اپنی زبان منتخب کریں

جمعرات، 12 نومبر، 2020

حب ِ رسولﷺ اور اس کے عملی تقاضے

 

خطبہ الجمعہ        موضوع ۔     




حب ِ رسولﷺ اور اس کے عملی تقاضے

ان الحمدللہ نحمدہ ونستعینہ ، ونستفرہ ، ونعوذ باللہ من شرور انفسنا ومن سیئات أعمالنا ، من یھدہ اللہ فلا مضل لہ، ومن یضلل فلا ھادی لہ، وأشھد ان لا الہ الااللہ وحدہ لاشریک لہ، وأشھد أن محمدا عبدہ ورسولہ

أما بعد: فان خیر الحدیث کتاب اللہ وخیر الھدی ھدی محمدﷺ وشر الامور محدثاتھا وکل بدعۃ ضلالہ وکل ضلالۃ فی النار۔    قال تعالی۔۔

اس جہانِ رنگ و بو میں شیطان کے حملوں سے بچتے ہوئے شریعت ِالٰہیہ کے مطابق زندگی گزارنا ایک انتہائی دشوار امر ہے۔ مگر اللہ ربّ العزت نے اس کو ہمارے لئے یوں آسان بنا دیا کہ ایمان کی محبت کو ہمارے دلوں میں جاگزیں کردیا۔ سورۃ الحجرات میں ارشادِ خداوندی ہے
﴿وَلـٰكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيكُمُ الإيمـٰنَ وَزَيَّنَهُ فى قُلوبِكُم وَكَرَّ‌هَ إِلَيكُمُ الكُفرَ‌ وَالفُسوقَ وَالعِصيانَ ۚ أُولـٰئِكَ هُمُ الرّ‌ٰ‌شِدونَ ﴿٧... سورة الحجرات
''اور لیکن اللہ تعالیٰ نے ایمان کو تمہارے لئے محبوب بنا دیا اور اس کو تمہارے دلوں میں سجا دیا اور کفر، فسق اور نافرمانی کو تمہارے لئے ناپسندیدہ بنا دیا۔یہی لوگ بھلائی پانے والے ہیں۔''
اس آیت میں ایمان کی محبت میں حب ِالٰہی اور حب ِرسولؐ بھی شامل ہے۔
گویا حب ِرسولؐ انعامِ خداوندی ہے اورحب ِرسولؐ ہمارے ایمان کا صرف حصہ نہیں بلکہ عین ایمان ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
''
تم میں سے کوئی اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنی اولاد، اپنے والدین اور باقی تمام لوگوں سے زیادہ مجھ سے محبت نہ کرتا ہو۔'' (بخاری و مسلم)
سورۃ الاحزاب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿النَّبِىُّ أَولىٰ بِالمُؤمِنينَ مِن أَنفُسِهِم...٦ ... سورة الاحزاب
''نبی مؤمنوں کے لئے ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ مقدم ہیں۔''
عبداللہ بن ہشام روایت کرتے ہیں کہ''حضرت عمرؓ آنحضرتؐ سے کہنے لگے: آپؐ میرے لئے، میری جان کے علاوہ ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔ آپؐ نے فرمایا ! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جب تک میں تمہارے نزدیک تمہاری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں تم مؤمن نہیں ہوسکتے۔ سیدنا عمرؓ نے عرض کی: اللہ کی قسم! اب آپؐ میرے نزدیک میری جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں تو آپ ؐنے فرمایا: اَب، اے عمر ! (یعنی اب تم صحیح مسلمان ہو) (فتح الباری: ۱؍۵۹)
سورئہ توبہ ، آیت نمبر ۲۴ میں ارشادِ الٰہی ہے:
﴿قُل إِن كانَ ءاباؤُكُم وَأَبناؤُكُم وَإِخو‌ٰنُكُم وَأَزو‌ٰجُكُم وَعَشيرَ‌تُكُم وَأَمو‌ٰلٌ اقتَرَ‌فتُموها وَتِجـٰرَ‌ةٌ تَخشَونَ كَسادَها وَمَسـٰكِنُ تَر‌ضَونَها أَحَبَّ إِلَيكُم مِنَ اللَّهِ وَرَ‌سولِهِ وَجِهادٍ فى سَبيلِهِ فَتَرَ‌بَّصوا حَتّىٰ يَأتِىَ اللَّهُ بِأَمرِ‌هِ...٢٤... سورة التوبة
''(
اے نبی! مسلمانوں سے)کہہ دیجئے! اگر تمہیں اپنے باپ، اپنے بیٹے، اپنے بھائی، اپنی بیویاں، اپنے کنبے والے اور وہ اَموال جو تم نے کمائے ہیں اور تجارت جس کے مندا پڑنے سے تم ڈرتے ہو اور تمہارے مکان جو تمہیں پسند ہیںـ؛ اللہ، اس کے رسولؐ اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے۔''
اس آیت میں جن رشتوں کا ذکر کیا گیا ہے، ان سے انسان کو فطری لگاؤ ہوتا ہے۔اس لئے انہی چیزوں سے مؤمنوں کے ایمان کا امتحان لیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ واضح فرما رہے ہیں کہ جب اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت، ماں باپ اور دیگر عزیز و اقارب سے زیادہ ہو تب ایمان کا دعویٰ صحیح ہوسکتا ہے۔ اگر یہ رشتہ دار اور کمائے ہوئے مال اور دنیا کی زمین وجائیداد اور تجارت اور پسندیدہ مکانات خدا اور رسولؐ اور جہاد فی سبیل اللہ سے زیادہ محبوب و مرغوب ہیں تو خدا کے عذاب کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔

محبت ایک فطری کشش کا نام ہے، ایک ایسا میلانِ نفس جو ہمیشہ پسندیدہ اور مرغوب چیزوں کی جانب ہوا کرتا ہے۔ یہ محبت اگر قرابت داری کی بنیاد پر ہو تو 'طبعی محبت'کہلاتی ہے اور اگر کسی کے جمال وکمال یا احسان کی و جہ سے ہو تو 'عقلی محبت' کہلاتی ہے اور اگر یہ محبت مذہب کے رشتے کی بنیاد پر ہو تو 'روحانی محبت' یا 'ایمان کی محبت' کہلاتی ہے۔
رسول اللہﷺکے ساتھ 'محبت ِطبعی' بھی ہے جیسی اولاد کی محبت باپ سے ہوتی ہے کیونکہ آنحضورﷺاُمت کے روحانی باپ ہیں اور آپ کی ازواجِ مطہراتؓ 'روحانی مائیں' جیسا کہ سورۃ الاحزاب میں فرمایاگیا﴿وَاَزْوَاجُهٗ اُمَّهَاتُهُمْ﴾ بعض شاذ قراء توں میں ھو أبوھم کا لفظ بھی آیا ہے کہ نبی کریمؐ تمہارے والد کی جگہ پر ہیں۔ تو جس طرح حقیقی باپ سے محبت طبعی ہے اسی طرح آپؐ سے محبت ایک مسلمان کے لئے بالکل فطری امر ہے۔
نبی کریمؐ کا ظاہری وباطنی کمال وجمال
محبت کے اسباب میں سے ایک سبب کمال بھی ہے اور جمال بھی، خواہ ظاہری ہو یا باطنی۔ آپ کا کمال و جمال ظاہری بھی تھا اور باطنی بھی۔ شکل و صورت میں بھی آپ سب سے حسین تھے، جیسا کہ حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں :
«
''کان مثل الشمس والقمر» (مسنداحمد:۵؍۱۰۴ )
آپ کا چہرہ آفتاب و ماہتاب جیسا تھا۔''
ربیع بنت معوذ آپ ؐ کے بارے میں فرماتی ہیں: «لورأيت الشمس طالعة» (مجمع الزوائد: ۸؍۲۸۰)
اگر تم رسول اللہؐ کو دیکھتے توایسے سمجھتے جیسے سورج نکل رہا ہے۔''
آپؐ کے باطنی جمال و کمال کا کیا کہنا، آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے خاتم النّبیینؐ، سید المرسلین، امام الاوّلین والآخرین اور رحمتہ للعالمین بنایا۔ آپؐ کے احسانات اُمت پر بے حد و حساب ہیں بلکہ آپؐ محسن انسانیت ہیں۔ صاحب ِجمال و کمال کے ساتھ محبت رکھنا اور محبت کا ہونا بھی لازمی امر ہے۔ حضرت خدیجتہ الکبریٰ ؓآپ ؐ کے پاکیزہ اخلاق کے بارے میں فرماتی ہیں:
(
پہلی وحی کے موقعہ پر آپ کی دلجوئی کرتے ہوئے فرمایا) ''آپؐ قرابت داروں سے سلوک کرنے والے، درماندوں اور بے کسوں کو سواری دینے والے، ناداروں کو سرمایہ دینے والے، مہمانوں کی خدمت کرنے والے اور مصیبت زدگان کی اعانت کرنے والے ہیں۔'' (بخاری :کتاب بدء الوحی حدیث، رقم:۳)
تاریخ میں بہت سے لوگ اپنے کمالات کی وجہ سے مشہور ہوئے۔ حاتم طائی، اپنی سخاوت؛ نوشیرواں اپنے عدل و انصاف؛ سقراط و بقراط و افلاطون، اپنی دانائی و حکمت کی بنا پر مرجع خلائق اور لائق محبت تھے۔ مگر آپؐ کے جملہ کمالات ان سب سے کئی گنا بڑھ کر تھے، حتیٰ کہ تمام انبیا میں جو جو خوبیاں تھیں، وہ تنہا آنحضورﷺ کی ذاتِ اقدس میں تھیں۔ بقولِ شاعر

حسن یوسف، دم عیسیٰ، ید بیضا داری       آنچہ خوباں ہمہ دارند، تو تنہا داری !

٭٭ ٭ حب ِ رسولؐ کے تقاضے ٭٭ ٭
رسول اللہﷺکے ساتھ سچی محبت کے کچھ بدیہی تقاضے ہیں، جن میں سے کچھ تو ایسے اُمور ہیں جنہیں بجا لانا ضروری ہے اورکچھ ایسے جن سے اجتناب ضروری ہے۔ ذیل میں ہم ان سب تقاضوں کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں :
1.
احترام و تعظیم رسولؐ
ع ''ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں۔'' حب ِ رسولؐ کا لازمی اور اہم تقاضا احترامِ رسولؐ ہے۔ یہ تو ایسی بارگاہ ہے جہاں حکم عدولی کی تو کیا گنجائش ہوتی، یہاں اونچی آواز سے بولنا بھی غارت گر ِایمان ہے۔ سورۃ الحجرات کی ابتدائی چار آیات میں آنحضورﷺ کے ادب و احترام کے مختلف پہلو واضح فرمائے گئے ہیں :
''
اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ؐسے پیش قدمی نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو، بلا شبہ اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے۔ اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کرو اور نہ ہی ان کے سامنے اس طرح اونچی آواز سے بولو جیسے تم ایک دوسرے سے بولتے ہو۔ ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال برباد ہوجائیں اور تمہیں اس کی خبر بھی نہ ہو۔بلاشبہ جو لوگ رسول اللہﷺکے حضور اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لئے جانچ لیا ہے، ان کے لئے بخشش اور اجر عظیم ہے۔ اے نبیؐ! جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں، ان میں سے اکثر بے عقل ہیں۔ اگر یہ لوگ صبر کرتے تا آنکہ آپ ان کی طرف خود نکلتے تو یہ ان کے حق میں بہتر تھا اور اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔ '' (الحجرات : ۱تا۴)
ان آیات کے نزول کے بعد ایک صحابی ثابت بن قیسؓ جن کی آواز قدرتی طور پربلند تھی، ایمان ضائع ہوجانے کے ڈر سے گھر میں محصور ہوکربیٹھ گئے۔ آپؐ نے ان کے بارے میں دریافت فرمایا اور جب آپؐ کو اصل صورتحال کا علم ہوا تو ان کو پیغام بھجوایا کہ ''تم اہل دوزخ سے نہیں بلکہ اہل جنت سے ہو جب کہ اس سے پہلے صحابی سے اس بارے میں استفسار کیا گیاتو انہوں نے یہ جواب دیا تھا : ''میرا بُرا حال ہے، میری آواز ہی آنحضورﷺسے بلند ہے، میرے تو اعمال اِکارت گئے اور میں تو اہل دوزخ سے ہوجاؤں گا۔''
(
بخاری: کتاب التفسیر ؛۴۸۴۶)
صلح حدیبیہ کے موقع پر جب عروہ بن مسعودؓ مکہ والوں کی طرف سے سفیر بن کر آنحضورﷺ کی خدمت ِاقدس میں حاضر ہوا تھا تو واپس جاکر اپنا چشم دید واقعہ بیان کیا جیسا کہ صحیح بخاری شریف میں ہے۔عروہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹ کر گیا اور کہنے لگا کہ
''
بھائیو! میں تو بادشاہوں کے پاس بھی پہنچ چکا ہوں۔ خدا کی قسم! اس نے کسی بادشاہ کو ایسا نہیں دیکھا کہ لوگ اس کی ایسی تعظیم کرتے ہوں جیسے محمدؐ کی تعظیم ان کے اصحاب کرتے ہیں۔ خدا کی قسم! اگر وہ تھوکتے ہیں توان کا تھوک کسی نہ کسی صحابی کے ہاتھ پرگرتا ہے اور وہ اپنے منہ اور جسم پر تبرکا ًاس کو مل لیتا ہے۔ وہ جب کوئی حکم دیتے ہیں تو سب لپک کر ان کے حکم کو بجا لاتے ہیں، وضو کرتے ہیں تو اس کا پانی ان کے لئے باعث برکت ٹھہرتا ہے اور اس کو لینے کے لئے چھینا جھپٹی کرتے ہیں۔ وہ بولتے ہیں تو ان کے ساتھیوں کی آوازیں پست ہوجاتی ہیں۔ وہ ان کی طرف گھور گھور کر، آنکھ بھر کر نہیں دیکھتے۔ '' (بخاری؛ ۲۷۳۱،۲۷۳۲)
دربارِ نبوت میں حاضری صحابہ کرامؓ کے لئے خاص تقریب کا موقع ہوتا، صاف ستھرے کپڑے زیب تن کرتے ، بغیر طہارت کے آپ کی خدمت میں حاضر ہونا اور مصافحہ کرنا گوارا نہ ہوتا، راستے میں کبھی ساتھ ہوجاتا تو اپنی سواری کو آنحضورﷺکی سواری سے آگے نہ بڑھنے دیتے۔ غایت ِادب کی بنا پر کسی بھی بات میں مسابقت گوارا نہ تھی۔ دستر خوان پر ہوتے تو جب آپ کھانا شروع نہ فرماتے کوئی کھانے میں ہاتھ نہ ڈالتا۔ اگر آپ مکان کے نچلے حصے میں قیام پذیر ہوتے تو یہ خیال کہ وہ رسول اللہﷺکے اوپر چل پھر رہے ہیں، انہیں ایک کونے میں اپنے آپ کو قید کرنے کے لئے کافی ہوتا۔
یہ تو تھا آپؐ کی زندگی میں صحابہ کرامؓ کا معمول مگر آپؐ کی وفات کے بعد ہم لوگوں کے لئے آپؐ کی عزت و تکریم کا طریقہ یہ ہے کہ ہم آپؐ سے صدقِ دل سے محبت کریں، آپؐ کے فرمودات پر عمل کریں، اپنی زندگی میں آپؐ کو واقعی اپنے لئے اُسوۂ حسنہ سمجھیں۔جب حدیث پڑھی جارہی ہو یا سننے کا موقع ہو تو چلانا، شور مچانا منع ہے۔ حدیث کی تعظیم رسول اللہﷺکی تعظیم ہے۔
2.
حب ِ رسولؐ کا حقیقی معیار ... اطاعت ِرسول ؐ
حب ِرسولؐ کا سب سے اہم تقاضا اطاعت ِرسول ؐ ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل روایات سے ثابت ہوتا ہے :
1.
ایک صحابیؓ خدمت ِاقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کی :
''
یارسول اللہؐ! میں آپ کو اپنی جان و مال، اہل و عیال سے زیادہ محبو ب رکھتا ہوں، جب میں اپنے گھر میں اپنے اہل وعیال کے ساتھ ہوتا ہوں اور شوقِ زیارت بے قرار کرتاہے تو دوڑا دوڑا آپؐ کے پاس آتا ہوں، آپؐ کا دیدار کرکے سکون حاصل کرلیتا ہوں۔ لیکن جب میں اپنی اور آپ کی موت کو یاد کرتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ آپ تو انبیا کے ساتھ اعلیٰ ترین درجات میں ہوں گے، میں جنت میں گیا بھی تو آپ تک نہ پہنچ سکوں گا اور آپ کے دیدار سے محروم رہوں گا۔ (یہ سوچ کر) بے چین ہوجاتا ہوں اس پر اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء کی یہ آیت نازل فرمائی﴿وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّ‌سولَ فَأُولـٰئِكَ مَعَ الَّذينَ أَنعَمَ اللَّهُ عَلَيهِم مِنَ النَّبِيّـۧنَ وَالصِّدّيقينَ وَالشُّهَداءِ وَالصّـٰلِحينَ ۚ وَحَسُنَ أُولـٰئِكَ رَ‌فيقًا ٦٩... سورة النساء ''اور جو لوگ اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کریں گے، وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا ہے یعنی انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین ، کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں۔'' (المصباح المنیر فی تہذیب تفسیر ابن کثیر:ص۲۴۳)
صحابی کے اظہارِ محبت کے جواب میں اللہ نے یہ آیت نازل کرکے واضح فرما دیا کہ اگر تم حب ِرسولؐ میں سچے ہو اور آنحضورؐ کی رفاقت حاصل کرنا چاہتے ہو تو رسولِ اکرمﷺکی اطاعت و فرمانبرداری اختیار کرو۔
2.
حضرت ربیعہؓ بن کعب اسلمی روایت کرتے ہیں کہ
''(
ایک روز) نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا: مانگ لو (جومانگنا چاہتے ہو)۔ میں نے عرض کیا: ''جنت میں آپ کی رفاقت کا طلب گار ہوں۔'' آپ نے فرمایا ''کچھ اس کے علاوہ بھی ؟'' میں نے عرض کیا ''بس یہی مطلوب ہے۔'' تو آپؐ نے فرمایا ''تو پھر اپنے مطلب کے حصول کیلئے کثرتِ سجود سے میری مدد کرو۔'' (یعنی میرے دعا کرنے کے ساتھ تم نوافل کا بھی اہتمام کرو تو اللہ تعالیٰ میری دعا قبول فرمائے گا)۔ (صحیح ابوداود؛۱۱۸۲)
گویا آپؐ نے واضح فرما دیاکہ اگر میری محبت میں میری رفاقت چاہتے ہو تو عمل کرو۔ یہی حب ِرسولؐ ہے اور معیت ِرسولؐ حاصل کرنے کاذریعہ بھی۔
3.
حضرت عبداللہ بن مغفلؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسولِ اکرمؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ
''
یارسول اللہﷺ! مجھے آپؐ سے محبت ہے۔ آپؐ نے فرمایا جو کچھ کہہ رہے ہو، سوچ سمجھ کر کہو۔ تو اس نے تین دفعہ کہا، خدا کی قسم مجھے آپؐ سے محبت ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ اگر مجھے محبوب رکھتے ہو تو پھر فقروفاقہ کے لئے تیار ہوجاؤ (کہ میرا طریق امیری نہیں، فقیری ہے) کیونکہ جو مجھ سے محبت کرتاہے فقروفاقہ اس کی طرف اس سے زیادہ تیزی سے آتا ہے جیسی تیزی سے پانی بلندی سے نشیب کی طرف بہتا ہے۔'' (ترمذی؛۲۳۵۰)
گویا جس کے دل میں حب ِرسولؐ ہے، اسے چاہئے کہ آنحضورﷺکی سنت کی پیروی میں اپنے اندر سادگی، صبروتحمل، قناعت اور رضا بالقضا کی صفات پیدا کرنے کی سعی کرتا رہے۔
4.
فرمانِ رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام ہے :
''من أحب سنتي فقد أحبني ومن أحبني کان معي في الجنة''
''جس نے میری سنت سے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی، وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔'' (تاریخ ابن عساکر:۳؍۱۴۵)
5.
فرمانِ رسول اللہ علیہ والصلوٰۃ والسلام ہے:
'
'لا يؤمن أحدکم حتی يکون هواه تبعا لما جئت بهٖ''
''تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اپنی خواہشات کو میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ کردے۔'' (مشکوٰۃ للالبانی:۱۶۷)
یعنی کافر اور مؤمن میں تمیز ہی یہی ہے کہ جو اللہ کے رسولؐ کی تابعداری کرے گا وہ مؤمن ہوگا اور جو رسول اللہﷺکی اطاعت نہ کرے گا، وہ کافر ہوگا جیساکہ
6.
حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
کل أمتي يدخلون الجنة إلا من أبٰی قالوا يارسول اﷲ ! ومن يأبی قال: من أطاعني دخل الجنة ومن عصاني فقد أبٰی (بخاری؛۷۲۸۰)

''
میری اُمت کا ہر شخص جنت میں داخل ہوگا، سوائے اس کے جس نے انکار کیا۔ صحابہؓ نے پوچھا: اے اللہ کے رسولؐ وہ کون شخص ہے جس نے (جنت میں جانے سے) انکار کیا؟ آپؐ نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی، وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس نے میری نافرمانی کی، اس نے انکار کیا۔''
قرآنِ مجید میں بھی اللہ تعالیٰ نے بار بار یہ بات ہمیں سمجھائی ہے۔ مثلاً
1.
سورۃ النساء میں فرمایا:
﴿وَما أَر‌سَلنا مِن رَ‌سولٍ إِلّا لِيُطاعَ بِإِذنِ اللَّهِ...﴿٦٤... سورة النساء
''ہم نے رسول بھیجے ہی اس لئے ہیں کہ اللہ کے حکم سے ان کی اطاعت کی جائے۔''
2.
سورۃ النساء میں فرمایا:
﴿مَن يُطِعِ الرَّ‌سولَ فَقَد أَطاعَ اللَّهَ...﴿٨٠... سورة النساء
''جس نے رسولؐ کی اطاعت کی دراصل اس نے اللہ کی اطاعت کی ۔''
3.
سورۃ الاحزاب میں فرمایا:
﴿لَقَد كانَ لَكُم فى رَ‌سولِ اللَّهِ أُسوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَن كانَ يَر‌جُوا اللَّهَ وَاليَومَ الءاخِرَ‌...﴿٢١... سورة الاحزاب
''تم میں سے جو کوئی اللہ سے ملاقات اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اس کے لئے رسول اللہؐ کی ذات والا صفات میں اچھا نمونہ ہے۔''
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگیوں پر نظر ڈالیں تو آنکھیں کھل جاتی ہیں کہ کیسے انہوں نے حب ِرسولؐ کا حق ادا کیا۔ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہ تھا جسے انہوں نے غور سے نہ دیکھا ہو اور پھر اپنے آپ کو اس کے مطابق ڈھال نہ لیا ہو۔ قاضی عیاضؒ اپنی کتاب 'الشفائ' میں فرماتے ہیںفقال سفيان المحبة اتباع رسول اﷲ ﷺ
''
سفیان ثوری (تابعی) نے فرمایا کہ حب ِرسولؐ کا مطلب درحقیقت اتباعِ رسول اللہﷺہے۔''
بے شمار آیاتِ قرآنی اور احادیث ِرسولؐ کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ حب رسولﷺ کا تقاضا یہ ہے کہ زندگی کے تمام معاملات میں قدم قدم پر آپ کی اطاعت کی جائے۔ وہ محبت جو سنت رسول اللہﷺپر عمل کرنا نہ سکھائے محض دھوکہ اور فریب ہے۔ وہ محبت جو رسول اکرمﷺکی اطاعت و پیروی نہ سکھائے محض لفاظی اور نفاق ہے۔ وہ محبت جو رسول اللہﷺکی غلامی کے عملی آداب نہ سکھائے محض ریا اور دکھاوا ہے۔ وہ محبت جو سنت ِرسولؐ کے علم کو سربلند نہ کرے محض بولہبی ہے۔

یہ مصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست

اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی اوست

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں