اپنی زبان منتخب کریں

جمعرات، 18 مئی، 2023

بر الوالدین

 

خطبہ جمعہ    :          بر الوالدین                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                           بِسّمِ اللَّہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم 

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِیْنُه وَنَسْتَغْفِرُه وَنُؤْمِنُ بِه وَنَتَوَكَّلُ عَلَیْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّئاٰتِ اَعْمَالِنَا مَن یَّهْدِهِ اللهُ فَلاَ مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ یُّضْلِلْهُ فَلاَ هَادِيَ لَهُونَشْهَدُ أَنْ لَآ اِلٰهَ اِلاَّ اللهُ وَحْدَهٗ  لَا شَرِيْكَ لَهٗ۞وَنَشْهَدُ اَنَّ سَیِّدَنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَرَسُوْلُه،أَمَّا بَعْدُ: فَأَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْم، بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِِْ،

{ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ} [آل عمران102]{

يَاأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا} [النساء: 1]

 {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (70) يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا (71)} [الأحزاب: 70،

برادرانِ اسلام !آج کا خطبۂ جمعہ ’’ بر الوالدین‘‘ یعنی  والدین کے ساتھ حسن سلوک کے متعلق ہے اور آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ اسلام میں والدین سے حسن سلوک کی شدید تاکید کی گئی ہے اور ان سے بد سلوکی کرنے سے منع کیا گیا ہے اور اولاد پر والدین کا حق اتنا بڑا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حق کے ساتھ والدین کا حق بیان کیا ہے اور اس نے والدین کے حق کو باقی تمام حقوق العباد پر ترجیح دی ہے ۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی والدین کی نافرمانی کرنے اور انہیں اذیت پہنچانے کو کبیرہ گناہ قرار دیا ہے … تو آئیے سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے والدین کے متعلق کیا حکم دیا ہے اور ان کے حقوق کی ادائیگی اور ان سے اچھا برتاؤ کرنے کی کس قدر شدید تاکید کی ہے !

قرآن مجید میں والدین سے حسن سلوک کا حکم

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر والدین سے اچھا برتاؤ کرنے کا حکم دیا ہے ۔ اس بارے میں چند آیات آپ بھی سماعت فرمائیے:

1۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿وَاعْبُدُوْا اللّٰہَ وَلَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا وَّبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا﴾[ النساء4 :36

’’ اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ اور والدین سے اچھا سلوک کرو ۔‘‘

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے اپنا حق ذکر فرمایا اور وہ ہے صرف اسی کی عبادت کرنا اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنانا ۔ اس کے بعد والدین کا حق ذکر فرمایا اور وہ ہے ان سے اچھا برتاؤ کرنا ۔ پھر اس کے

بعد رشتہ داروں ، یتیموں ، مسکینوں ، مسافروں اور پڑوسیوں وغیرہ کا حق ذکر کیا ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حق کے بعد سب سے اہم حق والدین کا ہے اور حقوق العباد میں سب سے مقدم حق ماں باپ کا ہے ۔

2۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿ قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمْ عَلَیْْکُمْ أَلاَّ تُشْرِکُوا بِہِ شَیْئًا وَّبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا﴾[ الأنعام6 :151]

’’آپ ان سے کہئے کہ آؤ ، میں تمھیں پڑھ کر سناؤں کہ تمھارے رب نے تم پر کیا کچھ حرام کیا ہے اور وہ یہ باتیں ہیں کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ اور یہ کہ والدین سے اچھا سلوک کرو ۔‘‘

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے محرمات کا ذکر فرمایا اور ان میں سے سب سے پہلے شرک کو حرام قرار دیا ۔ پھر والدین سے حسن سلوک کا حکم دے کر ان کی نافرمانی کرنے اور انھیں اذیت پہنچانے کو بھی حرام کردیا ۔ تو اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ والدین سے بد سلوکی کرنا اللہ تعالیٰ کے ہاں کتنا سنگین جرم ہے !

3۔اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿ وَقَضَی رَبُّکَ أَلاَّ تَعْبُدُوْا إِلاَّ إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِندَکَ الْکِبَرَ أَحَدُہُمَا أَوْ کِلاَہُمَا فَلاَ تَقُل لَّہُمَا أُفٍّ وَّلاَ تَنْہَرْہُمَا وَقُل لَّہُمَا قَوْلاً کَرِیْمًا٭وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْرًا﴾[ الاسرا 17 :24-23] 

’’ اور آپ کے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ تم اس کے علاوہ اورکسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ بہتر سلوک کرو ۔ اگر ان میں سے کوئی ایک یا دونوں تمھارے سامنے بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائیں تو انھیں اف تک نہ کہو اور نہ ہی انھیں جھڑکو اور ان سے احترام کے ساتھ بات کرو اور ان پر رحم کرتے ہوئے انکساری سے ان کے سامنے جھک کر رہواور ان کے حق میں دعا کیا کرو کہ اے میرے رب ! ان پر رحم فرما جیسا کہ انھوں نے رحمت وشفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا ۔ ‘‘

اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں متعدد باتیں انتہائی توجہ کے قابل ہیں :

پہلی یہ کہ یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے حق کے فورا بعد والدین کا حق ذکر فرمایا ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح سب کا معبود ایک ہے اسی طرح ہر شخص کا ماں باپ بھی ایک ہی ہوتا ہے اور یہ ایک بڑی مناسبت ہے والدین کو خالقِ حقیقی کے ساتھ ۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے والدین کے حقوق کو اپنے حق کے ساتھ ملا کر ذکر کیا۔[ أسعاد العباد ۔ نواب صدیق حسن خان: ص21]

جبکہ مولانا عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ اس کی توجیہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں :

’’ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ذکر کے ساتھ ہی متصلا والدین سے بہتر سلوک کا ذکر کیوں فرمایا ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر چیز کا پروردگار تو رب کائنات ہے ، جس نے زمین بنائی۔ ہوا ،پانی ، سورج ، چاند وغیرہ پیدا کئے ، پھر بارش برسائی اور پھر انسان کی ساری ضروریاتِ زندگی زمین سے وابستہ کردیں … پھر اس کے بعد انسان کی پرورش کا ظاہری سبب اس کے والدین کو بنایا اور یہ تو ظاہر ہے کہ جس قدر مشکل سے انسان کا بچہ پلتا ہے کسی جانور کا بچہ اتنی مشکل سے نہیں پلتا … ماں راتوں کو جاگ جاگ کر اور بچے کے آرام پر اپنا آرام قربان کر تی ہے اور باپ ‘ بچہ اور اس کی ماں دونوں کے اخراجات برداشت کرتا ہے ۔ پھر اس کی تربیت میں پورا تعاون کرتا ہے ۔ تب جا کر انسان کا بچہ بڑا ہوتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے والدین کے دل میں اپنی اولاد کیلئے بے پناہ محبت اور ایثار کا جذبہ نہ رکھ دیا ہوتا تو انسان کے بچہ کی کبھی تربیت نہ ہو سکتی ۔ اب اگر انسان اپنے والدین کو بڑھاپے کی حالت میں بے یارو مدد گار چھوڑ دے اور ان کی طرف توجہ نہ کرے یا ان سے گستاخی سے پیش آئے تو اس سے زیادہ بے انصافی اور ظلم اور کیا ہو سکتا ہے !! ‘‘[تیسیر القرآن :577/2

دوسری یہ کہ اللہ تعالیٰ نے والدین سے حسن سلوک کرنے کا حکم دینے کے بعد فرمایا ہے کہ وہ دونوں یا ان میں سے کوئی ایک جب بڑھاپے کو پہنچ جائے تو تم نے ان کے حق میں پانچ باتوں کی پابندی کرنی ہے اور وہ یہ ہیں:

1۔پہلی یہ کہ تم نے انھیں اف تک نہیں کہنا اور ( اف ) سے مراد ہر تکلیف دہ اور ناگوار قول وفعل ہے جس سے والدین کو ذہنی یا روحانی اذیت پہنچے ۔ لہٰذا اولاد پر لازم ہے کہ وہ والدین سے نرمی اور اچھے انداز سے بات کرے اور انھیں کوئی بری بات نہ سنائے حتی کہ اف تک نہ کہے کیونکہ یہ بھی ہلکے درجے کی گستاخی ہے اور جب ہلکے درجے کی گستاخی جائز نہیں تو اس سے بڑی گستاخی بھی حرام ہے ۔

2۔ دوسری یہ کہ تم نے انھیں جھڑکنا بھی نہیں اور یہ اس لئے کہ والدین کا مزاج بڑھاپے کی وجہ سے عام طور پر چڑچڑا سا ہو جاتا ہے اور ان کی کسی بات پر اولاد کو غصہ بھی آسکتا ہے ۔ تو اولاد کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ والدین کی باتیں برداشت کرے اور ان کے سامنے الٹی سیدھی باتیں نہ کرے اور انھیں نہ جھڑکے اور نہ ہی ڈانٹ ڈپٹ کرے ۔

3۔ تیسری یہ کہ والدین سے بات کرو تو ادب واحترام کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے بات کرو ۔

4۔چوتھی یہ کہ والدین پر رحم اور ترس کرتے ہوئے ان کے سامنے عاجزی وانکساری کے ساتھ جھک کر رہو ۔

بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ جس طرح ایک چڑیا اپنے چوزوں کو اپنے پروں سے ڈھانک لیتی ہے اور ہر طرح سے ان کی حفاظت کرتی ہے ، اسی طرح جب اولاد جوان ہو جائے اور والدین بوڑھے ہو جائیں تو وہ ہر دم ان کی حفاظت کرے اور ان کے سامنے نہایت عاجزی وانکساری کے ساتھ رہے ۔

5۔پانچویں یہ کہ ان سے اچھے برتاؤ کے ساتھ ساتھ ان کیلئے دعا بھی کرتے رہو کہ اے میرے رب!ان پر رحم فرما جیسا کہ انھوں نے(محبت وشفقت کے ساتھ)بچپن میں میری پرورش کی ۔

خلاصہ یہ ہے کہ اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے والدین کے بارے میں پانچ احکامات دئیے ہیں جن کی پابندی کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے ۔

4۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿وَوَصَّیْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَیْہِ حَمَلَتْہُ أُمُّہُ وَہْنًا عَلَی وَہْنٍ وَّ فِصَالُہُ فِیْ عَامَیْنِ أَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْکَ إِلَیَّ الْمَصِیْرُ. وَإِن جَاہَدَاکَ عَلٰی أَن تُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا وَصَاحِبْہُمَا فِیْ الدُّنْیَا مَعْرُوفًا وَّاتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ أَنَابَ إِلَیَّ ثُمَّ إِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَأُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ﴾[ لقمان31:15-14]

’’ ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق ( اچھے سلوک کی ) نصیحت کی ہے ۔ اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھا کر اسے حمل میں رکھا اور اس کی دودھ چھڑائی دو برس میں ہے کہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گذاری کر۔( تم سب کو ) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہیاور اگر وہ دونوں تجھ پر اس بات کا دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ شرک کرے جس کا تجھے علم نہ ہو تو تو ان کا کہنا نہ ماننا ۔ ہاں دنیا میں ان کے ساتھ اچھی طرح بسر کرنا اور اس کی راہ چلنا جو میری طرف جھکا ہوا ہو۔تمھارا سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے ۔ تم جو کچھ کرتے ہو اس سے پھر میں تمھیں خبردار کروں گا۔ ‘‘

ان آیات میں انسان کو تاکیدا حکم دیا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا اور والدین کا شکر گذار ہو اور یہ شکر گذاری ان کا حق ادا کرنے سے ، ان کی خدمت کرنے سے اور ان سے اچھا برتاؤ کرنے سے ہی ہو سکتی ہیاور یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے شکر کے ساتھ والدین کا شکر بجا لانے کا حکم دیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرنا ضروری ہے اسی طرح اولاد پر والدین کے احسانات کی بناء پر ان کا شکر بجا لانا بھی لازمی امر ہے ۔

نیز ان آیات میں والدین سے حسن سلوک کی تلقین کے ساتھ ساتھ اس بات کی وضاحت بھی کردی گئی ہے

کہ اگر والدین شرک کرنے کا یا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے کا حکم دیں تو ان کی اطاعت نہیں ہو گی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : (( لَا طَاعَۃَ لِأَحَدٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ،إِنَّمَا الطَّاعَۃُ فِیْ الْمَعْرُوْفِ)) [متفق علیہ]

’’ اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں ، اطاعت تو صرف نیکی میں ہے ۔ ‘‘

لہٰذا اللہ تعالیٰ کی معصیت میں والدین کی فرمانبرداری تو نہیں ہو گی البتہ دنیا میں ان سے پھر بھی اچھا سلوک رکھنا ہو گا ۔ حتی کہ اگر والدین کافر بھی ہوں تو تب بھی ان سے اچھا برتاؤ کرنا اور ان کی خدمت کرنا ضروری ہے ۔

حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ ’’ میری ماں‘جو عہدِ قریش ( صلحِ حدیبیہ ) میں مشرکہ تھی میرے پاس آئی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ میرے پاس میری ماں آئی ہے اور وہ ( کفر میں یا میرے مال میں) رغبت رکھتی ہے۔ تو کیا میں اس کے ساتھ صلہ رحمی کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں اپنی ماں سے صلہ رحمی کر۔ ‘‘[صحیح البخاری:5978،صحیح مسلم :]

یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ والدین خواہ کافر کیوں نہ ہوں ان سے نیکی کرنی چاہئے ۔

5۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿وَوَصَّیْْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَیْہِ إِحْسَانًا حَمَلَتْہُ أُمُّہُ کُرْہًا وَّوَضَعَتْہُ کُرْہًا وَحَمْلُہُ وَفِصَالُہُ ثَلَاثُونَ شَہْرًا ﴾[ الأحقاف46:15]

’’ ہم نے انسان کو حکم دیا کہ وہ اپنے والدین سے اچھا سلوک کرے ، اس کی ماں نے مشقت اٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور مشقت اٹھا کر ہی جنا ۔ اس کے حمل اور دودھ چھڑانے میں تیس ماہ لگ گئے ۔ ‘‘

یاد رہے کہ اِس آیت اور اس سے پہلی دونوں آیات میں اللہ تعالیٰ نے والدین سے اچھا برتاؤ کرنے کا تاکیدی حکم دینے کے بعد خاص طور پر والدہ کی مشقت کا تذکرہ کیا ہے کہ وہ حمل ، ولادت اور رضاعت کے دوران اولاد کی خاطر کئی تکلیفیں برداشت کرتی ہے ۔ اس لئے خصوصا والدہ سے اچھا برتاؤ کرنا اور بھی ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک شخص نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول !

مَنْ أَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ صَحَابَتِیْ ؟

لوگوں میں حسن صحبت کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے ؟

قَالَ : أُمُّکَ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمھاری ماں۔

اس نے کہا : پھر کون ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمھاری ماں۔

اس نے کہا : پھر کون ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمھاری ماں۔

اس نے کہا : پھر کون ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چوتھی بار فرمایا :’’ تمھارا باپ۔ ‘‘ [1]

یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ حسن سلوک کی سب سے زیادہ مستحق ماں ہے اور ماں، باپ پر مقدم ہے۔ اس کے بعد باپ کا درجہ ہے ۔

برادران اسلام ! ہم نے صرف پانچ قرآنی آیات ذکر کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حق کے بعد سب سے اہم حق والدین کا حق ہے ۔ ان آیات کے علاوہ اور کئی آیات بھی اس موضوع پر موجود ہیں اورسب کا مفہوم ایک ہی ہے اورآئیے اب وہ احادیث نبویہ سماعت فرمائیں جن میں والدین سے حسن سلوک کے فضائل بیان کئے گئے ہیں اور ان کی نافرمانی کرنے اور انھیں اذیت پہنچانے سے منع کیا گیا ہے ۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

جاری  ۔۔۔۔۔۔

اللّٰهمَّ صلِّ على محمَّد وعلى آل محمَّد، كما صليتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم؛ إنَّك حميدٌ مجيد۔
اللّٰهمَّ بارِك على محمَّد وعلى آل محمَّد، كما باركتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم؛ إنَّك حميدٌ مجيد۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں