اپنی زبان منتخب کریں

جمعرات، 29 اگست، 2024

جمعہ کے دن کی فضیلت

 إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ [الجمعہ: 9]


ذی وقار سامعین!


اللہ تعالٰی نے جنوّں اور انسانوں کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے اور عبادت اس وقت اللہ کے دربار میں قبول ہوتی ہے جب اسے نبیﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق کیا جائے۔ عبادات میں سے ایک اہم عبادت "نمازِ جمعہ” کی ادائیگی ہے۔ یہ جتنی اہم عبادت ہے آج ہم نے اسے اتنا ہی بے وقعت سمجھ لیا ہے۔ آج کے خطبہ جمعہ میں ہم جمعہ کے دن کی فضیلت ، بروقت جمعہ کی ادائیگی کی فضیلت ، جمعہ چھوڑنے کی وعید ، جمعہ کے دن کرنے والے کام اور جمعہ کے آداب سمجھیں گے۔


جمعہ کے دن کی فضیلت

 جمعہ کے دن کی بہت زیادہ اہمیت اور فضیلت ہے۔


❄عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ خَيْرُ يَوْمٍ طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ يَوْمُ الْجُمُعَةِ فِيهِ خُلِقَ آدَمُ وَفِيهِ أُدْخِلَ الْجَنَّةَ وَفِيهِ أُخْرِجَ مِنْهَا وَلَا تَقُومُ السَّاعَةُ إِلَّا فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ [مسلم: 1977]


ترجمہ: حضرت ابو ہریرۃ ﷜سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فر ما یا :بہترین دن جس میں سورج نکلتا ہے جمعے کا ہے اسی دن آدم ؑکو پیدا کیا گیا تھا اور اسی دن انھیں جنت میں داخل کیا گیا اور اسی میں انھیں اس سے نکا لا گیا (خلا فت ارضی سونپی گئی ) اور قیامت بھی جمعے کے دن ہی بر پاہو گی ۔”صالح مومنوں کے لیے یہ انعام عظیم حا صل کرنے کا دن ہو گا ۔


❄عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: خَيْرُ يَوْمٍ طَلَعَتْ فِيهِ الشَّمْسُ يَوْمُ الْجُمُعَةِ, فِيهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِيهِ أُهْبِطَ، وَفِيهِ تِيبَ عَلَيْهِ، وَفِيهِ مَاتَ، وَفِيهِ تَقُومُ السَّاعَةُ، وَمَا مِنْ دَابَّةٍ إِلَّا وَهِيَ مُسِيخَةٌ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، مِنْ حِينَ تُصْبِحُ، حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ شَفَقًا مِنَ السَّاعَةِ, إِلَّا الْجِنَّ وَالْإِنْسَ، وَفِيهِ سَاعَةٌ لَا يُصَادِفُهَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ وَهُوَ يُصَلِّي، يَسْأَلُ اللَّهَ حَاجَةً, إِلَّا أَعْطَاهُ إِيَّاهَا. [ابوداؤد: 1046 صححہ الالبانی]


ترجمہ: سیدنا ابوہریرہ ﷜بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” بہترین دن جس میں سورج طلوع ہوتا ہے ، جمعے کا دن ہے ۔ اس میں آدم پیدا کیے گئے ، اسی میں ان کو زمین پر اتارا گیا ، اسی میں ان کی توبہ قبول کی گئی ، اسی دن ان کی وفات ہوئی اور اسی دن قیامت قائم ہو گی ۔ جمعہ کے دن صبح ہوتے ہی تمام جانور قیامت کے ڈر سے کان لگائے ہوئے ہوتے ہیں حتیٰ کہ سورج طلوع ہو جائے ، سوائے جنوں اور انسانوں کے ۔ اس دن میں ایک گھڑی ایسی ہے جسے کوئی مسلمان بندہ پا لے جبکہ وہ نماز پڑھ رہا ہو اور اللہ عزوجل سے اپنی کسی ضرورت کا سوال کر رہا ہو تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور عنایت فر دیتا ہے ۔ “


❄عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ نَحْنُ الْآخِرُونَ السَّابِقُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بَيْدَ كُلِّ أُمَّةٍ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِنَا وَأُوتِينَا مِنْ بَعْدِهِمْ فَهَذَا الْيَوْمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ فَغَدًا لِلْيَهُودِ وَبَعْدَ غَدٍ لِلنَّصَارَى


ترجمہ : سیدنا ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نےفرمایا، ہم (دنیا میں ) تمام امتوں کےآخر میں آئے لیکن (قیامت کےدن ) تمام امتوں سے آگے ہون گے ۔صرف اتنا فرق ہےکہ انہیں پہلے کتاب د ی گئی اورہمیں بعدمیں ملی اور یہی وہ (جمعہ کا) دن ہے جس کےبارے میں لوگوں نےاختلاف کیا۔ یہودیوں نےتو اسے اس کےدوسرے دن( ہفتہ کو) کرلیا اور نصاریٰ نےتیسرے دن (اتوارکو)۔ [بخاری: 3486]


❄عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَيَّامِكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ, فِيهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِيهِ قُبِضَ، وَفِيهِ النَّفْخَةُ، وَفِيهِ الصَّعْقَةُ، فَأَكْثِرُوا عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاةِ فِيهِ, فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ مَعْرُوضَةٌ عَلَيَّ. قَالَ: قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! وَكَيْفَ تُعْرَضُ صَلَاتُنَا عَلَيْكَ وَقَدْ أَرِمْتَ -يَقُولُونَ: بَلِيتَ؟!- فَقَالَ:إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ.


ترجمہ : سیدنا اوس بن اوس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” تمہارے افضل ایام میں سے جمعے کا دن ہے ۔ اس میں آدم پیدا کیے گئے ، اسی میں ان کی روح قبض کی گئی ، اسی میں «نفخة» ( دوسری دفعہ صور پھونکنا ) ہے اور اسی میں «صعقة» ہے ( پہلی دفعہ صور پھونکنا ، جس سے تمام بنی آدم ہلاک ہو جائیں گے ) سو اس دن میں مجھ پر زیادہ درود پڑھا کرو کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے ۔ “ صحابہ نے پوچھا : اے اللہ کے رسول ! ہمارا درود آپ پر کیوں کر پیش کیا جائے گا حلانکہ آپ بوسیدہ ہو چکے ہوں گے ۔ ( یعنی آپ کا جسم ) تو آپ ﷺ نے فرمایا ” اللہ عزوجل نے زمین پر انبیاء کے جسم حرام کر دیے ہیں ۔ “ [ابوداؤد: 1047 صححہ الالبانی]


بروقت جمعہ کی ادائیگی کی فضیلت

جمعہ والے دن کی اہم ترین عبادت نمازِ جمعہ کی بروقت ادائیگی ہے۔ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں؛


يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ [الجمعہ: 9] "اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف لپکو اور خرید وفروخت چھوڑ دو، یہ تمھارے لیے بہتر ہے، اگر تم جانتے ہو۔”


عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ, قَال:َ الْجُمُعَةُ حَقٌّ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ فِي جَمَاعَةٍ إِلَّا أَرْبَعَةً: عَبْدٌ مَمْلُوكٌ، أَوِ امْرَأَةٌ، أَوْ صَبِيٌّ، أَوْ مَرِيضٌ.


ترجمہ: سیدنا طارق بن شہاب ﷜ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا ” جمعہ ہر مسلمان پر جماعت کے ساتھ لازماً فرض ہے ‘ سوائے چار قسم کے لوگوں کے ۔ غلام مملوک ، عورت ، بچہ اور مریض ۔ “ [ابوداؤد: 1067 صححہ الالبانی]


جمعہ والے دن اچھی طرح غسل کرکے ، خوشبو لگا کر اور اچھے کپڑے پہن کر جلد مسجد میں نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لئے جانے کی بہت زیادہ اہمیت و فضیلت ہے۔


❄عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ اغْتَسَلَ ثُمَّ أَتَى الْجُمُعَةَ فَصَلَّى مَا قُدِّرَ لَهُ ثُمَّ أَنْصَتَ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْ خُطْبَتِهِ ثُمَّ يُصَلِّي مَعَهُ غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجُمُعَةِ الْأُخْرَى وَفَضْلُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ [مسلم: 1987]


ترجمہ: حضرت ابو ہریرۃ ﷜سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ سے روایت کہ آپ نے فرمایا:”جس نے غسل کیا،پھر جمعے کے لئے حاضر ہوا،پھر اس کے مقدر میں جتنی (نفل) نماز تھی پڑھی،پھر خاموشی سے(خطبہ) سنتا رہا حتیٰ کہ خطیب اپنے خطبے سے فارغ ہوگیا،پھر اس کے ساتھ نماز پڑھی،اس کے اس جمعے سے لے کر ایک اور(پچھلے یا اگلے) جمعے تک کے گناہ بخش دیے جاتے ہیں اور مزید تین دنوں کے بھی۔”


❄عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ اغْتَسَلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ غُسْلَ الْجَنَابَةِ ثُمَّ رَاحَ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَدَنَةً وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الثَّانِيَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَقَرَةً وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الثَّالِثَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ كَبْشًا أَقْرَنَ وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الرَّابِعَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ دَجَاجَةً وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الْخَامِسَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَيْضَةً فَإِذَا خَرَجَ الْإِمَامُ حَضَرَتْ الْمَلَائِكَةُ يَسْتَمِعُونَ الذِّكْرَ [بخاری: 881]


ترجمہ: سیدنا ابوہریرہ ﷜سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص جمعہ کے دن غسل جنابت کرکے نماز پڑھنے جائے تو گویا اس نے ایک اونٹ کی قربانی دی ( اگراول وقت مسجد میں پہنچا ) اور اگر بعد میں گیا تو گویا ایک گائے کی قربانی دی اور جو تیسرے نمبر پر گیا تو گویا اس نے ایک سینگ والے مینڈھے کی قربانی دی۔ اور جو کوئی چوتھے نمبر پر گیا تو اس نے گویا ایک مرغی کی قربانی دی اور جو کوئی پانچویں نمبر پر گیا اس نے گویا انڈا اللہ کی راہ میں دیا۔ لیکن جب امام خطبہ کے لیے باہر آجاتا ہے تو ملائکہ خطبہ سننے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔


❄عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ وَقَفَتْ الْمَلَائِكَةُ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ يَكْتُبُونَ الْأَوَّلَ فَالْأَوَّلَ وَمَثَلُ الْمُهَجِّرِ كَمَثَلِ الَّذِي يُهْدِي بَدَنَةً ثُمَّ كَالَّذِي يُهْدِي بَقَرَةً ثُمَّ كَبْشًا ثُمَّ دَجَاجَةً ثُمَّ بَيْضَةً فَإِذَا خَرَجَ الْإِمَامُ طَوَوْا صُحُفَهُمْ وَيَسْتَمِعُونَ الذِّكْرَ [بخاری: 929]


ترجمہ: سیدنا ابو ہریرہ ﷜سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب جمعہ کا دن آتا ہے تو فرشتے جامع مسجد کے دروازے پر آنے والوں کے نام لکھتے ہیں، سب سے پہلے آنے والا اونٹ کی قربانی دینے والے کی طرح لکھا جاتا ہے۔ اس کے بعد آنے والا گائے کی قربانی دینے والے کی طرح پھر مینڈھے کی قربانی کا ثواب رہتا ہے۔ اس کے بعد مرغی کا، اس کے بعد انڈے کا۔ لیکن جب امام ( خطبہ دینے کے لیے ) باہر آجاتا ہے تو یہ فرشتے اپنے دفاتر بند کر دیتے ہیں اور خطبہ سننے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔


❄عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ الثَّقَفِيِّ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:«مَنْ غَسَّلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَاغْتَسَلَ، ثُمَّ بَكَّرَ وَابْتَكَرَ، وَمَشَى وَلَمْ يَرْكَبْ، وَدَنَا مِنَ الْإِمَامِ فَاسْتَمَعَ وَلَمْ يَلْغُ كَانَ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ عَمَلُ سَنَةٍ أَجْرُ صِيَامِهَا وَقِيَامِهَا» [ابوداؤد345 صححہ الالبانی]


ترجمہ: سیدنا اوس بن اوس ثقفی ﷜ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا فرماتے تھے ” جس نے جمعہ کے روز غسل کیا اور خوب اچھی طرح کیا اور جلدی آیا اور ( خطبہ میں ) اول وقت پہنچا ، پیدل چل کے آیا اور سوار نہ ہوا ، امام سے قریب ہو کر بیٹھا اور غور سے سنا اور لغو سے بچا ، تو اس کے لیے ہر قدم پر ایک سال کے روزوں اور قیام کے عمل کا ثواب ہے ۔ “


جمعہ چھوڑنے کی وعید

 جو بندہ جان بوجھ کر جمعہ نہیں ادا کرتا ، اس کے بارے میں آقا علیہ السلام نے فرمایا ہے؛


أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ وَأَبَا هُرَيْرَةَ سَمِعَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ عَلَى أَعْوَادِ مِنْبَرِهِ لَيَنْتَهِيَنَّ أَقْوَامٌ عَنْ وَدْعِهِمْ الْجُمُعَاتِ أَوْ لَيَخْتِمَنَّ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ ثُمَّ لَيَكُونُنَّ مِنْ الْغَافِلِينَ [مسلم: 2002]


ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ اپنے منبر کی لکڑیوں پر (کھڑے ہو ئے) فر ما رہے تھے "لو گوں کے گروہ ہر صورت جمعہ چھوڑ دینے سے باز آجا ئیں یا اللہ تعا لیٰ ان کے دلوں پر مہر لگا دے گا پھر وہ غافلوں میں سے ہو جائیں گے۔


 عَنْ أَبِي الْجَعْدِ الضَّمْرِيِّ -وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ-، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ تَرَكَ ثَلَاثَ جُمَعٍ تَهَاوُنًا بِهَا, طَبَعَ اللَّهُ عَلَى قَلْبِهِ [ابوداؤد: 1052 صححہ الالبانی]


ترجمہ: سیدنا ابو الجعد ضمری ﷜ ( صحابی ) سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” جو شخص غفلت اور سستی سے تین جمعے چھوڑ دے اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے ۔ “


جمعہ کے دن کرنے والے کام

1. نمازِ فجر میں سورۃ السجدہ اور سورۃ الدھر پرھنا:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الْجُمُعَةِ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ الم تَنْزِيلُ السَّجْدَةَ وَهَلْ أَتَى عَلَى الْإِنْسَانِ حِينٌ مِنْ الدَّهْرِ


ترجمہ: سیدنا ابو ہریرہ ﷜ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ جمعہ کے دن فجر کی نماز میں الٓم تنزیل اور ھل اتی علی الانسان پڑھا کرتے تھے۔ [بخاری: 891]


2. سورۃ الکہف کی تلاوت کرنا:

جمعہ کے روز یا جمعہ کی رات سورۃ الکہف کی تلاوت کا اہتمام خصوصی طور پر کرنا چاہئے، کیونکہ احادیث مبارکہ میں اس کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے ۔


حضرت ابو سعید الخدری ﷜ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ؛


 مَنْ قَرَأَ سُوْرَۃَ الْکَہْفِ لَیْلَۃَ الْجُمُعَۃِ،أَضَائَ لَہُ مِنَ النُّوْرِ فِیْمَا بَیْنَہُ وَبَیْنَ الْبَیْتِ الْعَتِیْقِ


’’ جس شخص نے جمعہ کی رات سورۃالکہف کی تلاوت کی تو اس کے سامنے اس کے اور خانہ کعبہ کے درمیان مسافت کے برابر نور آ جاتا ہے ۔ ‘‘ [صحیح الجامع :6471]


اور دوسری روایت میں ارشاد فرمایا :


مَنْ قَرَأَ سُوْرَۃَ الْکَہْفِ فِیْ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ،أَضَائَ لَہُ مِنَ النُّوْرِ مَا بَیْنَ الْجُمُعَتَیْنِ


’’ جو آدمی یومِ جمعہ کو سورۃ الکہف پڑھتا ہے تو اس کیلئے اگلے جمعہ تک نور ہی نور ہو جاتا ہے ۔ ‘‘ [صحیح الجامع للألبانی:6470]


3. نبی ﷺ پر کثرت سے درود شریف پڑھنا:

سيدنا أنس بن مالك ﷜ فرماتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا ؛


أكثِروا الصَّلاةَ علي يومَ الجمُعةِ و ليلةَ الجمُعةِ ، فمَن صلَّى علي صلاةً صلَّى الله عليِه عَشرًا.


"جمعے کے دن اور جمعے کی رات مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو ؛ پس جو مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجتا ہے الله اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے ۔”[ صحيح الجامع : ١٢٠٩ ]


امام شافعی رحمه الله فرماتے ہیں ؛


"مجھے ہر حال میں نبی ﷺ پر کثرت سے دورد بھیجنا پسند ہے، مگر جمعہ کے دن اور رات کو بہت ہی محبوب ہے۔” [ الأم : ٢٣٩/١ ]


امام ابن حجر رحمه الله نقل کرتے ہیں ؛


"نبی ﷺ پر کثرت سے درود بھیجنا، وباؤں اور دیگر بڑی مصیبتوں کے خاتمے کا بہت بڑا سبب ہے ۔” [ بذل الماعون : ٣٣٣ ]


4. کثرت سے دعا کرنا:

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ؛


فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ سَاعَةٌ لَا يُوَافِقُهَا مُسْلِمٌ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلَّى يَسْأَلُ اللهَ تَعَالَى خَيْرًا إِلَّا أَعْطَاهُ »


"جمعہ کے دن ایک ایسی گھڑی ہے کہ اگر کوئی مسلمان اسے حالت نماز میں پالے تو اس میں وہ جو بھی اللہ سے دعائے خیر کرے گا، وہ پوری ہوگی ۔ [ بخارى: 6400]


اور ایک دوسری حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا ؛


هِيَ مَا بَيْنَ أَنْ يَجْلِسَ الْإِمَامُ إِلَى أَنْ تُقْضَى الصَّلَاةُ


دعا کی قبولیت کا یہ وقت امام کے منبر پر بیٹھنے سے نماز کے اختتام تک ہوتا ہے۔ [مسلم: 853]


اس گھڑی سے متعلق دو احادیث اور بھی ہیں ، ابن ماجہ (۱۳۹) اور مسند احمد (۴۵۱/۵، ح: (۲۳۸۴۳) کی صحیح حدیث میں ہے: «هِی آخِرُ سَاعَاتِ النَّهَارِ » یہ دن کی آخری گھڑی ہے ۔ اور ابو داؤد (۱۰۴۸) کی صحیح حدیث میں ہے: «فَالْتَمِسُوهَا آخِرَ سَاعَةٍ بَعْدَ الْعَصْرِ » اسے عصر کے بعد کی آخری گھڑی میں تلاش کرو۔


 تو ان مختلف احادیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ گھڑی زوال آفتاب سے لے کر غروب آفتاب کی گھڑیوں میں سے کوئی گھڑی ہے۔ (واللہ اعلم )


جمعہ کے آداب

1. غسل کرنا:

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا جَاءَ أَحَدُكُمْ الْجُمُعَةَ فَلْيَغْتَسِلْ [بخاری: 877]


ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے جب کوئی شخص جمعہ کی نماز کے لیے آنا چا ہے تو اسے غسل کر لینا چاہیے۔


بوقتِ مجبوری وضو پر بھی اکتفاء کرنا جائز ہے


عَنْ سَمُرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ تَوَضَّأَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَبِهَا وَنِعْمَتْ وَمَنْ اغْتَسَلَ فَهُوَ أَفْضَلُ [ابوداؤد: 354 حسنہ الالبانی]


ترجمہ: سیدنا سمرہ ﷜ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” جس نے وضو کیا اس نے سنت پر عمل کیا اور یہ بہت عمدہ سنت ہے ۔ اور جس نے غسل کیا تو یہ افضل ہے ۔ “


2. اچھے کپڑے پہننا:

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ عَلَى الْمِنْبَرِ فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ مَا عَلَى أَحَدِكُمْ لَوْ اشْتَرَى ثَوْبَيْنِ لِيَوْمِ الْجُمُعَةِ سِوَى ثَوْبِ مِهْنَتِهِ.


ترجمہ: سیدنا عبداللہ بن سلام ﷜ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو جمعے کے دن منبر پر (خطبے کے دوران میں) یہ فرماتے سنا: ’’کیا حرج ہے اگر تم میں سے کوئی آدمی کام کاج کے کپڑوں کے علاوہ جمعے کے دن( نماز جمعہ کی حاضری) کے لیے دو کپڑے خرید لے۔‘‘ [ابن ماجہ: 1095 صححہ الالبانی]


3. مسواک اور خوشبو:

سیدنا ابوسعید خدری ﷜ نے فرمایا تھا کہ میں گواہ ہوں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا؛


الْغُسْلُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مُحْتَلِمٍ وَأَنْ يَسْتَنَّ وَأَنْ يَمَسَّ طِيبًا إِنْ وَجَدَ


ترجمہ: جمعہ کے دن ہر جوان پر غسل، مسواک اور خوشبو لگانا اگر میسر ہو، ضروری ہے۔[بخاری: 880]


4. دورانِ خطبہ دو رکعت نماز پڑھنا:

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ جَاءَ سُلَيْكٌ الْغَطَفَانِيُّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ فَجَلَسَ فَقَالَ لَهُ يَا سُلَيْكُ قُمْ فَارْكَعْ رَكْعَتَيْنِ وَتَجَوَّزْ فِيهِمَا ثُمَّ قَالَ إِذَا جَاءَ أَحَدُكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ وَلْيَتَجَوَّزْ فِيهِمَا


ترجمہ: حضرت جابر بن عبداللہ ﷜ سے روایت ہے،انھوں نےکہا:سلیک غطفانی ﷜ جمعے کے دن(اس وقت ) آئے جب رسول اللہ ﷺ خطبہ دے رہے تھے تو وہ بیٹھ گئے۔آپ نے ان سے کہا:”اے سلیک!ا ٹھ کر دو رکعتیں پڑھو اور ان میں سے اختصار برتو۔”اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا!”جب تم میں سے کوئی جمعے کےدن آئے جبکہ امام خطبہ دے رہا ہو تو وہ دو رکعتیں پڑھے اور ان میں اختصار کرے۔” [مسلم: 2024]


5. نمازیوں کی گردنیں نہ پھلانگنا:

نبی ﷺ نے فرمایا ؛


مَنْ اغْتَسَلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَمَسَّ مِنْ طِيبِ امْرَأَتِهِ إِنْ كَانَ لَهَا وَلَبِسَ مِنْ صَالِحِ ثِيَابِهِ ثُمَّ لَمْ يَتَخَطَّ رِقَابَ النَّاسِ وَلَمْ يَلْغُ عِنْدَ الْمَوْعِظَةِ كَانَتْ كَفَّارَةً لِمَا بَيْنَهُمَا وَمَنْ لَغَا وَتَخَطَّى رِقَابَ النَّاسِ كَانَتْ لَهُ ظُهْرًا


” جس نے جمعہ کے روز غسل کیا اور اپنی اہلیہ کی خوشبو استعمال کی ۔ اگر اس کے پاس ہو ، اور اپنے عمدہ کپڑے پہنے ، پھر لوگوں کی گردنیں نہ پھلانگیں اور اثنائے وعظ میں ( خطبے کے دوران میں ) کوئی لغو عمل نہ کیا ، تو یہ ( نماز ) ان دونوں ( جمعوں ) کے مابین کے لیے کفارہ ہو گی اور جس نے کوئی لغو کام کیا اور لوگوں کی گردنیں پھلانگیں تو اس کے لیے یہ ظہر ہی ہو گی ( یعنی ظہر کی نماز کا ثواب ہو گا نہ کہ جمعے کا ۔ “ [ابوداؤد: 347 حسنہ الالبانی]


6. دورانِ خطبہ گفتگو نہ کرنا:

❄أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا قُلْتَ لِصَاحِبِكَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَنْصِتْ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ فَقَدْ لَغَوْتَ


ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب امام جمعہ کا خطبہ دے رہا ہو اور تو اپنے پاس بیٹھے ہوئے آدمی سے کہے کہ “چپ رہ” تو تو نے خود ایک لغو حرکت کی۔ [بخاری: 934]


عمرو بن شعیب اپنے والد سے ‘ وہ عبداللہ بن عمرو ؓ سے ‘ وہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا؛


❄يَحْضُرُ الْجُمُعَةَ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ, رَجُلٌ حَضَرَهَا يَلْغُو وَهُوَ حَظُّهُ مِنْهَا، وَرَجُلٌ حَضَرَهَا يَدْعُو فَهُوَ رَجُلٌ دَعَا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، إِنْ شَاءَ أَعْطَاهُ، وَإِنْ شَاءَ مَنَعَهُ، وَرَجُلٌ حَضَرَهَا بِإِنْصَاتٍ وَسُكُوتٍ وَلَمْ، يَتَخَطَّ رَقَبَةَ مُسْلِمٍ وَلَمْ يُؤْذِ أَحَدًا، فَهِيَ كَفَّارَةٌ إِلَى الْجُمُعَةِ الَّتِي تَلِيهَا، وَزِيَادَةِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ, وَذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ: {مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا}[الأنعام: 160].


” جمعہ میں تین طرح کے افراد آتے ہیں ۔ ایک وہ شخص جو لغو کام کرتا ہے اس کا یہی حصہ ہے ۔ دوسرا دعا کے لیے آتا ہے ‘ یہ دعا کرتا ہے اﷲ چاہے تو عطا فرمائے اور چاہے تو محروم رکھے ۔ اور تیسرا وہ شخص جو خاموشی سے سنتا اور سکونت اختیار کرتا ہے ۔ کسی مسلمان کی گردن پھلانگتا ہے نہ کسی کو ایذا دیتا ہے ۔ اس آدمی کے لیے یہ جمعہ آیندہ جمعہ تک کے لیے اور مزید تین دن کے لیے کفارہ ہے ۔ اور یہ اس لیے کہ اللہ عزوجل نے فرمایا «من جاء بالحسنة فله عشر أمثالها» جو ایک نیکی لاتا ہے اس کے لیے اس کا دس گنا ( اجر ) ہے ۔ “ [ابوداؤد: 1113 صححہ الالبانی]

جمعرات، 22 اگست، 2024

علماء سلف صالحین کے اقوال علم کے بارے میں بہت گہرے اور حکمت سے بھرپور ہیں

 علماء سلف صالحین کے اقوال علم کے بارے میں بہت گہرے اور حکمت سے بھرپور ہیں۔ یہاں چند اقوال عربی اور اردو ترجمے کے ساتھ پیش کیے جا رہے ہیں:


### 1. **امام شافعی رحمہ اللہ:**

   - **عربی:**  

   _العلم ما نفع، ليس العلم ما حفظ._  

   - **اردو:**  

   "علم وہ ہے جو نفع دے، علم وہ نہیں جو صرف حفظ کیا جائے۔"


### 2. **امام مالک رحمہ اللہ:**

   - **عربی:**  

   _ليس العلم بكثرة الرواية، إنما العلم نور يقذفه الله في القلب._  

   - **اردو:**  

   "علم کثرت روایات کا نام نہیں، بلکہ علم وہ نور ہے جو اللہ دل میں ڈالتا ہے۔"


### 3. **عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ:**

   - **عربی:**  

   _نحن إلى قليل من الأدب أحوج منا إلى كثير من العلم._  

   - **اردو:**  

   "ہمیں تھوڑے ادب کی زیادہ ضرورت ہے بہ نسبت زیادہ علم کے۔"


### 4. **حسن بصری رحمہ اللہ:**

   - **عربی:**  

   _العلم علمان: علم اللسان فذلك حجة الله على ابن آدم، وعلم في القلب فذلك العلم النافع._  

   - **اردو:**  

   "علم دو قسم کا ہے: ایک زبان کا علم جو کہ اللہ کی حجت ہے انسان پر، اور دوسرا دل کا علم جو نفع دینے والا علم ہے۔"


### 5. **امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ:**

   - **عربی:**  

   _الناس أحوج إلى العلم منهم إلى الطعام والشراب، لأن الطعام والشراب يحتاج إليه في اليوم مرتين أو ثلاث مرات، والعلم يحتاج إليه كل ساعة._  

   - **اردو:**  

   "لوگ علم کے زیادہ محتاج ہیں بہ نسبت کھانے اور پینے کے، کیونکہ کھانے اور پینے کی ضرورت دن میں دو یا تین مرتبہ ہوتی ہے، جبکہ علم کی ضرورت ہر وقت ہوتی ہے۔"


### 6. **امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ:**

   - **عربی:**  

   _من أراد الدنيا فعليه بالعلم، ومن أراد الآخرة فعليه بالعلم، ومن أرادهما معًا فعليه بالعلم._  

   - **اردو:**  

   "جو دنیا چاہتا ہے اسے علم حاصل کرنا چاہیے، جو آخرت چاہتا ہے اسے بھی علم حاصل کرنا چاہیے، اور جو دونوں چاہتا ہے اسے بھی علم حاصل کرنا چاہیے۔"


یہ اقوال علم کی اہمیت اور اس کے صحیح استعمال کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ علم صرف معلومات کا ذخیرہ نہیں، بلکہ عمل، اخلاق اور ادب کا مجموعہ ہے۔

جمعرات، 1 اگست، 2024

شراب اور منشیات کا استعمال {اسلام کی نظرمیں}

 

خطبہ جمعہ      شراب اور منشیات کے کثرتِ استعمال اسلام کی نظرمیں 

الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، الَّذِي كَرَّمَ أَوْلِيَاءَهُ وَفَطَنَ قُلُوبَ الْمَخْلُوقَاتِ بِمَحَبَّتِهِمْ، أَشْهَدُ أَنَّ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَلَا زَوْجَةَ لَهُ وَلَا وَلَدَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا ﷺ عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ وَأَفْضَلُ النَّاسِ تَقْوًى وَسَخَاءً. اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَيْهِ وَعَلَى آلِهِ وَعَلَى جَمِيعِ الصَّحَابَةِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَجْمَعِينَ وَسَلِّمْ.
يَاأَيها الذين آ مَنُوا اتقُوا اللهَ حَق تُقَا ته ولاتموتن إلا وأنتم مُسلمُون,يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيراً وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَتَسَاءَلُونَ بِهِ وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيباً,

 يَا أ يها الذين آ منوا اتقوا الله وقولوا قَو لاً سَديداً يُصلح لَكُم أَ عما لكم وَ يَغفر لَكُم ذُ نُو بَكُم وَ مَن يُطع الله وَ رَسُولَهُ فَقَد فَازَ فَوزاً عَظيمأَمَّا بَعْدُ:

فَإِنَّ أَصْدَقَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ، وَأَحْسَنَ الْهَدْيِ هَدْيُ مُحَمَّدٍ، وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا، وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ، وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ

 اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰی اِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاهِيْمَ اِنَّكَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ

اَللّٰهُمّ بَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰی اِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاهِيْمَ اِنَّكَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ [q

ربنا آتنا فى الدنيا حسنة و فى الآخرة حسنة و قنا عذاب النار ۔

ربنا افرغ علينا صبراً وثبت اقدامنا وانصرنا على القوم الکافرين۔

ربنا لا تواخذنا ان نسينا او اخطاٴنا۔ربنا ولا تحمل علينا اصراًکما حملتہ على الذين من قبلنا۔
ربنا ولا تحملنا مالا طاقة لنابہ واعف عنا واغفرلنا وارحمنآ انت مولانا فانصرناعلى القوم الکافرين۔
ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذ ہديتنا وھب لنا من لدنک رحمة انک انت الوھاب۔
ربنا اننا آمنا فاغفرلنا ذنوبنا وقنا عذاب النار۔
ربنا اغفر لنا ذنوبنا و اسرافنا فى امرنا وثبت اقدامنا و انصرنا على القوم الکافرين۔
ربنا فاغفر لنا ذنوبنا وکفر عنا سيئاتنا و توفنا مع الابرار
۔
قرب قیامت کی علامتوں میں شراب اور منشیات کے کثرتِ استعمال کا ذکر
 مختلف احادیث میں  ملتا ہے۔ یہ منظر آج ہر جگہ ہمارے سامنے نمایاں ہے۔ مختلف مشروبات، ماکولات، گولیوں، پڑیوں، انجکشنوں اور کیپسولوں کی شکل میں نشہ کازہر نوجوانوں کی صحت اور کردار کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہا ہے۔ ذیل کے مضمون میں انہی محظورات کے استعمال اور معاشرے پر اس کے اثرات کا مختصر جائزہ لیا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات کا خطاب دے کر اسے کائنات میں عزت بخشی۔جیساکہ ارشاد فرمایا:

وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِيْ آدَمَ(1) "ہم نے آدم کی اولاد کو عزت بخشی۔"

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الإِنْسَانَ فِيْ أَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ(2) "یقیناًًہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا۔"

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دے کر واضح کر دیا کہ کائنات میں اس مخلوق سے بڑھ کر کوئی خوبصورت نہیں۔ یہ عزت افزائی اور عزت وشرف صرف اسی وجہ سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں عقل وشعور سے نوازا، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت عطا فرمائی، خیر اور شر کو پہچاننے اور اسے اپنانے، چھوڑنے کا اختیاربخشا ہے۔ اس میں نیکی اور گناہ کا مادہ رکھ کر اسے دنیا کے دار الامتحان میں بھیج دیا۔ اس دنیا میں آنے کے بعد اگر انسان ایسی چیزیں استعمال کرنا شروع کر دے جس سے اس کی عقل متاثر ہو، سوچنے، سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو جائے، اس میں قوت بہیمیہ کا غلبہ ہو جائے تو انسانی پیدائش کا اصل مقصد فوت ہوجاتا ہے۔ پھر اس کی مثال جانور کی طرح ہوجاتی ہے جس میں عقل وتدبر کی صلاحیتیں مفقود ہوتی ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کے اس کے شرف سے مشرف رکھنے کے لیے ایسی تمام چیزوں کے استعمال سے منع فرمایا ہے جو اس کے مقصدتخلیق کے مخالف ہوں۔ اس میں ایک چیز"منشیات"ہے۔ منشیات انسانی معاشرے کے لیے زہر قاتل ہے، اس لیے قرآن کریم میں شراب کے متعلق فرمایا:

إِنَّمَاالْخَمْرُوَالْمَیْسِرُوَالْأَنْصَابَ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ فَاجْتَنِبُوْہٗ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ(3)

"شراب، جوا، مورتیاں، جوے کے تیر، یہ سب ناپاک شیطانی کام ہیں، لہٰذا ان سے بچو، تاکہ تمہیں فلاح حاصل ہو۔"

اسی طرح آنحضرت ﷺ نے فرمایا:

کل مسکرحرام(4) "ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔"

اور ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

وَلاَ یَشْرَبُ الْخَمْرَحِیْنَ یَشْرَبُھَا وَھُوَ مُؤْمِنٌ(5) "شرابی شراب پیتے وقت مؤمن نہیں رہتا۔"

اس سے شراب کے علاوہ ہر وہ چیز جو معاشرے میں انسانی عقل میں فتور لاتی ہو، اس کی حرمت ثابت ہوتی ہے، اس لیے دین اسلام معاشرے میں منشیات کی پیداوار کی اجازت دیتا ہے نہ اس کی خرید وفروخت کی۔منشیات کے نتائج اور اس کی قباحت سے آگاہ کرتے ہوئے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

اِجْتَنِبُوْاالْخَمْرِ؛فَإِنَّھَاأُمُّ الْخَبَائثِ(6) "شراب سے بچو، کیونکہ وہ خباثتوں کی جڑ ہے۔"

پھر آپ نے ایک قصہ بیان فرمایا کہ پہلے زمانے میں ایک نیک انسان تھا۔ اسے ایک خاتون نے اپنے دام فریب میں گرفتار کرنا چاہا اور ایک لونڈی کو اس شخص کے پاس بھیجا اس بہانے سے کہ تجھے وہ گواہی کی غرض سے بلا رہی ہے، تو وہ شخص اس لونڈی کے ساتھ چلا آیا۔ جب وہ شخص اندر جاتا ہے تو وہ لونڈی مکان کے ہر دروازے کو بند کر دیتی ہے، حتی کہ وہ ایک عورت کے پاس پہنچا جو نہایت حسین وجمیل تھی اور اس عورت کے پاس ایک لڑکااور شراب کا ایک برتن تھا۔ اس عورت نے کہا: خدا کی قسم! میں نے تمہیں گواہی کے لیے نہیں بلایا، بلکہ اس لئے بلایا ہے تاکہ تو میری خواہش نفس کی تسکین کر، یا اس شراب میں سے ایک گلاس پی لے، یا اس لڑکے کو قتل کر۔ وہ شخص بولا: مجھے اس شراب کا ایک گلاس پلا دو، چنانچہ وہ عورت ایک گلاس اسے پلا دیتی ہے، جب اسے لطف آنے لگا تو اس نے کہا: اور دو، پھر وہاں سے نہ ہٹا، یہاں تک کہ اس عورت سے صحبت نہ کر لی اور اس لڑکے کا ناحق خون نہ کر لیا، تو تم شراب سے بچو، کیونکہ اللہ کی قسم! شراب اور ایمان ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے، حتی کہ ایک دوسرے کو نکال دیتا ہے۔

معاشرے پر اس کے اثرات

منشیات کے معاشرے پر برے اثرات دو طرح کے ہیں۔ دینی، دنیاوی۔  پہلے اس کے دینی مضرات پر توجہ دلا کر اس کے دنیاوی مضرات بیان کیے جائیں گے۔

دینی مضرات

1: آپﷺنے فرمایا:

مَنْ شَرِبَ الْخَمْرَفَاجْلِدُوْہٗ،فَإِنْ عَادَ فِيْ الْرَابِعَۃِ فَاقْتُلُوْہٗ(7)

"جس نے شراب پی لی، اسے کوڑے لگاؤ اور جو شخص چوتھی بار پی لے اسے قتل کر دو۔"

اخروی نقصانات

ایک حدیث میں آنحضرتﷺکاارشادہے:

مَنْ مَاتَ مُدْمِنَ الْخَمْرِسَقَاہٗ اﷲُ مِنْ نَّھْرِالْغُوْطَۃِ وَھُوَنَھْرٌ یَجْرِيْ مِنْ فُرُوْجِ الْمُوْمِسَاتِ یُؤْذِيْ أَھْلَ النَّارِ رِیْحُ فُرُوْجِھِنَّ(8)

"ہمیشہ شراب پینے والا جب مرے گا اللہ تعالیٰ اسے غوطہ کا پانی پلائے گا۔ پوچھا گیا: غوطہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: بدکار عورتوں کی شرم گاہوں سے لہو بہتا ہے، یہ اس کی نہر ہے۔ ان کی بدبو سے دوزخیوں کو تکلیف دی جائے گی۔"

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: آنحضرتﷺ نے شراب کی وجہ سے دس لعنتیں فرمائی ہیں:

لُعِنَتِ الْخَمْرُ عَلیٰ عَشْرَۃِ أَوْجُہٍ: بِعَیْنِھَا، وَعَاصِرِھَا، وَمُعْتَصِرِھَا، وَبَاءِعِھَا، وَمُبْتَاعِھَا، وَحَامِلِھَا، وَالْمَحْمُوْلَۃِ إِلَیْہٖ، وَآکِلِ ثَمَنِھَا، وَشَارِبِھَا، وَسَاقِیْھَا(9)

"۱۔ بذات خود شراب پر، ۲۔ شراب بنانے والے پر، ۳۔ شراب بنوانے والے پر، ۴۔شراب فروخت کرنے والے پر،

۵۔ شراب خریدنے والے پر، ۶۔ شراب اٹھا کر لے جانے والے پر، ۷۔ جس کی طرف شراب اٹھا کر لے جائی جائےاس پر،

۸۔ شراب کی قیمت کھانے والے پر، ۹۔ شراب پینے والے پر، ۱۰۔ شراب پلانے والے پر۔"

معاشرے میں منشیات کا پھیلاؤ

۔ اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت کے ایک سروے کے مطابق امریکہ اور یورپ کے دوسرے بہت سے ممالک کے ۶۰ فیصد نوجوان بھنگ، چرس، ۱۶ فیصد کوکین اور دوسری زہریلی منشیات کے عادی ہیں۔

منشیات کے استعمال کی وجوہات واسباب

۱۔ معاشرے میں منشیات کے استعمال کی سب سے پہلے وجہ مذہب سے بیگانگی ہے، روایات سے انحراف ہے، اہل  کتاب یہود ونصاریٰ اور مسلمانوں میں بالاتفاق نشہ آور چیز حرام ہے، چنانچہ کتاب مقدس کی"کتاب امثال"میں ہے:"تو شرابیوں میں شامل نہ ہو اور نہ حریص کبابیوں میں، کیونکہ شرابی اور کھاؤ کنگال ہوجائیں گے۔"(11) اسی بائبل میں رومیوں کے نام پولس رسول کے خط میں ہے: "یہی اچھا ہے کہ تو مئے نہ پئے۔"(12)

تورات میں بھی شراب کی حرمت بیان کرنے والی آیت ملتی ہے، جس کا ترجمہ ہے:"اگر کسی آدمی کا ضدی اور گردن کش بیٹا ہو جو اپنے باپ یا ماں کی بات نہ مانتا ہو اور ان کی تنبیہ کرنے پر ان کی نہ سنتا ہو تو اس کے ماں باپ اسے پکڑ کر اور نکال کر اس شہر کے بزرگوں کے پاس اس جگہ کے بھاٹک پر لے جائیں اور وہ اس کے شہر کے بزرگوں سے عرض کریں کہ یہ ہمارا بیٹا ضدی اور گردن کش ہے، یہ ہماری بات نہیں مانتا اور اڑاو اور شرابی ہے۔ تب اس کے شہر کے سب لوگ اسے سنگسار کریں کہ وہ مرجائے، یوں تو اپنی برائی کو اپنے درمیان سے دور کرنا تب سب اسرائیلی سن کر ڈر جائیں گے۔"(13)

تمام مذاہب میں اس طرح ہدایات اور تعلیمات ہونے کے باوجود انہیں دانستہ یا نادانستہ نظر انداز کیا گیا ہے۔

۲۔ دوسری وجہ جہالت ہے۔  تعلیمی ماحول میسر نہ ہونے کی وجہ سے انسان بدی اور بہتری کا فرق روا نہیں رکھ سکتا۔

۳۔ تیسری وجہ بے روزگاری ہے۔ بے روزگاری سے تنگ پست ہمت لوگ اپنی ذمہ داریوں سے جان چھڑانے کے لئے منشیات کا سہارا لیتے ہیں۔

۴۔ چوتھی وجہ ملک کا وہ سرمایہ دار طبقہ ہے جو اپنے سرمائے کی بڑھوتری کے لیے انسانیت کے قاتل بن جاتے ہیں اور منشیات کو معاشرے میں فروغ دے کر اپنے سرمائے کے اضافے میں لگا رہتا ہے۔

معاشرے پر اس کے بُرے اثرات

اَلْمُؤْمِنُ الْقَوِيُّ خَیْرٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِ الْضَعِیْفِ(15) "طاقتور مومن کمزور مومن سے بہتر ہے۔"

اب ترتیب وار ان بُرے اثرات سے آگاہ کیا جائے گا جو معاشرے کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔

۱۔صحت مند جسم سے محرومی

شراب، افیون، مارفین ، ہیروئن اور اس جیسی نشہ آور دیگر اشیاء جسم کے ہر حصے پر اثر انداز ہوتی ہیں، مگر دماغ،آنکھ اور معدے پر اس کے اثرات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ ان لوگوں میں اکثر دائمی قبض، عمل تنفس کا کمزور ہونا، احساسات میں نقص واقع ہونا، جس کی وجہ سے مریض ہونے کی صورت میں ان کو درد کا احساس ختم ہو جاتا ہے، چنانچہ منشیات کے عادی لوگوں کو دل کا دورہ بغیر درد کے پڑتا ہے اور جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔

۲۔ صحت مند اولاد سے محرومی

منشیات کی عادی عورتیں جب حاملہ ہوتی ہیں تو نشہ کی وجہ سے ان کے بچوں پر گہرا اثر پڑتا ہے ۔ عموما ان کے بچے پیدائشی نقص میں مبتلا ہوتے ہیں۔ بہت سے بچے ماں کے پیٹ میں ہی مر جاتے ہیں۔ ایک امریکی ماہر کا کہنا ہے کہ اس وقت امریکہ میں 616000 افراد ایڈز کے مریض ہیں۔ ان میں پچیس فیصد نشہ کرنے والے افراد ہوتے ہیں۔ ماہرین کے قول کے مطابق منشیات کے عادی افراد میں ایڈز کا مرض بڑھ رہا ہے۔ (16)

۳۔ مختلف امراض کی بڑھتی ہوئی شرح

منشیات کا سب سے برا اثر دل کی دھڑکن اور ہائی بلڈ پریشر کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ السر، معدے کا زخم اور اس کی وجہ سے دوسری بیماریاں پیدا ہوتی ہیں، جو بالاخر لا علاج شکل اختیار کرلیتی ہے۔(17)

۴۔ معاشرے میں تحمل اور رواداری کا فقدان

منشیات کا ایک برا اثر تحمل اور رواداری کا فقدان ہے۔ ذراذرا سی بات پر قتل وغارت گری تک معاملہ پہنچ جاتا ہے۔جب ہوش آتا ہے، پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے اور دشمنی اور انتقام کی آگ بھڑکتی رہتی ہے۔اس وبا نے کتنے ہی ہنستے بستے گھرانے اجاڑ کر رکھ دیئے ہیں،جس کی بے شمارمثالیں معاشرے میں ملتی ہیں۔

۵۔اخلاقیات کا فقدان

منشیات کے استعمال کا ایک برا اثر معاشرے پر یہ ہوتا ہے کہ اخلاقی قدروں سے معاشرہ محروم ہوجاتا ہے۔ عفت، عزت، ناموس اور وفا اور حیا کا احساس مٹتا چلا جاتا ہے۔

۶۔ طلاق کا بکثرت رجحان

منشیات کے استعمال سے گھر بے آباد اور ویران ہوجاتے ہیں۔ چونکہ منشیات کا عادی ذمہ داری سے عاری ہوتا ہے، جس کا نتیجہ گھر میں طلاق کی صورت میں نکلتا ہے، جس سے دو خاندان براہ راست متاثر ہوتے ہیں اور ان کی اولاد کا مستقبل بھیانک اور تاریک بن جاتا ہے، اس لیے آپ علیہ السلام نے فرمایا:

مَا أَسْکَرَ کَثِیْرُہٗ فَقَلِیْلُہٗ حَرَامٌ(18) "نشہ آور چیز کی زیادہ اور کم ہر مقدار حرام ہے۔"

۷۔ جرائم کی کثرت

منشیات کا کاروبار کرنے والے مختلف گینگ بنا کر علاقے تقسیم کر لیتے ہیں، اس لیے دنیا کے جس ملک میں منشیات کا کاروبار ہے، وہاں یہ گینگ اورگروہ بندی کی اجتماعی قوت کے ساتھ رہتے ہیں۔ ان کے لئے آڑ بننے والا شخص قتل ہوجاتا ہے، یا خاموش ہو جاتا ہے۔ یہ گینگ ایک دوسرے کے خلاف مختلف علاقوں اور محلوں پر قبضے کے لیے برسرپیکار رہتے ہیں۔ یوں معاشرے کا امن تباہ ہوتا ہے اور جرائم کی کثرت ہوتی چلی جاتی ہے۔

۸۔ دہشت گردوں کا مالیاتی انحصار

دہشت گردوں کا مالیاتی انحصاربھی منشیات پر ہوتا ہے۔ اس کے ذریعے وہ بڑی رقم حاصل کر کے اپنے منصوبوں کو آگے بڑھاتے ہیں۔ منشیات پر کنٹرول کیے بغیر دہشت گردوں کے مالی نظام کو کمزور نہیں کیا جا سکتا۔

=۹۔ نوجوانوں کی صلاحیتوں کا قاتل==

منشیات کے اثرات سے نوجوانوں کی صلاحیتیں ختم ہو رہی ہیں۔ انہیں نوجوانی کے ابتدائی مراحل میں نشے کا عادی بنا کر قوم کی طاقت کو اور مستقبل کو تباہ کر دیا جاتا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے سے منع فرمایا ہے:

وَلاَ تُلْقُوْا بِأَیْدِیْکُمْ إِلیٰ التَّھْلُکَۃِ(19) "اپنے ہاتھوں کو ہلاکت میں مت ڈالو۔"

==۱۰۔ ذمہ داریوں سے فرار==

معاشرے میں منشیات کے اثرات سے معاشرہ کا ہر طبقہ پریشان ہے۔ حکومت اپنے سرکاری ملازمین سے پریشان ہے جو نشہ کر کے ذمہ داریاں پوری نہیں کرتے۔ خاندان نوجوانوں سے پریشان ہیں جو گھروں میں بیوی بچوں کی ذمہ داریاں اٹھانے کے قابل اور اہل نہیں۔یوں معاشرے کی ہر اینٹ اپنی جگہ سے اکھڑ رہی ہے۔

==۱۱۔ مالی نقصانات==

منشیات کے مضر اثرات کا ایک پہلو مالی نقصان بھی ہے، ا س کی وجہ سے امت کی معاشی اور اقتصادی حالت خراب ہوتی چلی جاتی ہے۔ سیال اور جامد منشیات کی قیمت عام طور پر بہت زیادہ ہوتی ہے۔ بعض نشہ آور چیزیں مثلا ہیروئن ایک کروڑ روپے فی کلو کے حساب سے فروخت ہوتی ہے۔ منشیات کے سوداگر اپنے کاروبار کو عروج دینے کے لیے نوجوانوں کو اس لت میں مبتلا کرنے کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی سے کام کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں نشہ پیدا کرنے والی ٹیبلیٹ، کیپسول، سفوف، سیرپ، پڑیا، انجکشن تیزی سے عام ہو رہے ہیں اور انہیں کم قیمت میں دستیاب کر ایا جا رہا ہے، تاکہ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے افراد جو ایسے کاروباریوں کا اصل ٹارگٹ ہیں، بآسانی ان اشیاء کو حاصل کر سکیں۔ یہ منشیات اگرچہ کم قیمت ہوتی ہیں، مگر اسی کے ذریعے عوام کو پھانس کر ان کا کل اثاثہ ہتھیا لیا جاتا ہے۔

شروع میں انسان اپنے اختیار سے اس لت میں پڑتا ہے، مگر ایسا چسکا لگتا ہے گویا وہ اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ اپنے نشہ کے حصول کے لیے گھر کا سامان، جائیداد تک بیچ ڈالتا ہے۔ آخر میں کاسہ گدائی لے کر در در بھیک مانگتا ہے، چوریاں کرتا ہے، اپنے اعضاء دل، گردہ اور خون تک بیچنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ اس وقت دنیا کا مہنگا ترین کاروبار منشیات کا ہے۔ اس کے ذریعے امت کے جوانوں کو کھوکھلا اور ان کی جائیداد لوٹی جارہی ہے، گویا ایک تیر سے دو شکار کیے جا رہے ہیں۔(20)

منگل، 11 جون، 2024

بھینس کی قربانی کو جائز سمجھنے والوں کے دلائل اور انکا رد*


🌴*بھینس کی قربانی کو جائز سمجھنے والوں کے دلائل اور انکا رد*
۔••••••••••••••••••••••••••••

👈 پہلی دلیل:
 یہ بات ٹھیک ہے کہ علماء عرب سمیت اہل لغت کے بہت سارے علماء بھینس کی قربانی کو  جائز بھی کہتے ہیں،
 اور انکی دلیل صرف یہ ہے کہ بھینس گائے کی ہی ایک قسم ہے تو اسکی قربانی بھی جائز ہے،
 (مجموع فتاوی ورسائل فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین : 34/25)

🌹 جواب_
۔•••••••••••
 محترم علماء کا فتویٰ اپنی جگہ،
 پر حقیقت یہ ہے کہ  گائے اور بھینس میں زمین آسمان کا فرق ہے،دونوں کی جسامت، شکل و صورت، جلد، دونوں کی خوراک، پانی میں نہانے یا نا نہانے ، عادات و حرکات ، افزائش نسل ،گوشت،کھال اور دودھ تک ہر چیز میں فرق ہے، حالیہ ماہرین نے بھی بھینس کی الگ دو قسمیں ذکر کی ہیں،

 دیکھیں ویکیپیڈیا پر..!!
 https://ur.m.wikipedia.org/wiki/بھینس

 جبکہ گائے ایک الگ جانور ہے بذات خود اس کی الگ سے بہت ساری نسلیں ہیں،
 تفصیل کے لیے لنک ملاحظہ فرمائیں!!
 https://ur.m.wikipedia.org/wiki/گائے

 *اس کے باوجود بھی بھینس کو گائے کی نسل بنانا سمجھ سے باہر ہے*
۔۔••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
👈دوسری دلیل:
 بھینس کی قربانی کی دوسری دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ بھینس کی زکوٰۃ گائے پر قیاس کر کے دیتے ہیں:

  بھینس کی زکوٰۃ کے نصاب کے بارے
 امام ابن المنذر فرماتے ہیں:
 ’’ واجمعوا علی ان حکم الجوامیس حکم البقر‘‘ اور اس بات پر  اجماع ہےکہ بھینسوں کا وہی حکم ہے جو گائیوں کا ہے۔
 (الاجماع کتاب الزکاۃ ص۴۳حوالہ:۹۱)

 اس بنا پر کچھ علماء یہ بھی کہتے ہیں کہ جب بھینس کی زکوٰۃ ہم گائے پر قیاس کر کے اسکے  اعتبار سے دیتے ہیں تو  بھینس کی قربانی گائے پر قیاس کر کے کیوں نہیں کر سکتے؟؟

🌹 دلیل کا جواب..!!
۔••••••••••••••••••
 سب سے پہلی بات کہ امام ابن المنذر رحمہ اللہ نے زکوٰۃ کے باب میں یہ بات فرمائی ہے کہ زکوٰۃ کے بارے جو حکم گایوں کا ہے وہی بھینسوں کا، جبکہ قربانی کے باب میں ایسی کوئی بات نہیں ملتی،

 
🌹 👈 قیاس کا سیدھا سادہ اصول یہ ہے جب اصل چیز موجود نہ ہو پھر قیاس سے کام چلایا جاتا ہے،
مطلب
 جیسے اللہ پاک نے جانوروں کی زکوٰۃ فرض کی ہے، 
اور اس فرض کو پورا کرنے کے لیے اب ہم نے بھینس کی زکوٰۃ نکالنی ہے ، 
لیکن جب ہمیں حدیث میں بھینس کی زکوٰۃ نکالنے کا نصاب نہیں ملتا تو ہم مجبور ہیں کہ بھینس کو گائے پہ قیاس کر کے اسکے مطابق زکوٰۃ نکالیں،
 اور کوئی راستہ نہیں ہمارے پاس،  تا کہ زکوٰۃ نہ ادا کرنے کی وجہ سے ہم گناہ میں ملوث نہ ہو جائیں،

👈 ٹھیک اسی طرح جو قربانی کے لئے بھیڑ،بکری،گائے،اونٹ اصل جانور ہیں،
 اگر یہ جانور نہ ملیں تو پھر ہم مجبور ہیں کہ اللہ کا حکم بجا لانے کے لیے ہم بھینس کو گائے پر قیاس کر کے اسکی قربانی کریں،
 اور یقیناً اس وقت یہ جائز بھی ہو گا،لیکن جب قربانی کے لئے اصل جانور بھیڑ،بکری ،گائے،اونٹ عام دستیاب ہیں 
تو پھر ہم آسانی یا چند پیسے بچانے کی خاطر قیاس کیوں کریں؟؟
 اگر فرض کریں بھینس کی زکوٰۃ کا نصاب شریعت میں موجود ہوتا تو کیا اس بھینس کو گائے پر قیاس کیا جاتا؟
 یقیناً نہیں کیا جاتا، تو یہ بات سمجھ آئی قیاس اس وقت ہوتا ہے جب اصل موجود نا ہو،جب اصل موجود ہو تو قیاس کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی،
۔••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
👈دوسری دلیل:
 بھینس کی قربانی کی دوسری دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ بھینس کی زکوٰۃ گائے پر قیاس کر کے دیتے ہیں:

  بھینس کی زکوٰۃ کے نصاب کے بارے
 امام ابن المنذر فرماتے ہیں:
 ’’ واجمعوا علی ان حکم الجوامیس حکم البقر‘‘ اور اس بات پر  اجماع ہےکہ بھینسوں کا وہی حکم ہے جو گائیوں کا ہے۔
 (الاجماع کتاب الزکاۃ ص۴۳حوالہ:۹۱)

 اس بنا پر کچھ علماء یہ بھی کہتے ہیں کہ جب بھینس کی زکوٰۃ ہم گائے پر قیاس کر کے اسکے  اعتبار سے دیتے ہیں تو  بھینس کی قربانی گائے پر قیاس کر کے کیوں نہیں کر سکتے؟؟

🌹 دلیل کا جواب..!!
۔•••••••••••••••••••
 سب سے پہلی بات کہ امام ابن المنذر رحمہ اللہ نے زکوٰۃ کے باب میں یہ بات فرمائی ہے کہ زکوٰۃ کے بارے جو حکم گایوں کا ہے وہی بھینسوں کا، جبکہ قربانی کے باب میں ایسی کوئی بات نہیں ملتی،

 اور دوسری بات میں دین کا ادنیٰ طالب علم ہونے کے ناطے ایک چھوٹی سی گزارش کرتا ہوں، کہ
 کہ قیاس کا سیدھا سادہ اصول یہ ہے جب اصل چیز موجود نہ ہو پھر قیاس سے کام چلایا جاتا ہے،مطلب جیسے اللہ پاک نے جانوروں کی زکوٰۃ فرض کی ہے، اور اس فرض کو پورا کرنے کے لیے اب ہم نے بھینس کی زکوٰۃ نکالنی ہے ، لیکن جب ہمیں حدیث میں بھینس کی زکوٰۃ نکالنے کا نصاب نہیں ملتا تو ہم مجبور ہیں کہ بھینس کو گائے پہ قیاس کر کے اسکے مطابق زکوٰۃ نکالیں، اور کوئی رستہ نہیں ہمارے پاس،  تا کہ زکوٰۃ نہ ادا کرنے کی وجہ سے ہم گناہ میں ملوث نہ ہو جائیں،

 ٹھیک اسی طرح جو قربانی کے لئے بھیڑ،بکری،گائے،اونٹ اصل جانور ہیں،
 اگر یہ جانور نہ ملیں تو پھر ہم مجبور ہیں کہ اللہ کا حکم بجا لانے کے لیے ہم بھینس کو گائے پر قیاس کر کے اسکی قربانی کریں، اور یقیناً اس وقت یہ جائز بھی ہو گا،لیکن جب قربانی کے لئے اصل جانور بھیڑ،بکری ،گائے،اونٹ عام دستیاب ہیں تو پھر ہم آسانی یا چند پیسے بچانے کی خاطر قیاس کیوں کریں؟؟
 اگر فرض کریں بھینس کی زکوٰۃ کا نصاب شریعت میں موجود ہوتا تو کیا اس بھینس کو گائے پر قیاس کیا جاتا؟
 یقیناً نہیں کیا جاتا، تو یہ بات سمجھ آئی قیاس اس وقت ہوتا ہے جب اصل موجود نا ہو،جب اصل موجود ہو تو قیاس کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی،
۔۔•••••••••••••••••••
🌹حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں ،
 کہ نبی کریم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے بغیر اونٹ ، گائے اور بکری کے کسی قسم کے حیوان کی قربانی کرنا منقول نہیں ہے
 (تلخیص الحبیر :ج۲ص۲۸۴)
۔۔•••••••••••••••••••••
🌹حافظ عبداللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :۔۔۔۔یاد رہے کہ بعض مسائل احتیاط کے لحاظ سے دو جہتوں والے ہوتے ہیں اور عمل احتیاط پر کرنا پڑتا ہے ام المومنین حضرت سودہ کے والد زمعہ کی لونڈی سے زمانہ جاہلیت میں عتبہ بن ابی وقاص نے زنا کیا لڑکا پید ا ہوا جو اپنی والدہ کے پاس پروش پاتا رہا زانی مر گیا اور اپنے سعد بن وقاص کو وصیت کر گیا کہ زمعہ کی لونڈی کا لڑکا میرا ہے اس کو اپنے قبضہ کرلینا فتح مکہ کے موقع پر سعد بن ابی وقاص نے اس لڑکے کو پکڑ لیا اور کہا یہ میرا بھتیجہ ہے زمعہ کے بیٹے نے کہا کہ یہ میرے باپ کا بیٹا ہے لہذا میرا بھائی ہے اس کو میں لوں گا مقدمہ دربار نبوی میں پیش ہوا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا الولد للفراش وللعاہر الحجر ۔اولاد بیوی والے کی ہے اور زانی کے لئے پتھر ہیں یعنی وہ ناکام ہے اور اس کا حکم سنگسار کیا جانا ہے بچہ سودہ رضی اللہ عنھا کے بھائی حوالے کر دیا جو حضرت سودہ کا بھی بھائی بن گیا لیکن حضرت سودہ کو حکم فرمایا کہ وہ اس سے پردہ کرے کیونکہ اس کی شکل وصورت زانی سے ملتی تھی جس سے شبہ ہوتا تھا کہ یہ زانی کے نطفہ سے ہے۔
 دیکھئے اس مسئلہ میں شکل و صورت کے لحاظ سے تو پردے کا حکم ہوا اور جس کے گھر میں پیدا ہوا اس کے لحاظ سے اس کا بیٹا بنا دیا ،
 گویا احتیاط کی جانب کو ملحوظ رکھا ایسا ہی معاملہ بھینس کا ہے اس میں دونوں جہتوں میں احتیاط پر عمل ہوگا ،زکوۃ ادا کرنے میں احتیاط ہے اور قربانی نہ کرنے میں احتیاط ہے اس لئے بھینس کی قربانی جائز نہیں ۔
 اور بعض نے جو یہ لکھا ہے کہ الجاموس نوع من البقر  یعنی بھینس گائے کی قسم ہے تو انکا یہ کہنا بھی زکوۃ کے لحاظ سے ہے،  ورنہ ظاہر ہے کہ بھینس دوسری جنس ہے
 (فتاوی اہل حدیث_ ج۲ ص۴۲۶)
۔۔۔•••••••••••••••••••
🌹اس فتوے پر تبصرہ کرتے محقق العصر عبدالقادر حصاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
 کہ آپ (محدث روپڑی صاحب)کے مجتہد اور جامع المغموص ہونے کا بندہ پہلے ہی معترف ہے مگر گزشتہ پرچہ (تنظیم اہل حدیث جلد ۱۶شمارہ ۴۲ ،۱۷ اپریل ۱۹۶۴ )میں بھینسا کی قربانی کے فتوی میں آپ نے حدیث زمعہ سے اجتہاد فرما کر زکوۃ اور قربانی میں احتیاطی صورت کو جس طرح مدلل کیا ہے وہ آ پ کے مجتہد مطلق ہونے پر بین دلیل ہے ،اور ہمیں فخر ہے کہ ہماری جماعت میں بفضلہ تعالی مجتھد موجود ہیں ۔۔۔آپ نے جو جواب دیا ہے اس سے حنفیہ کا اعتراض اور استدلال رفع ہو گیا ہے
 (فتاوی حصاریہ ج ۵ ص ۴۴۲)
۔•••••••••••••••••
🌹مفتی مبشر ربانی حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
 ائمہ اسلام کے ہاں جاموس یعنی بھینس کا جنس بقر سے ہونا مختلف فیہ ہے مبنی بر احتیاط اور راجح موقف یہی ہے کہ بھینس کی قربانی نہ کی جائے بلکہ مسنون قربانی اونٹ ،گائے ،بھیڑ بکری سے کی جائے جب یہ جانور موجود ہیں تو ان کے ہوتے ہوئے مشتبہ امور سے اجتناب ہی کرنا چاہئے اور دیگر بحث و مباحثے سے بچنا ہی اولی وبہتر ہے۔
 (احکام ومسائل ص۵۱۱)
۔۔۔•••••••••••••••••••••

🌹شیخ الاسلام حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ لکھتے ہیں کہ،
 زکوۃ کے سلسلے میں،اس مسئلہ پر اجماع ہے کہ بھینس گائے کی جنس میں سے ہے۔ اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ بھینس گائے کی ہی ایک قسم ہے۔ تا ہم چونکہ نبی کریمﷺ یا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین سے صراحتا بھینس کی قربانی کا کوئی ثبوت نہیں لہذٰا بہتر یہی ہے کہ بھینس کی قربانی نہ کی جائے بلکہ صرف گائے،اونٹ،بھیڑ اور بکری کی ہی قربانی کی جائے اور اسی میں احتیاط ہے۔واللہ اعلم
 ( فتاوی علمیہ،جلد/دوم_ص181)
۔۔•••••••••••••••••
🌹سید سابق رحمہ اللہ فرماتے ہیں،
 قربانی اونٹ ،بکری،بھیڑ اور گائے کے علاوہ جائز نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ یاد کریں اس پر اللہ کا نام جو اللہ نے انہیں مویشیوں اور چوپایوں میں سے دی ہے،
 (فقہ السنہ ج3/ص264)
۔۔••••••••••••••••••••
🌹شیخ رفیق طاھر صاحب حفظہ اللہ،
 فرماتے ہیں،
 ان آٹھ جانوروں (۱،۲بکری نرومادہ، ۳ ،۴بھیڑ نرومادہ، ۵ ،۶اونٹ نرو مادہ، ۷ ،۸گائے نرومادہ) کے علاوہ دیگر حلال جانور (پالتو ہوں یا غیر پالتو) کی قربانی کتاب وسنت سے ثابت نہیں ۔ لہٰذا بھینس یا بھینسے کی قربانی درست نہیں ۔ قربانی ان جانوروں کی دی جائے جن کی قربانی رسول اللہﷺ کے قول وعمل و تقریر سے ثابت ہو،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔