خطبہ جمعہ : افراد کیلئے گناہوں کے خطرناک نتائج بِسّمِ
اللَّہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم
اَلْحَمْدُ
لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِیْنُه وَنَسْتَغْفِرُه وَنُؤْمِنُ بِه
وَنَتَوَكَّلُ عَلَیْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ
سَیِّئاٰتِ اَعْمَالِنَا مَن یَّهْدِهِ اللهُ فَلاَ مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ
یُّضْلِلْهُ فَلاَ هَادِيَ لَهُونَشْهَدُ أَنْ لَآ اِلٰهَ اِلاَّ اللهُ
وَحْدَهٗ لَا شَرِيْكَ لَهٗ۞وَنَشْهَدُ اَنَّ سَیِّدَنَا وَمَوْلَانَا
مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَرَسُوْلُه،أَمَّا بَعْدُ: فَأَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ
الشَّيْطَانِ الرَّجِيْم، بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِِْ،
{
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ
إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ} [آل عمران102]{
يَاأَيُّهَا
النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ
مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا
اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ
رَقِيبًا} [النساء: 1]
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ
آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (70) يُصْلِحْ لَكُمْ
أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ
فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا (71)} [الأحزاب: 70،
إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ
طَائِفٌ مِّنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُوا فَإِذَا هُم مُّبْصِرُونَ (سورہ الأعراف:
201)
“حقیقت میں جو لو گ متقی ہیں اُن کا حال تو یہ
ہوتا ہے کہ کبھی شیطان کے اثر سے کوئی برا خیال اگر انہیں چھو بھی جاتا ہے تو وہ
فوراً چوکنے ہو جاتے ہیں اور پھر انہیں صاف نظر آنے لگتا ہے کہ ان کے لیے صحیح طریق
کار کیا ہے “۔
۱۲۔گناہ
کی قباحت کا دل سے محو ہو جانا:
جب
انسان کثرت سے گناہ کرتا ہے تو اس کے دل سے گناہ کی قباحت ختم ہو جاتی ہے اور گناہ
کرنا اس کی عادت بن جاتی ہے۔حتی کہ لوگوں کے دیکھ لینے یا برا بھلا کہنے کو بھی قبیح
نہیں جانتا ۔بلکہ اگر اس نے گناہ کر لیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے گناہ پر پردہ
ڈال دیا تو یہ بد بخت خود لوگوں میں اپنے گناہ کی تشہیر کرتا پھرتا ہے اور اس پر
فخر کا اظہار کرتا ہے۔اس قسم کے لوگوں کو معاف نہیں کیا جائے گا اور ان پر توبہ کا
دروازہ بند ہے ۔جیسا کہ حدیث میں موجود ہے:
((کل
أمتی معافی الا المجاھرین))
’’اپنے
گناہوں کی تشہیر کرنے والوں کے علاوہ میری امت کے سارے لوگوں کو معاف کر دیا جائیگا
۔‘‘
۱۳۔مجرموں
کی وراثت:
گناہ
مجرموں کی وراثت ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے ہلاک وبرباد کر دیا ۔مثلا لواطت قوم لوط
کی وراثت اور زمین میں تکبر کرتے ہوئے فساد برپا کرنا قوم فرعون کی وراثت ہے،علی
ہذا القیاس گناہگار شخص ان مجرموں کا لباس پہن کر وہی گناہ کرتا ہے جو ان لوگوں نے
کیا۔اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا:((من تشبہ بقوم فھو منھم))’’جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ
انہی میں سے ہے‘‘
۱۴۔ذلت
ورسوائی کا سبب:
گناہ
کرنا اللہ تعالیٰ کے سامنے ذلت ورسوائی اور آنکھوں سے گر جانے کا سبب ہے۔اور جو
شخص اللہ کے سامنے ذلیل ہو جائے اس کو کوئی عزت دینے والا نہیں ہے۔اگرچہ ظاہرا لوگ
اس سے ڈرتے ہوئے یا لالچ میں اس کی عزت کرتے ہی ہوں۔لیکن انہی لوگوں کے دلوں میں
وہ حقیر ترین شخص ہوگا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
((وَمَنْ
یُھِنِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنْ مُّکْرِمٍ))[الحج:۱۸]’٠
’جسے
رب ذلیل کر دے اسے کوئی عزت دینے والا نہیں۔‘‘
۱۵۔گناہ
کی حقارت:
گناہ
پر مداومت اور ہمیشگی کرنے سے انسان کے دل میں گناہ کرنا حقیر بن جاتا ہے۔اور یہی
ہلاکت کی علامت ہے۔
حضرت
عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں:
((ان
المؤمن یری ذنوبہ کأنہ فی أصل الجبال یخاف أن یقع علیہ ،وان الفاجر یری ذنوبہ
کذباب وقع علی أنفہ فقال بہ ھکذا فطار))
’’مومن
آدمی گناہ کو پہاڑ کی مانند تصور کرتا ہے اور ڈرتا رہتا ہے کہ کہیں وہ پہاڑ اس پر
نہ گر جائے،جبکہ فاسق وفاجرشخص گناہ کو مکھی کی مانند خیال کرتا ہے جو اس کی ناک
پر بیٹھ گئی اور اس نے ہاتھ کے اشارے سے اس کو اڑا دیا۔‘‘
۱۶۔نحوست:
انسان
اور جانور گناہ گار شخص کو نحوست کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔امام مجاہد ؒ فرماتے ہیں!جب
قحط سالی پڑتی ہے اور بارش رک جاتی ہے تو چوپائے گناہگار اور نافرمان بنی آدم پر
لعنت کرتی ہوئے کہتے ہیں:
((ھذا
بشؤم معصیۃ ابن آدم ))
یہ
ابن آدم کی نافرمانی کی نحوست ہے۔
۱۷۔عزت
وآبرو کا خاتمہ:
گناہ
انسان کو ذلت ورسوائی سے دوچار کر دیتا ہے اور عزت وآبرو کو برباد کر دیتا ہے کیونکہ
ساری کی ساری عزت اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور اطاعت میں مضمر ہے۔جیسا کہ اللہ
تعالیٰ کا فرمان ہے:
((مَنْ
کَانَ یُرِیْدُالْعِزَّۃَ فَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ جَمِیْعاً))[فاطر:۱۰]
’’جو
شخص عزت حاصل کرنا چاہتا ہو تو اللہ تعالیٰ ہی کی ساری عزت ہے۔‘‘
۱۸۔عقل
میں فتور:
عقل
اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ نور اور روشنی ہے ،جبکہ گناہ اس نور اور روشنی کو بجھا دیتا
ہے۔ جب یہ نو راور روشنی ہی بجھ جائے تو عقل وشعور میں فتور واقع ہو جاتا ہے۔اور
انسان آداب انسانیت بھول جاتا ہے۔
۱۹۔غفلت
کا سبب :
کثرت
سے گناہ کرنے کی وجہ سے انسان کے دل پر مہر لگا دی جاتی ہے اور اس کو غافلین میں
سے لکھ دیا جاتا ہے۔جیسا کہ بعض مفسرین نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان
((کَلَّا
بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ))[المطففین:۱۴]
’’یوں
نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کی وجہ سے زنگ(چڑھ گیا )ہے۔‘‘
سے
گناہ کے بعد پے در پے گناہ مراد لیا ہے۔
۲۰۔لعنت
کا سبب:
جیسا
کہ أحادیث میں وارد ہے کہ نبی کریم ﷺ نے مختلف گناہ کرنے والوں پر لعنت فرمائی
۔مثلا آپ نے فرمایا کہ چور،سود خور،تصاویر بنانے والے اور قوم لوط کا فعل کرنے
والوں پر اللہ تعالیٰ لعنت کرے۔وغیرہ
۲۱۔نبی
کریم ﷺ اور فرشتوں کی دعاؤں سے محرومی:
کیونکہ
اللہ رب العزت نے نبی کریم ﷺ کو حکم دیا ہے کہ وہ مومن مرد اور مومن عورتوں کے لئے
بخشش کی دعا کریں۔اور فرشتوں کے بارے میں فرمایا:
((الَّذِیْنَ
یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہٗ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّھِمْ وَیُؤْمِنُوْنَ
بِہٖ وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ آمَنُوْا۔۔۔۔))[المومن:۷]
’’عرش
کے اٹھانے والے اور اس کے آس پاس کے فرشتے اپنے رب کی تسبیح حمد کے ساتھ ساتھ
کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان والوں کے لئے استغفار کرتے ہیں،کہتے
ہیں کہ اے ہمارے پروردگار !تو نے ہر چیز کو اپنی بخشش اور علم سے گھیر رکھا ہے ،پس
تو انہیں بخش دے جو توبہ کریں اور تیری راہ کی پیروی کریں اور تو انہیں دوزخ کے
عذاب سے بھی بچا لے۔‘‘
۲۲۔فساد
فی الارض کا سبب:
گناہ
زمین میں فساد کا سبب ہے کیونکہ گناہوں کے سبب ہی زمین پر پانی،اناج اور پھلوں میں
کمی واقع ہو جاتی ہے۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
((ظَھَرَ
الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیْ النَّاسِ لِیُذِیْقَھُمْ
بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ))[الروم:۴۱]
’’خشکی
اور تری میں لوگوں کی بد اعمالیوں کی وجہ سے فساد پھیل گیا۔اس لئے کہ انہیں ان کے
بعض کرتوتوں کا پھل اللہ تعالیٰ چکھا دے (بہت) ممکن ہے کہ وہ باز آجائیں۔‘‘
اللّٰهمَّ صلِّ على محمَّد وعلى آل محمَّد، كما صليتَ على إبراهيم
وعلى آل إبراهيم؛ إنَّك حميدٌ مجيد۔
اللّٰهمَّ
بارِك على محمَّد وعلى آل محمَّد، كما باركتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم؛ إنَّك
حميدٌ مجيد۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں