خطبہ الجمعہ
موضوع -----------------۔{ احادیث
فتن }
ان الحمدللہ نحمدہ ونستعینہ ، ونستفرہ ،
ونعوذ باللہ من شرور انفسنا ومن سیئات أعمالنا ، من یھدہ اللہ فلا مضل لہ، ومن یضلل
فلا ھادی لہ، وأشھد ان لا الہ الااللہ وحدہ لاشریک لہ، وأشھد أن محمدا عبدہ ورسولہ
أما بعد: فان خیر الحدیث کتاب اللہ وخیر
الھدی ھدی محمدﷺ وشر الامور محدثاتھا وکل بدعۃ ضلالہ وکل ضلالۃ فی النار۔ قال تعالی۔۔
﴿الم ﴿١﴾ أَحَسِبَ النّاسُ أَن يُترَكوا أَن يَقولوا
ءامَنّا وَهُم لا يُفتَنونَ ﴿٢﴾ وَلَقَد فَتَنَّا الَّذينَ مِن قَبلِهِم
فَلَيَعلَمَنَّ اللَّهُ الَّذينَ صَدَقوا وَلَيَعلَمَنَّ الكـٰذِبينَ ﴿٣﴾... سورة
العنكبوت
’’
الم!کیا لوگوں نے گمان کر رکھا ہے کہ ان کے صرف اس عوے پر ہم ایمان لے آئے ہیں ،
ہم انہیں بغیر آزمائے ہوئے ہی چھوڑ دیں گے ؟ ان سے اگلوں کو بھی ہم نے خوب جانچا ،
یقینا اللہ تعالی انہیں بھی جان لے گا جو سچ کہتے ہیں اور انہیں بھی معلوم کر لے
گا جو جھوٹے ہیں ۔‘‘
ور یہ فتنہ ، گمر اہی ، گناہ ، کفر اور عذاب کے معنی
میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ ان تمام معانی کا اعتبار سیاق و قرائن سے ہوگا ۔ بہت
زیادہ صحیح نصوص دلالت کرتی ہیں کہ علامت
ِ ساعہ میں سے کثرت ہرج بھی ہے اور وہ قتل ، فساد ، فتنوں کا ظہور ، ان کا پھیلنا
، شہروں میں ان فتنوں کا نازل ہونا ، ، ان کی مصیبت اور ہولناکی کا بڑھنا ہے ،
یہاں تک کہ ان فتن کے شدتِ وقوع سے مسلمان آدمی شام کو کافر ہوگا اور صبح کو مؤمن
ہوگا۔ صبح کو مؤمن ہو گا تو شام کو کافر ہوگا اور ایک فتنہ دوسرے کے پیچھے آئے گا
تو مؤمن کہے گایہ مجھے ہلاک کر دے گا ، پھر وہ گزر جائے گا اور دوسرا ظاہر ہو گا
تو وہ کہے گا یہی ہے مجھے ہلاک کرنے والا ، جب تک کہ اللہ چاہے گا ۔ پس زمانہ گزر
جائے گا اور اس کے بعد شر ہوگا جیسے زمانہ اپنے اہل کے ساتھ طویل ہوگا اور ان سے بعید ہوگا تو فتنے مصائب کے
لحاظ سے زیادہ سخت اور عظیم ہوں گے ۔ جیسا کہ شریعت کی نصوص اس پر شاہد ہیں اور اس
پر کئی حواثات و واقعات بھی دلالت کرتے ہیں :
(1
)حضرت زبیر بن عدی سے مروی ہے ، کہتے ہیں کہ ہم انس بن
مالک کے پاس آئے تو ہم نے حجاج سے ملنے والی تکالیف کی آپ سے شکایت کی تو آپ نے
کہا : میں نے تمہارے نبی سے سنا ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :
«اصْبِرُوا،
فَإِنَّهُ لاَ يَأْتِي عَلَيْكُمْ زَمَانٌ إِلَّا الَّذِي بَعْدَهُ شَرٌّ مِنْهُ،
حَتَّى تَلْقَوْا رَبَّكُمْ»(صحيح بخارى :7068)
’’میں
نے تمہارے نبی ﷺ سے سنا ہے ، صبر کرو تم پر جوزمانہ گزرے گا، اس کے بعد اس سے بدتر
زمانہ ہوگا یہاں تک کہ تم اپنے ربّ سے جا ملو ۔‘‘
(2)حضرت
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ بلا شبہ اللہ کے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
«بَادِرُوا بِالْأَعْمَالِ فِتَنًا كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ، يُصْبِحُ
الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا، أَوْ يُمْسِي مُؤْمِنًا وَيُصْبِحُ
كَافِرًا، يَبِيعُ دِينَهُ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْيَا»(صحيح مسلم :118)
’’
تم نیک اعمال میں جلدی کرو ، ان فتنوں سے پہلے جو
اندھیر ی رات کے ٹکڑوں کی طرح ہوں گے ۔ ( اس وقت) آدمی صبح کو مؤمن ہوگا او رشام
کو کافر یا شام کو مؤ من ہوگا اور صبح کو کافر ، وہ اپنے دین کو دنیا کے فائدے کے
بدلے فروخت کر دے گا ۔‘‘
(3)حضرت
عبد اللہ بن عمرو بن عاص ؓ کہتے ہیں کہ ہم نبی ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے تو ہم نے
ایک جگہ قیام کیا ، ہم میں سے کچھ لوگ اونٹ لے کر چراگاہ میں گئے تھے کہ ا چانک
اللہ کے رسول ﷺ نے منادی کی نماز کے لیے جمع ہو جاؤ ۔ پس ہم نبی کے پاس جمع ہوگئے
تو آپ ﷺ نے فرمایا
:
«
إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ نَبِيٌّ قَبْلِي إِلَّا كَانَ
حَقًّا عَلَيْهِ أَنْ يَدُلَّ أُمَّتَهُ عَلَى خَيْرِ مَا يَعْلَمُهُ لَهُمْ،
وَيُنْذِرَهُمْ شَرَّ مَا يَعْلَمُهُ لَهُمْ، وَإِنَّ أُمَّتَكُمْ هَذِهِ جُعِلَ
عَافِيَتُهَا فِي أَوَّلِهَا، وَسَيُصِيبُ آخِرَهَا بَلَاءٌ، وَأُمُورٌ
تُنْكِرُونَهَا، وَتَجِيءُ فِتْنَةٌ فَيُرَقِّقُ بَعْضُهَا بَعْضًا، وَتَجِيءُ
الْفِتْنَةُ فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ: هَذِهِ مُهْلِكَتِي، ثُمَّ تَنْكَشِفُ
وَتَجِيءُ الْفِتْنَةُ، فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ: هَذِهِ هَذِهِ، فَمَنْ أَحَبَّ
أَنْ يُزَحْزَحَ عَنِ النَّارِ، وَيُدْخَلَ الْجَنَّةَ، فَلْتَأْتِهِ مَنِيَّتُهُ
وَهُوَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَلْيَأْتِ إِلَى النَّاسِ الَّذِي
يُحِبُّ أَنْ يُؤْتَى إِلَيْهِ،»(صحيح مسلم :
1844)
مجھ سے پہلے بھی بنی گزرا ، اس پر واجب تھا کہ اپنی امت
کو خیر کی طر ف راہنمائی کرے اور ان کو برائی سے روکے ۔ اس امت کی عافیت اس کی
ابتدا میں رکھی گئی ہے او راس کے آخر میں لوگ آزمائش اور ناپسندیدہ امور کا سامنا کریں
گے ۔ کوئی فتنہ آئے گا تو اس کا بعض حصہ بعض حصے کو خوشنما بنا دے گا ، پھر فتنہ آئے گا تو مؤمن کہے گا : یہ
مجھے ہلاک کر دے گا ، جب وہ گزر جائے گا تو مؤمن کہے گا کہ یہ میری ہلاکت کا باعث
ہے ۔ جو آدمی چاہتا ہے کہ وہ جہنم سے بچ جائے اور جنت میں داخل ہو تو پھر اس کی
موت ا س حال میں آنی چاہیے کہ وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اور لوگوں
سے ایسا سلوک کرے جس کی توقع وہ اپنے لیے کرتا ہے ۔‘‘
نبی ﷺ نےمسلمانوں کی ایسے امر کی طرف توجہ فرمائی جو
لوگوں کو ان فتنوں ، برائیوں اور گناہوں سے محفوظ رکھے ، لہذا آپ نے ان کو حکم دیا
کہ ان فتنوں سے اللہ کی پناہ پکڑو، اعمالِ صالحہ مین جلدی ، اللہ اور آخرت کے دن
پر ایمانِ کامل اور مسلمانوں کی جماعت کو لازم پکڑنے کے ساتھ ان فتنہ سے دور ی
اختیار کرو۔
(4)اس
معنی میں نبی ﷺ کا یہ فرمان بھی ہے :
«تَعَوَّذُوا
بِاللهِ مِنَ الْفِتَنِ، مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ»(صحيح مسلم:2867)
’’
تم ظاہر ی اور باطنی فتنوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب
کرو۔ ‘‘
(5)حضرت
حذیفہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں ،
كَانَ النَّاسُ يَسْأَلُونَ
رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْخَيْرِ، وَكُنْتُ
أَسْأَلُهُ عَنِ الشَّرِّ مَخَافَةَ أَنْ يُدْرِكَنِي، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ
اللهِ، إِنَّا كُنَّا فِي جَاهِلِيَّةٍ وَشَرٍّ، فَجَاءَنَا اللهُ بِهَذَا
الْخَيْرِ، فَهَلْ بَعْدَ هَذَا الْخَيْرِ شَرٌّ؟ قَالَ: «نَعَمْ»، فَقُلْتُ: هَلْ
بَعْدَ ذَلِكَ الشَّرِّ مِنْ خَيْرٍ؟ قَالَ: «نَعَمْ، وَفِيهِ دَخَنٌ»، قُلْتُ:
وَمَا دَخَنُهُ؟ قَالَ: «قَوْمٌ يَسْتَنُّونَ بِغَيْرِ سُنَّتِي، وَيَهْدُونَ
بِغَيْرِ هَدْيِي، تَعْرِفُ مِنْهُمْ وَتُنْكِرُ»، فَقُلْتُ: هَلْ بَعْدَ ذَلِكَ
الْخَيْرِ مِنْ شَرٍّ؟ قَالَ: «نَعَمْ، دُعَاةٌ عَلَى أَبْوَابِ جَهَنَّمَ مَنْ
أَجَابَهُمْ إِلَيْهَا قَذَفُوهُ فِيهَا»، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، صِفْهُمْ
لَنَا، قَالَ: «نَعَمْ، قَوْمٌ مِنْ جِلْدَتِنَا، وَيَتَكَلَّمُونَ
بِأَلْسِنَتِنَا»، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، فَمَا تَرَى إِنْ أَدْرَكَنِي
ذَلِكَ؟ قَالَ: «تَلْزَمُ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ»، فَقُلْتُ:
فَإِنْ لَمْ تَكُنْ لَهُمْ جَمَاعَةٌ وَلَا إِمَامٌ؟ قَالَ: «فَاعْتَزِلْ تِلْكَ
الْفِرَقَ كُلَّهَا، وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ عَلَى أَصْلِ شَجَرَةٍ حَتَّى يُدْرِكَكَ
الْمَوْتُ وَأَنْتَ عَلَى ذَلِكَ»(صحيح بخارى:3606)
’’لوگ
نبی ﷺ سے خیر کے بارے میں سوال کرتے تھے اور میں شر کے بارے میں سوال کرتا ، اس ڈر
سے کہ میں اس میں گرفتار نہ ہو جاؤں ۔ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ﷺ ! بلا شبہ
ہم جاہلیت کے شر میں تھے تو اللہ تعالیٰ ہمارے پاس اسلام کی خیر لائے ۔ کیا اس خیر
کے بعد بھی کوئی شر ہے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا : ہاں ، میں نے کہا : پھر کیا اس شر
کے بعد کوئی خیر ہے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں لیکن اس میں کچھ خرابی ہے ۔ میں نے کہا :
کیا خرابی ہے ؟ فرمایا : لوگ ہوگے جو میری ہدایت کے علاوہ دوسری ہدایت حاصل کریں
گے ۔ تو ان میں سے کچھ چیزیں پہچانے گا اور کچھ کا انکار کرے گا ۔ میں نے کہا : اس
خیر کے بعد کوئی شر ہے ؟ فرمایا: ہاں جہنم کے دروازوں کی طرف بلانے والے ہوں گے ۔
جو ان کی دعوت کو قبول کرے گا وہ اسے جہنم میں پھینک دیں گے ۔ میں نےکہا : اے اللہ
کے رسول! ان کی کچھ صفات بیان فرمائیے ؟ فرمایا: وہ ہمارے جیسے ہوں گے اور ہماری
زبانوں کے ساتھ کلام کریں گے ۔ میں نے کہا : اگریہ وقت مجھ پر آجائے تو آپ مجھے
کیا حکم دیتے ہیں ؟ فرمایا: مسلمانوں کی جماعت اور امام کو لازم پکڑو ۔ میں کہا ،
اگر ان کی جماعت اور امام نہ ہو تو ؟ فرمایا: ان تمام فرقوں سے الگ رہو اور کسی
درخت کی جڑ کو مضبوطی سے پکڑ لے یہاں تک کہ تجھے موت آجائے اور تو اسی حال میں ہو
۔ ‘‘
اس کے علاوہ بھی بہت زیادہ احادیث ہیں کہ جن کو اس جگہ
لانا باعثِ طوالت ہو گا ۔ یہ تمام احادیث اس امر عظیم پر دال ہیں جس سے نبی ﷺ نے
متنبہ فرمایا اور اس کے انجام سے اپنی اُمت کو ڈرایا ۔ ان کی اس امر کی طرف
راہنمائی فرمائی جو لوگوں کو ان برائیوں اور گناہوں سے باز رکھے کہ وہ ان (فتن) سے
پناہ طلب کریں اور ان سے دور ی اختیار کریں ، اللہ تعالیٰ پر صحیح ایمان کے ساتھ ۔
آپ کے اوامر و نواہی کی اتباع کے ساتھ ) ااہل سنت و الجماعت کے گروہ کو لازم پکڑنے
کے ساتھ ، اگر وہ کمزور ہوں اور تعداد میں کم ۔
اللہ تعالی تمام مسلمان کا
اس پر عمل کرنے کی توفیق دے ۔ آ
مین ۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں