خطبۂ وَمِنْ شَرِّحَاسِدٍ اِذَا
حَسَدَ
بِسّمِ اللَّہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم
إن الحمد لله نحمده ، و نستعينه ، ونستغفره ، ونعوذ
بالله من شرور أنفسنا ، ومن سيئات أعمالنا .من يهده الله فلا مضل له ، ومن يضلل
فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له .وأ شهد أ ن محمداً عبدُه
و رسولُه .
يَاأَيها الذين آ مَنُوا اتقُوا اللهَ حَق تُقَا ته
ولاتموتن إلا وأنتم مُسلمُون,يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ الَّذِي
خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا
رِجَالاً كَثِيراً وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَتَسَاءَلُونَ بِهِ
وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيباً,
يَا أ يها
الذين آ منوا اتقوا الله وقولوا قَو لاً سَديداً يُصلح لَكُم أَ عما لكم وَ يَغفر
لَكُم ذُ نُو بَكُم وَ مَن يُطع الله وَ رَسُولَهُ فَقَد فَازَ فَوزاً عَظيم أَمَّا
بَعْدُ:
فَإِنَّ أَصْدَقَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ، وَأَحْسَنَ
الْهَدْيِ هَدْيُ مُحَمَّدٍ، وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا، وَكُلُّ
مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ، وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ
حسد کی تعریف
حسد کا مطلب ہے کہ ''کسی دوسرے کی خوش حالی پر جلنا اور تمنا کرنا کہ اس کی
نعمت اور خوش حالی دور ہوکر اسے مل جائے۔''
حسد ایک حقیقت ہے دلائل درج ذیل ہیں:
«أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَىٰ مَا
آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ ۖ فَقَدْ آتَيْنَا آلَ إِبْرَاهِيمَ الْكِتَابَ
وَالْحِكْمَةَ وَآتَيْنَاهُم مُّلْكًا عَظِيمًا
﴿٥٤﴾ »
”یا وہ
لوگوں سے حسد کرتے ہیں جو اللہ نے انھیں اپنے فضل سے دیا ہے، تو ہم نے تو آل
ابراہیم کو کتاب اور حکمت عطا فرمائی اور ہم نے انھیں بہت بڑی سلطنت عطا فرمائی۔“ [النساء: 54]
«قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ﴿١﴾ مِن شَرِّ مَا خَلَقَ
﴿٢﴾
وَمِن شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ
﴿٣﴾
وَمِن شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ
﴿٤﴾
وَمِن شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ
﴿٥﴾ »
”تو
کہہ میں پناہ پکڑتا ہوں لوگوں کے رب کی۔ لوگوں کے بادشاہ کی۔ لوگوں کے معبود کی۔
وسوسہ ڈالنے والے کے شر سے، جو ہٹ ہٹ کر آنے والا ہے۔ وہ جو لوگوں کے سینوں میں
وسوسہ ڈالتا ہے۔ جنوں اور انسانوں میں سے۔“ [الفلق: 1-5]
سیدنا
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے روایت
کرتے ہیں کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
« العين حق »
”نظر
حق ہے۔“ [صحيح البخاري 319/10 صحيح مسلم، رقم الحديث 2187]
ابلیس
نے ہمارے باپ آدم علیہ السلام سے جو حسد کیا، وہ پہلا حسد تھا اور انسانوں کے
درمیان پہلا معصیت کا کام قابیل کا اپنے بھائی ہابیل کو قتل کرنا تھا۔
اللہ
تعالیٰ کا فرمان ہے:
«وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ
بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ
يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّكَ ۖ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ
اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ ﴿٢٧﴾ »
”اور
ان پر آدم کے دو بیٹوں کی خبر کی تلاوت حق کے ساتھ کر، جب ان دونوں نے کچھ قربانی
پیش کی تو ان میں سے ایک کی قبول کر لی گئی اور دوسرے کی قبول نہ کی گئی۔ اس نے
کہا میں تجھے ضرور ہی قتل کر دوں گا۔ اس نے کہا بےشک اللہ متقی لوگوں ہی سے قبول
کرتا ہے۔“ [المائدة: 27]
قابیل کا ہابیل سے حسد
﴿وَاتلُ عَلَيهِم نَبَأَ ابنَى ءادَمَ بِالحَقِّ إِذ قَرَّبا قُربانًا
فَتُقُبِّلَ مِن أَحَدِهِما وَلَم يُتَقَبَّل مِنَ الءاخَرِ قالَ
لَأَقتُلَنَّكَ ۖ قالَ إِنَّما يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ المُتَّقينَ ﴿٢٧﴾... سورة المائدة
''اور
ان کو آدم کے بیٹوں کا قصہ ٹھیک ٹھیک پڑھ کر سنائیے جب دونوں نے قربانی پیش کی تو
ان دونوں میں سے ایک کی قبول ہوئی اور دوسرے کی قبول نہیں ہوئی۔ اُس (قابیل) نے
کہا۔ میں ضرور تمہیں قتل کردوں گا۔ اُس (ہابیل) نے کہا اللہ پرہیزگاروں سے قبول
کرتا ہے۔''
برادرانِ یوسف کا یوسف ؑسے
حسد
﴿اقتُلوا يوسُفَ أَوِ اطرَحوهُ أَرضًا يَخلُ لَكُم وَجهُ أَبيكُم
وَتَكونوا مِن بَعدِهِ قَومًا صـٰلِحينَ ٩﴾...
سورة يوسف
''مار
ڈالو یوسف کو یا کہیں پھینک آؤ تا کہ تمہارے باپ کی توجہ تمہاری طرف ہو یوسف کے
بعد تم لوگ اچھے رہو گے۔''
یہود و نصاریٰ کا اسلام اور اہل اِسلام
سے حسد
یہود
ونصاریٰ اسلام،اہل اسلام،نبی معظم اور قرآن سے دلی طور پر بغض وحسد رکھتے ہیں
﴿وَإِذا خَلَوا عَضّوا عَلَيكُمُ الأَنامِلَ مِنَ الغَيظِ ۚ
قُل موتوا بِغَيظِكُم...١١٩﴾... سورة آل عمران
''اور
جب وہ اکیلے ہوتے ہیں تو غصہ کے مارے تم پراپنی انگلیاں کاٹتے ہیں۔ آپ کہو کہ تم
اپنے غصہ میں جل مرو۔'ـ'
مشرکین مکہ کا قرآن اور اہل قرآن سے حسد
''ہمارا
اور بنی عبدمناف کا باہم مقابلہ تھا۔ انہوں نے کھانے کھلائے توہم نے بھی کھلائے،
انہوں نے لوگوں کو سواریاں دیں تو ہم نے بھی دیں، انہوں نے عطیے دیئے توہم نے بھی
دیئے،یہاں تک کہ وہ اور ہم جب عزت و شرف میں برابر کی ٹکر ہوگئے تو اب وہ کہتے ہیں
کہ ہم میں ایک نبی ہے جس پر آسمان سے وحی آتی ہے۔بھلا اس میدان میں ہم کیسے ان کا
مقابلہ کرسکتے ہیں؟ خدا کی قسم ...! ہم ہرگز نہ اس کو مانیں گے اور نہ اس کی تصدیق
کریں گے۔'' (ابن ہشام:جلد۱وّل)
سیدنا
جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
« أكثر من يموت من أمتي بعد قضاء الله
وقدره بالأنفس »
”اللہ
تعالیٰ کی قضا و قدر کے بعد کثرت اموات نظر سے ہوں گی۔‘‘ امام بخاری نے اسے
”التاریخ الکبیر“ 360/4 میں روایت کیا ہے اور امام ہیثمی نے کشف الأستار 403/3 رقم
الحدیث 3052 میں نقل کیا ہے۔
حسد
قیامت کے قائم ہونے تک امتوں کی بیماری ہے۔ حسد اور ایمان ایک دل میں جمع نہیں ہو
سکتے۔
سیدنا
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لا تقاطعوا ولا تباغضوا ولا تحاسدوا،
وكونوا عباد الله إخوانا »
”تم
قطع رحمی کرو نہ ایک دوسرے سے بغض کرو اور نہ حد کرو۔ اللہ کے بندو! بھائی بھائی
ہو جاو۔“ [صحيح مسلم، رقم الحديث 2559]
نیز
آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
«خير الناس ذو القلب المخموم، واللسان
الصادق قيل: ما القلب المخموم؟ قال: هو التقي النقي لا إثم فيه ولا بعي ولا حسد
قيل: فمن على أثره؟ قال: الذى يشنأ الدنيا ويجب الآخرة قيل: فمن على أثره؟ قال:
مؤمن فى خلق حسن»
لوگوں
میں سب سے بہتر مخموم دل اور سچی زبان والا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا
گیا: قلب مخموم کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ ایسا پرہیزگار اور
پاکیزہ دل ہے جس میں کوئی گناه، بغاوت اور حسد نہیں ہوتا۔ کہا گیا: کون اس کے اثر
پر ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ جو دنیا کو برا جانتا اور آخرت
کو پسند کرتا ہے۔ کہا گیا: اس کے بعد کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”حسن اخلاق والا مومن۔“دیکھیں ! صحيح الجامع، رقم الحديث [3291]
ابوعبیدہ
نے ذکر کیا ہے کہ «النقي» سے مراد وہ ہے جس کے دل میں حسد اور کینہ نہ ہو۔ [سنن ابن ماجه، رقم الحديث 4306]
علامہ
البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
268۔ کیا حسد کے علاج کی کوئی
دلیل ہے ؟
ام
المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا :
« أمرني النبى صلى الله عليه وسلم أو أمر أن نسترقي من العين »
”مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم نے حکم دیا، یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نظر سے دم کروانے کا حکم
دیا۔“
[صحيح
البخاري، كتاب الطب، باب رقية العين، رقم الحديث 5738 صحيح مسلم، رقم الحديث 2195]
«اللھم لامانع لما أعطیت ولا معطي لما منعت» (صحیح بخاری:۶۶۱۵)
''اے
اللہ!اُس چیز کو کوئی نہیں روک سکتا جو تو دے، اور کوئی نہیں اس کو دے سکتا جسے تو
روک لے۔
٭ اشتعال میں نہ آئیں اور انتقام کے منصوبے نہ بنائیں۔ آپ کا
صبر ہی حسد کو ختم کرے گا۔
٭ حاسد کو معاف کردیں اس سے اس کے حسد میں کمی ہوگی۔
٭ اللہ سے تعلق مضبوط کرنے کے لیے نماز کی پابندی ضرور کریں۔
٭ صبح و شام کے اَذکار پڑھیں۔
٭ صبح و شام دم کریں۔ نظر بد سے بچاؤ کی دعائیں پڑھیں اوراپنے
آپ کو اللہ کی پناہ میں دے دیں،کیونکہ اللہ کی پناہ کے علاوہ حاسد سے بچنے کا اور
کوئی چارا نہیں ہے۔ حسد سے بچاؤ کا سب سے مضبوط قلعہ اللہ کی پناہ میں آنا ہے۔
٭ حاسد نے جو کچھ آپ کے ساتھ کیا وہ اس کے علم اور ظرف کے
مطابق تھا۔ آپ اپنے علم اور ظرف کے مطابق جوابی رد عمل ظاہر کردیں۔ خیر خواہی کے
علاوہ کچھ نہ چاہیں۔
٭ حسد کی وجہ تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ پھر حکمت کے ساتھ حاسد
کا سامنا کریں۔
٭ حاسد سے کم کم ملیں۔
٭ حاسد کی ہدایت کے لیے دعائے خیر کریں۔
٭ خوف ِ خدا اور تقویٰ کی روش پر قائم رہیں۔
٭ جب کبھی موقع ملے تو حاسد کے ساتھ احسان یا بھلائی کا
معاملہ کریں۔ قطع نظر اس کے کہ اس سے حاسد کے حسد میں کمی ہورہی ہے یا نہیں؟
٭کچھ معاملات میں رازداری سے کام لیں۔ کام کرنے سے پہلے اس کا
ڈھنڈورا نہ پیٹنا شروع کردیں۔
٭حسد کے جواب میں حسد کرنا یا غیر شرعی طریقے اختیار کرنا جائز
نہیں ہے۔ رسول اللہﷺسے کچھ دعائیں ثابت ہیں جو حسد سے اور نظر ِ بد سے بچاؤ کے لیے
ہر مسلمان کو پڑھنی چاہئیں۔ مثلاً :
. معوذتین پڑھیں:
عبداللہ
بن عابس الجہنی کی روایت نسائی، بیہقی، بغوی اور ابن سعد نے نقل کی ہے کہ حضورﷺ نے
مجھ سے فرمایا: ''ابن عابس، کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ پناہ مانگنے والوں نے جتنی
چیزوں کے ذریعے سے اللہ کی پناہ مانگی ہے ان میں سب سے افضل کون سی چیزیں ہیں؟میں
نے عرض کیا ضرور یارسول اللہﷺ! فرمایا:﴿قُل أَعوذُ بِرَبِّ الفَلَقِ ١ ﴾... سورة الفلق" اور ﴿قُل أَعوذُ بِرَبِّ
النّاسِ ١﴾... سورة الناس"یہ دونوں سورتیں۔'' (سنن
نسائی:۸۶۳)
2. ابن
عباسؓ سے مروی ہے کہ نبیﷺ حضرت حسن ؓ اور حضرت حسین ؓ پر یہ دُعا پڑھتے تھے۔
«أعیذکما
بکلمات اﷲ التامة من کل شیطان وھامة ومن کل عین لامة»
''میں تم کو اللہ کے بے عیب
کلمات کی پناہ میں دیتا ہوں ہر شیطان اور موذی سے اور ہر نظر بد سے۔'' (صحیح بخاری:۳۳۷۱)
3. مسلم
میں ابوسعید خدریؓ کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبیﷺ بیمار ہوئے تو جبریل ؑ نے آکر
پوچھا: ''اے محمدؐ! کیا آپ بیمار ہوگئے؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں! انہوں نے کہا:
«باسم
اﷲ أرقیك من کل شيء یؤذیك من شر کل نفس أو عین حاسد اﷲ یشفیك باسم اﷲ أرقیك» (رقم الحدیث:۲۱۸۶)
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو
صراط مستقیم پر ثابت قدمی سے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں