خطبہ الجمعہ موضوع ۔ اتباعِ
رسولﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم
ان الحمدللہ نحمدہ ونستعینہ ،
ونستفرہ ، ونعوذ باللہ من شرور انفسنا ومن سیئات أعمالنا ، من یھدہ اللہ فلا مضل
لہ، ومن یضلل فلا ھادی لہ، وأشھد ان لا الہ الااللہ وحدہ لاشریک لہ، وأشھد أن
محمدا عبدہ ورسولہ
أما
بعد: فان خیر الحدیث کتاب اللہ وخیر الھدی ھدی محمدﷺ وشر الامور محدثاتھا وکل بدعۃ
ضلالہ وکل ضلالۃ فی النار۔ قال تعالی۔۔ وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسولَ فَأُولٰئِكَ مَعَ الَّذينَ أَنعَمَ
اللَّهُ عَلَيهِم مِنَ النَّبِيّنَ وَالصِّدّيقينَ وَالشُّهَداءِ وَالصّـٰلِحينَ
وَحَسُنَ أُولٰئِكَ رَفيقًا '
اللہ عزوجل کے بعد اس کائنات میں جس سے سب سے زیادہ
محبت ہونی چاہیئے وہ اللہ کے رسول ﷺ کی ذا ت گرامی ہے،محبت رسول ایمان کا حصہ ہے
بلکہ آپ ﷺ کی محبت کے بغیر بندہ کا ایمان مکمل نہیں ہوتا ، جب ایمان مکمل نہیں
ہوگا ت واس کے اعمال بھی مقبول نہ ہوں گے اور نہ ہی وہ بروز قیامت کامیاب و کامران
ہونے والوں کی صف میں ہوگا۔آج کے مسلمان اللہ کے رسول ﷺ سے محبت کا دعوی تو کرتے
ہیں مگر محبت رسول کا تقاضہ پورا نہیں کرتے۔ کچھ مسلمان تو نبی ﷺ سے محبت کا اس
قدردعوی کرتے ہیں کہ آپ کے مقام ومرتبہ کو اللہ کے برابر کردیتے ہیں اور آپ کی شان
میں حد سے زیادہ غلو کرتے ہیں ۔ اس غلو سے خود کو نبی کا سچا عاشق اور محب رسول
باور کراتے ہیں جبکہ آپ ﷺ نے اس فعل شنیع سے اپنی امت کو سختی سےمنع کیا ہے ،آپ ﷺ
کا ارشاد گرامی ہے:لا تُطْرُوني كما أَطْرَتِ النصارى ابنَ مريمَ
، فإنما أنا عبدٌ ، فقولوا ، عبدُ اللهِ ورسولُه(صحيح الجامع:7363)
ترجمہ: دیکھو میری تعریف میں غلو نہ کرنا، جس
طرح نصاری نے ابن مریم کی تعریف میں غلو کیا ہے، بے شک میں بندہ ہوں لہٰذا مجھے
اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہا کرو.
محبت رسول ﷺ میں افراط و تفریط اور بلند وبانگ
دعوے کو دیکھتے ہوئے مناسب سمجھتا ہوں کہ بعض صحابہ اور صحابیات رضوان اللہ علیہم
اجمعین کی مثالیں بیان کی جائے اور محبت رسول ﷺ کا صحیح منہج پیش کیا جائےتاکہ امت
کی اصلاح ہوسکے اور نبی ﷺ سے سچی محبت کرسکے اور محبت رسول کے تقاضے کو کماحقہ
پورا کرسکے ۔
ایک شخص تھک ہار کر اپنے گھر آتا ہے،بیوی سے
ملاقات ،بچوں سے پیار و محبت کا اظہار کرتا ہے،اور کیوں نہ ان سب سے محبت ہو کہ یہ
سب انسان کے ہی سرمایہ حیات ہیں لیکن ذرا اس صحابی رسول ﷺ کا شوق و محبت تو دیکھیں
کہ امام کائنات ﷺ سے کیسی محبت ہے؟،اپنی محبت کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں ۔اے
اللہ کے رسول ﷺ!
" وَاللَّهِ إِنَّكَ
لأَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي ، وَإِنَّكَ لأَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَهْلِي
وَمَالِي ، وَأَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ وَلَدِي ، وَإِنِّي لأَكُونُ فِي الْبَيْتِ ،
فَأَذْكُرُكَ فَمَا أَصْبِرُ حَتَّى آتِيَكَ ، فَأَنْظُرَ إِلَيْكَ ، وَإِذَا
ذَكَرْتُ مَوْتِي وَمَوْتَكَ عَرَفْتُ أَنَّكَ إِذَا دَخَلْتَ الْجَنَّةَ رُفِعَتْ
مَعَ النَّبِيِّينَ ، وَإِنِّي إِذَا دَخَلْتُ الْجَنَّةَ خَشِيتُ أَنْ لا أَرَاكَ
، فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا
حَتَّى نزل جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلامُ بِهَذِهِ الآيَةِ : "وَمَنْ يُطِعِ
اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ
مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ
"﴾((سورة النساء/ 69))[ أخرجه الطبراني في " المعجم الأوسط " ( 1 /
29 / 1 - 2 ) وصححه الألباني في "السلسلة الصحيحة" (6 / 1044]
ترجمہ: میں آپ کو اپنی جان و مال، اہل و عیال
سے زیادہ محبو ب رکھتا ہوں، جب میں اپنے گھر میں اپنے اہل وعیال کے ساتھ ہوتا ہوں
اور شوقِ زیارت بے قرار کرتاہے تو دوڑا دوڑا آپ ﷺ کے پاس آتا ہوں، آپﷺ کا دیدار
کرکے سکون حاصل کرلیتا ہوں۔ لیکن جب میں اپنی اور آپ کی موت کو یاد کرتا ہوں تو
سوچتا ہوں کہ آپ تو انبیا کے ساتھ اعلیٰ ترین درجات میں ہوں گے، میں جنت میں گیا
بھی تو آپ تک نہ پہنچ سکوں گا اور آپ کے دیدار سے محروم رہوں گا۔ (یہ سوچ کر) بے چین
ہوجاتا ہوں اس پر اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء کی یہ آیت نازل فرمائی" وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسولَ فَأُولٰئِكَ مَعَ الَّذينَ أَنعَمَ
اللَّهُ عَلَيهِم مِنَ النَّبِيّنَ وَالصِّدّيقينَ وَالشُّهَداءِ وَالصّـٰلِحينَ
وَحَسُنَ أُولٰئِكَ رَفيقًا ''اور جو لوگ اللہ اور رسول ﷺکی اطاعت کریں گے،
وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا ہے یعنی انبیا، صدیقین،
شہدا اور صالحین ، کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں".
اللہ اکبر !کیا اس طرح کی محبت کی مثال آپ نے
کبھی دیکھى ہے؟اس طرح کے شوق کے متعلق کبھی سنا ہے؟لیکن اس میں حیرت و استعجاب کی
کوئی بات نہیں کیوں کہ یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے نفوس قدسیہ کی بات ہو رہی
ہے،جنہوں نے اپنى جان،مال ،اہل و عیال سب سے زیادہ رسول اللہ ﷺ سے محبت کی اور آپ
کی میں محبت ہر تکلیف برداشت کی حتی کے اپنی جان کی قربانی سے بھی گریز نہیں کیا ۔
اس طرح کى محبت و ایثار کی ایک نہیں ہزاروں
مثالیں موجود ہیں . ایک عورت کی بے مثال محبت دیکھیں ۔
واقعہ کچھ اس طرح ہیکہ جنگ احد میں ایک خاتون
رضی اللہ عنھا کے شوہر اور بھائی اور بیٹے سب شہيد ہوگئے.وہ مدینہ سے نکل کر جنگ
سے واپس آنے والوں سے حال پوچھا تو لوگوں نے کہا تمہارا خاوند , تمہارا بھائی اور
تمہارا بیٹا سب شہیدہو چکے ہیں، اس نے ان سب کی شہادت کی خبر سن کر پوچھا کہ نبی ﷺ
کس حال میں ہیں ؟ تو لوگوں نے کہا، الحمد للہ وہ صحیح وسلامت ہیں ۔ اس نے کہا مجھے
لے جا کر دکھا دو، لوگ انہیں آنحضرت ﷺ کے پاس لے گئے، جب اس کی نظر رسول اللہ ﷺ کے
مبارک چہرہ پر پڑی ، تو بے ساختہ اس کی زبان سے یہ کلمہ نکل گیا۔ ( کل مصيبة بعدک
جلل) "جب آپ ﷺ زندہ و سلامت ہیں تو آپﷺ کے بعد ہر ایک مصبت آسان
ہے"۔[مجمع الزوائد]
اس واقعہ پر ذرا ٹھہر کرہم اپنے گریبان میں
جھانک کر دیکھیں کہ کیا ہم واقعی محبت رسول ﷺ کا حق ادا کرتے ہیں؟ حب رسول کا
جوبلند دعوی کرتے ہیں کیا ہم اپنے دعوی میں سچے ہیں؟حقیقت میں ہم محبت رسول کے باب
میں صفر ہیں ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا اللہ کے
رسول ﷺ سے آپ لوگوں کی محبت کیسی تھی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :"
اللہ کی قسم!رسول اللہ ﷺ ہمیں اپنی اولاد، والدین،مال ودولت اور سخت پیاس کی حالت
میں ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ محبوب تھے"۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگیوں پر
غائرانہ نظر ڈالیں تواس بات کا علم ہوگا کہ انہوں نے حب ِرسول ﷺ کا حق ادا کیا، آپ
علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہ تھا جسے انہوں نے غور سے نہ دیکھا
ہو اور پھر اپنے آپ کو اس کے مطابق ڈھال نہ لیا ہو۔
قاضی عیاض رحمہ اللہ اپنی کتاب 'الشفاء' میں ایک
قول نقل کرتے ہیں: "فقال سفيان المحبة اتباع رسول اﷲ ﷺ" (سفیان ثوری نے فرمایا کہ حب ِرسول ﷺ کا مطلب درحقیقت اتباعِ رسول
اللہﷺہے).
آپؐ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو نبی اکرم ﷺ
سے جو والہانہ محبت تھی اسی کا نتیجہ تھا کہ وہ ہر اس کام کو کرنا پسند کرتے جو نبی
رحمت ﷺ نے کیا ہواور اس سے نفرت ظاہر کی ہو جسے نبی ﷺ نے ناپسند کیا ہو حتی کہ
کھانے پینے ، چلنے پھرنے ، اٹھنے بیٹھنے اور سونے جاگنے میں بھی آپ کے نقش پا کو
تلاش کرتے ۔ اس کی ایک دو مثال ملاحظہ فرمائیں ۔
موسیٰ بن عقبہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سالم بن
عبداللہ بن عمر کو دیکھاکہ وہ دورانِ سفر راستے میں بعض مقامات تلاش کرتے تھے اور
وہاں نماز پڑھتے تھے کیونکہ انہوں نے اپنے والد عبداللہ کو اور انہوں نے اپنے والد
عمر کو وہاں نماز پڑھتے دیکھا تھا اور عمرؓ وہاں اس لئے نماز پڑھتے تھے کہ انہوں
نے آنحضورﷺ کو وہاں نماز پڑھتے دیکھا تھا۔ (بخاری:۴۸۳)
حضرت علی بن ابی طالب رضى الله عنہ سواری پر
سوار ہوئے تو دعاے مسنون پڑھنے کے بعد مسکرانے لگے۔ کسی نے پوچھا: امیرالمومنین!
مسکرانے کی کیا و جہ ہے؟ آپ رضى الله عنہ نے فرمایا کہ میں نے نبی اکرم ﷺکو دیکھا
تھا کہ آپ نے سواری پرسوار ہوکر اسی طرح دعا پڑھی، پھر آپ مسکرائے تھے۔ لہٰذا میں
بھی حضور ﷺ کی اتباع میں مسکرایا ہوں۔ (ابوداود:۲۶۰۲)
رسول ﷺ کی محبت کی نشانی یہ ہے، کہ رسولﷺ کے طریقے
پر عمل کیا جائے، جیسا کہ رسول اللہ نے فرمایا ہے(( من احب سنتی فقد احبنی ومن
احبنی کان معی فی الجنة )) (ترمذى)"جس نے میری سنت سے محبت رکھی اس نے مجھ سے
محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی ، وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا"۔
وہ محبت جو سنت رسول اللہﷺپر عمل کرنا نہ
سکھائے محض دھوکہ اور فریب ہے۔ وہ محبت جو رسول اکرمﷺکی اطاعت و پیروی نہ سکھائے
محض لفاظی اور نفاق ہے۔ وہ محبت جو رسول اللہﷺکی غلامی کے عملی آداب نہ سکھائے محض
ریا اور دکھاوا ہے۔ وہ محبت جو سنت ِرسول ﷺکے علم کو سربلند نہ کرے محض جھوٹا دعوی
ہے حب رسول ﷺ کا۔
اللہ ہم سب کو اس کے رسول ﷺ سے سچی محبت کرنے کی
توفیق دے ،اور آپ ﷺ کی اطاعت کی توفیق دے: آمین
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں