اَلحَمدُ لِلّٰہِ نَحمَدُہ، وَنَستَعِینُہ، وَنَستَغفِرُہ، وَنَعُوذُبِاﷲِ مِن شُرُورِ اَنفُسِنَاوَمِن سَیِّئَآتِ اَعمَالِنَا مَن یَھدِہِ اﷲُ فَلَا مُضِلَّ لَہ، وَمَن یُضلِل فَلَا ھَادِیَ لَہ، وَاَشھَدُ اَن لَّا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وَحدَہ، لَا شَرِیکَ لَہ، وَاَشھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبدُہ، وَرَسُولُہٗ ۔ أما بعد
: اِنَّ اَصدَقَ الحَدِیثِ
کِتَابُ اﷲِ وَاِنَّّ اَفضَلَ الھَدیِ ھَدیُ مُحَمَّدٍ وَّ شَرُّ الْامُورِ
مُحدَثَاتُھَا وَ کُلُّ مُحدَثَۃٍ بِدعَۃٌ وَ کُلُّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّارِ۔ ‘ فقد
قال اللہ تعالی فی کتابہ الکریم:
صبر اور اس کے فوائد و ثمرات
صبر\\\"کا معنی ہے
روکنااور بند کرنا جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے
وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِيْنَ
يَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ
وَجْہَہٗ\\\"(الکہف : 28)
قرآن کریم میں یعقوب علیہ السلام کے واقعہ میں صبرجمیل کاذکرواردہے:{فَصَبْرٌ جَمِيلٌ ۖ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَىٰ مَا تَصِفُونَ }( سورۃ
یوسف: 18)، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتےہیں : "الصبرالجميل هو
الذي لا شكوى فيه ولا معه"”صبرجمیل اس صبرکوکہتےہیں جس کےاندریاجس کےساتھ کوئی
شکوہ شامل نہ ہو” امام مجاہد فرماتےہیں :”هوالذي لاجزع معه"”جس کے ساتھ کوئی
آہ وفغاں نہ ہو”۔(دیکھئے :تفسیر ابن کثیر: 2/489)۔ امام شافعی کا شعرہے:
صبرا جميلا ما أقرب الفرجا * من
راقب الله في الأمور نجا
من صدق الله لم
ينله أذى
* و من رجاه يكون حيث رجا
"(صبر کیجئے )صبر جمیل کشادگی(یاغم کو ختم کرنے) سےبہت ہی قریب ہے ۔
جس نے معاملات میں اللہ تعالی کا خوف کیاوہ نجات پاگیا۔اور جس نے قول وعمل
میں اللہ کے ساتھ وفاکی اسے اذیت نہیں پہنچتی ۔ اور جو اس سے امید لگاتاہے اسے وہی
پاتاہے”۔
امام ابن القیم نے اس کی تعریف یوں کی ہے :”الصبر: بأنه ثبات القلب علی الأحکام القدریة والشرعیة ” ” تقدیری اورشرعی احکام پہ دل کوثابت قدم رکھنا
صبرہے”(الروح :ص 241)۔
ابو بکر بن الانباری نے بعض علماء سے لکھاہے کہ : "صبر کو صبر اس لئے
کہتے ہیں وہ دل پہ کڑواہوتاہے اور نفس کے لئے پریشان کن، جیسے کڑوا پھل منہ کے
اندر”( ذم الھوی /ابن الجوزی :58)۔ شاعر
کہتاہے :
الصبر
مثل اسمه مر مذاقته * لكن عواقبه أحلى من العسل
"صبرکی لذت اس کے نام کی طرح ہی کڑواہے۔ لیکن اس کا انجام شہد
سے بھی زیادہ میٹھاہے”۔
اول : طاعت ونیکی پرصبر: انسان کا نفس نیکیوں سے بھاگتاہے، اور ان سے سستی اورکاہلی محسوس کرتاہے۔
اس کےباوجود نفس کو اللہ کی طاعت پرآمادہ کرنا اور اس پرقائم رہنا جیسے، نفس کے
انکارکےباوجود نمازقائم کرنا، نہ چاہتے ہوئے بھی زکاۃ، صدقات، روزہ، حج اوردیگرعبادات
کااہتمام کرنا، مشقت کے باوجود نیکیوں کو
احسن طریقےسے خالص اللہ کے لئے انجام دینا صبر ہے۔
دوم : محرمات پرصبر: گناہ اپنی جاذبیت کی بناپرانسان کے نفس کواپنی جانب راغب کرتاہے، ایسے وقت
میں اس کے انجام وعواقب، اوراللہ رب العزت کی پکڑ کو پیش نظررکھ کرنفس کواس سے
روکنا، زنا،بدکاری، چوری، ڈکیتی، خودکشی اوراس طرح کے تمام معاصی وگناہوں سے
خودپرقابورکھنا بہترین صبرہے ۔
سوم : ابتلاءوآزمائش پرصبر:ابتلاء وآزمائش کےبطورانسان پرمختلف
راستوں سے چھوٹی بڑی بے شمار مصیبتیں آتی رہتی ہیں، جن پر صبر کیاجاتاہے
انسان کودنیاوی
زندگی میں خوشی ومسرت کے ساتھ ساتھ غم، تکلیف اور مصیبت وآفات سے بھی واسطہ
پڑتارہتاہے،جوکہ اللہ تبارک وتعالی کےیہاں مقدرہیں اور کی مشیئت سے آتی ہیں، جس
پرایک مومن کا کامل یقین وایمان ہوتاہے، اللہ تعالی فرماتاہے : { مَا أَصَابَ مِن
مُّصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِّن قَبْلِ
أَن نَّبْرَأَهَا}(زمین میں اور تمہاری جانوں میں جومصیبت آتی ہے قبل اس کےکہ
ہم اسے پیداکریں ایک خاص کتاب میں لکھ دی
گئی ہے۔ ) (سورۃ الحدید:22-23)
اورایک دوسری جگہ فرماتاہے :{ قُل
لَّن يُصِيبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَنَا}(کہہ دیجئے کہ ہمیں سوائے اللہ
کے ہمارے حق میں لکھے ہوئے کےکوئی چیزپہنچ ہی نہیں سکتی) (سور ہ
توبۃ :51)۔
لہذا مصیبتوں کو اللہ رب العزت دو
وجہوں سے نازل کرتاہے :
اول :ابتلاء وآزائش
کےبطورتاکہ مومن بندہ کے درجات بلند ہوں اورگناہوں کے لئے کفارہ بنے، اللہ تعالی ارشادفرماتاہے : {وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ
وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ
الصَّابِرِينَ}(ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے، دشمن کے ڈرسے، بھوک
پیاس سے، مال وجان او رپھلوں کی کمی سے، اور صبر کرنے والوں کو بشارت سنا دیجئے۔ )
(سورۃ البقرہ:155)۔
دوم : کسی گناہ کی
پاداش میں، اللہ تعالی فرماتاہے :{ وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا
كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ }(تمہیں جوکچھ مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ
تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کا بدلہ ہے، اور وہ تو بہت سی باتوں سے درگذرفرمادیتاہے)
(سورۃ الشوری :30) ہردوصورت میں چھوٹی بڑی ہرمصیبت میں ایک مومن بندہ کےلئے انابت الی اللہ اورصبرضرووی
ہے جواس کےلئے دنیاوآخرت کی بھلائی کی ضمانت دیتاہے، اللہ تعالی ارشاد فرماتاہے
: {وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ۔ الَّذِينَ
إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ
رَاجِعُونَ۔ أُولَٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ}(اور ان صبر کرنےوالوں
کو خوشخبری سنا دیجئے جنہیں جب کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں ہم اللہ کی ملکیت ہیں
اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں ان کے اوپررب کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی
لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔ ) (سورۃ البقرہ
:155-157)۔
ہم اپنے اس مضمون میں
صبر کی اہمیت وفضیلت اوراس سے متعلق
امورکوبیان کریں گے تاکہ کسی مصیبت زدہ کےلئے مشعل راہ بنے، اور صبرکی
لذتوں اور اس کے فوائد سے بہرہ ورہو :
صبرکامعنی :
صبرکالغوی معنی : صبرجزع وفزع کا
نقیض ہے جس کالغوی معنی حبس یعنی
روکنا،منع کرنا،قیدکرنااورضبط کرناہے، گویاصبرکامطلب ہوا نفس کوجزع وواویلا
سےروکنا۔(دیکھئے : الصحاح للجوہری :ص 706 ولسان العرب : 4/437)
قرآن کریم میں یعقوب
علیہ السلام کے واقعہ میں صبرجمیل
کاذکرواردہے:{فَصَبْرٌ جَمِيلٌ ۖ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَىٰ مَا تَصِفُونَ }( سورۃ یوسف: 18)، شیخ
الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتےہیں : "الصبرالجميل هو الذي لا شكوى فيه
ولا معه"”صبرجمیل اس صبرکوکہتےہیں جس کےاندریاجس کےساتھ کوئی شکوہ شامل نہ
ہو” امام مجاہد فرماتےہیں :”هوالذي لاجزع معه"”جس کے ساتھ کوئی آہ وفغاں نہ
ہو”۔(دیکھئے :تفسیر ابن کثیر: 2/489)۔ امام شافعی کا شعرہے:
صبرا جميلا ما أقرب الفرجا * من راقب الله في الأمور نجا
من صدق الله لم
ينله أذى
* و من رجاه يكون حيث رجا
"(صبر کیجئے )صبر جمیل کشادگی(یاغم کو ختم کرنے) سےبہت ہی قریب ہے ۔
جس نے معاملات میں اللہ تعالی کا خوف کیاوہ نجات پاگیا۔اور جس نے قول وعمل
میں اللہ کے ساتھ وفاکی اسے اذیت نہیں پہنچتی ۔ اور جو اس سے امید لگاتاہے اسے وہی
پاتاہے”۔
صبرکااصطلاحی معنی : "نفس کوقرآن وسنت اورفرائض پرثابت قدم رکھنااوراس کوآہ وبکا
اورشکوی وناراضگی سے روکنا۔” صبر کی ایک تعریف یہ کی جاتی ہے : ” مصیبت وپریشانی کی
تکلیف کوغیراللہ سے بیان کرنے سے پرہیز کرنا ”
نیز صبرکی ایک تعریف یہ بھی کی جاتی ہے اوروہ ہے :”عقل وشریعت کے
مقتضی کے مطابق نفس کوکنٹرول کرنا”۔(دیکھئے : التعریفات للجرجانی : ص 131،مفردات
الفاظ القرآن الکریم للراغب الاصفہانی : 474)
امام ابن القیم نے اس کی تعریف یوں کی ہے :”الصبر: بأنه ثبات القلب علی
الأحکام القدریة والشرعیة ” ” تقدیری اورشرعی احکام پہ دل کوثابت قدم رکھنا
صبرہے”(الروح :ص 241)۔
ابو بکر بن الانباری نے بعض علماء سے لکھاہے کہ : "صبر کو صبر اس لئے
کہتے ہیں وہ دل پہ کڑواہوتاہے اور نفس کے لئے پریشان کن، جیسے کڑوا پھل منہ کے
اندر”( ذم الھوی /ابن الجوزی :58)۔ شاعر
کہتاہے :
الصبر مثل اسمه مر
مذاقته * لكن عواقبه أحلى من العسل
"صبرکی لذت اس کے نام کی طرح ہی کڑواہے۔ لیکن اس کا انجام شہد
سے بھی زیادہ میٹھاہے”۔
صبرکے مقامات:
صبرتین چیزوں پرہوتاہے :
اول : طاعت ونیکی پرصبر: انسان کا نفس نیکیوں سے بھاگتاہے، اور ان سے سستی
اورکاہلی محسوس کرتاہے۔ اس کےباوجود نفس کو اللہ کی طاعت پرآمادہ کرنا اور اس
پرقائم رہنا جیسے، نفس کے انکارکےباوجود نمازقائم کرنا، نہ چاہتے ہوئے بھی زکاۃ،
صدقات، روزہ، حج اوردیگرعبادات کااہتمام کرنا، مشقت کے باوجود نیکیوں کو احسن طریقےسے خالص اللہ کے لئے انجام
دینا صبر ہے۔
اسی طرح معاملات میں لوگوں کے ساتھ نرمی اورحسن اخلاق سے پیش آنا، ان کے
حقوق کواداکرنا، ان کو تکلیف دینےسےپرہیزکرنا اورسارےمعاملات میں امانتداری اوردیانتداری
کاثبوت دینا وغیرہ صبر کی بہترین مثالیں ہیں۔ اللہ رب العزت نے
طاعت پہ صبر کی کچھ مثالیں ذکرکی ہے، جن میں سےچند مندرجہ ذیل ہیں :
فرماتاہے : { رَّبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا
فَاعْبُدْهُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهِ ۚ}(آسمانوں اور زمینوں اورجوکچھ ان کے درمیان ہے سب کا رب وہی ہے تو اسی کی
عبادت کراور اس کی عبادت پرصبرکر(جم جا) (سورۃ مریم :65)۔
نمازکے لئے صبر کی تعبیر کرتےہوئے فرماتاہے: {وَأْمُرْ أَهْلَكَ
بِالصَّلاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَ}(اپنے گھروالوں کو نمازکی تاکیدکر اور اس پر
خودبھی صبرکر(جم جا) (سورۃ طہ : 132)۔
دوم : محرمات پرصبر: گناہ اپنی جاذبیت کی بناپرانسان
کے نفس کواپنی جانب راغب کرتاہے، ایسے وقت میں اس کے انجام وعواقب، اوراللہ رب
العزت کی پکڑ کو پیش نظررکھ کرنفس کواس سے روکنا، زنا،بدکاری، چوری، ڈکیتی، خودکشی
اوراس طرح کے تمام معاصی وگناہوں سے خودپرقابورکھنا بہترین صبرہے ۔
گناہ ومعاصی سے
صبر دیگر صبر کے مقابلے کچھ زیادہ ہی سخت ہے کیونکہ خواہشات وشہوات سے بچنے کے لئے
آدمی کو نفس سے شدت کے ساتھ مجاہدہ کرنا پڑتاہے، اور اس لئے بھی کہ گناہ اپنی جاذبیت
کے ساتھ اس پر عمل سہل الوصول ہوتاہے، اور
اس سے بچنے کے لئے اللہ کاخوف اور تقوی کے ساتھ ساتھ اس کے برے انجام کا ڈر بھی پیش
نظر رکھنا پڑتاہے، میمون بن مہران سے مروی
ہے:”صبر دوطرح کا ہوتاہے : مصیبت پرصبر اچھاہے اور اس سے بھی افضل صبرگناہوں سے
بچناہے "۔ (عدۃ الصابرین وذخیرۃ الشاکرین لابن القیم/71،والصبر والثواب علیہ
لابن ابی الدنیا/ص 28)۔
گناہوں سے بچنے
والے نوجوان کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے:” إن ربك
ليعجب للشاب لا صبوة له"”اللہ تعالی اس نوجوان پر تعجب فرماتاہے جس کا میلان
شہوات کی طرف نہیں ہوتا”(اس روایت کوشیخ البانی نے سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ/2843 کے
اندر صحیح قراردیاہے)۔
سوم : ابتلاءوآزمائش پرصبر:ابتلاء وآزمائش کےبطورانسان پرمختلف راستوں سے
چھوٹی بڑی بے شمار مصیبتیں آتی رہتی
ہیں، جن پر صبر کیاجاتاہے، جیسے :
کسی محبوب کی موت،چھوٹی بڑی کوئی بھی بیماری لاحق ہونا، تنگدستی ومحتاجی
لاحق ہونا،دشمن کی طرف سے پہنچنے والاضرر ونقصان، ظالم حکمراں کا ظلم وتشدداورخانگی
و معاشرتی زندگی میں آنے والی پریشانی وغیرہ پرصبر
ان مصائب وپریشانیوں
اور دیگر مختلف وجوہات کی بناپروارد بلایا اورمصیبتوں کے وقت اللہ سے اس پر
اجروثواب کی امیدلگاکر ثابت قدم رہنا، جزع وفزع، آہ وبکا، اورچہرہ نوچنے، گریبان
چاک کرنے اورچھاتی پیٹنے سے احتراز، یہ ایمان
رکھتے ہوئے کہ یہ مصیبتیں ہمارا مقدرہیں صبر ہے۔
صبر کی اہمیت :
اخلاقی صفات میں
صبر وہ صفت ہے جس کا دین اسلام نے بہت زیادہ اہتمام کیاہے اسی وجہ سے اللہ تبارک
وتعالی نے قرآن مجیدکے اندرتقریبا نوے (90) بار اس کاذکرکیا ہے۔ قرآن مجیدمیں اللہ
تعالی نے جہاں بھی صبرکاذکرکیاہے "یاأیھاالذین آمنوا۔ ۔۔”سے خطاب کیاہے،
اورکئی مقامات پراس کا تذکرہ نمازاورتقوی
کے ساتھ کیاہے۔ نیزدین کےاکثرمقامات صبرسے مرتبط ہیں ، کیونکہ اطاعت کی بجاآوری
اورمعصیت سے اجتناب کا نام ہی دین ہے جن کی اصل بنیادصبرہے، اللہ تعالی نے سورۃ
العصرمیں جب زمانے کی قسم کھاکرانسان کی ناکامیوں اوربربادیوں کاتذکرہ کیاتوچندلوگوں
کواس سےمستثنی فرمایا جن میں سے وہ لوگ بھی ہیں جوایک دوسرےکوصبرکی تلقین کرتےہیں۔ نیز اللہ تبارک وتعالی نے مختلف مقامات پر انبیاءکرام
علیہم السلام اورمومنوں کوصبرکاحکم دیاہے،
اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتےہوئے فرماتاہے :{فاصْبِرْ إِنَّ
وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ ۖ } (صبر کیجئے کیونکہ
اللہ کا وعدہ برحق ہے ) (سورۃ الروم:60)۔ نیزفرماتاہے : {فاصْبِرْ عَلَىٰ مَا
يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ
الْغُرُوبِ }(یہ جو کچھ کہتے ہیں اس پر آپ صبرکریں اور اپنے رب کی تسبیح تعریف کے ساتھ بیان کریں سورج نکلنے سے پہلے بھی
اور سورج غروب ہونے سے پہلےبھی ) (سورۃ
ق:39)۔نیزفرماتاہے: {فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ
الرُّسُلِ} (جس طرح اولوالعزم رسولوں نے صبرکیااسی طرح آپ بھی صبرکیجئے) (سورۃالاحقاف:
35)۔
ایک جگہ فرماتاہے :{ يَاأَيُّهَا
الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنذِرْ وَرَبَّكَ
فَكَبِّرْ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ وَلَا تَمْنُن تَسْتَكْثِرُ وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ} (اے کپڑااوڑھنے والے،
کھڑاہوجااور (لوگوں کو)آگاہ کردے،اپنے کپڑوں کو پاک رکھاکر،ناپاکی کوچھوڑدے،
اوراحسان کرکےزیادہ لینے کی خواہش نہ کر، اور اپنے رب کی راہ میں صبرکر) (سورۃ
المدثر:1-7)
نیزفرماتاہے: {وَاصْبِرْ عَلى ما يَقُولُونَ وَاهْجُرْهُمْ هَجْراً
جَمِيلًا}(اورجوکچھ وہ کہیں اس پر صبرکراور وضعداری کے ساتھ ان سے الگ تھلگ رہ) (
سورۃ المزمل:10)
اللہ رب العزت کے
بقول :لقمان علیہ السلام اپنے بیٹے کوحکم
دیتےہوئے فرماتےہیں : { يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ
وَانْهَ عَنِ الْمُنكَرِ وَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا أَصَابَكَ ۖ إِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ }(اے بیٹے
نمازقائم کر، بھلائی کاحکم دے، برائی سے روک اور اگر تجھے کوئی پریشانی ہو تو
صبرکر، یقین مانوں کہ یہ بڑے تاکیدی کاموں میں سے ہے۔) (سورۃ لقمان :17)
انبیاء کرام کے صبر کے بارے میں فرماتاہے : {وَلَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ
مِنْ قَبْلِكَ فَصَبَرُوا عَلَى مَا كُذِّبُوا وَأُوذُوا حَتَّى أَتَاهُمْ
نَصْرُنَا }(آپ سے قبل رسولوں کوجھٹلایاگیاتو انہوں نے اپنے جھٹلائے جانے اور اذیت
دئے جانے پر صبرکیا،یہاں تک کہ ان کو ہماری مدد پہنچ گئی ) (سورۃالانعام:34) انبیاء
کرام کو لوگ کسی بھی طرح کی تکلیف دیتے تووہ
ان سے کہتے :{وَلَنَصْبِرَنَّ عَلَى مَا آَذَيْتُمُونَا وَعَلَى اللَّهِ
فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ}(تم ہمیں ایذائیں دوگے تو ہم ان پر صبر کریں گے
اور توکل کرنے والوں کے لئے اللہ پرتوکل کرنا ہی زیباہے )۔ (سورۃابراہیم :12)۔
نیزفرماتاہے : {وَإِسْمَاعِيلَ وَإِدْرِيسَ وَذَا الْكِفْلِ كُلٌّ مِنَ
الصَّابِرِينَ}(اور اسماعیل ادریس اور ذوالکفل سب کے سب صبرکرنے والوں میں سے
تھے)۔( سورۃالانبیاء:85)
ابو سعید خدری
رضی اللہ عنہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئےاس وقت آپ کو تیزبخارتھا،
انہوں نے چادرکے اوپرہاتھ رکھاتو کہا: اے اللہ کےرسول ( صلی اللہ علیہ وسلم)! آپ
کوتو بہت تیزبخارہے، تو آپ نے فرمایا:”إنا كذلك، يشدد علينا البلاء ويضاعف لنا الأجر"”ہم
(انبیاء) پرایسے ہی سخت بلاء آتی ہے اور
ہمارے اجرمیں زیادتی کی جاتی ہے” پھر پوچھا : اے اللہ کے رسول ! سب سے سخت مصیبتیں
کن لوگوں پرآتی ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا: ” انبیاء پر” پوچھا: پھرکن پر ؟ تو فرمایا:”
علماء پر” پوچھا: پھرکن پر؟ تو فرمایا:”نیک لوگوں پر”۔(شعب الایمان للبیہقی
/9774،علامہ البانی نے اس روایت کو صحیح قراردیاہے۔ صحیح الترغیب /3403)۔
اپنے مومن بندوں
کو حکم دیتے ہوئے اللہ تعالی فرماتاہے : {
وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ }(صبر
اور نمازکے ساتھ مدد طلب کرو،یہ چیزشاق ہے مگرڈررکھنے والوں پر) (سورہ البقرہ:45) نیزفرماتاہے :{ يَا أَيُّهَا
الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ
لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ } (اے ایمان والوں صبر کرو اور ایک دوسرے کو تھامے
رکھواورجہاد کے لئے تیار رہواور اللہ سے ڈرتے رہوتاکہ تم کامیاب ہوسکو۔) (سورۃآل
عمران:200)۔
اسی طرح اللہ
تبارک وتعالی نے قرآن مجیدکے اندراپنےمومن بندوں کوصبر کا حکم دینے کے ساتھ
ساتھ ابراہیم اسماعیل، یعقوب، یوسف، ایوب،
موسی، عیسی اوردیگرانبیاءکرام علیہم السلام کے صبرکےواقعات مختلف اسلوب واندازمیں
ذکرکیاہےجن کاذکرطوالت کاسبب ہے ۔
انسان کودنیاوی
زندگی میں خوشی ومسرت کے ساتھ ساتھ غم، تکلیف اور مصیبت وآفات سے بھی واسطہ پڑتارہتاہے،جوکہ
اللہ تبارک وتعالی کےیہاں مقدرہیں اور کی مشیئت سے آتی ہیں، جس پرایک مومن کا کامل
یقین وایمان ہوتاہے، اللہ تعالی فرماتاہے : { مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ فِي
الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِّن قَبْلِ أَن
نَّبْرَأَهَا}(زمین میں اور تمہاری جانوں میں جومصیبت آتی ہے قبل اس کےکہ ہم اسے پیداکریں ایک خاص کتاب میں لکھ دی گئی ہے۔
) (سورۃ
الحدید:22-23) اورایک دوسری جگہ
فرماتاہے :{ قُل لَّن يُصِيبَنَا إِلَّا
مَا كَتَبَ اللَّهُ لَنَا}(کہہ دیجئے کہ ہمیں سوائے اللہ کے ہمارے حق میں لکھے
ہوئے کےکوئی چیزپہنچ ہی نہیں سکتی) (سور
ہ توبۃ :51)۔
لہذا مصیبتوں کو اللہ رب العزت دو
وجہوں سے نازل کرتاہے :
اول :ابتلاء وآزائش
کےبطورتاکہ مومن بندہ کے درجات بلند ہوں اورگناہوں کے لئے کفارہ بنے، اللہ تعالی ارشادفرماتاہے : {وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ
وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ
الصَّابِرِينَ}(ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے، دشمن کے ڈرسے، بھوک
پیاس سے، مال وجان او رپھلوں کی کمی سے، اور صبر کرنے والوں کو بشارت سنا دیجئے۔ )
(سورۃ البقرہ:155)۔
دوم : کسی گناہ کی
پاداش میں، اللہ تعالی فرماتاہے :{ وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا
كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ }(تمہیں جوکچھ مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ
تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کا بدلہ ہے، اور وہ تو بہت سی باتوں سے درگذرفرمادیتاہے)
(سورۃ الشوری :30) ہردوصورت میں چھوٹی بڑی ہرمصیبت میں ایک مومن بندہ کےلئے انابت الی اللہ اورصبرضرووی
ہے جواس کےلئے دنیاوآخرت کی بھلائی کی ضمانت دیتاہے، اللہ تعالی ارشاد فرماتاہے
: {وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ۔ الَّذِينَ
إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ
رَاجِعُونَ۔ أُولَٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ}(اور ان صبر
کرنےوالوں کو خوشخبری سنا دیجئے جنہیں جب کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں ہم اللہ کی
ملکیت ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں ان کے اوپررب کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں
اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔ ) (سورۃ
البقرہ :155-157)۔
ہم اپنے اس مضمون میں
صبر کی اہمیت وفضیلت اوراس سے متعلق
امورکوبیان کریں گے تاکہ کسی مصیبت زدہ کےلئے مشعل راہ بنے، اور صبرکی
لذتوں اور اس کے فوائد سے بہرہ ورہو :
صبرکامعنی :
صبرکالغوی معنی : صبرجزع وفزع کا
نقیض ہے جس کالغوی معنی حبس یعنی
روکنا،منع کرنا،قیدکرنااورضبط کرناہے، گویاصبرکامطلب ہوا نفس کوجزع وواویلا
سےروکنا۔(دیکھئے : الصحاح للجوہری :ص 706 ولسان العرب : 4/437)
قرآن کریم میں یعقوب
علیہ السلام کے واقعہ میں صبرجمیل
کاذکرواردہے:{فَصَبْرٌ جَمِيلٌ ۖ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَىٰ مَا تَصِفُونَ }( سورۃ یوسف: 18)، شیخ
الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتےہیں : "الصبرالجميل هو الذي لا شكوى فيه
ولا معه"”صبرجمیل اس صبرکوکہتےہیں جس کےاندریاجس کےساتھ کوئی شکوہ شامل نہ
ہو” امام مجاہد فرماتےہیں :”هوالذي لاجزع معه"”جس کے ساتھ کوئی آہ وفغاں نہ
ہو”۔(دیکھئے :تفسیر ابن کثیر: 2/489)۔ امام شافعی کا شعرہے:
صبرا جميلا ما أقرب الفرجا * من راقب الله في الأمور نج
من صدق الله لم
ينله أذى
* و من رجاه يكون حيث رجا
"(صبر کیجئے )صبر جمیل کشادگی(یاغم کو ختم کرنے) سےبہت ہی قریب ہے ۔
جس نے معاملات میں اللہ تعالی کا خوف کیاوہ نجات پاگیا۔اور جس نے قول وعمل
میں اللہ کے ساتھ وفاکی اسے اذیت نہیں پہنچتی ۔ اور جو اس سے امید لگاتاہے اسے وہی
پاتاہے”۔
صبرکااصطلاحی معنی : "نفس کوقرآن وسنت اورفرائض پرثابت قدم رکھنااوراس کوآہ وبکا
اورشکوی وناراضگی سے روکنا۔” صبر کی ایک تعریف یہ کی جاتی ہے : ” مصیبت وپریشانی کی
تکلیف کوغیراللہ سے بیان کرنے سے پرہیز کرنا ”
نیز صبرکی ایک تعریف یہ بھی کی جاتی ہے اوروہ ہے :”عقل وشریعت کے
مقتضی کے مطابق نفس کوکنٹرول کرنا”۔(دیکھئے : التعریفات للجرجانی : ص 131،مفردات
الفاظ القرآن الکریم للراغب الاصفہانی : 474)
امام ابن القیم نے اس کی تعریف یوں کی ہے :”الصبر: بأنه ثبات القلب علی
الأحکام القدریة والشرعیة ” ” تقدیری اورشرعی احکام پہ دل کوثابت قدم رکھنا
صبرہے”(الروح :ص 241)۔
ابو بکر بن الانباری نے بعض علماء سے لکھاہے کہ : "صبر کو صبر اس لئے
کہتے ہیں وہ دل پہ کڑواہوتاہے اور نفس کے لئے پریشان کن، جیسے کڑوا پھل منہ کے
اندر”( ذم الھوی /ابن الجوزی :58)۔ شاعر
کہتاہے :
الصبر مثل اسمه مر
مذاقته * لكن عواقبه أحلى من العسل
"صبرکی لذت اس کے نام کی طرح ہی کڑواہے۔ لیکن اس کا انجام شہد
سے بھی زیادہ میٹھاہے”۔
صبرکے مقامات:
صبرتین چیزوں پرہوتاہے :
اول : طاعت ونیکی پرصبر: انسان کا نفس نیکیوں سے بھاگتاہے، اور ان سے سستی
اورکاہلی محسوس کرتاہے۔ اس کےباوجود نفس کو اللہ کی طاعت پرآمادہ کرنا اور اس
پرقائم رہنا جیسے، نفس کے انکارکےباوجود نمازقائم کرنا، نہ چاہتے ہوئے بھی زکاۃ،
صدقات، روزہ، حج اوردیگرعبادات کااہتمام کرنا، مشقت کے باوجود نیکیوں کو احسن طریقےسے خالص اللہ کے لئے انجام
دینا صبر ہے۔
اسی طرح معاملات میں لوگوں کے ساتھ نرمی اورحسن اخلاق سے پیش آنا، ان کے
حقوق کواداکرنا، ان کو تکلیف دینےسےپرہیزکرنا اورسارےمعاملات میں امانتداری اوردیانتداری
کاثبوت دینا وغیرہ صبر کی بہترین مثالیں ہیں۔ اللہ رب العزت نے
طاعت پہ صبر کی کچھ مثالیں ذکرکی ہے، جن میں سےچند مندرجہ ذیل ہیں :
فرماتاہے : { رَّبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا
فَاعْبُدْهُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهِ ۚ}(آسمانوں اور زمینوں اورجوکچھ ان کے درمیان ہے سب کا رب وہی ہے تو اسی کی
عبادت کراور اس کی عبادت پرصبرکر(جم جا) (سورۃ مریم :65)۔
نمازکے لئے صبر کی تعبیر کرتےہوئے فرماتاہے: {وَأْمُرْ أَهْلَكَ
بِالصَّلاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَ}(اپنے گھروالوں کو نمازکی تاکیدکر اور اس پر
خودبھی صبرکر(جم جا) (سورۃ طہ : 132)۔
دوم : محرمات پرصبر: گناہ اپنی جاذبیت کی بناپرانسان
کے نفس کواپنی جانب راغب کرتاہے، ایسے وقت میں اس کے انجام وعواقب، اوراللہ رب
العزت کی پکڑ کو پیش نظررکھ کرنفس کواس سے روکنا، زنا،بدکاری، چوری، ڈکیتی، خودکشی
اوراس طرح کے تمام معاصی وگناہوں سے خودپرقابورکھنا بہترین صبرہے ۔
گناہ ومعاصی سے
صبر دیگر صبر کے مقابلے کچھ زیادہ ہی سخت ہے کیونکہ خواہشات وشہوات سے بچنے کے لئے
آدمی کو نفس سے شدت کے ساتھ مجاہدہ کرنا پڑتاہے، اور اس لئے بھی کہ گناہ اپنی جاذبیت
کے ساتھ اس پر عمل سہل الوصول ہوتاہے، اور
اس سے بچنے کے لئے اللہ کاخوف اور تقوی کے ساتھ ساتھ اس کے برے انجام کا ڈر بھی پیش
نظر رکھنا پڑتاہے، میمون بن مہران سے مروی
ہے:”صبر دوطرح کا ہوتاہے : مصیبت پرصبر اچھاہے اور اس سے بھی افضل صبرگناہوں سے
بچناہے "۔ (عدۃ الصابرین وذخیرۃ الشاکرین لابن القیم/71،والصبر والثواب علیہ
لابن ابی الدنیا/ص 28)۔
گناہوں سے بچنے
والے نوجوان کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے:” إن ربك
ليعجب للشاب لا صبوة له"”اللہ تعالی اس نوجوان پر تعجب فرماتاہے جس کا میلان
شہوات کی طرف نہیں ہوتا”(اس روایت کوشیخ البانی نے سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ/2843 کے
اندر صحیح قراردیاہے)۔
سوم : ابتلاءوآزمائش پرصبر:ابتلاء وآزمائش کےبطورانسان پرمختلف راستوں سے
چھوٹی بڑی بے شمار مصیبتیں آتی رہتی
ہیں، جن پر صبر کیاجاتاہے، جیسے :
کسی محبوب کی موت،چھوٹی بڑی کوئی بھی بیماری لاحق ہونا، تنگدستی ومحتاجی
لاحق ہونا،دشمن کی طرف سے پہنچنے والاضرر ونقصان، ظالم حکمراں کا ظلم وتشدداورخانگی
و معاشرتی زندگی میں آنے والی پریشانی وغیرہ پرصبر۔
ان مصائب وپریشانیوں
اور دیگر مختلف وجوہات کی بناپروارد بلایا اورمصیبتوں کے وقت اللہ سے اس پر
اجروثواب کی امیدلگاکر ثابت قدم رہنا، جزع وفزع، آہ وبکا، اورچہرہ نوچنے، گریبان
چاک کرنے اورچھاتی پیٹنے سے احتراز، یہ ایمان
رکھتے ہوئے کہ یہ مصیبتیں ہمارا مقدرہیں صبر ہے۔
صبر کی اہمیت :
اخلاقی صفات میں
صبر وہ صفت ہے جس کا دین اسلام نے بہت زیادہ اہتمام کیاہے اسی وجہ سے اللہ تبارک
وتعالی نے قرآن مجیدکے اندرتقریبا نوے (90) بار اس کاذکرکیا ہے۔ قرآن مجیدمیں اللہ
تعالی نے جہاں بھی صبرکاذکرکیاہے "یاأیھاالذین آمنوا۔ ۔۔”سے خطاب کیاہے،
اورکئی مقامات پراس کا تذکرہ نمازاورتقوی
کے ساتھ کیاہے۔ نیزدین کےاکثرمقامات صبرسے مرتبط ہیں ، کیونکہ اطاعت کی بجاآوری
اورمعصیت سے اجتناب کا نام ہی دین ہے جن کی اصل بنیادصبرہے، اللہ تعالی نے سورۃ
العصرمیں جب زمانے کی قسم کھاکرانسان کی ناکامیوں اوربربادیوں کاتذکرہ کیاتوچندلوگوں
کواس سےمستثنی فرمایا جن میں سے وہ لوگ بھی ہیں جوایک دوسرےکوصبرکی تلقین کرتےہیں۔ نیز اللہ تبارک وتعالی نے مختلف مقامات پر انبیاءکرام
علیہم السلام اورمومنوں کوصبرکاحکم دیاہے،
اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتےہوئے فرماتاہے :{فاصْبِرْ إِنَّ
وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ ۖ } (صبر کیجئے کیونکہ
اللہ کا وعدہ برحق ہے ) (سورۃ الروم:60)۔ نیزفرماتاہے : {فاصْبِرْ عَلَىٰ مَا
يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ
الْغُرُوبِ }(یہ جو کچھ کہتے ہیں اس پر آپ صبرکریں اور اپنے رب کی تسبیح تعریف کے ساتھ بیان کریں سورج نکلنے سے پہلے بھی
اور سورج غروب ہونے سے پہلےبھی ) (سورۃ
ق:39)۔نیزفرماتاہے: {فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ
الرُّسُلِ} (جس طرح اولوالعزم رسولوں نے صبرکیااسی طرح آپ بھی صبرکیجئے) (سورۃالاحقاف:
35)۔
ایک جگہ فرماتاہے :{ يَاأَيُّهَا
الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنذِرْ وَرَبَّكَ
فَكَبِّرْ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ وَلَا تَمْنُن تَسْتَكْثِرُ وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ} (اے کپڑااوڑھنے والے،
کھڑاہوجااور (لوگوں کو)آگاہ کردے،اپنے کپڑوں کو پاک رکھاکر،ناپاکی کوچھوڑدے،
اوراحسان کرکےزیادہ لینے کی خواہش نہ کر، اور اپنے رب کی راہ میں صبرکر) (سورۃ
المدثر:1-7)۔
نیزفرماتاہے: {وَاصْبِرْ عَلى ما يَقُولُونَ وَاهْجُرْهُمْ هَجْراً
جَمِيلًا}(اورجوکچھ وہ کہیں اس پر صبرکراور وضعداری کے ساتھ ان سے الگ تھلگ رہ) (
سورۃ المزمل:10)۔
اللہ رب العزت کے
بقول :لقمان علیہ السلام اپنے بیٹے کوحکم
دیتےہوئے فرماتےہیں : { يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ
وَانْهَ عَنِ الْمُنكَرِ وَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا أَصَابَكَ ۖ إِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ }(اے بیٹے
نمازقائم کر، بھلائی کاحکم دے، برائی سے روک اور اگر تجھے کوئی پریشانی ہو تو
صبرکر، یقین مانوں کہ یہ بڑے تاکیدی کاموں میں سے ہے۔) (سورۃ لقمان :17)۔
انبیاء کرام کے صبر کے بارے میں فرماتاہے : {وَلَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ
مِنْ قَبْلِكَ فَصَبَرُوا عَلَى مَا كُذِّبُوا وَأُوذُوا حَتَّى أَتَاهُمْ
نَصْرُنَا }(آپ سے قبل رسولوں کوجھٹلایاگیاتو انہوں نے اپنے جھٹلائے جانے اور اذیت
دئے جانے پر صبرکیا،یہاں تک کہ ان کو ہماری مدد پہنچ گئی ) (سورۃالانعام:34) انبیاء
کرام کو لوگ کسی بھی طرح کی تکلیف دیتے تووہ
ان سے کہتے :{وَلَنَصْبِرَنَّ عَلَى مَا آَذَيْتُمُونَا وَعَلَى اللَّهِ
فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ}(تم ہمیں ایذائیں دوگے تو ہم ان پر صبر کریں گے
اور توکل کرنے والوں کے لئے اللہ پرتوکل کرنا ہی زیباہے )۔ (سورۃابراہیم :12)۔
نیزفرماتاہے : {وَإِسْمَاعِيلَ وَإِدْرِيسَ وَذَا الْكِفْلِ كُلٌّ مِنَ
الصَّابِرِينَ}(اور اسماعیل ادریس اور ذوالکفل سب کے سب صبرکرنے والوں میں سے
تھے)۔( سورۃالانبیاء:85)۔
ابو سعید خدری
رضی اللہ عنہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئےاس وقت آپ کو تیزبخارتھا،
انہوں نے چادرکے اوپرہاتھ رکھاتو کہا: اے اللہ کےرسول ( صلی اللہ علیہ وسلم)! آپ
کوتو بہت تیزبخارہے، تو آپ نے فرمایا:”إنا كذلك، يشدد علينا البلاء ويضاعف لنا الأجر"”ہم
(انبیاء) پرایسے ہی سخت بلاء آتی ہے اور
ہمارے اجرمیں زیادتی کی جاتی ہے” پھر پوچھا : اے اللہ کے رسول ! سب سے سخت مصیبتیں
کن لوگوں پرآتی ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا: ” انبیاء پر” پوچھا: پھرکن پر ؟ تو فرمایا:”
علماء پر” پوچھا: پھرکن پر؟ تو فرمایا:”نیک لوگوں پر”۔(شعب الایمان للبیہقی
/9774،علامہ البانی نے اس روایت کو صحیح قراردیاہے۔ صحیح الترغیب /3403)۔
اپنے مومن بندوں
کو حکم دیتے ہوئے اللہ تعالی فرماتاہے : {
وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ }(صبر
اور نمازکے ساتھ مدد طلب کرو،یہ چیزشاق ہے مگرڈررکھنے والوں پر) (سورہ البقرہ:45) نیزفرماتاہے :{ يَا أَيُّهَا
الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ
لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ } (اے ایمان والوں صبر کرو اور ایک دوسرے کو تھامے
رکھواورجہاد کے لئے تیار رہواور اللہ سے ڈرتے رہوتاکہ تم کامیاب ہوسکو۔) (سورۃآل
عمران:200)۔
اسی طرح اللہ
تبارک وتعالی نے قرآن مجیدکے اندراپنےمومن بندوں کوصبر کا حکم دینے کے ساتھ
ساتھ ابراہیم اسماعیل، یعقوب، یوسف، ایوب،
موسی، عیسی اوردیگرانبیاءکرام علیہم السلام کے صبرکےواقعات مختلف اسلوب واندازمیں
ذکرکیاہےجن کاذکرطوالت کاسبب ہے ۔
صبر کی معرفت :
اللہ تبارک وتعالی
نے قرآن مجید کے اندراور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنتوں کے اندر
صبرکی مختلف صورتوں راستوں اورطریقوں کو بیان
کیاہےجن کی معرفت انسان کو صبر کی حقیقی اہمیت، اس کی ضرورت اور فوائدکا ادراک
کراتی ہے اور پھر رب کائنات کی حقیقی معرفت اوربےمشقت زندگی کی راہیں ہموارکرنے میں ممد ومعاون بنتی ہے ۔
اسی طرح اللہ کی حاکمیت اور کمال قدرت اور تقیدیر پر ایمان صبر کا عنصرہے،
انسان کو ہمیشہ یہ بات اپنے ذہن میں رکھنی چاہئے کہ صبر اس کے اور اس کے رب کے درمیان
تعلق کا ایک بہترین ذریعہ ووسیلہ ہے اللہ تعالی ارشاد فرماتاہے:{ إِذَا
أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ}(جب
انہیں مصیبت پہنچتی ہے تو { إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ } کہتے ہیں)۔(سورۃالبقرہ:156)۔
جیساکہ مذکورہ
نصوص میں بیان کیاگیاکہ اللہ تبارک وتعالی انسان کے اوپر مختلف وجوہات کی بناپر مصیبتیں
اور تکلیفیں نازل کرتارہتا ہے، کبھی انسان کے نفس میں، کبھی مال ودولت میں، کبھی
آل واولاد میں تو کھبی رشتہ داروں اور ملک ووطن میں یا اور کسی چیزمیں۔ ان سارے
مصائب کے اندر اللہ تبارک وتعالی نے صبر
کا حکم دیاہے اور دنیا وآخرت میں کامیابی کا ذریعہ قراردیاہے۔
لہذا انسان کو ایسے
مواقع سے لعن طعن،آہ وواویلااور گریبان چاک کرنے کے بجائے اللہ کی تقدیرپر ایمان
کے ساتھ ساتھ اس کی طرف سے آسانی ورحمت کا انتظار کرنا چاہئے کیونکہ یہ مصیبتیں
ہمار ےلئےآزمائش، گناہوں کا کفارہ اور ایمان کی مضبوطی کا ذریعہ ہیں۔
اور اس پر واویلا
اور ہائے توبہ ایمان کی کمزوری کا سبب ہے، سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”وہ شخص ہم میں سے نہیں
ہے جو گالوں کو پیٹے یا گریبان کو پھاڑے۔ ۔۔۔” (صحیح مسلم/103 )۔
صبر کا اصل موقع :
انسان حسب برداشت
وحاجت صبر کرتاہے لیکن اصلی صبروہی ہے جو ابتدائی صدمہ پہ کیاجائے، بلا شبہ جب کسی تکلیف اور مصیبت کے
پہلے حملے پہ آدمی صبر کرے تو اس کی قوت ارادی اور اللہ سے قربت اور اس پرتوکل اور
اسی سے رجاء وامید کا پتہ چلتاہے ، اسی لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا: "إنما الصبرعند الصدمة الأولى” ” صبر تو پہلے صدمہ کے وقت ہے” ۔ (صحیح
بخاری /1252، صحیح مسلم /926)
صبرکے فوائد اور ثمرات :
قرآن وسنت کے نصوص
میں صبرکے مختلف فوائد اوراس کے ثمرات کا بیان ہےجن میں سے چند کاذکر مندرجہ ذیل
ہے:
پہلافائدہ وثمرہ:صبرسے ایمان ویقین کی پختگی کاپتہ چلتاہے، اللہ کےرسول صلی
اللہ علیہ وسلم سے پوچھاگیاکہ کون سا ایمان افضل ہے توآپ نے ارشادفرمایا:”
الصَّبْرُ وَالسَّمَاحَةُ"صبراوردرگذر ” (رواہ ابویعلی/1854 وابن ابی شیبہ فی شعب الایمان/9710،
علامہ البانی نے سلسلہ صحیحہ /1495 کے اندرصحیح
قرار دیاہے۔) عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتےہیں:"صبر نصف ایمان
ہے”(رواه الطبراني في الكبير /8544 والحاکم/3666، علامہ البانی نے صحیح الترغیب
والترھیب /3397کے اندراسےصحیح قراردیاہے)۔
دوسرافائدہ: صبرآدمی کےاندرخشوع وعاجزی پیداکرتاہے، اللہ رب العزت فرماتاہے
: { وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِينَ* الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ
قُلُوبُهُمْ وَالصَّابِرِينَ عَلَى مَا أَصَابَهُمْ وَالْمُقِيمِي الصَّلَاةِ
وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ}(عاجزی کرنےوالوں کوخوشخبری سنادیجئے،یہ وہ
لوگ ہیں کہ جب اللہ کاذکرکیاجائےتوان کادل تھراجاتاہے،انہیں جب تکلیف
پہونچےتوصبرکرتےہیں، نمازقائم کرتےہیں، اورہم نےجوکچھ انہیں دیاہے اس میں سے (اللہ کےراستےمیں ) خرچ
کرتےہیں ) (سورۃالحج:34-35)۔
تیسرافائدہ: صبرسےصدق وتقوی کی صفت
پیداہوتی ہے ، نیکوکاروں کا تذکرہ کرتےہوئے اللہ تعالی فرماتاہے: {
وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ أُولَئِكَ
الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ}(تنگدستی، دکھ، درد اورلڑائی
کےوقت صبرکرنےوالے،یہی لوگ سچے ہیں اوریہی متقی وپرہیزگارہیں ) (سورۃالبقرہ: 177)۔
چوتھا فائدہ : صبرسےہدایت ملتی ہے، اللہ تعالی فرماتاہے : { وَمَن يُؤْمِن
بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ } (سورۃالتغابن:11) امام طبری اوردیگرمفسرین نے اس آیت
کی تفسیر میں مختلف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا قول نقل کیاہے کہ اس سے مرادوہ آدمی ہے جس پرمصیبت آتی ہے تواسے یقین
ہوتاہے کہ یہ اللہ کی جانب سے ہے اورپھراس پرسراپاتسلیم ورضابن جاتاہے۔
اورصحیح مسلم کےاندرہے،اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "
والصَّبْرُضِياءٌ "(صحیح مسلم /556) یعنی آدمی ہمیشہ صبرکےذریعہ روشن راستہ
وہدایت کا طلبگارہوتاہےکہ حق وصواب پرقائم رہے۔
اللہ تعالی صبرکرنے والوں کے سلسلےمیں
فرماتاہے : { وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ} (اوریہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں
) (البقرة: 157)۔
پانچواں فائدہ:صبرسے امامت وحکومت اوررئاست ملتی ہے، بنواسرائیل کے سلسلےمیں اللہ تعالی
فرماتاہے : {وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِينَ كَانُوا يُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ
الأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ
الْحُسْنَى عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ بِمَا صَبَرُو} (ہم نے ان لوگوں کوجوبالکل
کمزروسمجھےجاتےتھےاس سرزمین کےپورب وپچھم کامالک بنادیاجس میں ہم نےبرکت رکھی
اورآپ کے رب کانیک وعدہ بنواسرائیل کےحق میں ان کےصبرکی وجہ سے پوراہوگیا) (سورۃالأعراف:
137) نیزفرماتاہے: {وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا
صَبَرُوا وَكَانُوا بِآَيَاتِنَا يُوقِنُونَ}(اورجب ان لوگوں نے صبرکیاتوہم نے ان
میں سے ایسے پیشوابنائےجوہمارےحکم سےلوگوں کوہدایت کرتےتھےاوروہ ہماری آیتوں پریقین
رکھتےتھے) (سورۃالسجدة:24)۔
چھٹا فائدہ : صبرسے اللہ کی رحمت
کاحاصل ہوتی ہے، اللہ تعالی فرماتاہے : {وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ * الَّذِينَ
إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ
رَاجِعُونَ * أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِكَ
هُمُ الْمُهْتَدُونَ} (صبرکرنےوالوں کوبشارت دےدیجئےجنہیں مصیبت پہونچتی ہےتو”
إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ” کہتےہیں، ان پران کےرب کی نوازشیں
اوررحمتیں ہیں اوریہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں ) (سورۃالبقرة: 155- 157)۔
ساتواں فائدہ : صبرگناہوں کاکفارہ ہے،ابوسعید خدری اورابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : "ما يصيب المسلم من نصبٍ
ولا وصبٍ ولا همٍ ولا حزنٍ ولا أذىً ولا غمٍ حتى الشوكة يشاكُها إلا كفر الله بها
من خطاياه”"کسی مسلم کوتھکان، درد،غم، اذیت، اورتکلیف پہونچتی ہے، یہاں تک کہ
کانٹابھی چوبھتاہےتواللہ تعالی (صبرکرنےپہ)
اس کےبدلے اس کےگناہ معاف فرمادیتاہے”۔(صحیح بخاری /5641 وصحیح مسلم /2554) نیزفرماتے ہیں : "لَا
يَزَالُ الْبَلَاءُ بِالْمُؤْمِنِ أَوْ الْمُؤْمِنَةِ فِي جَسَدِهِ وَفِي مَالِهِ
وَفِي وَلَدِهِ حَتَّى يَلْقَى اللَّهَ وَمَا عَلَيْهِ مِنْ خَطِيئَةٍ” "مومن
مرد یا مومنہ عورت کواس کے جسم میں اوراس کی
مال و دولت میں اوراس کی اولاد میں مصیتیں پہنچتی رہتی ہیں (اوروہ صبر کرتاہے) تو
وہ اللہ تعالی سے حال میں ملتاہے کہ اس کے
اوپر کوئی گناہ باقی نہیں رہتا”۔(سنن ترمذی
/2399،مسند احمد/7859، علامہ البانی نے اس روایت کو حسن صحیح قراردیاہے۔سلسلۃالاحادیث
الصحیحۃ/2280)۔
: اسی طرح بخار جیسی بیماری پر آدمی صبر کرتاہے تو اس کے گناہ
جھڑجاتے ہیں، جابررضی اللہ عنہ سے مروی ہے
کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ام
سائب کے پاس گئے (وہ بخارسے تپ رہی تھیں )
، آپ نے پوچھا : ” کیابات ہے تمہارے اوپر کپکپی کیوں طاری ہے ؟ ” تو انہوں
نے کہاہے : بخارکی وجہ سے، اللہ تعالی اس کے اندر برکت نہ دے۔ تو آپ نے فرمایا: ”
لا تسبي الحمى ; فإنها تذهب خطايا بني آدم، كما يذهب الكير خبث الحديد "بخار کو برابھلامت کہہ کیونکہ بخاربنوآدم
کے گناہوں کو اس طرح ختم کردیتاہے جیسے
بھٹی لوہے کی گندگی کو”(رواه مسلم/4678)، اسی طرح عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ
عنہما سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"إنَّما مثَلُ العَبْدِ المؤْمِنِ حين يُصيبُه الوَعْكُ والحُمّى؛ كحديدَةٍ
تدْخُلُ النارَ، فَيذْهَبُ خَبثُها ويَبْقَى طِيبُها" "مومن بندےکی مثال
جب اسے دردو بخار لاحق ہوتاہے اس لوہے کی طرح ہے جو آگ میں جاتاہے تواس کی گندگی
ختم ہوجاتی ہے اور اس کا خالص حصہ بچ
جاتاہے "۔ (رواہ الحاکم، شیخ البانی نے اسے حسن قراردیاہے۔ صحیح الترغیب
/3439)
آٹھواں فائدہ : صبرکرنےوالےکواللہ تعالی بے حساب اجرسے نوازتاہے، اللہ تعالی فرماتاہے : {
إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ} (صبرکرنےوالے
کواللہ تعالی بےحساب اجر دیتاہے) (سورۃالزمر:10)۔ نیزفرماتاہے: {إِلَّا الَّذِينَ
صَبَرُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَئِكَ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِيرٌ}
(سوائے ان لوگوں کےجنہوں نے صبرکیااورنیک اعمال انجام دئے توان کےلئے بخشش اوربہت
بڑااجرہے) (سورۃھود:11)۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں