اپنی زبان منتخب کریں

جمعرات، 13 اکتوبر، 2022

یدھا راستہ

 

اَلحَمدُ لِلّٰہِ نَحمَدُہ، وَنَستَعِینُہ، وَنَستَغفِرُہ، وَنَعُوذُبِاﷲِ مِن شُرُورِ اَنفُسِنَاوَمِن سَیِّئَآتِ اَعمَالِنَا مَن یَھدِہِ اﷲُ فَلَا مُضِلَّ لَہ، وَمَن یُضلِل فَلَا ھَادِیَ لَہ، وَاَشھَدُ اَن لَّا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وَحدَہ، لَا شَرِیکَ لَہ، وَاَشھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبدُہ، وَرَسُولُہٗ ۔ أما بعد  

: اِنَّ اَصدَقَ الحَدِیثِ کِتَابُ اﷲِ وَاِنَّّ اَفضَلَ الھَدیِ ھَدیُ مُحَمَّدٍ وَّ شَرُّ الْامُورِ مُحدَثَاتُھَا وَ کُلُّ مُحدَثَۃٍ بِدعَۃٌ وَ کُلُّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّارِ۔ ‘ فقد قال اللہ تعالی فی کتابہ الکریم:

وَ نَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْئٍ وَّ ھُدًی وَّ رَحْمَۃً وَّ بُشْرٰی لِلْمُسْلِمِیْنَ ﴾ النحل:۴۴

ہم نے آپ پر ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں ہر چیز کی وضاحت موجود ہے۔اور اس میں مسلمانوں کیلئے ہدایت ، رحمت اور خوشخبری ہے

مَا بَقِیَ شَیْيئٌ یُقَرِّبُ مِنَ الْجَنَّۃِ وَیُبَاعِدُ مِنَ النَّارِ إِلَّا وَقَدْ بُیِّنَ لَکُمْ{  واہ الطبرانی فی الکبیر۔وصححہ الألبانی فی الصحیحۃ:۱۸۰۳}

’’ ہر وہ چیز جو جنت کے قریب اور جہنم سے دور کردے اسے تمھارے لئے کھول کر بیان کردیا گیا ہے

اللہ تعالی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد انہی حضرات کو آئیڈیل قرار دیا ہے۔چنانچہ اس کا فرمان ہے:

﴿ فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِہِ فَقَدِ اہْتَدَوا وَّإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّمَا ہُمْ فِیْ شِقَاقٍ ﴾

’’ پس اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لے آئے ہو تو ہدایت یافتہ ہو جائیں اور اگر منہ پھیر لیں(اور نہ مانیں)تو وہ(اس لئے کہ آپ کی)مخالفت پر تلے ہوئے ہیں۔‘‘[1]

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا ایمانِ صادق ہی اللہ تعالی کے نزدیک باقی لوگوں کیلئے معیار ہے۔

اسی طرح اللہ تعالی نے ان لوگوں کو جو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا راستہ چھوڑکر کوئی دوسرا راستہ اختیار کرلیں‘ جہنم کی وعید سنائی ہے۔اس کا فرمان ہے:﴿وَمَن یُّشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدَی وَیَتَّبِعْ غَیْْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہِ مَا تَوَلَّی وَنُصْلِہِ جَہَنَّمَ وَسَاء تْ مَصِیْرًا﴾

’’ اور جو شخص سیدھا راستہ معلوم ہونے کے بعد پیغمبر کی مخالفت کرے اور مومنوں کے راستے کے سوا اور راستے پر چلے تو جدھر وہ چلتا ہے ہم اُسے اُدھر ہی چلنے دیں گے اور(قیامت کے دن)جہنم میں داخل کریں گے اور وہ           { البقرۃ:۱۳۷}

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:(إِنَّ ہَذَا الْقُرْآنَ سَبَبٌ طَرَفُہُ بِیَدِ اللّٰہِ وَطَرَفُہُ بِأَیْدِیْکُمْ ، فَتَمَسَّکُوْا فَإِنَّکُمْ لَنْ تَہْلِکُوْا وَلَنْ تَضِلُّوْا بَعْدَہُ أَبَدًا)السلسلۃ الصحیحۃ:۷۱۳

ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:(اِتَّخِذْ کِتَابَ اللّٰہِ إِمَامًا ، وَارْضَ بِہِ قَاضِیًا ، فَإِنَّہُ الَّذِیْ اسْتَخْلَفَ فِیْکُمْ رَسُولُکُمْ ، شَفِیْعٌ مُّطَاعٌ)

’’ تم کتاب اللہ کو امام بناؤ اور اسے قاضی تسلیم کرو۔کیونکہ وہی تو ہے جس کو تمھارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے چھوڑا۔یہ کتاب شفاعت کرے گی ، لہذا اسی کی اطاعت وفرمانبرداری کی جانی چاہئے۔‘‘

اللہ تعالی فرماتے ہیں:

﴿وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَ اِلَی الرَّسُوْلِ قَالُوْا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَیْہِ اٰبَآئَ نَا اَوَ لَوْ کَانَ اٰبَآؤُھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ شَیْئًا وَّ لَا یَھْتَدُوْنَ ﴾

’’اور جب انھیں کہا جائے کہ آؤ اس چیز کی طرف جو اللہ نے نازل کی ہے اور آؤ رسول کی طرف تو کہتے ہیں کہ ہمیں تو وہی کچھ کافی ہے جس پر ہم نے اپنے آباء واجداد کو پایا۔خواہ ان کے باپ دادا کچھ بھی نہ جانتے ہوں اور نہ ہی ہدایت پر ہوں ! ‘‘المائدۃ:۱۰۴]

اِِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤمِنِیْنَ اِِذَا دُعُوْٓا اِِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا وَاُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ٭ وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَخْشَ اللّٰہَ وَیَتَّقْہِ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْفَآئِزُوْنَ ﴾

’’مومنوں کی تو بات ہی یہ ہے کہ جب انھیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بلایا جائے کہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے تو کہتے ہیں کہ ’’ ہم نے سنا اور اطاعت کی ‘‘ ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔اور جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے ، اللہ سے ڈرتا رہے اور اس کی نافرمانی سے بچتا رہے تو ایسے ہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔‘النور:۵۱۔۵۲

چنانچہ بہت سارے لوگوں نے اپنے مولویوں اور پیروں کو تحلیل وتحریم کا اختیار بھی دے رکھا ہے ! یعنی وہ جس چیز کو حلال کہیں تو وہ اسے حلال سمجھ لیتے ہیں اور وہ جس چیز کو حرام کہیں تو وہ اسے حرام سمجھ لیتے ہیں ! ایسے ہی لوگوں کے متعلق اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿ اِتَّخَذُوْا أَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ أَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ ﴾

’’ انھوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا۔‘‘التوبۃ:۳۱

یہ آیت کریمہ اگرچہ یہود ونصاری کے متعلق ہے کہ جن کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(أَمَا إِنَّہُمْ لَمْ یَکُوْنُوْا یَعْبُدُوْنَہُمْ،وَلٰکِنَّہُمْ کَانُوْا إِذَا أَحَلَّوْا لَہُمْ شَیْئًا اِسْتَحَلَّوْہُ،وَإِذَا حَرَّمُوْا عَلَیْہِمْ شَیْئًا حَرَّمُوْہُ)

’’ خبردار ! وہ ان کی عبادت نہیں کرتے تھے بلکہ وہ جب کسی چیز کو حلال قرار دیتے تو اسے یہ حلال تصور کر لیتے اور وہ جب کسی چیز کو حرام کہتے تو اسے یہ حرام مان لیتے۔‘‘الترمذی:۳۰۹۵ وصححہ الألبانی]

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹی اور من گھڑت احادیث بیان کرنے والے لوگوں کے متعلق پیشین گوئی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا:

(یَکُوْنُ فِی آخِرِ الزَّمَانِ دَجَّالُونَ کَذَّابُونَ ، یَأْتُونَکُمْ مِّنَ الْأحَادِیْثِ بِمَا لَمْ تَسْمَعُوْا أَنْتُمْ وَلَا آبَاؤُکُمْ ، فَإِیَّاکُمْ وَإِیَّاہُمْ ، لَا یُضِلُّونَکُمْ وَلَا یَفْتِنُونَکُمْ)

’’ آخری زمانے میں کچھ لوگ آئیں گے جو دجل وفریب سے کام لیں گے اور بہت جھوٹ بولیں گے اور وہ تمھیں ایسی ایسی حدیثیں سنائیں گے کہ جو نہ تم نے سنی ہونگی اور نہ تمھارے آباؤ اجداد نے سنی ہونگی۔لہذا تم ان سے بچنا ، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تمھیں گمراہ کردیں اور تمھیں فتنے میں مبتلا کردیں !رواہ مسلم فی المقدمۃ

+(مَنْ حَدَّثَ عَنِّی بِحَدِیْثٍ یَّرَی أَنَّہُ کَذِبٌ فَہُوَ أَحَدُ الْکَاذِبِیْنَ)

’’ جو شخص ایسی حدیث بیان کرے کہ جس کے بارے میں اسے پتہ ہو کہ یہ جھوٹی ہے تو وہ جھوٹوں میں سے ایک جھوٹا ہے رواہ مسلم فی المقدمۃ

+(لَا تَکْذِبُوا عَلَیَّ فَإِنَّہُ مَن یَّکْذِبْ عَلَیَّ یَلِجِ النَّارَ)

’’ تم میرے اوپر جھوٹ نہ بولنا ، کیونکہ جو میرے اوپر جھوٹ بولے گا تو وہ جہنم میں داخل ہوگا۔‘‘ رواہ مسلم فی المقدمۃ

+رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ

(کَفٰی بِالْمَرْئِ کَذِبًا أَن یُّحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ)

’’ آدمی کے جھوٹ کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات کو بیان کرے

رواہ مسلم فی المقدمۃ ]

جاری ؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں