خطبہ الجمعہ موضوع ۔ اتباعِ
رسولﷺاحادیث
کی روشنی میں
ان الحمدللہ نحمدہ ونستعینہ ، ونستفرہ ،
ونعوذ باللہ من شرور انفسنا ومن سیئات أعمالنا ، من یھدہ اللہ فلا مضل لہ، ومن
یضلل فلا ھادی لہ، وأشھد ان لا الہ الااللہ وحدہ لاشریک لہ، وأشھد أن محمدا عبدہ
ورسولہ
أما بعد: فان خیر
الحدیث کتاب اللہ وخیر الھدی ھدی محمدﷺ وشر الامور محدثاتھا وکل بدعۃ ضلالہ وکل
ضلالۃ فی النار۔ قال تعالی۔۔
اتباعِ رسولﷺ
اتباع اور اطاعت کے معنی میں یہ فرق ہے کہ اطاعت کا مطلب دیے گئے حکم کی
تعمیل کرنا ہے مگر اتباع کا مطلب پیروی کرنا ہے ، چاہے اس کام کاباقاعدہ حکم دیا گیا
ہو یا نہ دیا گیا ہو۔ گویا یہ مقامِ 'خلت' ہے ، انتہاے محبت ہے کہ محبو ب کی ہر
ادا پر قربان ہونے کو جی چاہے۔
آپؐ کے صحابہ کرامؓ کو حضورؐ سے جو والہانہ محبت تھی اسی کا نتیجہ تھا کہ
وہ ہر اس کام کو کرنے کی کوشش کرتے جو حضورؐ نے کیا ہوتا۔ ان کو وہی کھانا پسند
ہوتا جو آپؐ کو پسند ہوتا۔ جس مقام پر آپ تشریف فرما ہوتے یا نماز پڑھ لیتے، وہ
جگہ بھی واجب الاحترام ہوجاتی اور اس مقام پر وہی عمل انجام دینا وہ اپنی سعادت
جانتے ، جیساکہ درج ذیل روایات سے واضح ہوتا ہے:
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ ، قَالَ : رَأَيْتُ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ
يَتَحَرَّى أَمَاكِنَ مِنَ الطَّرِيقِ فَيُصَلِّي فِيهَا ، وَيُحَدِّثُ أَنَّ
أَبَاهُ كَانَ يُصَلِّي فِيهَا ، وَأَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِي تِلْكَ الْأَمْكِنَةِ ، وَحَدَّثَنِي نَافِعٌ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ
، أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي فِي تِلْكَ الْأَمْكِنَةِ ، وَسَأَلْتُ سَالِمًا فَلَا
أَعْلَمُهُ إِلَّا وَافَقَ نَافِعًا فِي الْأَمْكِنَةِ كُلِّهَا ، إِلَّا
أَنَّهُمَا اخْتَلَفَا فِي مَسْجِدٍ بِشَرَفِ الرَّوْحَاءِ
1. موسیٰ بن عقبہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سالم بن عبداللہ بن عمر کو دیکھاکہ
وہ دورانِ سفر راستے میںبعض مقامات تلاش کرتے تھے اور وہاں نماز پڑھتے تھے کیونکہ
انہوں نے اپنے والد عبداللہ کو اور انہوں نے اپنے والد عمر کو وہاں نماز پڑھتے دیکھا
تھا اور عمرؓ وہاں اس لئے نماز پڑھتے تھے کہ انہوں نے آنحضورﷺ کو وہاں نماز پڑھتے
دیکھا تھا۔ (بخاری:۴۸۳)
قَالَ: بِسْمِ اللَّهِ فَلَمَّا اسْتَوَى عَلَى ظَهْرِهَا قَالَ:
الْحَمْدُ لِلَّهِ، ثُمَّ قَالَ: سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا
وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ 13 وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا
لَمُنْقَلِبُونَ 14 سورة الزخرف آية 13-14، ثُمَّ قَالَ:
الْحَمْدُ لِلَّهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ
ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ قَالَ:
سُبْحَانَكَ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ
الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، ثُمَّ ضَحِكَ فَقِيلَ: يَا أَمِيرَ
الْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَيِّ شَيْءٍ ضَحِكْتَ قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ كَمَا فَعَلْتُ ثُمَّ ضَحِكَ فَقُلْتُ: يَا
رَسُولَ اللَّهِ مِنْ أَيِّ شَيْءٍ ضَحِكْتَ ؟ قَالَ: إِنَّ رَبَّكَ يَعْجَبُ
مِنْ عَبْدِهِ إِذَا قَالَ اغْفِرْ لِي ذُنُوبِي يَعْلَمُ أَنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ
غَيْرِي .
2. حضرت علی بن ابی طالبؓ سواری پر سوار ہوئے تو دعاے مسنون پڑھنے کے بعد
مسکرانے لگے۔ کسی نے پوچھا: امیرالمومنین! مسکرانے کی کیا و جہ ہے؟ آپؓ نے فرمایا
کہ میں نے نبی اکرمؐ کو دیکھا تھا کہ آپؐ نے سواری پرسوار ہوکر اسی طرح دعا پڑھی،
پھر آپؐ مسکرائے تھے۔ لہٰذا میں بھی حضورؐ کی اتباع میں مسکرایا ہوں۔ (ابوداود؛۲۶۰۲)
3. حضرت انسؓ نے دیکھا کہ آنحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کدو پسند ہیں۔ تو
وہ بھی کدو پسند کرنے لگے۔ (مسنداحمد:۳؍۱۷۷)
4. ایک بار آپؐ نے سرکے کے بارے میں فرمایا کہ سرکہ تو اچھا سالن ہے تو حضرت
جابرؓ کہتے ہیں کہ تب سے مجھے سرکے سے محبت ہوگئی ہے۔ (دارمی؛۲۱۸۱)
5. ایک بار ایک صحابی کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی آپﷺنے دیکھی تو آپ نے اس
کے ہاتھ سے اُتار کر دور پھینک دی گویا آپؐ نے اظہارِ ناراضگی کیا۔ آپ ؐکے تشریف
لے جانے پر کسی نے کہا کہ اس کو اُٹھا لو اور بیچ کر فائدہ حاصل کرلو (کیونکہ حضورﷺنے
صرف پہننے سے منع فرمایا تھا) مگر اس نے کہا خدا کی قسم! میں اسے کبھی نہیں اٹھاؤں
گا ۔کیونکہ رسول اللہﷺنے اسے پھینک دیا ہے۔ (مسلم؛۲۰۹۰)
6. مسجد ِنبوی میں خواتین بھی شریک ِجماعت ہوتیں مگر ان کے لئے کوئی دروازہ
مخصوص نہ تھا۔ایک روز آپؐ نے ایک دروازے کے بارے میں فرمایا: ''کاش ہم یہ دروازہ
عورتوں کے لئے چھوڑ دیتے۔'' حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے اس شدت سے آپ کی اس خواہش کی
پابندی کی کہ پھر تادمِ مرگ اس دروازہ سے مسجد میں داخل نہ ہوئے۔ (......)
7. کچھ صحابہ سے بیعت کی شرائط میں یہ نصیحت بھی فرمائی کہ ''لوگوں سے کسی چیز
کا سوال نہ کرنا۔'' تو انہوں نے اس شدت سے اس کی پابندی کی کہ اگر اونٹنی پر سوار
کہیں جارہے ہوتے اور ہاتھ سے لگام گر جاتی تو اونٹنی کو بٹھا کر خود اپنے ہاتھ سے
اس کو اٹھاتے تھے اور کسی آنے جانے والے سے نہیں کہتے تھے کہ اٹھا کر دے دو۔
(مسنداحمد:۵؍۲۷۷)
'اتباع'
کا مکمل مفہوم سمجھنے کے لئے اس مثال پر غور کریں :
کوئی گاڑی کسی گاڑی کے تعاقب میں ہے، اب پیچھے والی گاڑی آگے والی گاڑی پر
مسلسل نظر رکھے ہوئے ہے۔ جہاں وہ تیز ہوگی، یہ بھی تیز ہوگی۔ جدھر وہ مڑے گی یہ بھی
ادھر مڑے گی۔جدھر وہ آہستہ ہوگی، یہ بھی آہستہ ہوجائے گی حتیٰ کہ جہاںوہ رک جائے گی
پیچھے والی گاڑی بھی رک جائے گی۔ یہ اتباع ہے اور حب ِرسولؐ کا تقاضا صرف اطاعت
ِرسولؐ ہی نہیں بلکہ اتباعِ رسولؐ ہے۔
یہ ہماری انتہائی کم نصیبی ہے کہ ہم نے حب ِرسولؐ کو محض میلاد کی محفل منعقد
کرنے اور نعت ِرسولؐ بیان کرنے کی حد تک سمجھ لیا اور اطاعت و اتباع رسولؐ سے
بالکل تہی دامن ہوگئے۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم حضور پاکؐ کی حیاتِ طیبہ
کاہر پہلوغور سے پڑھیں، سیکھیں، اُسوئہ حسنہ پر عمل کا وہی جذبہ تازہ کریں جو
قرونِ اولیٰ میںتھا۔ انہوں نے سچے جذبے، پکے عزم اور خلوصِ نیت کے ساتھ حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام کی پیروی اختیار کی تو قیصر وکسریٰ کے خزانے ان کے قدموں میں تھے۔
ائمہ کرام اور بزرگوں کی عقیدت میں غلو:جس طرح اللہ تعالیٰ کی توحید اور
ربوبیت میں کسی کو شریک ٹھہرانا ممنوع ہے، اسی طرح نبیؐ کی رسالت اور آپؐ کے واجب
الاتباع ہونے میں کسی دوسرے انسان کو لانا درست نہیں۔ نبی کریمﷺ کا ہی یہ مقام ہے
کہ آپ معصوم ہیں اور غلطی سے اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو بچا کر رکھا ہے۔ یہ حیثیت آپ
کے کسی اُمتی کو حاصل نہیں۔ لیکن بعض لوگ ائمہ کرام کے احترام میں اس قدر غلو کرتے
ہیں کہ وہ انہیں بھی نبی کی طرح معصوم سمجھنا شروع کردیتے ہیں۔ نبی کریم کا صریح
فرمان آنے کے باوجود وہ اپنے امام کی بات ماننے پر ہی مصر رہتے ہیں۔
ائمہ اربعہ یعنی امام مالک، ابوحنیفہ، شافعی اور احمد رحمہم اللہ عنہم کے
مدوّن کردہ مسائل اور ان کے بیان کردہ احکامِ دین و شرع درحقیقت اللہ کی کتاب اور
سنت ِرسولؐ سے ہی حاصل کردہ ہیں۔ اس و جہ سے ان ائمہ عظام کے بیان کردہ فقہ کے
مسائل کو اپنانے اور ان پر عمل پیرا ہونے میں کوئی حرج نہیں۔لیکن جب انہیںکوئی صریح
نص یعنی کوئی آیت یا حدیث ِصحیح نہ مل سکے تو پھر یہ قیاس واستنباط کرتے ہیں۔ مگر
ایسی صورت میں ان سب ائمہ نے اپنے اپنے شاگردوں پر واضح کردیا کہ ''جب حدیث ِرسولؐ
مل جائے تو ہمارے اقوال کو چھوڑ دینا۔''
بڑی مناسب بات تھی جو انہوں نے فرمائی۔ مگر ان کے عقیدت مندوں نے ان کی عقیدت
میں ان کے اَقوال کو تو نہ چھوڑا اور احادیث ِرسولؐ کو چھوڑ دیا۔ پھر اسی بنیاد پر
اپنے الگ الگ مسلک بنا لئے۔ بے شک یہ سب فروعی مسائل ہیں جن کی بنیاد پر مسالک
وجود میں آئے، مگر اُمت ِمحمدیہؐ میں تو گروہ بندی ہوگئی جس سے قرآن و حدیث نے شدت
سے منع فرمایا تھا ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حب ِرسولؐ سے سرشار ہوکر اپنے نقطہ نظر میں لچک پیدا
کی جائے اور حتی المقدوراحادیث ِرسولؐ کو ہی اپنی زندگی کے تمام معاملات میں بنیاد
بنایا جائے۔
آباء پرستی سے اجتناب : اسی طرح اَن پڑھ اور جاہل عوام کی کثیر تعداد اپنے
آباء و اجداد کی تقلید کو ہی اپنے لئے کافی سمجھتی ہے۔ حالانکہ حب ِرسولؐ کا تقاضا
تو یہ تھا کہ آپؐ کے فرمان کے سامنے ہر کسی کی بات ہیچ ہو اور ہر ایسی خاندانی روایت
اور معاشرتی چلن، جو کہ اسلام سے متصادم ہیں، چھوڑ دیئے جائیں اور سنت ِرسولؐ
کوجاری و ساری کیا جائے۔
1.
سورۃ لقمان آیت نمبر۲۱ میں ارشادِ خداوندی ہے :
''جب
انہیں کہا جائے کہ جو اللہ نے نازل کیا ہے، ا س کی اتباع کرو تو کہتے ہیں بلکہ ہم
تو اس کی اتباع کریں گے جس پرہم نے اپنے آباء کو پایا۔''
2. سورۃ البقرہ آیت نمبر ۱۷۰ میں فرمایا : وَ
اِذَا قِیۡلَ لَہُمُ اتَّبِعُوۡا مَاۤ
اَنۡزَلَ اللّٰہُ قَالُوۡا بَلۡ نَتَّبِعُ مَاۤ اَلۡفَیۡنَا عَلَیۡہِ
اٰبَآءَنَا ؕ اَوَ لَوۡ کَانَ
اٰبَآؤُہُمۡ لَا یَعۡقِلُوۡنَ شَیۡئًا وَّ لَا
یَہۡتَدُوۡنَ ﴿۱۷۰﴾
''جب
انہیں کہا جائے کہ اس کی اتباع کرو جو اللہ نے نازل کیا ہے، تو کہتے ہیں بلکہ ہم
اسی طریقے کی اتباع کریں گے جس پر ہم نے اپنے آباء کو پایا۔ اگرچہ ان کے آباء نہ
کچھ عقل رکھتے ہوں اورنہ ہدایت یافتہ ہوں۔''
3. نیز ایسے لوگوں کے بارے میں سورۃ البقرہ کی
آیت ۱۷۱ میں
فرمایا :
وَ مَثَلُ الَّذِیۡنَ
کَفَرُوۡا کَمَثَلِ الَّذِیۡ یَنۡعِقُ بِمَا لَا یَسۡمَعُ اِلَّا دُعَآءً وَّ
نِدَآءً ؕ صُمٌّۢ بُکۡمٌ عُمۡیٌ فَہُمۡ
لَا یَعۡقِلُوۡنَ ﴿۱۷۱﴾
''یہ
گونگے بہرے اندھے لوگ ہیں۔ یہ جانوروں کا ریوڑ ہیں، ان کو کچھ عقل نہیں۔''
حب ِرسولؐ کی صداقت و سچائی کا معیار یہ ہے کہ سنت ِرسولؐ کے علاوہ ہر طریق
کو چھوڑ دیا جائے۔ بعض لوگ ائمہ فقہاء کی تقلید میں غیر مسنون افعال انجام دیتے ہیں
اور بعض اپنے آباء و اجداد کی لکیر کے فقیر بنے رہتے ہیں۔ سنت سے دوری کی کوئی بھی
صورت ہو اس سے اجتناب بہر حال ضروری ہے
اللہ ہم سب کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی
اتباع کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں شریعت کے مطابق بنائے اللہ سے دعا ہے کہ
اللہ تعالی ہمیں لکھنے پڑھنے اور پڑھانے سے زیادہ عمل کی توفیق عطا فرمائے السلام
علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں