خطبہ عید الاضحی 2023بِسّمِ
اللَّہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم
إنَّ الْحَمْدَ لِلهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ
وَنَسْتَغْفِرُهُ، وَنَعُوذُ بِاللهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا،
مَنْ يَهْدِهِ اللهُ فَلاَ مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلاَ هَادِىَ لَهُ،
وَأَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، وَأَشْهَدُ
أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
● ﴿يَا
أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا
وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ﴾ (آل عمران:102)
● ﴿يَا
أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ
وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا
اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ
رَقِيبًا﴾ (النساء:1)
● ﴿يَاأَيُّهَا
الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَقُولُوا قَوْلاً سَدِيدًا * يُصْلِحْ لَكُمْ
أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللهَ وَرَسُولَهُ
فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا﴾ (الأحزاب: 70، 71)
أَمَّا بَعْدُ:
فَإِنَّ أَصْدَقَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ،
وَأَحْسَنَ الْهَدْيِ هَدْيُ مُحَمَّدٍ، وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا،
وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ، وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي
النَّارِ
قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «إِنَّ لِكُلِّ قَوْمٍ عِيدًا وَهَذَا عِيدُنَا
» (رواه البخاري)
.
اللہ کے نبی ﷺفرماتے ہیں : «ہرقوم کی ایک عید ہوتی ہے
یہ ہماری عید ہے» ، اللہ کے نبی ﷺنے اپنی عید کوسب سے الگ تھلگ قراردیاہے،کیونکہ
ہماری عید میں جوخوبیاں ہیں وہ دنیاکی کسی بھی عیدمیں نہیں ، کل چھ(6) بنیادی
خوبیاں ہیں جوصرف اورصرف ہماری عید میں موجود ہیں:
✿
(1):-
سب سے پہلی خوبی جوہماری عید میں ہے وہ یہ کہ ہماری
عید محض خوشی ومسرت ہی نہیں بلکہ ایک عبادت ہے،یعنی ہم اس نیت سے خوشی نہیں مناتے
کہ یہ ہرقوم کادستور ہے، بلکہ اس لئے کہ یہ اللہ کاحکم ہے۔
✿
(2):-
دوسری خوبی جوہماری عیدمیں ہے وہ یہ کہ ہماری
عیدپاکیزہ اورصاف ستھری ہے، بے حیائی، فحاشی ، شراب نوشی ،گانابجانا، فلم بینی ،
اسلام کی نظر میں یہ خوشی کاذریعہ نہیں ،بلکہ تباہی وبربادی کاپیش خیمہ ہے۔
✿(3):-
تیسری خوبی جوہماری عیدمیں ہے وہ یہ کہ ہماری عید میں
کسی کوتکلیف دیناجائزنہیں ، اپنی خوشی کی خاطرکسی کاچین وسکون چھینناہرگزجائزنہیں
، شوروہنگامہ، ڈھول باجا، جلوس اورمیلے یہ سب شریف انسانوں کاسکون چھین لیتے ہیں
،ہماری عید میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔
✿
(4):-
چوتھی خوبی جوہماری عیدمیں ہے وہ یہ کہ ہماری عید میں
پوری انسانیت کے لئے امن وشانتی کاپیغام ہے، اسلام نے اپنے ماننے والوں کانام ہی
’’مسلم ‘‘ اور’’مؤمن ‘‘رکھاہے جس کے معنی ہی ہوتے ہیں امن اورشانتی والا، اوراسی
پربس نہیں بلکہ اس نام کے تقاضے کوپوراکرنے کاحکم بھی ہے ۔
مسنداحمد[23958] وغیرہ کی صحیح حدیث ہے:فضالہ بن عبید
رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: « قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ » ،
«اللہ کے رسول ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پرآج ہی کے دن، اسی عیدکے دن فرمایاتھا»
:کہ اے لوگو! «أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِالْمُؤْمِنِ؟ » ، «کیا میں تمہیں یہ نہ بتادوں
کہ ”مؤمن“ کون ہے ـ؟» سن
لو! «مَنْ
أَمِنَهُ النَّاسُ عَلَى أَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ » ، «’’مؤمن ‘‘وہ ہے جس سے تمام لوگوں کی ،
’’الناس‘‘! تمام لوگوں کی جانیں اوران کی دولت محفوظ ہو» ۔
اس کے بعدفرمایا: ﴿وَالْمُسْلِمُ﴾ اورکیا میں تمہیں یہ نہ بتادوں کہ’’مسلم‘‘کون ہے ـ؟سن لو! « مَنْ سَلِمَ النَّاسُ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ» ، «’’مسلم‘‘وہ
ہے جس کی زبان اور جس کے ہاتھ سے تمام لوگ، ’’النَّاسُ‘! تمام لوگ محفوظ ہوں» ۔
امن وشانتی کایہ وہ پیغام ہے جسے آپ ﷺنے مسلمانوں کو
اپنے آخری خطاب میں اوراسی عیدکے دن دیاتھا، اورہرقوم کاپیشوا اپنی وصیت اوراپنے
آخری پیغام میں وہی کچھ کہتاہے جواس کی پوری زندگی کاماحصل ہوتاہے یقینا آپ ﷺکی
زندگی میں قدم قدم پرامن وشانتی اورالفت ومحبت کی تعلیم ملتی ہے نیز عفودرگزرکی بے
مثال ترغیب ملتی ہے چنانچہ ہمارے نبی ﷺنے ، ایسے دشمنوں کوبھی معاف کردیاجسے
دنیاکی کوئی عدالت بھی معافی کے قابل نہیں سمجھتی ،بخاری کی حدیث[ نمبر 4372]
میں’’ ثمامہ بن اثال ‘‘ کا نام ہے ،کون تھایہ شخص ؟ آپﷺکاسب سے بڑادشمن، اورآپ ﷺ
کے معصوم صحابہ کاخونی تھایہ شخص، صحابہ کے ہاتھوں گرفتار ہوا، اللہ کے نبی ﷺنے
اسے قید کروا دیا،کہاں؟ اے لوگو! قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک بھی دیکھو،کہاں قیدکیا؟
دنیاکی سب سے مقدس ترین جگہ، ’’مسجدنبوی‘‘میں ، اور مسجد کا کیامقام ہے ؟ ”صحیح
مسلم“ کی حدیث[671]ہے: « أَحَبُّ الْبِلَادِ إِلَى اللهِ مَسَاجِدُهَا» ،
«اللہ کی نظرمیں سب سے بہترین جگہیں مساجدہیں» ، یہاں پرقید کیا گیا، آپ ﷺتشریف
لاتے ہیں ، پوچھتے ہیں : «مَا عِنْدَكَ يَا ثُمَامَةُ» ؟ «ثمامہ کیاحال ہے؟»
آپﷺکے ساتھیوں کایہ قاتل جواب دیتاہے: « إِنْ تَقْتُلْنِي تَقْتُلْ ذَا دَمٍ» اے
محمد! « اگرآپ مجھے قتل کردیں توایک خونی کوقتل کریں گے» ، کوئی غلط نہیں کریں
گے، غورکریں! مسلمانوں کایہ قاتل، اپنی زبان سے اقرارکررہاہے کہ میں خونی ہوں
اورسزائے موت کامستحق ہوں ، اورپھرکہتاہے: «وَإِنْ
تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلَى شَاكِرٍ» اوراے محمد! «اگرآپ مجھے معاف کردیں تومیں
شکرگذارہوں گا» ، آگے کہتاہے: «وَإِنْ كُنْتَ تُرِيدُ المَالَ»
اوراے محمد! اگر آپ کو مال چاہئے توجومانگنا ہو مانگو، «فَسَلْ
مِنْهُ مَا شِئْتَ »
منہ مانگی رقم دوں گا، آپ ﷺنے کچھ بھی نہیں مانگا، اور اسے معاف
کردیا،آزادکردیا:
ظالم سے لیا ،ظلم کا بدلہ نہ کسی وقت
مارابھی تو اخلاق کے کردارسے مارا
آپﷺکے اس اخلاق کو دیکھ کر وہ مسجد سے جاتے ہی غسل
کرتاہے اور واپس آکراعلان کرتاہے: ”أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ
أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ“ پھرکہتاہے « يَا مُحَمَّدُ، وَاللَّهِ مَا كَانَ عَلَى الأَرْضِ
وَجْهٌ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ وَجْهِكَ» ،
«اے محمد اللہ کی قسم ! اس روئے زمین پرآپ کے چہرے سے زیادہ مجھے کسی چہرے سے
نفرت نہ تھی» ، «فَقَدْ أَصْبَحَ وَجْهُكَ أَحَبَّ الوُجُوهِ
إِلَيَّ» ، «لیکن
اس وقت میری نظرمیں آپ کے چہرے سے زیادہ محبوب کوئی چہرہ نہیں» ، «وَاللَّهِ
مَا كَانَ مِنْ دِينٍ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ دِينِكَ» ، «اللہ
کی قسم ! آج سے پہلے آپ کا دین میری نگاہ میںسب سے زیادہ مبغوض تھا» ،
«فَأَصْبَحَ دِينُكَ أَحَبَّ الدِّينِ إِلَيَّ» مگراب میرے نزدیک سب سے بہتر دین آپ ہی کادین ہے، «
وَاللَّهِ مَا كَانَ مِنْ بَلَدٍ أَبْغَضُ إِلَيَّ مِنْ بَلَدِكَ» ، «اللہ کی قسم !آپ کے شہرسے زیادہ مجھے کسی شہرسے
بغض نہ تھا» ، «فَأَصْبَحَ بَلَدُكَ أَحَبَّ البِلاَدِ إِلَيَّ» ، ”پرآج ، سب سے پیارا شہرآپ ہی کاشہرہے“ ۔
مسلمانو! اپنی خوشی وعیدمیں ، محبت کے اسی پیغام
کوعام کرو تاکہ جوغلط فہمی کا شکار ہوکر ہمارے دشمن بنے بیٹھے ہیں وہی ہمارے بھائی
بن جائیں ، آج کے اس مبارک دن میں ہمیں یہی حکم دیاگیاہے یہ ہماری عید کی چوتھی
خوبی ہے۔
✿
(5):-
پانچویں خوبی جوہماری عیدمیں ہے وہ یہ کہ ہماری
ہرعیدکسی نہ کسی عظیم کردارسے جڑی ہوتی ہے اورآج کی یہ عید ذوالعزم پیغمبرابراہیم
علیہ السلام کے کردارسے جڑی ہوئی ہے اوروہ کردارہے ”توحید“ اوراللہ کی خاطر
”قربانی پیش کرنے کاکردار“ ، ابراہیم علیہ السلام نے سب سے پہلے جس چیزکے خاطر
قربانی دی وہ چیز توحیدتھی ، اسی کی خاطرگھربارچھوڑا، اسی کی خاطرخاندان چھوڑا
،اوراسی کی خاطرآگ میں اترنابھی گوراکیا، ابراہیم علیہ السلام نے نہ صرف یہ کہ
غیراللہ کی عبادت سے انکار کیا، بلکہ اللہ کی عباد ت میں انہیں شریک تک نہ کیا ،
قربانی کے نام پراصل سنت ابراہیمی یہی ہے کہ عقیدہ توحید کی خاطرہم ہرقسم کی
قربانی کاعہدکرلیں ۔
آج اگرہم نے عیدالاضحی منالی لیکن عقیدہ توحیدکواپنے
دل میں نہیں بسایااوراسے لوگوں تک نہیں پہنچایا،توہم نے فقط ایک رسم اداکی ہے
ابراہیم علیہ السلام کی سنت نہیں دہرائی،اوراپنے عیدکی مرکزی خوبی ہی کوبھلادیا۔
✿
(6):-
چھٹی خوبی جوہماری عیدمیں ہے وہ یہ کہ ہماری عید روز
محشرکویاد دلانے کا ایک ذریعہ ہے یعنی اس بات کو یاد کرناکہ جس طرح آج ہم اس
میدان میں اکٹھاہوئے ہیں ،اسی طرح ایک دن ہمیں ،محشرکے میدان میں بھی اکٹھا
ہوناہے،یہی وجہ ہے ، کہ آپ ﷺعیدکی نمازمیں جن سورتوں کی تلاوت کرتے تھے، ان میں
محشرکا تذکرہ ہوتا تھا نیز یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺنے آج کے دن ہرچھوٹے بڑے، بوڑھے
بچے ، حتی کہ معذور خواتین تک کوبھی عیدگاہ پہنچنے کاحکم دیاہے، تمام مسلمانوں
کوایک ساتھ کھلے آسمان کے نیچے جمع ہونے کاحکم دیا، تاکہ یہ منظر یاد دلائے اس دن
کو، جس دن اسی طرح سب کے ساتھ ایک ہی میدان میں جمع ہوناہے، لیکن اس دن کاعالم کچھ
اورہوگا ،آج کے اس میدان میں ہمارے بیچ جواونچ نیچ ہے ،کوئی بڑا اورچھوٹاہے، تویہ
صرف ہمارے مال اوراولادکی وجہ سے ہے ، لیکن محشر کے میدان میں یہ مال اوریہ
اولادہمارے کام نہیں آسکتے،جس ابراہیم علیہ السلام کی سنت پرعمل کرتے ہوئے ہم
یہاں اکٹھاہوئے ہیں اسی ابراہیم علیہ السلام کی دعاء قران مجیدمیں موجودہے: ﴿وَلَا
تُخْزِنِي يَوْمَ يُبْعَثُونَ﴾ ،
«ابراہیم علیہ السلام نے کہااے اللہ مجھے محشرکے دن رسوانہ کرنا،اس دن عزت دینا» ،
﴿يَوْمَ
لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ﴾ ،
«جس دن مال اور اولاد کچھ کام نہ آئے گی » [ الشعراء : 88 - 87]
آج اس میدان میں ہم کمزورہیں توہمیں سہارا دینے
والاکوئی موجودہے ، ہمارابوجھ اٹھانے والاکوئی موجود ہے، لیکن کل کے میدان محشر
میں ہمارابوجھ اٹھانے والاکوئی نہ ہوگا، آج جس ابراہیم علیہ السلام کی سنت پرہم
عمل کررہے ہیں اسی ابراہیم علیہ السلام کی زبانی، اللہ نے ارشاد فرمایا: ﴿وَإِبْرَاهِيمَ
الَّذِي وَفَّى﴾ ،
«اورابراہیم علیہ السلام نے اپنے رب کاپیغام پہنچا دیا» ،کون سا پیغام؟ ﴿أَلَّا
تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى﴾ کہ
«کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا» ،
﴿وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى﴾ ، «اور یہ کہ ہر انسان کے لئے وہی ہوگا جس کی خود اس
نے کوشش کی ہوگی» ،اس میدان میں ہماری حاضری یہ سبق دلانے کے لئے ہے کہ اگراس
چھوٹے میدان میں اوروہ بھی مختصروقت کی حاضری میں ہم باعزت نظرآنے کے لئے
دنیابھرکی تیاریاں کرتے ہیں ، توپھرمحشرکا میدان جس کی وسعت کاعالم یہ ہوگاکہ وہ
پورے زمین پرپھیلاہوگا، اورجس میں ٹہرنے کی مدت کے بارے میں ، قران نے کہا: ﴿كَانَ
مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ﴾ (المعارج؍4) «اس میں ٹہرنے کی مدت پچاس ہزارسال ہوگی»
، اس حشرکے میدان میں حاضری کے لئے ہم نے کیاتیاری کی؟
آج کے اس میدان سے ہم واپس پلٹیں گے تواپنے گھروں
کوجائیں گے لیکن کل کے میدان محشرسے ہم نکلیں گے توہمارادوہی ٹھکانہ ہوگا، یاتوجنت
،یاپھر جہنم ، آج کے اس میدان میں ہم اپنامحاسبہ کریں اورسوچیں کہ ، اگرہم اسی
حالت میں محشرمیں اکٹھاہوجاتے توکیاہوتا؟ اگربراہوتا، توآج موقع ہے ہم یہاں سے جا
کر اپنی برائی کوختم کرسکتے ہیں ، اگرہم نے اپنی برائی ختم نہیں کی ، اورمحثرکاوقت
آگیا، توہم بلکتے رہ جائیں گے : قران کے الفاظ ﴿رَبَّنَا
أَبْصَرْنَا﴾ ،
«اے رب ہم دیکھ لیا» ، ﴿وَسَمِعْنَا﴾ ، « اورہم نے سن لیا،» ، ﴿فَارْجِعْنَا﴾ ، «اب سے ہمیں دنیامیں لوٹادے» ، ﴿نَعْمَلْ
صَالِحًا﴾ ، «ہم
صرف نیک ہی عمل کریں گے» ،اللہ جواب دے گا، ﴿فَذُوقُوا﴾ ،
”چکھو“ ،
﴿بِمَا نَسِيتُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَذَا﴾ ، « اس دن کے انجام کوجسے تم نے بھلادیاتھا » ،
اورمحشرکے بعدجب جہنم میں ڈالاجائے گا تووہاں کی چیخ وپکار بڑی ددردناک ہوگی، قران
کے الفاظ ﴿وَهُمْ
يَصْطَرِخُونَ فِيهَا﴾ ، «جہنمی
چیخیں گے» ، بلبلائیں گے کہیں گے ﴿رَبَّنَا أَخْرِجْنَا﴾ ، «اے رب ہمیں یہاں سے
نکال دے» ، ﴿نَعْمَلْ صَالِحًا﴾ ، «دنیا میں بھیج دے اب سے ہم نیک عمل ہی کریں گے» ،
اللہ جواب دے گا ﴿أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ﴾ ، « کیاہم نے تمہیں لمبی عمرنہیں دی تھی» ، اب کوئی
فائدہ نہیں ہے۔
لوگو ! ابھی ہم محشرکے میدان میں نہیں ، لیکن وہ وقت
آئے گااسے مت بھولو! افسوس کہ ہم دنیاوی رنگینیوں کے پیچھے پڑکراس حقیقت کوبھول
چکے ہیں یاد رکھو یہ دنیاوی زندگی کتنی ہی رنگین کیوں نہ ہوجائے ، ایک دن اسے ختم
ہونا، اوروہاں جوایک بارمل گیا، نہ تواس میں تبدیلی ہوسکتی ہے اورنہ اس کاخاتمہ
ہوسکتاہے آج ہم اس حقیقت سے غافل ہیں اوردنیاوی کامیابی ہی کوسب کچھ سمجھ بیٹھے
ہیں ، اگرکامیابی اسی کانام ہوتاتوہمارے نبی ﷺکبھی اس سے محروم نہیں ہوسکتے تھے۔
مسلم کی حدیث ہے [4913]عمرفاروق رضی اللہ عنہ آپ ﷺ
کے پاس تشریف لائے، کیادیکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک معمولی چٹائی
پرہیں ،چٹائی پر کوئی بستربھی نہیں ہے، اور سر کے نیچے چمڑے کا ایک تکیہ ہے جس میں
کھجور کا چھلکا بھرا ہوا تھا، سرہانے ایک کچا چمڑا لٹکا ہوا ہے، آپ ﷺنے صرف ایک
ازارپہن رکھاتھا ،آپﷺ جب چٹائی سے اٹھے توآپ کے جسم پرچٹائی کے نشانات پڑگئے
،عمرفاروق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: «فَابْتَدَرَتْ عَيْنَايَ» ، یہ دیکھ کر «میرے آنکھوں سے آنسوبہہ پڑے» آپﷺ نے
پوچھا: «مَا
يُبْكِيكَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ» ، عمرکیوں
رورہے ہو، کہااے اللہ کے رسول! میں کیوں نہ روؤں جب کہ ایک طرف آپ کی یہ حالت
دیکھ رہاہوں حالانکہ ﴿وَأَنْتَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ، وَصَفْوَتُهُ﴾ ، «آپ
اللہ کے رسول اوراس کے محبوب ہیں » ،اوردوسری طرف میں یہ دیکھ رہاہوں کہ «قَيْصَرُ
وَكِسْرَى فِي الثِّمَارِ وَالْأَنْهَارِ» کہ
”قیصروکسری کے کافربادشا ہ باغات اورنہروں میں عیش کررہے ہیں“ اس پرآپ ﷺنے فرمایا
کہ «عمرکیا تم اس بات سے راضی نہیں؟ کہ ان کیلئے دنیا ہو اور تمہارے لئے آخرت؟»
میرے بھائیویہ ہے دنیاکی حقیقت ، ابراہیم علیہ السلام
کی بھی یہی تعلیم تھی، اللہ فرماتاہے: ﴿بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا﴾ ، «تم دنیاہی کی زندگی کوسب کچھ سمجھ بیٹھے ہو» ، ﴿وَالْآخِرَةُ
خَيْرٌ وَأَبْقَى﴾ حالانکہ
« آخرت اس سے بہتراورہمیشہ رہنے والی ہے » ، ﴿إِنَّ هَذَا لَفِي الصُّحُفِ
الْأُولَى﴾ ، «یہ بات پہلی کتابوں میں بھی کہی گئی ہے» ، ﴿صُحُفِ
إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى﴾ ،
«ابراہیم اورموسی علیہمالسلام کی کتابوں میں بھی» ۔
اخیرمیں خواتین توجہ دیں آج کے دن خصوصی طور پر ان
سے جو عمل مطلوب ہے وہ صدقہ کرناہے، آپ
ﷺاس دن خواتین کو بطورخاص صدقہ پرابھارتے تھے، اورکہتے تھے کہ ،معذوری کی وجہ سے
تمہاری عبادتیں کم پڑجاتی ہیں اورعقل کی کمی کی وجہ سے غلطیاں زیادہ ہوجاتی ہیں،اس
لئے جہنم میں تمہاری تعدادزیادہ دیکھی جارہی ہے،یہ سن کرخواتین اسی عیدگاہ میں
صدقہ وخیرات شروع کردیتیں ، اوراپنے قیمتی زیورات اللہ کی راہ میں قربان کردیتیں
،کیونکہ ان کا ایمان ویقین تھاکہ ایک نہ ایک دن مرناہے ،اورمرنے کے بعدکوئی کام
نہیں آئے گانہ زیور، نہ شوہر، نہ باپ ، نہ بھائی، جس عورت کی تحفظ کی خاطردنیا
میں قدم قدم پرشوہریا محرم کوساتھ رکھا گیا ،اورہرسفرمیں، چاہے عام سفر ہو یاحج
جیسی عبادت کاسفرہے اسے کہیں اکیلا نہیں چھوڑا گیاہے، اسی عورت کوآخرت کاسفراکیلے
ہی طے کرناہوگا، ساتھ میں نہ کوئی شوہرہوگااورنہ ہی کوئی محرم ، اگرکوئی ساتھ
ہوگاتوان کے اعمال اورعیدکے دن ان کی طرف سے دئے گئے صدقات وخیرات۔
خواتین وحضرات! یہ ہے ہماری عید جوایک عبادت
ہے،جوہرگندگی سے پاک ہے،جس میں ہم سے کسی کوتکلیف نہیں ہوتی،جس میں امن وشانتی
کاماحول ہوتاہے ،جس میںابراہیم علیہ السلام کی سنت دہرائی جاتی ہے،جس میں محشرکی
تیاری کاسبق ملتاہے ،جس میں خواتین صدقہ وخیرات کی اعلی مثال قائم کرتیں ہیں۔یہی
اسلامی عیدہے۔
رب تعالی سے دعاء ہے کہ رب العالمین! ہمیں پکا سچا
مسلم اورمؤمن بنا،ہم سب کواپناعبادت گذاربندہ بنا،ہم سب کوگناہوں سے
بچا،اورجوگناہ سرزد ہو چکے انہیں معاف فرما،الہ العالمین !ہمیں جب تک زندہ رکھ
ایمان واسلام پرباقی رکھ اورجب بھی موت دے ایمان واسلام پردے ،الہ العالمین!ہم سب
کی اس عید کواس عبادت کوقبول فرما!
«تَقَبَّلَ اللَّه مِنَّا وَمِنْکُمْ»
”وَآخِرُ دَعْوَا نَا اَنِ الْحَمْدُ لِلَّه
رَبِّ الْعَالَمِينَ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں