اَلْحَمْدُ
لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِیْنُهٗ وَنَسْتَغْفِرُهٗ وَنُؤْمِنُ بِهٖ وَنَتَوَکَّلُ
عَلَیْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّئاٰتِ
اَعْمَالِنَا مَن یَّهْدِهِ اللهُ فَلاَ مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ یُّضْلِلْهُ فَلاَ هَادِیَ
لَهُ ۞وَاَشْهَدُ أَنْ لَآ اِلٰهَ اِلاَّ اللهُ وَحْدَهٗ لَا شَرِیْکَ
لَهٗ ۞ وَاَشْهَدُ اَنَّ سَیِّدَنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ
وَرَسُوْلُهٗ، اَرْسَلَهٗ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرَا بَیْنَ یَدَیِ
السَّاعَةِ ۞ مَنْ یُّطِعِ اللهَ وَرَسُوْلَهٗ فَقَدْ رَشَدْ، وَمَنْ یَّعْصِهِمَا
فَاِنَّهٗ لاَ یَضُرُّ اِلاَّ نَفْسَهٗ وَلاَ یَضُرُّ اللهَ شَیْئاً
أما بعد فإن أصدق الحديث كتاب
الله وخير الهدي هدي محمد صلى الله عليه وسلم وشر الأمور محدثاتها وكل محدثه بدعه
وكل بدعه ضلاله وكل ضلاله في النار قال الله تعالى فى القرآن الكريم
اعوذ بالله من الشيطان الرجيم بسم الله الرحمن
الرحيم
اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰہِ مَنْ اٰمَنَ
بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَ وَ
لَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰہَ فَعَسٰٓی اُولٰٓئِکَ اَنْ یَّکُوْنُوْا مِنَ
الْمُھْتَدِیْنَ ﴾
مسجد تعمیر کرنے کے فضائل
2۔ قیامت کے روز مکمل نور نصیب ہو گا
حضرت بریدۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا:
(بَشِّرِ الْمَشَّائِیْنَ فِی الظُّلَمِ إِلَی الْمَسَاجِدِ بِالنُّوْرِ
التَّامِّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ)
’’ اندھیروں میں مساجد کی طرف چل کر جانے والوں کو بشارت دے دیجئے کہ
انھیں قیامت کے روز مکمل نور نصیب ہو گا۔‘ رواہ ابو داؤد:۵۶۱ والترمذی:۲۲۳ وصححہ الألبانی
3۔ جنت میں اللہ جل شانہ کی مہمان نوازی
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(مَنْ غَدَا إِلَی الْمَسْجِدِ أَوْ رَاحَ ، أَعَدَّ اللّٰہُ لَہُ فِی
الْجَنَّۃِ نُزُلًا ، کُلَّمَا غَدَا أَوْ رَاحَ)
’’ جو شخص صبح کے وقت یا شام کے وقت مسجد میں
جائے تو اللہ تعالی اس کیلئے جنت میں مہمان نوازی تیار کرتا ہے ، وہ جب بھی جائے ،
صبح کو یا شام کو۔ البخاری:۶۶۲ ، مسلم:۶۶۹
4۔ مسجد کی طرف جاتے ہوئے قدم قدم پر گناہ
معاف ہوتے اور درجات بلند ہوتے ہیں
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا:
(مَنْ تَطَہَّرَ فِی بَیْتِہٖ ثُمَّ مَشٰی إِلٰی بَیْتٍ مِّنْ بُیُوْتِ
اللّٰہِ ، لِیَقْضِیَ فَرِیْضَۃً مِّنْ فَرَائِضِ اللّٰہِ، کَانَتْ خُطْوَتَاہُ
إِحْدَاہُمَا تَحُطُّ خَطِیْئَۃً وَالْأُخْرٰی تَرْفَعُ دَرَجَۃً)
’’ جوشخص اپنے گھر میں وضو کرے ، پھر اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر کی
طرف روانہ ہو جائے اور اس کا مقصد صرف اللہ کے فرائض میں سے ایک فریضہ کو ادا کرنا
ہو تو اس کے دو قدموں میں سے ایک قدم ایک گناہ کومٹاتا ہے اور دوسرا ایک درجہ بلند
کرتا ہے۔‘‘[2]
مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے کی اہمیت
اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿ وَأَقِیْمُوْا
الصَّلاَۃَ وَآتُوْا الزَّکَاۃَ وَارْکَعُوْا مَعَ الرَّاکِعِیْنَ ﴾
’’ نماز قائم کرو اور زکاۃ دیتے رہو۔اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع
کیا کرو۔‘‘[3]
اِس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے رکوع کرنے والوں یعنی نماز پڑھنے
والوں کے ساتھ باجماعت نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے جو اِس بات کی دلیل ہے کہ مساجد
میں جا کر باجماعت ادا کرنا واجب ہے۔اور اسی لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا تھا:(مَنْ سَمِعَ النِّدَائَ فَلَمْ یَأْتِہِ
فَلَا صَلَاۃَ لَہُ إِلَّا مِنْ عُذْرٍ)
’’ جو شخص اذان سنے ، پھر وہ اذان(کی جگہ یعنی مسجد میں)نہ آئے تو اس
کی نماز ہی نہیں۔ہاں اگر عذر ہو تو کوئی حرج نہیں۔‘‘[4]
اور جب
ایک صحابی(ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ)رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں
حاضر ہوئے جوکہ نابینا اور عمر رسیدہ تھے ، جن کا گھر دور تھا ، گھر اور مسجد کے
درمیان بہت درخت تھے اور سانپ اور درندے وغیرہ بھی تھے۔ اور انھوں نے یہ اعذار
بیان کرتے ہوئے کہا کہ:اے اللہ کے رسول ! میں نابینا ہوں اور مجھے مسجد میں لانے
والا کوئی نہیں ہے تو مجھے گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت دیجئے۔تو آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے اجازت دے دی۔پھر جب وہ جانے لگا تو آپ نے پوچھا:
[1] [ البخاری:۶۶۲ ، مسلم:۶۶۹] [2] [ مسلم:۶۶۶] [3] [ البقرۃ:۴۳] [4] [ ترمذی:۲۱۷ ، ابن ماجہ:۷۹۳۔ وصححہ الألبانی]
ہَلْ
تَسْمَعُ النِّدَائَ ؟)وفی روایۃ:(ہَلْ تَسْمَعُ حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِ ، حَیَّ عَلَی الْفَلَاح ؟)’’کیا تم اذان کی آواز سنتے ہو ؟ ‘‘ ایک روایت میں ہے کہ ’’ کیا تم
حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِ ، حَیَّ عَلَی الْفَلَاح ‘‘ کی آواز سنتے ہو ؟ اس نے
کہا:جی ہاں سنتا ہوں۔
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(لَا
أَجِدُ لَکَ رُخْصَۃً)وفی روایۃ:(فَأَجِبْ)
’’ میرے پاس تمھارے لئے کوئی رخصت نہیں ہے۔‘‘ ایک روایت میں ہے کہ ’’
اگرتم اذان سنتے ہو تو اس کو قبول کرتے ہوئے مسجد میں آ کر نماز پڑھا کرو۔‘‘[1]
محترم حضرات ! اِس حدیث میں ذرا غور کریں کہ ایک نابینا صحابی جس کے
پاس ایک نہیں کئی عذر تھے ، جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے گھر میں نماز
پڑھنے کی رخصت نہیں دی توآج کسی شخص کیلئے یہ رخصت کیسے ہو سکتی ہے کہ وہ جہاں
چاہے اکیلا نماز پڑھ لے اور باجماعت نمازپڑھنے کیلئے مسجد میں نہ آئے
اورحضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ مساجد میں نماز
باجماعت ادا کرنے کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے کہتے ہیں:
(مَنْ سَرَّہُ أَن یَّلْقَی
اللّٰہَ غَدًا مُّسْلِمًا فَلْیُحَافِظْ عَلٰی ہٰؤُلَائِ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ
حَیْثُ یُنَادَی بِہِنَّ ، فَإِنَّ اللّٰہَ شَرَعَ لِنَبِیِّکُمْ صلی اللّٰه علیہ
وسلم سُنَنَ الْہُدَی وَإِنَّہُنَّ مِنْ سُنَنِ الْہُدَی ، وَلَوْ أَنَّکُمْ
صَلَّیْتُمْ فِی بُیُوتِکُمْ کَمَا یُصَلِّی ہٰذَا الْمُتَخَلِّفُ فِی بَیْتِہِ
لَتَرَکْتُمْ سُنَّۃَ نَبِیِّکُمْ ، وَلَوْ تَرَکْتُمْ سُنَّۃَ نَبِیِّکُمْ
لَضَلَلْتُمْ ،وَمَا مِنْ رَجُلٍ یَّتَطَہَّرُ فَیُحْسِنُ الطَّہُوْرَ ثُمَّ
یَعْمِدُ إِلَی مَسْجِدٍ مِّنْ ہٰذِہِ الْمَسَاجِدِ إِلَّا کَتَبَ اللّٰہُ لَہُ
بِکُلِّ خُطْوَۃٍ یَّخْطُوہَا حَسَنَۃً وَیَرْفَعُہُ بِہَا دَرَجَۃً ،وَیَحُطُّ
عَنْہُ بِہَا سَیِّئَۃً ، وَلَقَدْ رَأَیْتُنَا وَمَا یَتَخَلَّفُ عَنْہَا إِلَّا
مُنَافِقٌ مَّعْلُومُ النِّفَاقِ ، وَلَقَدْ کَانَ الرَّجُلُ یُؤْتٰی بِہِ
یُہَادَی بَیْنَ الرَّجُلَیْنِ حَتّٰی یُقَامَ فِی الصَّفِّ)
’’ جس شخص کو یہ بات اچھی لگتی ہو
کہ وہ کل(قیامت کے روز)اللہ تعالی سے مسلمان ہونے کی حالت میں ملے تو وہ ان پانچ
نمازوں کو ہمیشہ وہاں ادا کرے جہاں سے ان کیلئے بلایا جاتا ہے۔کیونکہ اللہ تعالی
نے تمھارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے ہدایت کے طریقے مشروع کئے ہیں اور یہ
نمازیں بھی انھی میں سے ہیں۔اوراگر تم اپنے گھروں میں نمازیں پڑھنا شروع کردو جیسا
کہ یہ پیچھے رہنے والا اپنے گھر میں ہی نماز پڑھ لیتا ہے تو تم اپنے نبی صلی اللہ
علیہ وسلم کی سنت کو چھوڑنے والے ہو گے۔اور اگر تم نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم
کی سنت کو چھوڑ دیا تو تم گمراہ ہو جاؤ گے۔اور کوئی بھی شخص جو اچھی طرح سے وضو
کرنے کے بعد ان مساجد میں سے کسی مسجد کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اس کے ہر ہر قدم پر اللہ تعالی اس کیلئے ایک نیکی لکھ دیتا ہے ، اس کے بدلے
میں ایک درجہ بلند کردیتا ہے اور اس کی ایک برائی کو مٹا دیتا ہے۔اور ہم(نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں)دیکھتے تھے کہ باجماعت نماز سے صرف وہ منافق پیچھے
رہتا تھا جس کا نفاق سب کو معلوم ہوتا۔اور ایک شخص کو مسجد میں باجماعت نماز کیلئے
اس حالت میں لایا جاتا تھا کہ اس نے دو آدمیوں کے درمیان ان کے کندھوں کا سہارا
لیا ہوا ہوتا ، یہاں تک کہ اسے صف میں لا کھڑا کیا جاتا۔‘‘[ مسلم:۶۵۳ ، ابو داؤد:۵۵۲ ، ۵۵۳، نسائی:۸۵۱ ، ابن ماجہ:]
اِس حدیث سے معلوم ہواکہ مساجد
میں باجماعت نماز سے پیچھے رہنا نفاق کی علامت ہے۔لہذا مسلمانو ! اِس سلسلے میں
قطعا سستی نہ کیا کرو اور مساجد میں ہی باجماعت نماز ادا کیا کرو۔
مساجد میں باجماعت نماز ادا نہ
کرنا کتنا بڑا گناہ ہے ! اِس کا اندازہ آپ اِس بات سے کر سکتے ہیں کہ رسول اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں باجماعت نماز ادا نہ کرنے والے لوگوں کے گھروں کو
اُن سمیت آگ لگانے کا ارادہ کیا تھا۔ جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان
کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو بعض نمازوں میں نہ پایا
تو آپ نے فرمایا:(لَقَدْ ہَمَمْتُ أَنْ آمُرَ
رَجُلًا یُّصَلِّی بِالنَّاسِ ، ثُمَّ أُخَالِفَ إِلٰی رِجَالٍ یَّتَخَلَّفُونَ
عَنْہَا ، فَآمُرَ بِہِمْ فَیُحَرِّقُوا عَلَیْہِمْ بِحُزَمِ الْحَطَبِ
بُیُوتَہُمْ)
’’ میں نے ارادہ کر لیا ہے کہ کسی
کو نماز پڑھانے کا حکم دوں ، پھر ان لوگوں کے پاس جاؤں جو نماز پڑھنے نہیں آتے ،
تو اُن سمیت ان کے گھروں کو ایندھن کی گٹھڑیوں کے ساتھ آگ لگانے کا حکم جاری کر
دوں۔‘‘
[1] [ مسلم:۶۵۳ ، ابو داؤد:۵۵۲ ، ۵۵۳، نسائی:۸۵۱ ، ابن ماجہ:۷۹۲
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں