اَلحَمدُ لِلّٰہِ
نَحمَدُہ، وَنَستَعِینُہ، وَنَستَغفِرُہ، وَنَعُوذُبِاﷲِ مِن شُرُورِ
اَنفُسِنَاوَمِن سَیِّئَآتِ اَعمَالِنَا مَن یَھدِہِ اﷲُ فَلَا مُضِلَّ لَہ، وَمَن
یُضلِل فَلَا ھَادِیَ لَہ، وَاَشھَدُ اَن لَّا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وَحدَہ، لَا شَرِیکَ
لَہ، وَاَشھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبدُہ، وَرَسُولُہٗ ۔ أما بعد
: اِنَّ اَصدَقَ الحَدِیثِ
کِتَابُ اﷲِ وَاِنَّّ اَفضَلَ الھَدیِ ھَدیُ مُحَمَّدٍ وَّ شَرُّ الْامُورِ
مُحدَثَاتُھَا وَ کُلُّ مُحدَثَۃٍ بِدعَۃٌ وَ کُلُّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّارِ۔ ‘ فقد
قال اللہ تعالی فی کتابہ الکریم:
مختلف اعمال میں اخلاص کی اہمیت
مختلف اعمال میں اخلاص کی اہمیت
’ اخلاص ‘ ویسے تو ہر عبادت میں
شرط ہے۔تاہم کچھ عبادات کا ہم بطور خاص تذکرہ کرنا چاہتے ہیں جن میں اخلاص کی اہمیت
کو واضح کیا گیا ہے۔
1۔طلب علم میں اخلاص
ابو ہریرہ رضی اللہ
عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
( مَنْ تَعَلَّمَ عِلْمًا مِمَّا یُبْتَغٰی بِہٖ وَجْہُ
اللّٰہِ،لَا یَتَعَلَّمُہُ إِلَّا لِیُصِیْبَ بِہٖ عَرَضًا مِنَ الدُّنْیَا، لَمْ یَجِدْ
عَرْفَ الْجَنَّۃِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ) [سنن أبو داؤد:3664۔وصححہ الألبانی]
’’ جو شخص علم سیکھے، ایسا علم
جس کے ساتھ اللہ کی رضا کو طلب کیا جاتا ہے، وہ اسے صرف اس لئے سیکھے کہ اس کے ذریعے
دنیا کے مفاد کو حاصل کرلے تو وہ قیامت کے روز جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گا۔‘‘
2۔توحید الوہیت کے اقرار میں
اخلاص
حضرت معاذ رضی اللہ
عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
( مَنْ شَہِدَ أَن لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، مُخْلِصًا مِنْ قَلْبِہٖ،
دَخَلَ الْجَنَّۃَ )
’’ جس شخص نے دل کی گہرائی سے
اخلاص کے ساتھ اس بات کی گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں تو وہ جنت
میں داخل ہو گیا۔‘‘[ مسند أحمد : 22195۔وصححہ الألبانی فی الصحیحۃ:]
اورحضرت عتبان رضی
اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(إِنَّ اللّٰہَ حَرَّم عَلَی النَّارِ مَنْ قَالَ :لاَ إِلٰہَ
إِلَّا اللّٰہُ یَبْتَغِیْ بِذٰلِکَ وَجْہَ اللّٰہِ)
’’ بے شک اللہ تعالیٰ اس شخص کو
جہنم پر حرام کردیتا ہے جو محض اللہ کی رضا کی خاطر لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہ کہتا
ہے۔‘‘ یعنی اقرار کرتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔[ صحیح البخاری
:425،صحیح مسلم 33
یاد رہے کہ قیامت کے
روز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت بھی اسی خوش نصیب کو حاصل ہوگی جس نے اخلاص
کے ساتھ توحید الوہیت کا اقرار کیا ہوگا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی
اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : قیامت کے
دن لوگوں میں سے سب سے بڑا خوش نصیب کون ہو گا جس کے حق میں آپ شفاعت کریں گے ؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا :
( لَقَدْ ظَنَنْتُ یَاأَبَا ہُرَیْرَۃَ ! أَنْ لَّا یَسْأَلَنِیْ
عَنْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَحَدٌ أَوْلٰی مِنْکَ لِمَا رَأَیْتُ مِنْ حِرْصِکَ
عَلَی الْحَدِیْثِ، أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ : مَنْ
قَالَ : لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ خَالِصًا مِّنْ قِبَلِ نَفْسِہٖ )
’’ اے ابو ہریرہ ! مجھے یقین
تھا کہ اس بارے میں تم ہی سوال کرو گے کیونکہ تمھیں احادیث سننے کا زیادہ شوق
رہتاہے۔( تو سنو ) قیامت کے دن میری شفاعت کی سعادت اس شخص کو نصیب ہو گی جس نے
اپنے دل کی گہرائیوں سے اخلاص کے ساتھ لا إلہ إلا اللّٰه کہا۔‘‘[ صحیح البخاری :
99و6570]
[1] مسند أحمد : 22195۔وصححہ
الألبانی فی الصحیحۃ:2355 [2] صحیح البخاری :425،صحیح مسلم 33 [3] صحیح البخاری :
99و6570
نماز میں اخلاص
نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ( مَنْ صَلّٰی لِلّٰہِ أَرْبَعِیْنَ یَوْمًا فِیْ
جَمَاعَۃٍ یُدْرِکُ التَّکْبِیْرَۃَ الْأُوْلٰی کُتِبَتْ لَہُ بَرَائَ تَانِ :
بَرَائَ ۃٌ مِنَ النَّارِ وَبَرَائَ ۃٌ مِنَ النِّفَاقِ) [1]
’’ جو شخص اللہ کی رضا کیلئے
چالیس دن اِس طرح باجماعت نماز پڑھے کہ تکبیر اولی بھی فوت نہ ہو تو (اللہ تعالیٰ
کی طرف سے ) اس کیلئے دو چیزوں سے براء ت لکھ دی جاتی ہے : جہنم کی آگ سے اور
نفاق سے۔‘‘
4۔سجدوں میں اخلاص
حضرت ثوبان رضی اللہ
عنہ کا بیان ہے کہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
( عَلَیْکَ بِکَثْرَۃِ السُّجُوْدِ، فَإِنَّکَ لاَ تَسْجُدُ
لِلّٰہِ سَجْدَۃً إِلَّا رَفَعَکَ اللّٰہُ بِہَا دَرَجَۃً، وَحَطَّ عَنْکَ بِہَا
خَطِیْئَۃً ) [2]
’’ تم زیادہ سے زیادہ سجدے کیا
کرو، کیونکہ تم اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے ایک سجدہ کرو گے تو وہ اس کے بدلے تمہارا
ایک درجہ بلند کردے گا اورتمہارا ایک گناہ مٹا دے گا۔‘‘
5۔مسجد بنانے میں اخلاص
حضرت عثمان رضی اللہ
عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
( مَنْ بَنٰی مَسْجِدًا یَبْتَغِیْ بِہٖ وَجْہَ اللّٰہِ، بَنَی
اللّٰہُ لَہُ مِثْلَہُ فِی الْجَنَّۃِ ) [3]
’’ جو شخص صرف اللہ کی رضا کو
طلب کرتے ہوئے مسجد بنائے، اللہ تعالیٰ جنت میں اس کیلئے اس جیسا گھر بنا دیتا
ہے۔‘‘
اسی طرح نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
( مَنْ بَنٰی مَسْجِدًا لِلّٰہِ
کَمَفْحَصِ قَطَاۃٍ أَوْ أَصْغَرَ، بَنَی اللّٰہُ لَہُ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ )
’’ جو شخص اللہ کیلئے مسجد
بنائے،پرندے کے گھونسلے کی مانند یا اس سے بھی چھوٹی، تو اللہ اس کیلئے جنت میں ایک
گھر بنادیتا ہے۔‘‘[4]
6۔انفاق فی سبیل اللہ میں اخلاص
ارشاد باری تعالیٰ ہے
: ﴿وَمَثَلُ الَّذِیْنَ یُنفِقُونَ أَمْوَالَہُمُ ابْتِغَائَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ
وَتَثْبِیْتًا مِّنْ أَنفُسِہِمْ
[1] سنن الترمذی :241 وحسنہ
الألبانی [2] صحیح مسلم : 488 [3] صحیح البخاری :439، صحیح مسلم : 533 [4] سننابن
ماجہ : 738 وصححہ الألبانی
کَمَثَلِ جَنَّۃٍ بِرَبْوَۃٍ أَصَابَہَا
وَابِلٌ فَآتَتْ أُکُلَہَا ضِعْفَیْْنِ فَإِن لَّمْ یُصِبْہَا وَابِلٌ فَطَلٌّ
وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیْرٌ﴾[1]
’’ اور جولوگ اللہ کی خوشنودی
حاصل کرنے اور اپنے آپ کو دین حق پر ثابت رکھنے کیلئے اپنا مال خرچ کرتے ہیں ان کی
مثال ایک باغ کی سی ہے جو اونچی جگہ پرواقع ہو۔(جب) اُس پر مینہ پڑے تو دُگنا پھل
لائے اور اگر مینہ نہ بھی پڑے تو خیر پھوار ہی سہی۔اور اللہ تمھارے کاموں کو خوب دیکھ
رہا ہے۔‘‘
7۔برادرانہ محبت میں اخلاص
ابو امامہ رضی اللہ
عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
( مَنْ أَحَبَّ لِلّٰہِ وَأَبْغَضَ لِلّٰہِ وَأَعْطٰی لِلّٰہِ
وَمَنَعَ لِلّٰہِ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الْإِیْمَانَ )
’’ جو شخص اللہ کی رضا کیلئے
محبت کرے، اللہ کی رضا کیلئے بغض رکھے، اللہ کی رضا کیلئے دے اور اللہ کی رضا کیلئے
روکے تو اس نے ایمان مکمل کرلیا۔‘‘ [2]
اسی طرح نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ( إِنَّ اللّٰہَ یَقُولُ
یَوْمَ الْقِیَامَۃِ : أَیْنَ الْمُتَحَابُّونَ بِجَلَالِی الْیَوْمَ ؟
أُظِلُّہُمْ فِیْ ظِلِّیْ یَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلِّیْ ) [3]
’’ بے شک اللہ تعالیٰ قیامت کے
دن ارشاد فرمائے گا : آج میری خاطر محبت کرنے والے کہاں ہیں ! میں انھیں اپنے
سائے میں جگہ دیتا ہوں جبکہ آج میرے سائے کے علاوہ اورکوئی سایہ نہیں۔‘‘
اور حضرت معاذ بن جبل
رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
( قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ : اَلْمُتَحَابُّوْنَ فِیْ جَلَالِیْ
لَہُمْ مَنَابِرُ مِن نُّوْرٍ،یَغْبِطُہُمُ النَّبِیُّوْنَ وَالشُّہَدَائُ) [4]
’’ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
میری خاطر محبت کرنے والوں کیلئے ایسے روشن ممبر ہونگے جن پر انبیاء اور شہداء بھی
رشک کریں گے۔‘‘
اورابو ادریس الخولانی
بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں آپ سے
اللہ کی رضا کیلئے محبت کرتا ہوں۔انھوں نے کہا : واقعتا اللہ کی رضا کیلئے ؟ میں
نے کہا : جی ہاں محض اللہ کی رضا کیلئے۔تو انھوں نے کہا :آپ کو خوشخبری ہو کیونکہ
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ آپ نے فرمایا :
[1] البقرۃ2 :265 [2] سنن أبو
داؤد :4681۔وصححہ الألبانی [3] صحیح مسلم : 2566 [4] سنن الترمذی:2390وصححہ
الألبانی
( قَالَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی: وَجَبَتْ مَحَبَّتِیْ
لِلْمُتَحَابِّیْنَ فِیَّ،وَالْمُتَجَالِسِیْنَ فِیَّ، وَالْمُتَزَاوِرِیْنَ فِیَّ،وَالْمُتَبَاذِلِیْنَ
فِیَّ ) [1]
’’ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا
ہے : میری محبت ان لوگوں کیلئے واجب ہو جاتی ہے جو میری رضا کیلئے ایک دوسرے سے
محبت کرتے، ایک دوسرے سے مل بیٹھتے، ایک دوسرے کی زیارت کرتے اور ایک دوسرے پر خرچ
کرتے ہیں۔‘‘
8۔میت کیلئے دعا میں اخلاص
ابو ہریرہ رضی اللہ
عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ نے ارشاد
فرمایا :
( إِذَا صَلَّیْتُمْ عَلَی الْمَیِّتِ فَأَخْلِصُوْا لَہُ الدُّعَائَ )
[2]
’’ جب تم میت کی نماز جنازہ
پڑھو تو اس کیلئے نہایت اخلاص کے ساتھ دعا کیا کرو۔‘‘
9۔اللہ کی رضا کیلئے غصہ پی
جانا
ابن عمر رضی اللہ عنہ
بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
( مَا مِنْ جُرْعَۃٍ أَعْظَمُ أَجْرًا عِنْدَ اللّٰہِ مِنْ
جُرْعَۃِ غَیْظٍ، کَظَمَہَا عَبْدٌ ابِتْغَائَ وَجْہِ اللّٰہِ )
’’ اللہ کے نزدیک سب سے بڑے اجر
والا گھونٹ، غصے کا گھونٹ ہے جسے بندہ صرف اللہ کی رضا کی خاطر پی لے۔‘‘[3]
10۔قربانی میں اخلاص
حضرت جابر بن عبد
اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن دو مینڈھے
‘ جو سینگ دار تھے، سیاہ وسفید رنگ کے تھے اور خصی تھے ‘ ذبح کرنے کا ارادہ کیا،
پھر جب انھیں لٹایا تو یہ دعا پڑھی :
( اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ
الْاَرْضَ عَلٰی مِلَّۃِ إِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفًا وَّ مَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْن،
إِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ،
لَا شَرِیْکَ لَہُ وَبِذَلِکَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ،
اَللّٰہُمَّ مِنْکَ وَلَکَ، وَعَنْ مُحَمَّدٍ وَّأُمَّتِہٖ )
’’ میں نے اپنا رخ اس ذات کی
طرف کر لیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے۔ملت ابراہیمی پر چلتے ہوئے
میں نے اللہ کے سوا سب سے منہ موڑ لیا ہے۔اور میں مشرکوں میں سے نہیں۔بے شک میری
نماز،
[1] صحیح الترغیب والترہیب
للألبانی: 3018 [2] سنن ابو داؤد : 3199۔وحسنہ الألبانی [3] سنن ابن ماجہ :
4189۔وصححہ الألبانی
میری قربانی، میری
زندگی اور میری موت صرف اللہ تعالیٰ کیلئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے اور اس کا
کوئی شریک نہیں۔مجھے یہی حکم دیا گیا ہے اور میں مسلمانوں میں سے ہوں۔اے اللہ یہ (
قربانی ) تیری طرف سے اور تیرے لئے ہے۔اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی امت
کی طرف سے ہے۔‘‘
اس کے بعد آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے ( بسم اللّٰه، واللّٰه أکبر ) پڑھا اور انھیں ذبح کردیا۔[ سنن
أبو داؤد :2795۔وحسنہ الألبانی]
11۔حج میں اخلاص
انس بن مالک رضی اللہ
عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پرانے کجاوے پر حج کیا اور ایسی
چادر پر کہ جس کی قیمت چا درہموں کے برابر بھی نہ تھی۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا :
( اَللّٰہُمَّ حَجَّۃً لَا رِیَائَ فِیْہَا وَلَا سُمْعَۃَ ) [سنن
ابن ماجہ :2890۔وصححہ الألبانی]
’’ اے اللہ ! اس حج کو ایسا حج
بنا دے کہ اس میں نہ ریا ہو اور نہ ہی تعریف سننے کی خواہش ہو۔‘‘
12۔اللہ کی رضا کیلئے صبر کرنا
ارشاد باری تعالیٰ ہے
: ﴿وَالَّذِیْنَ صَبَرُوا ابْتِغَائَ وَجْہِ
رَبِّہِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاۃَ وَأَنفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاہُمْ سِرًّا
وَّعَلاَنِیَۃً وَّیَدْرَؤُونَ بِالْحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ أُولَئِکَ لَہُمْ
عُقْبَی الدَّارِ﴾ [الرعد13:22]
’’ اور جنھوں نے اپنے رب کی رضا
کو طلب کرتے ہوئے صبر کیا، نماز قائم کی اور ہم نے انھیں جو کچھ دے رکھا ہے اس سے
پوشیدہ طور پر اور دکھلا کر خرچ کیا۔اور وہ برائی کا جواب بھلائی سے دیتے ہیں ( یا
گناہ کے بعد نیکی کرتے ہیں ) تو انہی لوگوں کیلئے آخرت کا گھر ہے۔‘‘
13۔اللہ کی رضا کیلئے تواضع اختیار
کرنا
ابو ہریرہ رضی اللہ
عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(……وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلّٰہِ إِلَّا رَفَعَہُ اللّٰہُ ) [صحیح
مسلم:2588]
’’ اور جو شخص اللہ کی رضا کیلئے
عاجزی وانکساری اختیار کرے تو اسے اللہ ضرور بلندی نصیب کرتا ہے۔‘‘
محترم سامعین ! یہ چند
اعمال ہم نے بطور مثال ذکر کئے ہیں، ورنہ اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام اعمال ِ
صالحہ اور تمام عبادات میں اخلاص انتہائی ضروری ہے، کیونکہ اس کے بغیر اللہ تعالیٰ
کوئی عبادت قبول ہی نہیں کرتا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا
ہے کہ وہ ہم سب کو تمام عبادت میں اخلاص نصیب کرے اور ریاکاری سے محفوظ رکھے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں