خطبہ الجمعہ موضوع ۔ عشر زرات کی اہمیت
ان الحمدللہ نحمدہ ونستعینہ ، ونستفرہ ، ونعوذ باللہ من
شرور انفسنا ومن سیئات أعمالنا ، من یھدہ اللہ فلا مضل لہ، ومن یضلل فلا ھادی لہ،
وأشھد ان لا الہ الااللہ وحدہ لاشریک لہ، وأشھد أن محمدا عبدہ ورسولہ
أما بعد: فان خیر الحدیث کتاب اللہ وخیر الھدی ھدی محمدﷺ
وشر الامور محدثاتھا وکل بدعۃ ضلالہ وکل ضلالۃ فی النار۔ قال تعالی۔۔ وَهُوَ الَّذِىۡۤ اَنۡشَاَ
جَنّٰتٍ مَّعۡرُوۡشٰتٍ وَّغَيۡرَ مَعۡرُوۡشٰتٍ وَّالنَّخۡلَ وَالزَّرۡعَ
مُخۡتَلِفًا اُكُلُهٗ وَالزَّيۡتُوۡنَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَّغَيۡرَ
مُتَشَابِهٍ ؕ كُلُوۡا مِنۡ ثَمَرِهٖۤ اِذَاۤ اَثۡمَرَ وَاٰتُوۡا حَقَّهٗ يَوۡمَ
حَصَادِهٖ ۖ وَلَا تُسۡرِفُوۡا ؕ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الۡمُسۡرِفِيۡنَ ۞ (الانعام:۱۴۱)
زکوٰۃ اسلام کے ارکان میں
سے تیسرا بڑا رکن ہے۔ اس کا انکار کرنے والا مسلمان برادری کا فرد نہیں رہتا۔ ابو
بکر صدیقرضی اللہ عنہ نے ایسے ہی لوگوں کے خلاف قتال کیا تھا۔ سونا، چاندی ، مویشی
اور مال تجارت کی طرح زمین کی پیداوار پر بھی زکوٰۃ فرض ہے۔ صرف گندم کا عشر ادا
کرنے سے زمین کی باقی پیداوار کے عشر سے کفایت نہیں کرتا بلکہ ہر کھیتی ، اناج،
سبزیوں، پھلوں وغیرہ میں سے اگر وہ نصاب کو پہنچ جائے تو عشر فرض ہے۔
دلیل نمبر 1۔ وَهُوَ
الَّذِىۡۤ اَنۡشَاَ جَنّٰتٍ مَّعۡرُوۡشٰتٍ وَّغَيۡرَ مَعۡرُوۡشٰتٍ وَّالنَّخۡلَ
وَالزَّرۡعَ مُخۡتَلِفًا اُكُلُهٗ وَالزَّيۡتُوۡنَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا
وَّغَيۡرَ مُتَشَابِهٍ ؕ كُلُوۡا مِنۡ ثَمَرِهٖۤ اِذَاۤ اَثۡمَرَ وَاٰتُوۡا
حَقَّهٗ يَوۡمَ حَصَادِهٖ ۖ وَلَا تُسۡرِفُوۡا ؕ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ
الۡمُسۡرِفِيۡنَ ۞
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:(اور
وہی ہے جس نے باغات پیدا کیے چھپروں پر چڑھائے ہوئے اور نہ چڑھائے ہوئے اور کھجور
کے درخت اور کھیتی جس کے پھل مختلف ہیں اور زیتون اور انار ایک دوسرے سے ملتے جلتے
اور نہ ملتے جلتے اس کے پھل میں سے کھاؤ جب وہ پھل لائے اور اس کا حق اس کی کٹائی
کے دن ادا کرو اور حد سے نہ گزرو۔ یقیناًوہ حد سے گزرنے والوں سے محبت نہیں
رکھتا)۔
(الانعام:۱۴۱)
اللہ تعالیٰ نے زمین کی
ہر قسم کی پیداوار میں سے اپنا حق ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور زمینی پیداوار میں
اللہ کا حق عشر ہے۔ اور فرمایا:(اے لوگو جو ایمان لائے ہو ان پاکیزہ چیزوں میں سے
خرچ کرو جو تم نے کمائی ہیں اور ان میں سے بھی جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالی
ہیں اور اس میں سے گندی چیز کا ارادہ نہ کرو جو تم خرچ کرتے ہو۔۔۔)۔
(البقرۃ:۷۶۲)
اس میں بھی اللہ تعالیٰ
نے زمین سے حاصل ہونے والی پیداوار سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم دیا ہے۔
اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم فرضیت اور
وجوب کے لیے ہی ہوتا ہے۔ الا یہ کہ حکم کو فرضیت سے پھیرنے والی کوئی دلیل ہو مگر یہاں
کوئی ایسی دلیل موجود نہیں۔
پیداوار میں سے اللہ تعالیٰ
کا حق نکالنے سے بندہ اور اس کا مال پاک ہو جاتاہے، مال کم بھی نہیں ہوتا بلکہ
بڑھتا ہے، اللہ کی خوشنودی اور رضا مندی بھی حاصل ہوتی ہے،اللہ تعالیٰ نے فرمایا:(۔۔۔اور
تم جو بھی چیز خرچ کرتے ہو تو وہ اس کی جگہ اور دیتا ہے اور وہ سب رزق دینے والوں
سے بہتر ہے)۔
(سبا:۹۳) قُلۡ
اِنَّ رَبِّىۡ يَبۡسُطُ الرِّزۡقَ لِمَنۡ يَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِهٖ وَيَقۡدِرُ
لَهٗ ؕ وَمَاۤ اَنۡفَقۡتُمۡ مِّنۡ شَىۡءٍ فَهُوَ يُخۡلِفُهٗ ۚ وَهُوَ خَيۡرُ
الرّٰزِقِيۡنَ ۞
اور فرمایا:(اور جو کوئی
سودی قرض تم اس لیے دیتے ہو کہ لوگوں کے اموال میں بڑھ جائے تو وہ اللہ کے ہاں نہیں
بڑھتا اور جو تم زکوٰۃ سے دیتے ہو اللہ کے چہرے کا ارادہ کرتے ہو تو وہ لوگ کئی
گنا بڑھانے والے ہیں)۔
(الروم:۹۳) وَمَاۤ اٰتَيۡتُمۡ مِّنۡ رِّبًا لِّيَرۡبُوَا۟ فِىۡۤ اَمۡوَالِ
النَّاسِ فَلَا يَرۡبُوۡا عِنۡدَ اللّٰهِۚ وَمَاۤ اٰتَيۡتُمۡ مِّنۡ زَكٰوةٍ
تُرِيۡدُوۡنَ وَجۡهَ اللّٰهِ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡمُضۡعِفُوۡنَ ۞
اور فرمایا:(ان لوگوں کی
مثال جو اپنے مال اللہ کے رستے میں خرچ کرتے ہیں ایک دانے کی مثال کی طرح ہے جس نے
سات خوشے اگائے اور ہر خوشے میں سو دانے ہیں اور اللہ جس کے لیے چاہے بڑھا دیتا
ہے۔۔۔)۔
(البقرۃ:۱۶۲)
اور فرمایا:
(شیطان تمہیں فقر کا ڈراوا دیتا ہے اورتمہیں
شرمناک بخل کا حکم دیتا ہے اور اللہ تمہیں اپنی طرف سے بڑی بخشش اور فضل کا وعدہ دیتا
ہے اور اللہ وسعت والا اور سب کچھ جاننے والا ہے)۔
اَلشَّيۡطٰنُ يَعِدُكُمُ
الۡـفَقۡرَ وَيَاۡمُرُكُمۡ بِالۡفَحۡشَآءِ ۚ وَاللّٰهُ يَعِدُكُمۡ مَّغۡفِرَةً
مِّنۡهُ وَفَضۡلًا ؕ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيۡمٌۚ ۞ سورۃ
نمبر 2 البقرة آیت نمبر 268
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ بیان
کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ایک دفعہ ایک شخص جنگل بیابان
میں تھا اس نے بادلوں میں سے ایک آواز سنی کہ فلاں کے باغ کو پانی پلاؤ وہ بادل
الگ ہوا اور ایک پتھروں والی زمین پر برس پڑا اچانک نالیوں میں ایک نالی نے وہ
سارا پانی اپنے اندر گھیر لیا تو وہ شخص بھی اس پانی کے پیچھے چل پڑا تو کیا دیکھتا
ہے کہ ایک بندہ اپنے باغ میں کھڑا اپنی کسی کے ساتھ پانی کو موڑ رہا ہے تو اس نے
اسے کہا: اے اللہ کے بندے تیرا نام کیا ہے تو اس نے کہا فلاں یہ وہی نام تھا جو اس
نے بادلوں سے سنا تھا وہ اس سے پوچھتا ہے کہ اللہ کے بندے تو مجھ سے میرے نام کے
متعلق کیوں سوال کر رہا ہے۔ تو اس نے کہا: میں نے ان بادلوں سے جن کا یہ پانی ہے
آواز سنی تھی کوئی کہہ رہا تھا کہ فلاں کے باغ کو پانی پلاؤجو تیرا ہی نام تھا تو
اس باغ میں کیا کرتا ہے اس نے کہا: جب تجھے یہ بات معلوم ہو ہی چکی ہے تو میں اس
باغ کی پیداوار کے تین حصے بناتا ہوں ایک حصہ اللہ کی راہ میں صدقہ کر دیتا ہوں
اور ایک حصہ میں اور میرے بیوی بچے کھا لیتے ہیں اور ایک حصہ میں دوبارا اسی باغ
پر خرچ کر دیتا ہوں‘‘۔
(مسلم، کتاب الزھد، باب فضل الانفاق علی
المساکین۔۔۔، ح:۳۷۴۷)
سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ
عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’کوئی صدقہ کسی مال کو
کم نہیں کرتا اور اللہ تعالیٰ معاف کر دینے والے کی عزت میں اضافہ ہی کرتا ہے اور
کوئی شخص اللہ کے لیے (اپنے مسلمان بھائی کے مقابلے میں) نیچا نہیں ہوتا مگر اللہ
اسے اونچا کر دیتے ہیں‘‘۔
(مسلم،
کتاب البر و الصلۃ، باب استحباب العفو والتواضع، ح:۲۹۵۶)
حافظ زبير على زئي رحمه
الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 273
´پانچ اوقیوں سے کم چاندی پر زکوٰۃ نہیں ہے` «. . . ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:
”ليس فيما دون خمسة اوسق من التمر صدقة، وليس فيما دون خمس اواق من الورق صدقة،
وليس فيما دون خمس ذود من الإبل صدقة . . .»
”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ وسق سے
کم کھجوروں میں کوئی صدقہ (عشر) نہیں ہے اور پانچ اوقیوں سے کم چاندی میں کوئی
صدقہ (زکوٰة) نہیں ہے اور پانچ اونٹوں سے کم میں کوئی صدقہ (زکوة) نہیں ہے . . .“
[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 273]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1459، من حديث مالك به]
تفقه
➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا: «لَا
صَدَقَةَ فِيْ شَيْءٍ مِنَ الزَّرْعِ أَوِ الْكَرْمِ حَتَّى يَكُوْنَ خَمْسَةُ
أَوْسُقٍ وَلَا فِي الرَّقَّةِ حَتَّى تَبْلُغَ مِئَتَيْ دِرْهَمٍ» کسی کھیتی (غلے) یا
کھجور میں کوئی عشر نہیں ہے إلا یہ کہ پانچ وسق ہوجائے اور چاندی میں کوئی زکواۃ
نہیں ہے إلا یہ کہ دوسو درہم تک پہنچ جائے (3078: شرح معانی الآثار للطحاوی 35/2 و
سندہ حسن)
حافظ ابن عبدالبر نے
فرمایا کہ یہ جلیل القدر سنت ہے جسے سب کی طرف سے تلقی بالقبول حاصل ہے۔ [التمهيد
20/136]
➋ ایک وسق ساٹھ صاع کا
ہوتا ہے اور ایک حجازی صاع 5 رطل اور ثلث = دو سیر چار چھٹانک یعنی 2 کلوگرام 99
گرام 520 ملی گرام، دیکھئے مولانا فاروق اصغر صارم رحمہ اللہ کی کتاب ”اسلامی
اوزان“ [ص59] صاع کے صحیح وزن کے بارے میں علمائے حق کا باہم اختلاف ہے لہٰذا بہتر
یہی ہے کہ ڈھائی کلو (2 کلو 500 گرام) قرار دے کر صدقہ نکالا جائے تاکہ آدمی شک
وشبہ سے بچا رہے۔ واللہ اعلم
➌ ایک اوقیہ میں چالیس
درہم ہوتے ہیں جو دو چھٹانک چھ ماشہ اور 472۔ 1220 گرام ہوتا ہے۔ دیکھئے: [اسلامي
اوزان ص21]
➍ پورا سال گزرنے کے بعد ہی
زکوٰۃ فرض ہوتی ہے۔
➎ تفقہ نمبر 2 سے ثابت
ہوتا ہے کہ جس کا غلہ فصل وغیرہ 750 کلوگرام یا دوسرے قول میں 630 کلوگرام سے کم
ہو تو اس میں عشر ضروری نہیں ہے۔ مذکورہ حد تک پہنچنے کے بعد ہی عشر فرض ہوتا ہے۔
نیز دیکھئے: [ح 402]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر:
92
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك
رواية ابن القاسم 274
´پانچ اوقیوں سے کم چاندی پر زکوٰۃ نہیں ہے`
«. . . 402- وبه: عن أبيه قال: سمعت أبا سعيد
الخدري يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”ليس فيما دون خمس ذود صدقة، وليس
فيما دون خمس أواق صدقة، وليس فيما دون خمسة أوسق صدقة.“ . . .»
”. . . سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ اونٹوں سے کم پر کوئی صدقہ
(زکوٰة) نہیں ہے اور پانچ اوقیہ چاندی سے کم پر کوئی صدقہ نہیں ہے اور پانچ وسق
(غلے) سے کم پر کوئی صدقہ (عشر) نہیں ہے۔“ . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن
القاسم: 274]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1447، من حديث مالك به،
ورواه مسلم 979، من حديث عمرو بن يحييٰ بن عمارة به]
تفقه:
➊ سیدنا جابر بن عبداللہ
الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لا صدقة فى شئي من الزرع او الكرم حتيٰ يكون خمسة أوسق ولا فى الرقة حتيٰ تبلغ
مئتي درهم۔» کھیتی یا انگور میں پانچ وسق سے کم میں کوئی صدقہ (ضروری) نہیں ہے اور
دو سو درہم سے کم چاندی میں کوئی صدقہ نہیں ہے۔ [شرح معاني الآثار للطحاوي 2/35
وسنده حسن، وأصله عند ابن ماجه: 1794]
➋ مزید فقہ الحدیث کے لئے
دیکھئے الموطأ حدیث: 92
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 402
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں