَسَاکِیْنِ) [سنن أبی داؤد:1609وحسنہ الألبانی]
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فطرانہ
فرض قرار دیا ۔ اِس سے روزہ دار اُن لغویات اور بے حیائی والے اقوال وافعال کے
گناہ سے پاک ہو جاتا ہے جو اس سے دورانِ روزہ صاد ر ہوتے ہیں اور مسکینوں کو کھانا
بھی مل جاتا ہے ۔ ‘‘
یاد رہے کہ فطرانہ نمازِ عید سے پہلے ادا کرنا
چاہئے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی بات کا حکم دیا تھا جیسا کہ ابن عمر رضی
اللہ عنہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے جسے ہم ابھی ذکر کر چکے ہیں ۔ اس کے علاوہ
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:(مَنْ
أَدَّاہَا قَبْلَ الصَّلَاۃِ فَہِیَ زَکَاۃٌ مَقْبُوْلَۃٌ، وَمَنْ أَدَّاہَا
بَعْدَ الصَّلَاۃِ فَہِیَ صَدَقَۃٌ مِنَ الصَّدَقَاتِ) [سنن أبی داؤد:1609وحسنہ
الألبانی]
’’ جو شخص اسے نمازِ عید سے پہلے ادا کرے تو
وہ مقبول زکاۃ ہے اور جو شخص اسے نمازِ عید کے بعد ادا کرے تو وہ عام صدقوں میں سے
ایک صدقہ ہے ۔ ‘‘
آدابِ عید
اس مبارک ماہ کے اختتام پر صدقۃ الفطرکی ادائیگی
کے علاوہ چند دیگر آداب کا بھی مسلمان کو خیال رکھنا چاہئے ۔
1۔ ان میں سے پہلا یہ کہ شوال کا چاند دیکھتے
ہی عید رات اور یومِ عید کی صبح کو تکبیرات کے بار بار پڑھنے کا
اہتمام کرنا چاہئے ۔ ان تکبیرات کے ذریعے در
اصل اللہ تعالیٰ کا شکر ادا ہوتا ہے کہ اس کی توفیق سے ہی اِس ماہِ مبارک کے روزے
رکھے ، قرآن مجید کی تلاوت کی ، دعائیں کیں ، سچی توبہ کی اور دیگر کئی عبادات سر
انجام دیں ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:{یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ
بِکُمُ الْعُسْرَ وَلِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ وَلِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلَی مَا
ہَدَاکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ}[ البقرۃ2:185]
’’ اللہ تعالیٰ تمھارے لئے آسانی چاہتا ہے ،
تمھارے لئے تنگی کو پسندنہیں کرتا اور تاکہ تم (روزوں کی ) گنتی پوری کرو اور اس
نے جو تمھیں ہدایت دی اس پر تم اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرو اور تاکہ شکر ادا
کرو ۔ ‘‘
2۔ نماز عید کیلئے نکلنے سے پہلے غسل کرنا
چاہئے اور عمدہ لباس زیب ِ تن کر کے خوشبو لگا کر گھر سے نکلنا چاہئے۔حضرت ابن عمر
رضی اللہ عنہ عید گاہ کو جانے سے پہلے غسل کیا کرتے تھے۔[ المؤطأ:باب العمل فی
غسل العیدین]
3۔ گھر سے روانگی سے قبل طاق عدد میں کھجوریں
کھانا مسنون ہے ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
(کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه
وسلم لَا یَغْدُوْ یَوْمَ الْفِطْرِ حَتّٰی یَأْکُلَ تَمَرَاتٍ ۔ وَیَأْکُلُہُنَّ
وِتْرًا) [صحیح البخاری:953]
’’ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر
کے دن نہیں نکلتے تھے یہاں تک کہ کچھ کھجوریں تناول فرما لیتے اور طاق عدد میں
تناول فرماتے ۔‘‘
4۔ عید گاہ کو پیدل جانا اور وہاں سے پیدل
واپس آنا مسنون ہے ۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت سعد رضی
اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (کَانَ
رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ
وسلم یَخْرُجُ إِلَی الْعِیْدِ مَاشِیًا
وَیَرْجِعُ مَاشِیًا) [سنن ابن ماجہ:1294،1295 وحسنہما الألبانی]
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید کیلئے پیدل
جاتے اور پیدل ہی واپس آتے تھے ۔ ‘‘
5۔ نمازِ عید کیلئے گھر والوں کو بھی ساتھ لے
جانا چاہئے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو بھی عید گاہ میں جانے
کا حکم دیا تھاجیسا کہ حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے جو صحیح بخاری
اور صحیح مسلم میں موجود ہے ۔ حتی کہ حیض والی خواتین کے بارے میں بھی آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے یہی حکم دیا کہ وہ گھر سے ضرور نکلیں ، تاہم وہ عید گاہ سے
باہربیٹھیں اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوں ۔[ صحیح البخاری:974،صحیح مسلم:890]
6۔ نماز عید ‘عید گاہ میں پڑھنا مسنون ہے ۔
حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں
کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یوم الفطر اور یوم الاضحی کو عید گاہ میں تشریف
لے جاتے تھے ۔ سب سے پہلے نمازِ عید پڑھاتے پھر لوگوں کے سامنے آتے جو اپنی صفوں
میں ہی بیٹھے ہوتے ۔ آپ انھیں نصیحت کرتے ، انھیں وصیت فرماتے اور احکامات دیتے ۔
پھر اگر کوئی وفد روانہ کرنا ہوتا تو اس کے بارے میں فیصلہ کرتے اور اگر کوئی اور
حکم جاری کرنا ہوتا تو جاری فرما کر واپس لوٹ جاتے۔[ صحیح البخاری:956،صحیح
مسلم:889
7۔ عید گاہ کی طرف جاتے ہوئے یہ تکبیرات بار
بار پڑھتے رہنا چاہئے :
(اَللّٰہُ أَکْبَرُ،اَللّٰہُ
أَکْبَرُ،اَللّٰہُ أَکْبَرُ،لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ
أَکْبَرُ،اَللّٰہُ أَکْبَرُ، وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ )
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب عید الفطر کے
دن عیدگاہ کو جاتے تھے تو تکبیرات پڑھتے ہوئے جاتے تھے اور نماز عید سے فارغ ہونے
کے بعد تکبیرات نہیں پڑھتے تھے ۔ اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب گھر
سے عید گاہ کی طرف جاتے تھے تو تکبیرات پڑھتے ہوئے جاتے تھے۔[] السلسلۃ الصحیحۃ:171]
اور عید گاہ میں پہنچ کر جب تک امام نمازِ عید
کیلئے صفیں سیدھی کرنے کا حکم نہ دے اس وقت تک یہ تکبیرات بدستور پڑھتے رہنا چاہئے
۔
8۔ نماز عید سے پہلے اور اس کے بعد کوئی نفل
نماز نہیں ہے ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
(أَنَّ النَّبِیَّ صلي اللّٰه عليه وسلم
خَرَجَ یَوْمَ الْفِطْرِ فَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ،لَمْ یُصَلِّ قَبْلَہَا وَلَا
بَعْدَہَا) [حیح البخاری:989،صحیح مسلم :884]
’’ بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید
الفطر کے موقعہ پر نکلے تو آپ نے دو رکعتیں پڑھائیں اور نماز عید سے پہلے بھی اور
اس کے بعد بھی کوئی نماز نہیں پڑھی ۔ ‘‘
9۔ نماز عید سے پہلے اذان اور اس کی اقامت
مشروع نہیں ہے ۔
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں
کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کئی مرتبہ عیدین کی نماز بغیر
اذان واقامت کے پڑھی ۔ [صحیح مسلم887]
آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اِس
مبارک ماہ کے روزے مکمل کرنے کی توفیق دے اور انھیں شرف قبولیت سے نوازے ۔ آمین
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں