خطبہ الجمعہ موضوع ۔ محبت رسول اایمان میں سے ہے
ان الحمدللہ نحمدہ ونستعینہ ، ونستفرہ ، ونعوذ باللہ من شرور انفسنا ومن
سیئات أعمالنا ، من یھدہ اللہ فلا مضل لہ، ومن یضلل فلا ھادی لہ، وأشھد ان لا الہ
الااللہ وحدہ لاشریک لہ، وأشھد أن محمدا عبدہ ورسولہ
أما بعد: فان خیر الحدیث کتاب اللہ وخیر الھدی ھدی محمدﷺ وشر الامور
محدثاتھا وکل بدعۃ ضلالہ وکل ضلالۃ فی النار۔
قال تعالی۔۔ قُلْ اِنْ کَانَ آبَائُکُم وَ اَبْنَاءُ کُمْ وَاخْوَانُکُمْ
وَازْوَاجُکمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَ اَمْوَالُ نافْتَرَفْتُمُوْھَا وَتِجَارَةُ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا
وَمَسَاکِنُ تَرْضَوْنَھَا اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِنَ اللهِ وَرَسُوْلِہ وَجِھَادٍ فِیْ سَبِیْلِہ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ
اللهُ بِاَمْرِہ وَاللهُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِیْنَ۔“ (التوبة:۲۴)
اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
﴿
اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ أنْفُسُہِمْ وَ أزْوَاجُہ
أمَّہَاتُھُمْ ﴾ ( الاحزاب:۶)
ترجمہ : ’نبی سے لگاوٴ ہے
ایمان والوں کو زیادہ اپنی جان سے اور اس کی عورتیں ان کی مائیں ہیں۔“
اور ارشاد ہے :
قُلْ اِنْ کَانَ آبَائُکُم وَ اَبْنَاءُ کُمْ وَاخْوَانُکُمْ
وَازْوَاجُکمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَ اَمْوَالُ نافْتَرَفْتُمُوْھَا وَتِجَارَةُ
تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَمَسَاکِنُ تَرْضَوْنَھَا اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِنَ اللهِ
وَرَسُوْلِہ
وَجِھَادٍ فِیْ سَبِیْلِہ
فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللهُ بِاَمْرِہ
وَاللهُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِیْنَ۔“ (التوبة:۲۴) ترجمہ:”تو کہہ اگر تمہارے
باپ اور بیٹے اور بھائی اور عورتیں اور برادری اور مال جو تم نے کمائے ہیں اور سود
اگر ی جس کے بند ہونے سے تم ڈرتے ہو اور حویلیاں جن کو پسند کرتے ہو ،تم کو زیادہ
پیاری ہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور لڑنے سے اس کی راہ میں تو انتظار کرو یہاں
تک کہ بھیجے اللہ اپنا حکم اور اللہ راستہ نہیں دیتا نافرمان لوگوں کو۔“
اس آیت کریمہ نے محبت کی
تمام اقسام کو جمع کردیا ہے اور یہ فرض قرار دیا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی
محبت ہر چیز پر غالب ہونی چاہیے ، بلکہ مجموعی طور پر ان تمام چیزوں کی محبتوں پر
بھی الله اور اس کے رسول کی محبت غالب ہونی چاہیے ۔
اسی مضمون کو ثابت کرنے
کے لئے صحیح تر احادیث وارد ہوئی ہیں ، جیسا کہ صحیحین میں حضرت انَس بن مالک رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” لایؤمن أحدکم حتی أکون أحب إلیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین“․
ترجمہ :”تم میں سے کوئی
اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والد ، اس کی اولاد
اورتمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں “۔
یہ حدیث ہر قسم کی محبت
کو شامل ہے، جس میں آپ کی اپنے نفس سے محبت بھی ہے ۔
امام بخاری رحمہ اللہ اور
دوسرے حضرات نے حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”والذی نفسی بیدہ لایؤمن أحدکم حتی أکون أحب إلیہ من والدہ وولدہ “
ترجمہ :”قسم ہے اس ذات کی
جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا
جب تک میں اس کے نزدیک اس کے والد اور اولاد سے زیادہ محبوب نہ ہوں “۔
یہاں والد اور اولاد کو
ذکر فرمایا، کیوں کہ یہ دونوں دوسروں کے مقابلے میں انسان کو زیادہ محبوب ہوتے ہیں
، اور ان دونوں کی وجہ سے انسان اس دنیا میں جیتااور محنت کرتا ہے، اس لئے دوسری
اقسامِ محبت کو چھوڑ کر صرف ان پر اکتفا فرمایا۔ لہذا یہ روایت اس بات پر دلالت
کرتی ہے کہ مومن پر فرض ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو ہرقسم کی محبت ،
اور ہر محبو ب چیزکی محبت ، حتی کے اپنے نفس کی محبت پر بھی مقدم رکھے۔محبت کی بہت
سی اقسام ہیں، جن میں سے چند مشہور درج ذیل ہیں :
۱۔شفقت و رحمت کی محبت
۔اور یہ باپ کی اپنے بیٹے سے محبت ہے ۔
۲۔ تعظیم اور بزرگی کی
محبت۔ اور یہ بیٹے کی اپنے باپ سے اور شاگرد کی اپنے استاذ سے محبت ہے ۔
۳۔ نفس کی محبت۔اور یہ مرد
کی اپنی بیوی سے محبت ہے ۔
۴۔ خیر خواہی اور انسانیت
کی محبت ۔ اوریہ سب انسانوں کی آپس کی محبت ہے۔
۵۔ انانیت کی محبت ۔ اوریہ
انسان کی اپنی نفس سے محبت ہے اور یہ ان محبتوں میں سب سے زیادہ مضبوط محبت ہے ،
اور یہ ایسی محبت ہے جس کو ازل سے نفس کی سرشت میں رکھا گیا ہے، جیسا کہ دوسری
محبتیں اس کی سرشت میں رکھی گئی ہیں ۔
غور و فکر کا مرحلہ
:
اللہ تعالی اور اس کے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات پر تاکید کی ہے کہ مومن کے دل میں اللہ
اور اس کے رسول کی محبت تمام اقسام محبت سے زیادہ ہونی چاہیے اور محبت کے تمام
مراتب سے اعلی وارفع ہونی چاہیے ، اور اس کے معلوم کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ
انسان اپنی تمام محبوبات اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں غور و فکر کرے
اورسوچے تو یقینا اس کی عقل یہ فیصلہ کرے گی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی
محبت ،انانیت کی سرشت پر غالب ہے ، اور اس انانیت کا نام و نشان ختم کردیتی ہے ،
اے مسلمان عقلمند! آپ کے لئے سیدنا عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ کی سیر ت میں بہترین
نمونہ ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ
تعالی نے حضرت عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ ایک دن ہم نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر کا ہاتھ
پکڑے ہوئے تھے ،حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی : یارسول اللہ ! بے شک آپ مجھے ہر
چیز سے زیادہ محبوب ہیں، سوائے میرے نفس کے !
تو نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا: ایسانہیں ، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہٴ قدرت میں میر ی جان ہے ،
جب تک میں آپ کے نفس سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں ،حضرت عمررضی اللہ عنہ نے عرض کیا:
بے شک اب تو آپ مجھے میرے نفس سے بھی زیادہ محبوب ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا : ہاں! اب تمہار ا ایمان مکمل ہوگیا، اے عمر۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ
کا پہلا جواب اس فطرت کے مطابق تھا جس پر انسان کو پیدا کیا گیا ہے ،پھر جب نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(لا ) یعنی تیر اایمان کامل نہیں ہوگا (قسم
ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میر ی جان ہے جب تک کہ میں آپ کے نفس سے بھی زیادہ
محبوب نہ ہوں) توحضرت عمررضی اللہ عنہ نے جب غور کیا تو اس نتیجہ پر پہنچے کہ نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کو ان کے نفس سے بھی زیادہ محبوب ہیں ، کیوں کہ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم ہی اس نفس کو دنیا اور آخرت کی ہلاکتوں سے بچانے والے ہیں،حضرت
عمررضی اللہ عنہ نے اس بات کی خبردی جس تک وہ غور و فکر سے پہنچے ، اور خبر بھی
قسم کے ساتھ دی کہ:
(فإنہ الآن والله ۔لأنت أحبّ إلیّ من نفسی)
بے شک اب تو آپ مجھے اپنے
نفس سے بھی زیادہ محبوب ہیں تو اس کے جواب میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو عظیم تسلی
بخش جواب ملا
(الآن یاعمر)
یعنی اے عمر !اب آپ کو صحیح
معرفت حاصل ہوئی اور آپ اس حقیقت تک پہنچ گئے، جس تک پہنچناضروری ہے ۔
تو بھائی! اگر آپ بھی
اپنے اندر اس محبت میں غور و فکر کریں گے تو آپ بھی اسی نتیجہ پرپہنچیں گے کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی محبت کے سب سے زیادہ مستحق ہیں، کیوں کہ جب آپ اس
بات میں غور و فکر کریں گے کہ آپ کے نفس کی بقا ء، خوشی اور دائمی نعمتوں کا ذریعہ
صرف اورصرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں اور یہ وہ منفعت ہے جو ہرقسم کی
نعمتوں سے اعلی وارفع ہے ،جن سے آپ منتفع ہوسکتے ہیں، اسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ
وسلم اس کے زیادہ مستحق ہیں کہ آ پ کے ساتھ محبت دوسری محبتوں سے زیادہ ہو، اور
(ہر انسان کواپنے ) نفس سے جو اس کے دونوں پہلووٴں کے درمیان ہے ، اس لئے کہ وہ
نفع اور خیر جو محبت پر ابھارتے ہیں وہ آ پ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے
دوسرں کے مقابلہ میں بلکہ اپنے نفس سے زیادہ حاصل ہیں اور جیسے آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کمالات و فضائل میں سب مخلوق سے افضل اور اعلی ہیں، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ
وسلم تمام کمالات،برکات اور فضائل کے جامع ہیں ۔
یہ وہ حقائق ہیں جو نفس کی
گہرائیوں میں قرار پکڑے ہوئے اور عقل کے ادارک میں جاگزین ہیں ،اس لیے کہ ہر
مسلمان کے دل میں اللہ اور اس کے رسول کی محبت ہے، کیوں کہ اسلام دل میں اس محبت
کے بغیرداخل ہوہی نہیں سکتا ، البتہ عام لوگوں کے اندر ان احسانات میں غوروفکر نہ
کرنے اور ان میں غفلت برتنے کی وجہ سے کافی تفاوت پایا جاتا ہے ،اسی لئے دعوت الی
اللہ کے جواعلی طریقے ہیں ان میں ایک اہم طریقہ یہ ہے کہ سیدنا رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کے فضائل وکمالات کو بیان کیا جائے ، اور کثرت سے بیان کیا جائے ،تاکہ
خود آپ کو اس سے فائدہ ہو اور آپ کے علاوہ باقی ایمان والوں کو بھی اس سے فائدہ
ہو، اور غیر مسلموں کے لئے تالیف قلب اور دین حق سے قربت کا ذریعہ بنے ،اور اس کے
ذریعہ آپ ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے پھلوں میں سے ایک عظیم پھل حاصل کرلیں
گے، جس کے بارے میں صحیح اور قطعی الثبوت احادیث وارد ہوئی ہیں ، جن میں کوئی شک
وشبہ نہیں ۔
امام بخاری او ر امام
مسلم نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا:
”ثلاث من کن فیہ وجد حلاوة الإیمان
: أن یکون الله ورسولہ احبّ إلیہ مماسواھما، وأن یحبّ المرء لایحبّہ الا الله ،
وأن یکرہ أن یعود فی الکفرکمایکرہ أن یقذف فی النار“
ترجمہ :”تین صفات ایسی ہیں
جس شخص میں وہ پائی جائیں گی ،اس نے ایما ن کا مزہ چکھ لیا ،
۱:․․․ ایک یہ کہ اللہ اور اس کے
رسول اسے ہر چیز سے زیادہ محبوب ہوں۔
۲:․․․ اگر کسی سے محبت کرے تو
صرف اللہ کے لئے کرے۔
۳:․․․کفر کی طرف لوٹنے کو اس
طرح ناپسند کرے جیسے اپنے آپ کو آگ میں ڈالے جانے کو ناپسند کرتا ہے “۔
اور امام مسلم نے حضرت
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا :
”ذاق طعم الإیمان من
رضی باللّٰہ ربّا، وبالاسلام دینا ، وبمحمد رسولاً“
ترجمہ :۔”اس شخص نے ایمان
کا مزہ چکھ لیا جو اللہ کے رب ہونے ، اسلام کے دین ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ
وسلم کے رسول ہونے پر راضی ہوگیا“ ۔
محبت کیسے ثابت ہوگی ؟
میرے مسلمان بھائی! جاننا
چاہیے کہ محبت دعویٰ اور آرزؤں کانام نہیں، بلکہ محبت کو بتلانے والی چیز اللہ اور
اس کے رسول کے اوامر کو بجالانے اور ان کی منہیات سے بچنا ہے ،اس اعتبار سے محبت
کبھی فرض ہوتی ہے اور کبھی سنت ہوتی ہے ۔
محبت فرض :
یہ وہ محبت ہے جو نفس کو
فرائض کے بجالانے اور گناہوں سے بچنے پر آمادہ کرے ، اور اللہ نے جو کچھ اس کے لئے
مقدّر کیا ہے، یہ محبت اس پرراضی ہونے پر آمادہ کرے ۔ پس جو شخص کسی معصیت میں
مبتلا ہے یااس نے کسی فرض کو چھوڑ دیا یاکسی حرام فعل کا ارتکاب کیا تو اس کا سبب
اس محبت میں کوتاہی ہوتا ہے کہ اس نے اس محبت پر نفس کی خواہشات کو مقدم کیا ، اور
یہ -العیاذ باللہ -غفلت کا نتیجہ ہوتا ہے ۔
محبت سنت :
وہ یہ ہے کہ انسان نفلی
عبادات کی پابندی کرے اور مشتبہ امور سے بچتا رہے ۔
اس بحث کاخلاصہ یہ ہے کہ
وہ مومن جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہے، اس کے پاس شریعت کے جو
بھی اوامر اور منہیات پہنچے ہیں وہ مشکاةِ نبوت سے ہی پہنچے ہیں اور وہ صرف آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلتا ہے ، آپ کی شریعت سے راضی اور انتہائی خوش ہوتا
ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اپناتا ہے ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو
فیصلے فرمائے ہیں ان سے اپنے نفس میں کوئی تنگی محسوس نہیں کرتا ، جس شخص نے ان
امور پر اپنے نفس سے جہاد کیا ،اس نے ایمان کی حلاوت حاصل کرلی ۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے
اپنی کتاب میں حضرت ابوہریرة رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”إن الله تعالٰی قال : من عادیٰ لی ولیّاً فقد آذنتہ بالحرب، وما
تقرّب إلیّ عبدی بشئ أحب إلیّ ممّا افترضت علیہ ، ولا یزال عبدی یتقرّب إلیّ
بالنوافل حتی أحبّہ …“ الحدیث ․
ترجمہ:۔”اللہ تعالی نے
فرمایا : جس نے میرے دوست سے دشمنی کی تو میرا اس کے خلاف اعلان جنگ ہے ، اور میرا
بندئہ مومن میرا تقرب (اعمال میں سے) کسی ایسے عمل کے ذریعے حاصل نہیں کرتا جو میرے
نزدیک ان اعمال میں سے زیادہ مقبول ہو جو میں نے اس پر فرض کیے ہیں اور میرا وہ
بندہ جسے ادائیگی فرائض کے ذریعے میرا تقرب حاصل ہے ہمیشہ نوافل کے ذریعے( یعنی ان
طاعات وعبادات کے ذریعے جو فرائض کے علاوہ ہیں) میرا تقرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں
تک کہ میں اسے اپنا دوست بنالیتا ہوں“۔
پس اس حدیث نے محبت الٰہی
کے اسباب کو دو امور میں بند کردیا، ایک وہ جو فرائض کے اہتمام سے حاصل ہوتی ہے
اور دوسری وہ جو کثرت نوافل سے۔
بے شک اللہ تعالیٰ سے
محبت کرنے والا کثرت نوافل میں مشغول رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کا محبوب
بن جاتا ہے۔ جب بندہ اشتغال نوافل سے اللہ کا محبوب بن جاتا ہے تو اس اشتغال نوافل
کی برکت سے اسے ایک اور محبت یا محبوبیت حاصل ہو جاتی ہے، جو پہلی محبت یا محبوبیت
سے بڑھ کرہوتی ہے۔ پس یہ تیسری محبت یا محبوبیت اس کثرت نوافل سے حاصل ہونے والی
محبت سے بڑھ کر ہوتی ہے اور یہ بندے کے دل کو محبت الٰہی میں اس قدر مشغول ومستغرق
کردیتی ہے کہ وہ ذات الٰہی اور ان کے ذکر وعبادت کے علاوہ ہر قسم کی فکر وسوچ اور
افکار واوہام سے بے نیاز ہوجاتا ہے اور اس پر اس کی روح مکمل طور پر غالب آجاتی
ہے، چنانچہ اس وقت اس کے ہاں محبوب کے ذکر، محبت اور اس جیسی دوسری چیزوں کے علاوہ
کسی شئ کی کوئی اہمیت نہیں رہتی، بلکہ اس کے دل کی باگ ڈور ذکر الٰہی اور محبت
خداوندی وغیرہ کے ہاتھ میں آجاتی ہے۔ نیز اس کی روح اس کی جسمانی خواہشات پر اور
ذکر اس کی روح پر غالب آجاتا ہے یعنی اس وقت ذکر وعبادت اس کے دل کی آواز ورورح کی
غذا بن جاتی ہے اور ملائکہ کی طرح اس کے اعمال واذکار اس کے سانسوں کے ساتھ چلنے
لگتے ہیں۔
تو حاصل کلام یہ ہے کہ
مؤمن کے دل کے لئے ایک عمدہ اور باسعادت زندگی کا حصول اللہ تعالی اور اس کے رسول
صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے بغیر ممکن نہیں اور حقیقی زندگی تو مُحبّین کی زندگی
ہے جن کی آنکھیں اپنے حبیب سے ٹھنڈی ہیں ،ان کے نفوس کو محبوب کی وجہ سے سکون مل
چکا ہے، اس کی وجہ سے ان کے دل مطمئن ہوچکے ہیں ،اس کے قرب سے وہ مانوس ہوچکے ہیں
اور اس کی محبت سے مزے لے رہے ہیں ۔
محبت کی علامات اور محبت
میں تاثیر پیدا کرنے والے امور :
نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم سے آپ کی محبت وہ قیمتی جوہر ہے جو دل میں ایک عظیم نور سے چمکتا ہے ، اور اس
کے لئے ضروری ہے کہ اس سے ایسی نورانی شعائیں نکلیں جو اس محبت کو بتائیں اور جیسے
یہ شعائیں اس کے آثارمیں سے ہیں، اسی طرح اپنے اندر تاثیر بھی رکھتی ہیں جس سے
محبت میں اضافہ ہوتا ہے اور اس میں ترقی ہوتی ہے، یہاں تک کہ محبت کرنے والا اللہ
اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں محبوبیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے ۔
معاملہ صرف یہی نہیں کہ آپ اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت
کریں بلکہ اصل معاملہ نجاح و فلا ح اور عظیم کامیابی کا یہ ہے کہ آ پ سے اللہ تعالی
اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم محبت کریں -
اے اللہ ہمیں بھی ان میں
سے بنا دیجئے ۔ آمین یا رب العالمین
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں